دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں؟ معاشرتی تبدیلیاں کیوں نہیں آتیں؟؟

عندلیب

محفلین
ذرا غور کیجئے ۔۔۔

آج ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں ایک طرف مسلمان اخلاقی ، سیاسی اور معاشی طور پر ذلیل سے ذلیل تر ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف مکہ اور مدینہ کو دوڑ دوڑ کر آنے والوں کی تعداد میں ہر سال لاکھوں کا اضافہ ہو رہا ہے ۔
حرم شریف میں شبِ قدر کی دُعا میں شریک ہو نے کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر کے آنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پھر بھی نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے نہ کسی مسلمان کے اخلاق یا کردار میں تبدیلی آتی ہے۔
آخر ایسا کیوں ہے ؟

ایسا اس لئے ہے کہ آج ہمارا ہر عمل وہ ہے جو ہمارے نفس کو مرغوب ہے ۔
ایسا کوئی حکم جو اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیا ہو لیکن اگر وہ۔۔۔
ہمارے موڈ کے خلاف ہو ،
مزاج اور اصول سے میل نہ کھا تا ہو
یا اُسے ہماری عقل اور منطق (Rationale & logic) تسلیم نہ کرتی ہو،
تو ہم اُس پر ہر گز عمل نہیں کرتے !
نہ صرف اُسے ٹال دیتے ہیں بلکہ ضمیر کی تسلی کیلئے کوئی نہ کوئی جواز بھی پیدا کر لیتے ہیں ۔ بلکہ فتوے بھی ساتھ لئے پھرتے ہیں۔

پوچھئے کسی بے پردہ خاتون سے ، کہے گی پردہ آنکھوں میں اور دل میں ہونا چاہئے۔
پوچھئے کسی بھی سمجھدار مسلمان سے دعوت و تبلیغ کی فرضیت کے بارے میں تو کہے گا پہلے آدمی کو خود باعمل ہونا چاہئے اُسکے بعد دوسروں کو دعوت دینی چاہئے۔
پوچھئے کسی بھی جہیز کے عوض بِکنے والے بھکاری بے غیرت مرد سے ، کہے گا ہم نے ہرگز نہیں مانگا لڑکی والوں نے سب کچھ اپنی خوشی سے دیا۔
پوچھئے سود اور رشوت کے نظام کا ساتھ دینے والوں سے ۔کہیں گے یہ تو سسٹم ہے ۔
پوچھئے جھوٹ، غیبت، چغلی،بدگمانی،حسد اور فریب کرنے والوں سے، کہیں گے دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے۔ ہم بُری نیّت سے کوئی کام نہیں کرتے۔
پوچھئے قطع رحمی یعنی رشتے داریاں کاٹنے والوں سے ، کہیں گے اگر دوسرے ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتے۔

ہر شخص یو ں تو نمازی اور با عمل ہے لیکن ہر ایک نے اپنی پسند کی عبادت کو پکڑ رکھا ہے ۔ کسی کو داڑھی پسند ہے تو کسی کو نماز۔ کسی کو نفل عمرے یا حج کرنا تو کسی کو خدمت خلق کا ادارہ کھولنا پسند ہے ۔ لیکن جب وہ مرحلہ آتا ہے جس کا حکم سب سے پہلے ان کی ذات پر نافذ ہوتا ہے تو منہ موڑ جاتے ہیں اور وہی بہانے بناتے ہیں جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اسی فطرت کی عکاسی سورہ الحجرات (آیت:14) میں یوں کی گئی ہے :

[ARABIC]قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ[/ARABIC]
ترجمہ : یہ بدّو کہتے ہیں ہم ایمان لائے ۔ ان سے کہہ دیجئے تم ایمان نہیں لائے تم یہ کہو کہ اسلام لائے ہو۔ ایمان تو تمہارے دلو ں میں ابھی داخل بھی نہیں ہوا۔

اسلام لائے ۔۔۔ یعنی دوسرے لوگ جو کام کر رہے ہیں تم بھی کر رہے ہو !
دوسرے نماز پڑھتے ہیں تم بھی پڑھتے ہو دوسرے روزہ ، زکٰوة ، ختنہ، نکاح اور تدفین وغیرہ کے اسلامی اصولوں پر چلتے ہیں، تم بھی چلتے ہوتا کہ مسلمان سوسائٹی میں تمہیں بھی شمار کیا جائے۔ لیکن ایمان لانا الگ چیز ہے جو ابھی تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا، صرف زبانوں پر ہے ۔
اسی لئے جب اصل امتحان کا وقت آتا ہے تو تم دوسری عبادتوں کو پیش کر کے اپنے ضمیر کی تسلی کرنا چاہتے ہو جو دراصل اللہ تعالٰیٰ کو چکمہ دینا ہے ۔


بشکریہ : علیم خان فلکی
مکمل مضمون یہاں پڑھیں۔
 
السلام علیکم
جو حال آپ نے دعاؤں کا بتایا وہی حال ہماری تحریر و تقریرِ اصلاحی کا ہے۔ دعاء بھی حال سے خالی تحریر و تقریر بھی۔بحرحال ہر مذکورہ کام روشنی ہے۔ اور اللہ تعالٰی حکیم بھی کریم بھی۔ امید جزؤ ایمان کڑھن رحمٰن کی رحمت کھینچنے والی سو یہ بھی رحمت اللہ تعالٰی کی کہ اسنے ایسے حالات بنائے کہ دردِ دل جاگے۔جو اس سے آخرت کا منافع کما لے وہ کامیاب جو اسکو وسیلہ روز گار و ذریعہِ ندامتِ اغیار بنالے وہ۔۔۔۔۔ اللہ تعالٰی کی مرضی
 

S. H. Naqvi

محفلین
ماشاءاللہ محترمہ عندلیب جی بہت خوب،بہت نازک موضوع پر بہت اچھے انداز میں لکھا گیا ہے دکھاوے کے لیے یہ کام کرنے والوں کو تو چھوڑیں کہ وہ تو سرا سر غلط قدم ہے بات تو یہ ہے کہ متوسط طبقے کے لوگ جو واقعی ثواب کے لیے یہ عبادت کرنا چاہتے ہیں کیا وہ خود کو روک سکتے ہیں؟؟ اس طرح کے جذبات تو ہندو پاک کے باسیوں کے خون میں بس چکے ہیں۔ خدا جانے انھیں کب حقیقت کا ادراک ہو گا۔ دور کیا جائیں خود میری والدہ نے پچھلے سال عمرہ کی سعادت حاصل کی اور مقامات مقدسہ کی زیارت کی اور اس سال انھی کے اصرار پر ہم بھائیوں نے ان کے حج کا انتظام کیا۔ کل ملا کے کچھ دو لاکھ ستر ہزار خرچہ ہوا۔ اب میرے دل میں مندرجہ بالا سوچ کئی دفعہ آئی مگر ماں کی ہستی اور ان کی خوشی کے آگے خاموش ہونا پڑا کہ کہیں منصور کی طرح پھانسی نہ ہو جائے کیوں کہ دور نہ بھی جائیں تو خود ہمارا سب سے بڑا بھائی اس بات کا مستحق تھا کہ اگر یہ رقم اسے مل جاتی تو اس کے کتنے ہی کام سدھر سکتے تھے مگر بات پھر وہی آ جاتی ہے ہم سب غیر محسوس طور پر اس معاشرے کی ہر رسم کو ادا کرنے کے لیے مجبور ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی ہمیں سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔! کاش ہمیں جلد از جلد انفرادی طور پر ہی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔!
 
Top