داتا نظم کی دسویں قسط برائے اصلاح۔۔۔

شیرازخان

محفلین
داتا نظم کی دسویں قسط برائے اصلاح بخدمت جناب الف عین صاحب؟؟؟

ذرا سن لو
وہی میں بات کہتا ہوں
مگر جو بات کہتا ہوں
ذرا سا غور کرنا ہے
اگر تم غور کرتے ہو
سبھی اپنے گھروں کو جب
چلے آئے تھے دفنا کر
ملی عبرت نہ کیوں تم کو
ترے آیا ذہن میں کیا
گئے ہو اور جا کر تم
لگا پتھر وہا ں آئے
اُٹھا کر تم نے دیواریں
جمایا رعب گنبد کا
بڑے نایاب مخمل کے
بچھا قالین بھی ڈالے
بڑے انمول عطروں سے
ہوائیں ہو گئی بوجھل
کُھدا مر مر کے پتھروں پر
دیے تم نے قصیدے بھی
گلی کوچوں میں لکھ ڈالے
وہ تم نے شعر جذ باتی
وہ چھ چھ گز کی چادر کو
سِکھا ڈالا چڑھانا بھی
ہرے چولوں کی وردی میں
یہاں گندے ملنگوں کی
اتر فوجیں ہی آئی تھیں
قوالوں کی وہ بکواسیں
اٹھیں پھر پاس گلیوں سے
لگا ڈالے جدھر دیکھو
وہ پتوں کی طرح جھنڈے
یہاں سارا عقیدت کا
کیا سامان مہیا پھر
بجا کر ڈھول ہر جانب
ہوئی تشہیر داتا کی
یوں تابڑ توڑ عورت پر
کیے شیطان نے حملے
گرا پردے دیے اس نے
نکل کرگھر سے وہ اپنے
چلی اب قافلے لے کر
جواں بیٹی بنا ڈالی
ترے دربار کی رونق
ترے داتا کا چرچا پھر
بڑا سر چڑھ بولا تھا
اذانین جن پہ بھاری تھیں
صلٰواتیں جن پہ بھاری تھیں
قرآں کا وزن تھا جن پر
زکوٰاتیں جن پہ بھاری تھیں
نکل آئے وہ مسجد سے
تماشا دین کو تم نے
بنایا چوٹ دنکے کی
تری تو ہو گئی چاندی
گوارا اب نہیں تم کو
قرآں کی بات کوئی بھی
انہی کی بات کرتے ہو
انہی کا نام لیتے ہو
اگر تم غور کرتے ہو
سراسر ظلم کرتے ہو
بڑا ہی ظلم کرتے ہو۔۔۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بھئی یہ تم اور تو کا چکر ذرا سلجھایا جائے۔

ترے آیا ذہن میں کیا
گئے ہو اور جا کر تم
لگا پتھر وہا ں آئے
۔۔ روانی اور ’زہن‘ کے درست تلفظ کی خاطر
یہ کیا آیا تمہارے ذہن میں
اک بار پھرجا کر
وہاں پتھر لگا آئے

؎
بڑے نایاب مخمل کے
بچھا قالین بھی ڈالے
۔۔۔کئی قالین مخمل کے
وہاں لا کر بچھا ڈالے

کُھدا مر مر کے پتھروں پر
دیے تم نے قصیدے بھی
۔۔وہیں مرمر کی لوحون پر
قصیدے بھی کھدا ڈالے

ہرے چولوں کی وردی میں
یہاں گندے ملنگوں کی
اتر فوجیں ہی آئی تھیں
قوالوں کی وہ بکواسیں
اٹھیں پھر پاس گلیوں سے
لگا ڈالے جدھر دیکھو
وہ پتوں کی طرح جھنڈے
یہاں سارا عقیدت کا
کیا سامان مہیا پھر

÷÷ہرے چولوں میں کچھ گندے ملنگوں کی
بہت فوجیں چلی آئیں
کئی قوال بھی آئے
جو تانیں مارتے تھے
جن کی تانوں پرملنگوں کو
بہت مستی چڑھی اور ’حال‘ بھی آئے
سبھی سڑکوں پہ، گلیوں میں
وہ پتوں کی طرح جھنڈے لگا ڈالے
غرض جتنا بھی ممکن تھا
عقیدت کا مہیا ہو گیا ساماں

گرا پردے دیے اس نے
نکل کرگھر سے وہ اپنے
چلی اب قافلے لے کر
جواں بیٹی بنا ڈالی
ترے دربار کی رونق
ترے داتا کا چرچا پھر
بڑا سر چڑھ بولا تھا

÷÷گھروں سے وہ نکل آئی
حیا کو طاق پر رکھ کر
جواں لڑکی بنا ڈالی اسی دربار کی رونق
ترے داتا کا جادو یوں بہت سر چڑھ کے بولا تھا

تماشا دین کو تم نے
بنایا چوٹ دنکے کی
تری تو ہو گئی چاندی
گوارا اب نہیں تم کو
قرآں کی بات کوئی بھی

۔۔سر راہے یوں اپنے دین کو
نیلام کر ڈالا
تماشا ہی بنا ڈالا
تمہیں اب کچھ نہیں بھاتا
تمہارے کان اب کچھ بھی نہیں سنتے
وہ ہوں قرآن کے احکام
کہ ہو پیارے نبی کی بات

باقی درست ہے۔ یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مساوی مصرعوں کی بجائے آزاد نظم، یعنی کم زیادہ ارکان میں نظم کہی جائے تو روانی بہتر رہتی ہے
 

شیرازخان

محفلین
بھئی یہ تم اور تو کا چکر ذرا سلجھایا جائے۔
باقی درست ہے۔ یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ مساوی مصرعوں کی بجائے آزاد نظم، یعنی کم زیادہ ارکان میں نظم کہی جائے تو روانی بہتر رہتی ہے
بہت نوازش جناب۔۔۔
واقعی یہ دونوں باتیں ابھی تک درست نہیں کر پایا انشا اللہ آگے بھرپور توجہ دوں گا۔۔۔۔بہت شکریہ
 

شیرازخان

محفلین
داتا نظم کی گیارویں قسط

جناب محترم الف عین صاحب اس حصے پر کافی محنت کی ہے اور بالیقین اس میں غلطیاں بھی زیادہ ہوں گی۔۔یہاں ایک چیز جسے میں قائم نہیں رکھ سکا وہ ارکان ہیں کیونکہ یہاں بات لازم وملزوم طور پر بیان ہو رہی ہے جسے آپ ملحائظہ فرمائیں گے ۔۔چنایچہ ارکان کو اسی طرح رکھنا پڑا۔۔۔؟؟مزید ایک مشورہ چاہیے تھا ایک دوست نے کہا ہے کہ نظم کا نام '' سنو اک بات کہتا ہوں '' رکھ لیا جائے ،آپ کیا فرماتے ہیں ؟؟

سنو اب کیا سناؤں میں
اگر تم غور کرتے ہو
کھڑےکا اور پڑے کا ہی
رہا ہے فرق باقی اب
وہاں مندر کہلاتا ہے
یہاں دربار ہوتے ہیں
وہاں استھان ہوتے ہیں
یہاں پر آستانے ہیں
وہاں درشن جو کرتے ہیں
یہاں ہوتی زیارت ہے
وہاں پرنام کرتے ہیں
یہاں چلتی سلامی ہے
وہاں پرشاد کھاتے ہیں
یہاں چلتا تبرک ہے
وہاں گاتے بھجن ہیں تو
یہاں ہوتی قوالی ہے
وہاں پر منوتری ہے تو
یہاں پر منتیں مانگے
وہاں پنڈت ہوئے قابض
یہاں پر مولوی ٹھہرے
وہاں جوگی بنے ہیں سب
ملنگوں کے یہاں ڈیرے
وہاں ہوتے ہیں پانڈے تو
چلہ ہوتا یہاں پر ہے
وہاں سادھو ہوئے مولا
یہاں پر پیر ہوتے ہیں
دسہرا ہے وہاں پر اور
یہاں تعزیہ داری
وہاں پر یوگ کرتے ہیں
یہاں پر ہیں مراقب بھی
وہاں پر یاترا ہے تو
یہاں پر عرس ہوتے ہیں
دیوالی ہےوہا ں پر تو
یہاں شب براتیں ہیں
وہاں پر دیپ جلتا ہے
اگر بتی یہاں پر ہے
وہاں پر بھلی چڑھاتے ہیں
نظر و نیاز ہے یاں پر
وہاں ذاتوں کا پنگا ہے
یہاں فرقوں کی مشکل ہے
سو ہر اک بات ملتی ہے
سو ہر اک تار ملتا ہے
انہی باتوں میں بتلاؤ
کہاں اسلام ملتا ہے
قرآں کو چھوڑ کر سب نے
قوالی کو لیا اپنا
وہ جن کے نام تھے مسلم
انہیں اب مست کہتے ہیں
جہنیں بننا تھا بس مومن
بنے بیٹھےملنگ ہیں وہ
متقی جن کو بننا تھا
مجاور بن گئے ہیں وہ
مجاہد جن کو بننا تھا
بنے ہیں مولوی وہ اب
تھی اپنانی جہنیں سنت
طریقت وہ چلاتے ہیں
قرآں کی بات سنتے ہی
یہ سارے بھاگ جاتے ہیں
حدوں سے آگے بڑھتے ہیں
سہارے جو پکڑتے ہیں
مرے مالک کے رستے پر
جو آنے سے ہی ڈرتے ہیں
انہیں اتنا بتاتا ہوں
سرا سر ظلم کرتے ہیں
بڑا ہی ظلم کرتے ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
سنو اک بات کہتا ہوں، اچھا عنوان ہے۔ پسند آیا
کھڑےکا اور پڑے کا ہی
رہا ہے فرق باقی اب
÷÷کیا مراد ہے؟ مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔
کچھ باتیں حقیقت سے دور ہیں، مندروں میں بھی اگر بتی ہوتی ہے، البتہ آرتی میں دیپ جلتے ہیں۔
دسہرا دیوالی تہوار ہوتے ہیں، یہ محض مندروں تک محدود نہیں ہوتے۔ کیا عیدین صرف مسجدوں میں ہوتی ہیں؟
مندروں میں بھی ’چڑھاوا‘ ہوتا ہے، نذر و نیاز کا مساوی، بلی (بھلی نہیں) قربانی کا مساوی ہوتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ درگاہوں میں بھی کہیں ایسی قربانی کی جاتی ہے۔ سارے مندروں میں بھی قربانی نہیں ہوتی، صرف کالی یا اس کی ہمزاد دیویوں کے مندروں میں قربانی ہوتی ہے۔ شاید @علم اللہ اصلاحی فارقلیط رحمانی وغیرہ ہندوؤں کے بارے میں درست معلومات دے سکیں۔ یہ درست ہو جائے تو پھر دیکھتا ہوں
 

عظیم

محفلین
بزرگان دین کو جو لقب دیا جاتا ہے انہیں اس کی طلب نہیں ہوتی
ہم میں سے کچه لوگ بهٹک جاتے ہیں اور ان بزرگان دین سے محبت کرنے کی بجائے ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بجائے
ان سے بہت سی توقعات پیدا کر لیتے ہیں
یہ ہماری غفلتوں کا نتیجہ ہے
ہمیں خود کو کوسنا چاہئے
بجائے اس کے کہ ہم ان( بزرگان دین ) کی بے ادبی کریں
اللہ بہتر جاننے والا ہے

دعائیں
 
آخری تدوین:

شیرازخان

محفلین
بزرگان دین کو جو لقب دیا جاتا ہے انہیں اس کی طلب نہیں ہوتی
ہم میں سے کچه لوگ بهٹک جاتے ہیں اور ان بزرگان دین سے محبت کرنے کی بجائے ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی بجائے
ان سے بہت سی توقعات پیدا کر لیتے ہیں
یہ ہماری غفلتوں کا نتیجہ ہے
ہمیں خود کو کوسنا چاہئے
بجائے اس کے کہ ہم ان( بزرگان دین ) کی بے ادبی کریں
اللہ بہتر جاننے والا ہے

دعائیں
عظیم بھائی میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔۔اس نظم میں، میں جن لوگوں سے مخاطب ہوں انہیں اگر کہا جائے کہ دیکھیے جنہیں آپ داتا کہتے ہیں یہ کچھ دے نہیں سکتے جو مانگنا ہے اللہ سے مانگیے یہ اولیاء تو گزر چکے ہیں ،تو یہ ان کی نظر میں اولیاء کی گستاخی ہےو بے ادبی ہے،اب آدمی کیا کرے۔۔!!
 

شیرازخان

محفلین
سنو اک بات کہتا ہوں، اچھا عنوان ہے۔ پسند آیا
کھڑےکا اور پڑے کا ہی
رہا ہے فرق باقی اب
÷÷کیا مراد ہے؟ مطلب سمجھ میں نہیں آیا۔
کچھ باتیں حقیقت سے دور ہیں، مندروں میں بھی اگر بتی ہوتی ہے، البتہ آرتی میں دیپ جلتے ہیں۔
دسہرا دیوالی تہوار ہوتے ہیں، یہ محض مندروں تک محدود نہیں ہوتے۔ کیا عیدین صرف مسجدوں میں ہوتی ہیں؟
مندروں میں بھی ’چڑھاوا‘ ہوتا ہے، نذر و نیاز کا مساوی، بلی (بھلی نہیں) قربانی کا مساوی ہوتا ہے۔ مجھے علم نہیں کہ درگاہوں میں بھی کہیں ایسی قربانی کی جاتی ہے۔ سارے مندروں میں بھی قربانی نہیں ہوتی، صرف کالی یا اس کی ہمزاد دیویوں کے مندروں میں قربانی ہوتی ہے۔ شاید @علم اللہ اصلاحی فارقلیط رحمانی وغیرہ ہندوؤں کے بارے میں درست معلومات دے سکیں۔ یہ درست ہو جائے تو پھر دیکھتا ہوں
کھڑے اور پڑے سے مراد ہندو کھڑے بت کو پوجتے ہیں اور یہ پڑے بت کو (قبر کی صورت میں)
یہاں مسئلہ اگر بتی یا دیپ کا نہیں بلکہ ان مذہبی کاوشوں کا ہے جہنیں ہمارے ہاں ہندؤں کی دیکھا دیکھی ایجاد کیا گیا ہے،جس طرح 27 ومضان کو شبِ قدر کے نام پر دیوالی سا ماحول اور عورتوں کا قبرستانوں میں چراغاں کرنے کا اہتمام،اگر بتی ، دیپ وغیرہ یہ سب کچھ درباروں پر پایا جاتا ہےقربانی کا لفظ اسی لیے استعمال نہیں کیا، نیاز چونکہ فارسی کا لفظ ہے اسی لیے یہی صادق آتا ہے اور جو بکرے ان درباروں پہ ذبع ہوتے ہیں وہ قربانی ہی کے زمرے میں آتے ہیں باقی چیزوں کا بھی یہی معاملہ ہے ہمارے ہاں ایک دربار ہے جس کاا نام ہے ''دمڑیوں والی سرکار'' جن کے عقیدت مندوں کا ماننا ہے کے اگر دن میں یہاں ایک لاکھ دمڑی نہ چڑھے تو نعوذبااللہ سورج غروب نہیں ہوتاپنجابی کی ایک مشہور قوالی ہے جس کا ترجمہ ہے کہ '' لڑکیو چوڑیا ں پہنوا لو۔۔مرے مرشد کے دربار کی'' یہ شعر ضرب و المثل کی طرح عام ہے اور درباروں کے قریب جو بازار لگے ہوتے ہیں وہاں سے خریدی گئی اشیاءکو بھی احترام اور برکت کے لیے استمال کیا جاتا ہے حالانکہ دکانوں کا دربار سے کیا ربط مختصر یہ کہ یہ تمام چیزیں ہندو ازم سے نکلی ہیں ان میں اسلام نہیں ملتا۔۔یہی مرکزی خیال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔؟
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کھڑے اور پڑے سے مراد ہندو کھڑے بت کو پوجتے ہیں اور یہ پڑے بت کو (قبر کی صورت میں)
یہاں مسئلہ اگر بتی یا دیپ کا نہیں بلکہ ان مذہبی کاوشوں کا ہے جہنیں ہمارے ہاں ہندؤں کی دیکھا دیکھی ایجاد کیا گیا ہے،جس طرح 27 ومضان کو شبِ قدر کے نام پر دیوالی سا ماحول اور عورتوں کا قبرستانوں میں چراغاں کرنے کا اہتمام،اگر بتی ، دیپ وغیرہ یہ سب کچھ درباروں پر پایا جاتا ہےقربانی کا لفظ اسی لیے استعمال نہیں کیا، نیاز چونکہ فارسی کا لفظ ہے اسی لیے یہی صادق آتا ہے اور جو بکرے ان درباروں پہ ذبع ہوتے ہیں وہ قربانی ہی کے زمرے میں آتے ہیں باقی چیزوں کا بھی یہی معاملہ ہے ہمارے ہاں ایک دربار ہے جس کاا نام ہے ''دمڑیوں والی سرکار'' جن کے عقیدت مندوں کا ماننا ہے کے اگر دن میں یہاں ایک لاکھ دمڑی نہ چڑھے تو نعوذبااللہ سورج غروب نہیں ہوتاپنجابی کی ایک مشہور قوالی ہے جس کا ترجمہ ہے کہ '' لڑکیو چوڑیا ں پہنوا لو۔۔مرے مرشد کے دربار کی'' یہ شعر ضرب و المثل کی طرح عام ہے اور درباروں کے قریب جو بازار لگے ہوتے ہیں وہاں سے خریدی گئی اشیاءکو بھی احترام اور برکت کے لیے استمال کیا جاتا ہے حالانکہ دکانوں کا دربار سے کیا ربط مختصر یہ کہ یہ تمام چیزیں ہندو ازم سے نکلی ہیں ان میں اسلام نہیں ملتا۔۔یہی مرکزی خیال پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔ ؟
کھڑے اور پڑے سے مراد ہندو کھڑے بت کو پوجتے ہیں اور یہ پڑے بت کو (قبر کی صورت میں)
جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے مسلمانان ِعالم پوری دُنیا میں کہیں بھی قبروں کی پوجا نہیں کرتے۔البتہ کچھ جاہل مسلمان بزرگانِ دین کے مزارات کے احترام میں جو غلو کرتے ہیں، اسی کو ہمارے موحدین مسلمان قبر پرستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بدعات کا دور دورہ ہر جگہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ بدعتیوں کو حکمت سے نصیحت کی جائے۔ باری تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نصیحت کرو کہ مسلمانوں کو نصیحت فائدہ پہنچاتی ہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں حکمت کے ساتھ اگر جاہل مسلمانوں کو سمجھایا جاتا ہے تو وہ مشرکانہ رسومات و بدعات سے باز آ جاتے ہیں۔ توبہ کر لیتے ہیں۔
اسی طرح گیارھویں کے مہینے میں حضور غوث پاک کی نذر ہو یا رجب میں خواجہ غریب نواز کی نیاز ہو۔ ان میں جانوروں کو ذبح تو اللہ ہی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ البتہ ایصال ثواب ان بزرگوں کے نام پر کیا جاتا ہے۔ جسے ہمارے احباب ان بزرگوں کے نام کی قربانی یا بلی سمجھتے ہیں۔ یہ بھی زاویہ نظر کا فرق ہے۔
 

شیرازخان

محفلین
کھڑے اور پڑے سے مراد ہندو کھڑے بت کو پوجتے ہیں اور یہ پڑے بت کو (قبر کی صورت میں)
جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے مسلمانان ِعالم پوری دُنیا میں کہیں بھی قبروں کی پوجا نہیں کرتے۔البتہ کچھ جاہل مسلمان بزرگانِ دین کے مزارات کے احترام میں جو غلو کرتے ہیں، اسی کو ہمارے موحدین مسلمان قبر پرستی سے تعبیر کرتے ہیں۔ بدعات کا دور دورہ ہر جگہ ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ بدعتیوں کو حکمت سے نصیحت کی جائے۔ باری تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نصیحت کرو کہ مسلمانوں کو نصیحت فائدہ پہنچاتی ہے۔قرآن و سنت کی روشنی میں حکمت کے ساتھ اگر جاہل مسلمانوں کو سمجھایا جاتا ہے تو وہ مشرکانہ رسومات و بدعات سے باز آ جاتے ہیں۔ توبہ کر لیتے ہیں۔
اسی طرح گیارھویں کے مہینے میں حضور غوث پاک کی نذر ہو یا رجب میں خواجہ غریب نواز کی نیاز ہو۔ ان میں جانوروں کو ذبح تو اللہ ہی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ البتہ ایصال ثواب ان بزرگوں کے نام پر کیا جاتا ہے۔ جسے ہمارے احباب ان بزرگوں کے نام کی قربانی یا بلی سمجھتے ہیں۔ یہ بھی زاویہ نظر کا فرق ہے۔
جنابِ محترم میں لمبی چوری بحث سے گریز کروں گا صرف چیدہ چیدہ باتیں جو آپ کی بیاں کردہ ہیں۔۔۔
حضورِ والا الکٹرانک میڈیا بہت ترقی کر چکا ہے ہزاروں کی تعداد میں عجیب و غریب وڈیوز دستیاب ہیں جن کی مثال ہندو ازم میں بھی نہیں ملتی اب کوئی خودآنکھوں پر پٹی باند ھ لےتو اس کا حل نہیں، آپ پوجا کی بات کرتے ہیں شہباز قلندر کے دربار پر تو باقاعدہ حج کیا جاتا ہےاور سات چکر لگائے جاتے ہیں ، سجدے تو معمولی گنبد پر بھی معمولی بات بن چکے ہیں۔۔۔احادیث میں صاف آیا ہے
''اے اللہ میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا جو پوجا جائے"(موطا امام مالک،کتاب الصلوہ)
ثابت ہوا کہ جو قبر بھی پوجی جائے وہ بت ہے ۔
دراصل بت پرستی کا آغاز ہی اولیاء اور نیک لوگوں کی قبروں سے ہوا ہے ٖقومِ نوح پانچ بت تھے جہنیں پنجتن پاک بھی کہا جاتا تھا جس طرح آج ہمارے ہاں بھی پنجتن پاک پائے جاتے ہیں ۔۔،ان کے نام تھے،"ود،سواع،یعوث،یعوق اور نسر"

"ابنِ عباس راضی اللہ تعالیٰ عنہو نے فرمایا،(ود،سواع،یعوث،یعوق اور نسر)قومِ نوح کے اولیاء اللہ تھے جب یہ مر گئے تو لوگ ان کی قبروں سے وابستہ ہو گے ،پھر ان کی تمثیلیں بنا لی اور ان کی عبادت کرنے لگے،پھر یہی بت عرب کے قبائل میں پھیل گئے"
چنانچہ اللہ نے صاف لفظوں میں فرما دیا۔۔
"تم لوگ اللہ کو چھوڑ کر جن کو پکارتے ہو وہ تو محض اللہ کے بندے ہیں جس طرح کے تم بندے ہو،ان سے دعائیں مانگ کر دیکھو یہ تماری دعاؤں کا جواب دیں اگر تم صحیح ہو"(اعراف194)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاء اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ اورفتح مکہ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کو حکم صادر فرمایا کہ جاؤ جو قبر بھی زمین سے اونچی نظر آئے اُسے زمین کے برابر کردو۔ لیکن آج وہ امت مسلمہ جس کا یہ نعرہ ہے کہ حرمت رسول پر جان بھی قربان ہے، اس کی کوئی بستی بھی ایسی نہ ملے گی جہاں قبروں کو مزار بنا کر پرستش نہ کی جا رہی ہو۔ تو کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا انکار ان کی گستاخی نہیں ہے؟
مشرکین کا ایک راسخ عقیدہ یہ تھا کہ ہم جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کرتے ہیں، تو یہ معاملہ صرف اس لیے ہے کہ یہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں گے۔ لیکن مالک نے انہیں جواب دیا کہ ہم تو تمہارے خالق اور تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، تمہاری ہر پکار کو سننے اور اس کا جواب دینے والے ہیں۔ تو جب معاملہ یہ ہو جائے تو پھر کسی سفارشی کی بھلا کیا ضرورت ہو گی؟ آج اس امت کی اکثریت کا بھی یہی عقیدہ ہے۔جس طرح عیسائی کہتے ہیں ہم عیسیٰ علیہ اسلام سے منگتے ہیں کہ وہ اللہ کے چہتے ہیں اللہ ان کی سن کر ہمیں دیتا ہے یعنی دیتا اللہ ہی ہے۔۔۔
ایک شیعہ مولوی اپنی تقریر میں دلائل دیتا ہے کہ
پاکستان کو محمد علی جناح نے نہیں بلکہ زولجناح یعنی گھوڑے نے بنایا ہے،جب میں نے اپنے ایک دوست سے یہ بات کہی تو وہ برملا مجھ پر بھڑک اٹھا کے یہ ممکن ہی نہیں،پھر اسے وڈیو دکھا کر شانت کرنا پڑا۔۔۔۔مطلب یہ کہ اس دور میں کیا کچھ نہیں ہو رہا آپ قبروں کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔
دوسری بات آپ نے کہی غلو کی۔۔۔۔تاریخ گواہ ہے کہ جتنی بھی قوموں میں شرک آیا ہے وہ غلو کے ذریعے ہی آیا ہے،بدعات بھی گمراہی ہیں اور بدعتی جہنمی ہے جہنمی کی صحیح بات بھی دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ حکم ہے شر کے ذریعے خیر نہیں۔۔۔
پھر آپ نے فرمایا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں حکمت کے ساتھ اگر جاہل مسلمانوں کو سمجھایا جاتا ہے تو وہ مشرکانہ رسومات و بدعات سے باز آ جاتے ہیں۔ توبہ کر لیتے ہیں۔ (بلا تبصرہ)
جہاں تک حکمت کی بات ہے تو گیارا قسطوں میں یہی کوشش کر رہے ہیں جس میں میں الف عین صاحب کا شکر گزار ہوں جن کے زیرِ اثر یہ انجا م پائیں اتفاق سے یس کی آخری قست ہی بچی ہے جس میں آپ کی نصحیت بھی پوری ہو گئی ہے آپ کے مطالعہ کے لیے اسے بھی لوڈ کر رہا ہوںباقی آپ کے کئی نا کردہ سوالوں کے جوابات پہلی قسطوں میں بھی مل سکتے ہیں
آخر میں آپ نے بات ٹھیک کہی کے زاویہ نظر کا فرق ہے کیونکہ پیری نظر میں غوث اعظم و غریب نواز صرف اور صرف اللہ ہےاور ان کے نام کی نذر نیاز خواہ بسم اللہ پڑھ کر کریں وہ غیرااللہ ہی کی ہے۔۔۔
ایک آدمی برداشت نہیں کرتا کے اس کے بچوں کے پیدا ہونے میں میاں بیوی کے علاوہ کسی اور کا بھی ہاتھ ہے ۔۔۔کیا کوئی برداشت کرے گا؟ شرک تو انسان خود برداشت نہیں کرتا مگر اللہ کے لیے اس نے اس کی مخلوق کو شریک بنا ڈالا ہے۔۔۔
ٹائپنگ میں بہت کمزور ہوں اس لیے جتنا لکھا 3 گھنٹے گئے۔۔۔اس لیے تفصیلا لکھنے کے لیے ایک دن چاہیے۔۔غلطی کوتاہی معاف۔۔
 
آخری تدوین:

شیرازخان

محفلین
استادِ محترم الف عین صاحب آخر کار یہ نظم اختتام کو پہنچی وقت کی گنجائش کے مطابق جب کبھی طبیعت بنے یہ آخری عنایات بھی فرما دیجیے گا۔۔

داتا نظم کی بارھویں و آخری قسط

سنو میں آخری اب بات کہتا ہوں
مجھے مقصود کوئی دل دُکھانا ہے
نہ ہی مطلوب تجھ کو یوں چڑھانا ہے
ترا ہمدرد بن کر بس
تجھے رستہ دکھانا ہے
نہ کاسہ ہی کیا آگے
نہ چندہ تم سے مانگا ہے
بھلا اپنی ہی جانب تو
بلاتا میں نہیں تجھ کو
نجانے کس وقت ہم تم
چلے جائیں گے دنیا سے
تو اپنے رب کو جا کر تم
دکھا پاؤ گے منہ کیسے
کہ اس کو چھوڑ کر تم نے
کسی مُردے کو پوجھا ہے
اگر تم غور کرتے ہو
یہ فرقے کیسے بنتے ہیں
رسولوں اور نبیوں کا
فقط تھا ایک ہی داتا
مگر اس دور میں تم نے
بنائے دوسرے داتا
یہی بس پوچھتا ہوں میں
یہ فرقے کیسے بنتے ہیں
اگر تم غور کرتے ہو
تعصب چھوڑ دو اب تم
نکل اب آؤ فرقوں سے
کہ پیدا ہم ہوئے مسلم
مریں تو ہم رہیں مسلم
انائیں ٹوٹ جانے دو
یہ اپنے روٹھ جانے دو
یہ رتبے چھوٹ جانے دو
جسم جب ہو گیا بوڑھا
تو تم کو یاد آئے گا
سنو تم زندگی میں ہی
بڑے تنہا رہ جاؤ گے
بتا پھر بعد مرنے کے
کہاں ہو گا ترا کوئی
میں اللہ سے جو ڈرتا ہوں
تری بھی بات کرتا ہوں
ہدایت سب کی جھولی میں
عطا کر دے مرا داتا
پڑے مشکل وقت تم کو
تو اتنا سیکھ لینا تم
کہ اُس رب کے سوا یاں پر
نہیں وجود داتا کا
ہے کتنا زور شیطاں میں ہمیں اب دیکھ لینا ہے
کہ اب توحید کی چادر کو خود پر اوڑھ لینا ہے
بچیں ہم کس طرح اس سے ہمیں اب سوچ لینا ہے
کہ کندھے سے ابھی کندھا ہم نے جوڑ لینا ہے
سر تسلیم خم ہیں ہم
ابھی ہم غور کرتے ہیں
وہی جو شرک کرتے ہیں
سرا سر ظلم کرتے ہیں
 
Top