دفاع پاکستان پر تشویش ہے روکی جائے؛؛امریکہ

logo.jpg

1101451615-1.gif
 

سید ذیشان

محفلین
ایک طرف تو گھناونے مجرموں کی دفاع پاکستان کے نام پر پشت پناہی کی جا رہی ہے اور دوسری طرف کئی بے گناہ افراد لاپتہ ہیں صرف اس شبہ پر کہ شاید ان کا تعلق کسی ایسی ہی تنظیم سے ہے۔
 

ساجد

محفلین
دونوں اطراف کی حکومتیں جھوٹ اور منافقت سے کام لے رہی ہیں جس کا نتیجہ شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف پاکستانی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی تو دوسری طرف امریکہ کی جارحیت دونوں صورتوں میں جانی اور مالی نقصان پاکستانی عوام کا ہو رہا ہے اس پر مستزاد گم شدہ پاکستانیوں کی لاشوں کا ملنا اور قابلِ رحم حالت میں ان کی عدالتوں میں پیشی عوامی جذبات کو بھڑکا رہی ہے۔ غور کیجئیے کہ ایسی ریلیوں میں حکومتی نا اہلی ، اس کی امریکہ کی غلامی پر مبنی پالیسیاں ، ڈرون حملے ، امریکہ کو پاکستانیوں کی حوالگی جیسے معاملات پر عوام کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر حکومت پاکستان ہوش کے ناخن نہیں لیتی اور امریکہ بھی اپنی جارحیت بند نہیں کرتا تو یہ خواب بھی نہ دیکھیں کہ شدت پسندی ختم تو درکنار کم بھی ہو جائے۔ جوں جوں بیان کردہ عوامل شدید ہوتے جائیں گے توں توں پاکستان میں شدت پسندی اور عدم استحکام بڑھے گا اور عدم استحکام مرکز گریز عناصر کو تقویت دے گا۔ تب یہ شدت پسندی مذہبی عناصر سے آگے بڑھ کر محروم طبقات کو بھی لپیٹ میں لے لے گی (اس کی کچھ جھلکیاں ابھی سے نظر آ رہی ہیں)۔
کسی اور سے پہلے حکومت پاکستان کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ اب لوڈ شیڈنگ سے لے کر خارجہ پالیسی تک کے معاملات میں منافقت نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔توانائی کی کمی اور مہنگائی کا مسئلہ حل کرنا، امریکہ کو ڈرون حملے روکنے پر قائل کرنا ، طالبان شدت پسندوں کے خلاف سخت ترین کارروائی ، مدارس اور سکولوں کی نگرانی ، غیر ملکی سفیروں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنا ، پرائیویٹ تنظیموں اور این جی اوز پر غیر ممالک سے امداد لینے پر پابندی جیسے اقدامات سے صورت حال کی بہتری کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ محض فوج کا استعمال ، لڑائی اور ڈرون حملوں سے حالات سُدھرے ہیں نہ سدھریں گے بلکہ مزید خراب ہوں گے۔
 

زیک

مسافر
دونوں اطراف کی حکومتیں جھوٹ اور منافقت سے کام لے رہی ہیں جس کا نتیجہ شدت پسندی میں اضافے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ایک طرف پاکستانی حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی تو دوسری طرف امریکہ کی جارحیت دونوں صورتوں میں جانی اور مالی نقصان پاکستانی عوام کا ہو رہا ہے اس پر مستزاد گم شدہ پاکستانیوں کی لاشوں کا ملنا اور قابلِ رحم حالت میں ان کی عدالتوں میں پیشی عوامی جذبات کو بھڑکا رہی ہے۔ غور کیجئیے کہ ایسی ریلیوں میں حکومتی نا اہلی ، اس کی امریکہ کی غلامی پر مبنی پالیسیاں ، ڈرون حملے ، امریکہ کو پاکستانیوں کی حوالگی جیسے معاملات پر عوام کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال کیا جاتا ہے

کیا واقعی لشکر طیبہ پاکستان کا دفاع کرنا چاہتی ہے؟
 

دوست

محفلین
آئی ایس آئی نے انگلی دی ہے جی تو ناچ رہے ہیں سب تگنی کا ناچ۔ ورنہ کاہے کا دفاع پاکستان، ایک سال پہلے تک تو کوئی دفاع پاکستان نہیں تھا۔
 

ساجد

محفلین
کیا واقعی لشکر طیبہ پاکستان کا دفاع کرنا چاہتی ہے؟

میرا نہیں خیال کہ لشکر طیبہ اس کام کے لئیے کسی بھی قسم کی اہلیت رکھتا ہے۔ البتہ لوگوں کے جذبات کو اپنے حق میں استعمال ضرور کر رہا ہے۔ پاکستان کی حکومت اس کے نظریاتی و جغرافیائی دفاع کی ذمہ دار ہے ؛جب وہ ہی عوام کو دھوکہ دے رہی ہو تو پھر ایسی تنظیمیں تو خود کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کر کے اپنے مقاصد پورے کریں گی۔
 

ظفری

لائبریرین
بظاہر( دفاعِ پاکستان) سےتو یوں لگتا تھا کہ پاکستان کی آئینی اور عسکری قیادت نے مشترکہ طور پر ایک سیکیورٹی ترتیب دی ہے ۔ جس کے تحت پاکستان کا دفاع کرنا مقصود ہے ۔ مگر جب پوری خبر پڑھی تو معلوم ہوا کہ پھر وہی جھتے اور گروپ ادھر ادھر سے نکل کر پھرکوئی نیا شوشہ چھوڑنے کی تیاری کرکررہے ہیں ۔ الیکشن قریب ہیں ۔ سب کو ہی صاحبِ ااقتدار بننا ہے ۔ کبھی اسلام ان کو خطرے میں نظر آتا ہے ۔ اور کبھی پاکستان کی سالمیت کی فکر ان کو کھائے جاتی ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر ان کی کارگردگی دیکھی جائے تو یہ سب سیاسی شعبدہ باز ہیں ۔ ان لوگوں کی شعبدہ بازیاں کی بقا اسلام کے بعد پاکستان کی سالمیت کے اتار چڑھاؤ میں مضمر ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ایسا کوئی ایجنڈا نہیں ہے ۔ جس کے تحت یہ پاکستان کے لوگوں کی زندگیوں میں کوئی جوہری تبدیلی پیدا کرسکیں ۔ اس کے بعد ان کو تمام تر معاملات میں امریکہ کی مداخلت ہی نظر آتی ہے ۔ بلفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سازشیں کہیں تیار بھی ہوتیں ہیں تو ان سازشوں کی تکمیل میں یہی لوگ اس طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ کہ سازش کرنے والوں کو بھی حیرت ہوتی ہوگی ۔ اس کی مثالیں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں ۔ خواہ وہ طالبان کی عسکری جارحیت کی صورت میں نمایاں ہو یا مسجدوں ، میتوں اور شادیوں میں خودکش حملوں کی صورت میں ظاہر ہوں ۔ یہ سازشیں سیاست دانوں کی لوٹ مار میں نظر آتی ہو یا عسکریوں اور بیوروکریسی کی اقتدار میں زبردستی شراکت کی عکاسی کرتی ہوں ۔ یہ سب مکمل طور پر نااہل ، پٹے ہوئے مہرےاور بیکار لوگ ہیں ۔
پہلے حق کے لیئے جنگ ہوا کرتی تھی ۔ اب منافقت میں اگر دوسرے پر بازی لینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ کوئی کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتا ۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسے شوشوں سے پاکستان کے دفاع پر کوئی فرق پڑے گا ۔ بلی بھی دیوار سے لگ جائے تو پلٹ کر حملہ کردیتی ہے ۔ پاکستان کے علاوہ کسی اور قوم پر بھی جارحیت ہو تو وہ بھی سر پر کفن باندہ لیتی ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ اپنا دفاع مضبوط بنا نا چاہتے ہیں تو آپ کی جدید ٹیکنالوجی ، تعلیم اور مخلص لیڈرز کی ضرورت ہے یا کھوکھلے نعروں اور منافق لوگوں کی ۔ ہمیں اس وقت امن کے وقفے کی ضرورت ہے یا آگ و خون کے ڈرامے کی طوالت کی ۔ یاد رکھیں اگر صرف نعروں اور دعاؤں سے معرکے جیتے جاتے تو تاریخ میں ایک بھی غزو ہ نہیں ہوتا ۔
اللہ نے دفاع اور جنگ کے لیئے قرآن میں اصول متعین کر دیئے ہیں ۔ اب ان کو نظر انداز کرکے قوم کا مستقبل اگر ان جھتوں کو سپرد کردیں تو انجام وہی نکلتا ہے ۔ جس کے بعد ذلت اور رسوائی ہی حصے میں آتی ہے ۔
 
سب سے اہم چیز اس وقت پاکستان سے مخلص اور ایماندار قیادت کو منتخب کرنے کی ہے اور یہ ذمہ داری تمام پاکستانیوں کو محسوس کرنی چاہیے چاہے وہ ملک میں ہیں یا باہر ہیں۔
 

سویدا

محفلین
عالمی اور ملکی ایجنسیاں ہر اس آدمی کو پکڑ لیتی ہیں جن کا جہادی تنظیموں سے رابطہ رہا ہو میری سمجھ یہ نہیں آتا کہ ان کالعدم تنظیموں کے سربراہان کو کیوں نہیں پکڑا جاتا
بلکہ اب تو وہ دھڑلے سے جلسے کرتے پھر رہے ہیں
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس ضمن ميں کچھ حقائق کی وضاحت ضروری ہے۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی پريس بريفنگ ميں جو بات کہی گئ تھی وہ ان افراد اور گروپوں کے حوالے سے تھی جنھيں يا تو خود پاکستانی حکومت نے بين کر رکھا ہے يا پھر اقوام متحدہ نے القائدہ اور ان سے منسلک گروہوں سے روابط ثابت ہونے پر ان پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

عالمی قواعد و ضوابط کے عين مطابق امريکی حکومت کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ جماعت الدعوہ جيسی کالعدم تنظيموں کے قائدين کی کھلم کھلا عوامی سرگرميوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرے۔ يہ کوئ پوشيدہ امر نہيں ہے کہ لشکر طيبہ اور اس سے منسلک جماعت الدعوہ پر القا‏ئدہ سے تعلقات کی وجہ سے عالمی سطح پر پابندياں عائد کی جا چکی ہيں۔ ہم نے ماضی ميں بھی اور اب بھی پاکستانی حکومت پر زور ديا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد 1267/1989 سے متعلق اپنی ذمہ دارياں پوری کرے۔ ان قراردادوں کے مطابق تمام ممالک پر يہ لازمی ہے کہ وہ کالعدم تنظيموں کے اثاثے منجمند کريں، ان تک اسلحے کی فراہمی کی روک تھام کی جائے اور جن افراد پر پابندی عائد کی گئ ہے انھيں اپنے علاقوں ميں کھلم کھلا سرگرميوں کی اجازت نہ دی جائے۔

اس ضمن ميں امريکی حکومت کے نقطہ نظر اور خدشات کا دفاع پاکستان يا کسی بھی اور سياسی دھڑے کے سیاسی نظريات سے کوئ واسطہ نہيں ہے۔ يہ دليل اس ليے بھی غير موثر اور ناقابل فہم ہے کيونکہ تمام تر باہمی اختلافات سے قطع نظر پاکستان کی کئ مذہبی اور سياسی جماعتوں نے بسا اوقات امريکہ مخالف نعروں کو اپنی سياسی حکمت عملی اور مہم کا حصہ بنايا ہے۔ ليکن سياسی نقطہ چينی اور سياسی تشدد کے ليے فضا بنانا اور اس کی تلقين کرنا دو مختلف چيزيں ہيں۔

حقيقت يہی ہے عالمی قواعد کے تحت پاکستان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اس بات کو يقینی بنائے کہ وہ افراد جو سياسی عزائم کی آڑ ميں معصوم افراد کو قتل کرنے کی کھلم کھلا رغبت ديتے ہيں، ان کے شر انگيز پيغامات کو عوامی پليٹ فورمز اور اجتماعات پر تشہير کا موقع نہيں ملنا چاہيے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ساجد

محفلین
عالمی قواعد و ضوابط کے عين مطابق امريکی حکومت کو اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ جماعت الدعوہ جيسی کالعدم تنظيموں کے قائدين کی کھلم کھلا عوامی سرگرميوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کرے۔ يہ کوئ پوشيدہ امر نہيں ہے کہ لشکر طيبہ اور اس سے منسلک جماعت الدعوہ پر القا‏ئدہ سے تعلقات کی وجہ سے عالمی سطح پر پابندياں عائد کی جا چکی ہيں۔ ہم نے ماضی ميں بھی اور اب بھی پاکستانی حکومت پر زور ديا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سيکورٹی کونسل کی قرارداد 1267/1989سے متعلق اپنی ذمہ دارياں پوری کرے۔ ان قراردادوں کے مطابق تمام ممالک پر يہ لازمی ہے کہ وہ کالعدم تنظيموں کے اثاثے منجمند کريں، ان تک اسلحے کی فراہمی کی روک تھام کی جائے اور جن افراد پر پابندی عائد کی گئ ہے انھيں اپنے علاقوں ميں کھلم کھلا سرگرميوں کی اجازت نہ دی جائے۔
اسی دھاگے میں موجود محفل کے پاکستانی اراکین کے مراسلے اس بات کی کافی سے زیادہ وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک ان گروپوں پر پابندی لگنی چاہئیے اور یہ بھی جان لیجئیے کہ یہی پاکستانی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد لڑائی پر امریکی حکومت کی پالیسیوں اور امریکی فوج کے انسانیت سوز کاموں پر امریکہ کو نا پسند کرتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ امریکہ کے حالیہ ہنی مُون نے اس نا پسندیدگی میں اضافہ کیا ہے۔ یوں امریکہ کا القاعدہ اور طالبان کے بارے میں واویلا اب سوائے گونگلووں سے مٹی جھاڑنے کے اور کچھ بھی نہیں۔ امریکہ کے اس قدم سے کافی حد تک امریکہ کی طالبان اور القاعدہ کی اوٹ میں چھپی منافقت بھی طشت از بام ہو گئی ہے۔ آپ جن طالبان پر اقوام متحدہ کے قوانین کی روشنی میں پابندی کا حوالہ دے رہے ہیں انہی طالبان سے آپ کی حکومت خود مذاکرات کر رہی ہے اور ستم ظریفی یہ کہ آپ کی دانشوری پھر بھی ہم پاکستانیوں کو شدت پسندوں کے حمایتی قرار دیتی ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔
اگر امریکہ سمجھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پر ٹھیک عمل ہو سکے تو اسے خود بھی ان کا احترام کرتے ہوئے ایسے گروپوں سے تعلقات اور مذاکرات ختم کرنے ہوں گے جو تشدد و خونریزی کے عادی ہیں۔ بھیڑئیے اور بھیڑ کے بچے والا جنگل کا قانون لاگو کر کے اس خطے میں مزید عدم استحکام آئے گا۔

اس ضمن ميں امريکی حکومت کے نقطہ نظر اور خدشات کا دفاع پاکستان يا کسی بھی اور سياسی دھڑے کے سیاسی نظريات سے کوئ واسطہ نہيں ہے۔ يہ دليل اس ليے بھی غير موثر اور ناقابل فہم ہے کيونکہ تمام تر باہمی اختلافات سے قطع نظر پاکستان کی کئ مذہبی اور سياسی جماعتوں نے بسا اوقات امريکہ مخالف نعروں کو اپنی سياسی حکمت عملی اور مہم کا حصہ بنايا ہے۔ ليکن سياسی نقطہ چينی اور سياسی تشدد کے ليے فضا بنانا اور اس کی تلقين کرنا دو مختلف چيزيں ہيں۔
دیکھئیے صاحب ، معاملات کو گڈ مڈ مت کیجئیے جب ہم کچھ کہہ کر آپ کو لاجواب کریں گے تو آپ پھر سے وہی گردان دہرانا شروع کر دیں گے کہ ہم طالبان کے حامی ہیں۔
پہلے تو یہ فرمائیے کہ یہ سیاسی تشدد ہوتا کیا ہے؟۔ ذرا غور فرمائیے میرے سوال پر اور سوچئیے کہ کہیں آپ کے اندر کہیں نہ کہیں موجود کوئی انجانا سا خوف تو آپ سے یہ بات نہیں لکھوا رہا؟۔ امریکہ مخالف نعروں کو سیاسی مہم میں استعمال کیا جانا کوئی بڑی بات نہیں آپ کی جمہوریت میں بھی ووٹ لینے کے لئیے ایسے ہتھکنڈے عراق ، ایران ، افغانستان ، چین اور پاکستان کے حوالے سے اختیار کئیے جاتے ہیں۔

حقيقت يہی ہے عالمی قواعد کے تحت پاکستان اس بات کا ذمہ دار ہے کہ اس بات کو يقینی بنائے کہ وہ افراد جو سياسی عزائم کی آڑ ميں معصوم افراد کو قتل کرنے کی کھلم کھلا رغبت ديتے ہيں، ان کے شر انگيز پيغامات کو عوامی پليٹ فورمز اور اجتماعات پر تشہير کا موقع نہيں ملنا چاہيے۔
آپ کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔ نہ صرف ان کی تشہیر نہیں ہونی چاہئیے بلکہ ان کے کئیے کا بدلہ بھی انہیں ملنا چاہئیے۔ اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اس بات کی ذمہ دار ہے جو افراد ، قوتیں اور حکومتیں شر انگیزی اور قتل وغارت میں ملوث ہوں انہیں قرارواقعی سزا ملنی چاہئیے۔
بس مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی حکومت خود بھی عراق کے حوالے سے شر انگیز پیغامات (WMD ) واجتماعی قتل اور افغانستان و پاکستان میں قتل عام اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتی دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا خیال ہے اگر آپ کی حکومت اس کام کواپنے گھر سے شروع کر کے ایک اچھا آغاز فراہم کر دے اس کے بعد دنیا کے امن کا دوسرا بڑا ٹھیکیدار، برطانیہ، اپنی ہی عدالت میں عراق پر غلط بیانی کا اقرار جرم کرنے والے ٹونی بلئیر کے خلاف کارروائی کرے۔ دیکھتے ہیں بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ فی الحال تو منافقت ہی منافقت اور جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے اور الزام تراشی کر کے دنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کی کوشش کر رہی ہے آپ کی حکومت۔
 
Top