درہ آدم خیل طلاق اور نسوار پر پابندی

پاکستان کے قبائلی اور صوبہ سرحد کے دیگر علاقوں کی طرح طالبان نے درہ آدم خیل میں بھی غیر قانونی ایف ایم چینل قائم کردیا ہے اور نشریات کے آغاز کے ساتھ ہی علاقے میں طالبان کی مشاورت کے بغیر طلاق دینے پر مبینہ طور پر پابندی لگادی گئی ہے۔
اس کے ساتھ عسکریت پسندوں نے درہ آدم خیل میں نسوار استعمال کرنے پر بھی پابندی کا اعلان کیا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ تقریباً دس دن قبل مقامی طالبان نے درہ آدم خیل میں غیر قانونی ایف ایم چینل شروع کیا جس کی نشریات درہ آدم خیل کے تقریباً تمام علاقوں میں سنی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایف ایم چینل رات آٹھ بجے شروع ہوتا ہے اور اسکی نشریات تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہتی ہے جس پراکثر اوقات درہ آدم خیل میں مقامی طالبان کے امیر کمانڈر طارق آفریدی تقریر کرتے ہیں۔
ایک سامع نے نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ منگل کی رات کمانڈر طارق نے ایف ایم پر خطاب کرتے ہوئے درہ آدم خیل میں مقامی طالبان کی مشاورت کے بغیر خواتین کو طلاق دینے پر پابندی کا اعلان کیا۔

ان کے مطابق طالبان کمانڈر نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ درہ آدم خیل میں کوئی شوہر اپنی بیوی کو عسکریت پسندوں کی مشاورت کے بغیر طلاق نہیں دے گا اور اگر کسی نے حکم عدولی کی تو نتائج کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔

طالبان کا مؤقف ہے کہ ان کے پاس اکثر اوقات طلاق یافتہ خواتین اپنے شوہروں کے خلاف شکایات لے کر آتی ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ طلاق سے پہلے طالبان سے مشورہ کیا جائے تاکہ مسئلے کو باہمی مشاورت سے حل کرایا جائے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوائیاں فروخت کرنے والے دوکانداروں کو بھی متنبہ کیا ہے کہ وہ نشہ آوار ادویات مستند ڈاکٹر کی طرف سے تجویز کیے بغیر فروخت نہ کریں ورنہ سخت سزا دی جائیگی۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ طالبان نے درہ آدم خیل میں نسوار کے استعمال پر بھی پابندی لگادی ہے۔
درہ بازار میں ایک نسوار فروش نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ طالبان نے تین دن پہلے بازار میں تمام نسوار فروشوں کو بتا دیا تھا کہ وہ تمام نسوار کا سٹاک ختم کردیں اور آئندہ یہ کام نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ اس دھمکی کے بعد درہ بازار میں تقریباً تمام نسوار فروخت کرنے والی دوکانیں بند ہوگئی ہیں اور نسوار کا تمام سٹاک بھی ختم ہوگیا ہے جس سے علاقے میں نسوار کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔ ان کے بقول پابندی کے بعد نسوار کے عادی افراد کے نشے کے طلب میں اضافہ ہوا ہے اور وہ اپنے استعمال کےلیے اب پشاور اور دیگر قریبی علاقوں سے نسوار خرید رہے ہیں۔
واضح رہے کہ تقریباً دو سال قبل درہ آدم خیل میں طالبان نے اپنی سرگرمیاں کا اغاز کیا تھا جس میں پہلے منشیات کے استعمال پر پابندی لگائی گئی تھی اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کراوائیاں کی گئی تھیں۔ درہ آدم خیل منشیات اور مقامی طورپر اسلحہ کی تیاری کا ایک بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
 

مغزل

محفلین
اب جو طلاق نہ دیں گے تو بتا دیں ہم کو۔۔
آپ نسوار نہ کھائیں گے تو مر جائیں گے کیا

طلاق پر پابندی حسبہ بل کی ایک شق ہے یعنی اند ر ہی اندر کوئی اور کھچڑی پک رہی ہے ۔
 
طلاق پر پابندی نہیں کی بلکہ طالبان سے مشورہ کیے بغیر پابندی ہے شاید۔
اچھا ہے ۔ طالبان سے مشورہ کرنے کے بعد کوئی طلاق دے سکے گا۔ یہ پابندی تو عورتوں کے حق میں‌لگ رہی ہے
 

محسن حجازی

محفلین
میرے خیال میں دونوں باتوں میں کوئی قباحت نہیں۔
نسوار پر تو کیا سگریٹ پر بھی پابندی ہونا چاہئے۔
طلاق ویسے بھی حلال کاموں میں ناپسندیدہ ترین ہے۔ بہتر ہے کہ مصالحت سے اگر خاندان کی اکائی بچ جائے تو اس سے معاشرے کو تقویت ملے گی۔
 

مغزل

محفلین
جی ہاں خواتین بھی نسوار کھاتی ہیں ، اب کیا یہ انسانی اور نسوانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔
 

ساجد

محفلین
فیصل ، صرف نمازیں پڑھنے یا لوگوں کو سزائیں دینے سے شریعت نافذ نہیں ہوتی۔ بخدا اگر شریعت من و عن نافذ کر دی جائے تو سب سے زیادہ زد انہی طالبان پہ پڑے گی کہ جن کا زیدہ تر ذریعہ آمدن ہی غیر شرعی ہے۔
آپ پاکستان سے باہر مقیم ہیں میرے اشارے کو بہتر سمجھ سکتے ہیں۔
 
Top