دلِ سوزاں پہ جیسے دستِ شبنم رکھ دیا دیکھو - عرفان صدیقی

کاشفی

محفلین
منقبت
(عرفان صدیقی)
دلِ سوزاں پہ جیسے دستِ شبنم رکھ دیا دیکھو
علی کے نام نے زخموں پہ مرہم رکھ دیا دیکھو

سنا ہے گردِ راہ بوتراب آنے کو ہے سر پر
زمیں پر میں نے تاجِ خسرو و جم رکھ دیا دیکھو

طلسمِ شب مری آنکھوں کا دشمن تھا تو مولا نے
لہو میں اک چراغِ اسمِ اعظم رکھ دیا دیکھو

سخی داتا سے انعامِ قناعت میں نے مانگا تھا
مرے کشکول میں خوانِ دو عالم رکھ دیا دیکھو

ملا مرفاں نوَا کے ملک کی فرماں روائی کا
گدا کے ہاتھ پر آقا نے خاتم رکھ دیا دیکھو

کھلا آشفتہ جانوں پر عَلَم مشکل کشائی کا
ہوائے ظلم نے پیروں میں پرچم رکھ دیا دیکھو

شہ مرداں کے در پر گوشہ گیری کا تصدق ہے
کہ میں نے توڑ کر یہ یہ حلقہء رَم رکھ دیا دیکھو

مجھے اس طرح نصرت کی نوید آئی کہ دم بھر میں
اُٹھا کر طاق پر سب دفترِ غم رکھ دیا دیکھو
 
Top