ساغر صدیقی دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں- ساغر صدیقی

زونی

محفلین
دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپتے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں

زردار توقّع رکھتا ھے نادار کی گاڑھی محنت پہ
مزدور یہاں بھی دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں

کچھ لوگ بھروسہ کرتے ہیں تسبیح کے چلتے دانوں پر
بے چین یہاں یزداں کا جنوں انسان یہاں بھی اندھے ہیں

بے نام جفا کی راہوں پر کچھ خاک سی اڑھتی دیکھی ھے
حیران ہیں دلوں کے آئینے نادان یہاں بھی اندھے ہیں

بے رنگ شفق سی ڈھلتی ھے بے نور سویرے ہوتے ہیں
شاعر کا تصوّر بھوکا ھے سلطان یہاں بھی اندھے ہیں

(ساغر صدیقی)
 
Top