حسان خان

لائبریرین
طالبانِ ذوق را گو در سماع
استماعِ شعرِ شیرازی کنند
(هُمام تبریزی)

طالبانِ ذوق سے کہو کہ وہ سماع میں شعرِ شیرازی سنا کریں۔
 

حسان خان

لائبریرین
در حیرتم از این همه گل‌های دل‌فریب
تا در کدام آب و زمین پروریده‌اند
(هُمام تبریزی)

میں اِن سب دل فریب گُلوں سے حیرت میں ہوں، کہ اِن کو کس آب و زمین میں پرورش دی گئی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز دُنیی هر که می‌جوید وفایی
همی‌باید دماغش را دوایی
(هُمام تبریزی)
جو بھی شخص دنیا سے کوئی وفا تلاش کرتا ہے، اُس کے دماغ کو کسی دوا کی ضرورت ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چشم و ابرویِ تو را گو که به نخجیر مرو
صید خود روح بدان تیر و کمان می‌بخشد
(هُمام تبریزی)
اپنی چشم و ابرو کو کہہ دو کہ وہ شکار کو نہ جائیں۔۔۔ شکار خود [اپنی] روح اُس تیر و کمان کو سپرد کرے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرا رشک آید از پیراهنِ تو
که در بر می‌کَشَد سیمین تنِ تو
(هُمام تبریزی)

مجھے تمہارے پیراہن سے رشک آتا ہے کہ وہ تمہارے تنِ سیمیں کو آغوش میں لیتا ہے۔
 

rahi

محفلین
خشتِ اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

پہلی اینٹ جب معمار ٹیڑھی لگا دے تو اگر دیوار ثریا تک بھی چلی جائے ٹیڑھی ہی ہوگی۔
ویسے نہد کس فعل سے مصدر ہے یہ معلوم نہیں ہو سکا۔ لیکن اس کے معنی یہاں لگانے کے ہی ہوں گے۔
"نہد "کا مصدر "نہادن "ہے اوراس کا معنی "لگانا" سے موزون ہے ۔بالکل زبردست ترجمہ ہے یہ۔شاباش
“۔وہ لگا دے= او نہد”
 

حسان خان

لائبریرین
جانِ مشتاقان کَشَد از غمزهٔ جادویِ تو
آن جفا کز دستِ امت عیسیِ عمران کشید
(هُمام تبریزی)
مشتاقوں کی جان تمہارے غمزۂ جادوگر سے وہی جفا اٹھاتی ہے جو [اپنی] اُمّت کے دست سے حضرتِ عیسی (ع) نے اٹھائی تھی۔
 

حسان خان

لائبریرین
صائب تبریزی ایک غزل کے مطلع میں محبوب کو مُخاطَب کر کے کہتے ہیں:
ز حالِ تشنه‌لبان خنجرِ تُرا چه خبر؟

فُرات را ز شهیدانِ کربلا چه خبر؟

(صائب تبریزی)
تمہارے خنجر کو تشنہ لبوں کے حال کی کیا خبر؟ فُرات کو شہیدانِ کربلا کی کیا خبر؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حدیثِ خوب چون بسیار گردد
اگر خود هست گوهر خوار گردد
(هُمام تبریزی)


"سخنِ ارزش‌مند زمانی که بسیار گفته و تکرار شود حتی اگر در گران‌مایگی مانندِ گوهری باشد بی‌ارزش می‌شود."

سُخنِ خوب و قتیمی جس وقت بار بار کہا اور تکرار کیا جائے، حتیٰ اگر گراں مایگی میں وہ کسی گوہر کی مانند ہو، بے قیمت ہو جاتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حدیثِ خوب چون بسیار گردد
اگر خود هست گوهر خوار گردد
(هُمام تبریزی)

"سخنِ ارزش‌مند زمانی که بسیار گفته و تکرار شود حتی اگر در گران‌مایگی مانندِ گوهری باشد بی‌ارزش می‌شود."

سُخنِ خوب و قتیمی جس وقت بار بار کہا اور تکرار کیا جائے، حتیٰ اگر گراں مایگی میں وہ کسی گوہر کی مانند ہو، بے قیمت ہو جاتا ہے۔
ناصر خسرو کا خیال اِس سے مختلف تھا۔ وہ کہتے ہیں:
در شعر ز تکرارِ سخن باک نباشد
زیرا که خوش آید سخنِ نغز به تکرار
(ناصر خسرو)

شعر میں سخن کی تکرار سے پروا نہیں ہے کیونکہ سخنِ خوب تکرار سے اچھا لگتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سخن کآن از دماغِ هوش‌مند است
گر از تحت‌الثریٰ آید بلند است
(نظامی گنجوی)
وہ سُخن کہ کسی ہوش مند دماغ سے نکلتا ہے، اگر زیرِ زمین سے [بھی] آئے تو بلند ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به لذت‌هایِ جسمانی غمت را کَی فروشم من
که دادن ابلهی باشد به سبزه منّ و سلوی را
(هُمام تبریزی)
جسمانی لذتوں کے عوض مَیں تمہارے غم کو کب فروخت کروں گا؟۔۔۔ کہ سبزے کے عوض منّ و سلویٰ دے دینا حماقت ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشقت بسوخت خرمن، آبی بر آتشم زن
کز تشنگی بمُردم ای آبِ زندگانی
(هُمام تبریزی)
تمہارے عشق نے [میرا] خِرمن جلا ڈالا، میری آتش پر ذرا آب ڈالو۔۔۔ کہ میں تشنگی سے مر گیا ہوں، اے آبِ زندگانی!
 

حسان خان

لائبریرین
وجودِ خاکیِ ما را به کویِ دوست چه کار
که نیست لایقِ باغِ بهشت خار و خسی
(هُمام تبریزی)

ہمارے وجودِ خاکی کا کُوئے دوست میں کیا کام؟۔۔۔ کہ خار و خس باغِ بہشت کے لائق نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ذوقِ دل بخشد سخن‌های هُمام از بهرِ آنْک
جانِ او سیراب از انفاسِ اصحابِ دل است
(هُمام تبریزی)
ہُمام کے سُخن اِس لیے دل کو ذوق بخشتے ہیں کیونکہ اُس کی جان اصحابِ دل کے انفاس سے سیراب ہے۔
× اَنْفاس، نَفَس کی جمع ہے اور اِس کا لفظی معنی تو 'سانسیں' ہیں لیکن مندرجۂ بالا بیت میں احتمالاً 'لفظوں' اور 'سُخنوں' کے مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
حدیثِ خوب چون بسیار گردد
اگر خود هست گوهر خوار گردد
(هُمام تبریزی)

"سخنِ ارزش‌مند زمانی که بسیار گفته و تکرار شود حتی اگر در گران‌مایگی مانندِ گوهری باشد بی‌ارزش می‌شود."

سُخنِ خوب و قتیمی جس وقت بار بار کہا اور تکرار کیا جائے، حتیٰ اگر گراں مایگی میں وہ کسی گوہر کی مانند ہو، بے قیمت ہو جاتا ہے۔
مولانا جامی بھی هُمام تبریزی کے ہم خیال تھے:
سخن گرچه باشد چو آبِ زلال

ز تکرار خيزد غبارِ ملال
(عبدالرحمٰن جامی)
سٰخن اگرچہ آبِ زُلال کی مانند ہو، [لیکن اُس کی] تکرار سے غُبارِ ملال اٹھنے لگتا ہے۔
× زُلال = آبِ صاف و شیرین و خوشگوار
 

حسان خان

لائبریرین
شاد بوده‌ست از این جهان هرگز
هیچ کس، تا از او تو باشی شاد؟!
داد دیده‌ست از او به هیچ سبب
هیچ فرزانه، تا تو بینی داد؟!
(رودکی سمرقندی)

کیا اِس جہان سے کبھی کوئی شخص شاد رہا ہے، جو تم شاد ہو گے؟ کیا اُس سے کسی بھی عاقل و دانشمند نے کسی بھی سبب عدل و انصاف دیکھا ہے، جو تم دیکھو گے؟
 
بقولِ شبلی نعمانی ایبقورس کے فلسفے کو فارسی میں سب سے پہلے رودکی نے روشناس کروایا اور خواجہ حافظ کا سارا دیوان اسی متن کی تشریح ہے

شاد زی با سیاه چشمان، شاد
که جهان نیست جز فسانه و باد
زآمده شادمان بباید بود
وز گذشته نکرد باید یاد
من و آن جعد موی غالیه بوی
من و آن ماهروی حورنژاد
نیک بخت آن کسی که داد و بخورد
شوربخت آن که او نخورد و نداد
باد و ابر است این جهان، افسوس!
باده پیش آر، هر چه باداباد


سیاہ چشموں کے ساتھ شاد زندگی گزار کہ جہاں فسانہ و باد کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جو سامنے آئے اس سے شادمان ہونا چاہیے اور جو گزر جائے اسے یاد نہیں کرنا چاہیے۔
میں اور وہ گنگھریالے بالوں اور غالیہ کی خوشبو والا محبوب۔
میں اور وہ حور نژاد ماہرو۔
اچھی قسمت والا وہ ہے جس نے دیا اور کھایا۔
بری قسمت والا وہ ہے جس نے نہ دیا نہ کھایا۔
افسوس کہ یہ جہاں باد و ابر ہے۔
بادہ سامنے لا جو ہوتا ہے ہوتا رہے۔

رودکی سمرقندی
 

حسان خان

لائبریرین
چند توضیحاتی نِکات:
زآمده شادمان بباید بود
جو سامنے آئے اس سے شادمان ہونا چاہیے
یعنی جو اتفاق پیش آئے اُس پر شادمان رہنا چاہیے۔
وز گذشته نکرد باید یاد
جو گزر جائے اسے یاد نہیں کرنا چاہیے۔
'گذشته' سے یہاں وقتِ گذشتہ مراد ہے۔

نیک بخت آن کسی که داد و بخورد
شوربخت آن که او نخورد و نداد
اچھی قسمت والا وہ ہے جس نے دیا اور کھایا۔
بری قسمت والا وہ ہے جس نے نہ دیا نہ کھایا۔
یعنی نیک بخت وہ ہے جس نے عطا بھی کیا اور خود بھی کھایا، جبکہ بدبخت وہ ہے جس نے نہ خود کھایا اور نہ دیگروں کو عطا کیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
مست گشتم از دو چشمِ ساقیِ پیمانه‌نوش
الفراق ای ننگ و ناموس الوداع ای عقل و هوش
(شاه نیاز بریلوی)

میں ساقیِ پیمانہ نوش کی دو چشموں سے مست ہو گیا۔۔۔ الفراق اے شرم و ناموس، الوداع اے عقل و ہوش!
 
Top