حسان خان

لائبریرین
صائبِ باریک اندیش نے خدا کے غفّار الذُنُوب ہونے کو اِس طرح بیان کیا ہے:
پیشانیِ عفوِ ترا پُرچین نسازد جُرمِ ما
آیینه کَی برهم خورَد از زِشتیِ تِمثال‌ها؟
(صائب تبریزی)

تمہارے عفو و مغفرت کی پیشانی کو ہمارے جُرم شکنوں سے پُر نہیں کر دیتے۔۔۔ صُورتوں اور تصویروں کی بدصورتی آئینے کو کب درہم برہم کرتی ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
گویی‌ام رَو زین در و سلطانِ وقتِ خویش باش
بعدِ سلطانی گدایی خوش نمی‌آید مرا
(کمال خُجندی)
تم مجھ سے کہتے ہو: "اِس در سے چلے جاؤ اور اپنے وقت کے سلطان بن جاؤ"؛ [لیکن] مجھے سلطانی کے بعد گدائی پسند نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
ﻣﻮﻣﻦ ﺍﺯ ﻋﺸﻖ ﺍﺳﺖ ﻭ ﻋﺸﻖ ﺍﺯ ﻣﻮﻣﻦ ﺍﺳﺖ
ﻋﺸﻖ ﺭﺍ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﻣﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﺍﺳﺖ

ﻣﻮﻣﻦ ﻋﺸﻖ ﺳﮯ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﻣﻮﻣﻦ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﮨﮯ
ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
 
ﻋﻘﻞ ﺩﺭﭘﯿﭽﺎﮎ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻭ ﻋﻠﻞ
ﻋﺸﻖ ﭼﻮﮔﺎﮞ ﺑﺎﺯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻋﻤﻞ


ﻋﻘﻞ ﺩﻻﺋﻞ ﻭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻨﺴﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺟﺒﮑﮧ ﻋﺸﻖ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﮔﺎﻥ‏( ﭘﻮﻟﻮ ‏) ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﮐﮭﯿﻠﺘﺎ ﮨﮯ

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
 
ﻣﻮﻣﻦ ﺍﺯ ﻋﺸﻖ ﺍﺳﺖ ﻭ ﻋﺸﻖ ﺍﺯ ﻣﻮﻣﻦ ﺍﺳﺖ
ﻋﺸﻖ ﺭﺍ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﻣﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﺍﺳﺖ

ﻣﻮﻣﻦ ﻋﺸﻖ ﺳﮯ ﺑﻨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﻣﻮﻣﻦ ﮐﯽ ﺑﺪﻭﻟﺖ ﮨﮯ
ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﺌﮯ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﺑﮭﯽ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ
دوسرے مصرعے کا ترجمہ شاید یوں ہونا چاہیے
عشق کے لیے ہمارا ناممکن ممکن ہے۔ یعنی جو ہمارے لیے ناممکن ہے وہ عشق کے لیے ممکن ہے۔
 
ﻣﺮﺣﺒﺎ ﺳﯿﺪ ﻣﮑﯽ ﻣﺪﻧﯽ ﺍﻟﻌﺮﺑﯽ
ﺩﻝ ﻭﺟﺎﮞ ﺑﺎﺩ ﻓﺪﺍﯾﺖ ﭼﮧ ﻋﺠﺐ ﺧﻮﺵ ﻟﻘﺒﯽ

ﺍﮮ ﻣﮑﯽ ﻣﺪﻧﯽ ﻭ ﻋﺮﺑﯽ ﺁﻗﺎﷺ ﻣﺮﺣﺒﺎ ۔ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺩﻝ ﻭ ﺟﺎﮞ ﻓﺪﺍ ﮨﻮﮞ ، ﮐﯿﺎ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﻘﺐ ﮨﮯ ﺁﭘﮑﺎ۔
 
ﭼﺸﻢ ﺭﺣﻤﺖ ﺑﮑﺸﺎ ﺳﻮﺋﮯ ﻣﻦ ﺍﻧﺪﺍﺯ۔ﻧﻈﺮ
ﺍﮮ ﻗﺮﯾﺸﯽ ﻟﻘﺒﯽ ﮬﺎﺷﻤﯽ ﻭ ﻣﻄﻠﺒﯽّ

ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺍﮎ ﻧﻈﺮ ﮐﯿﺠﯿﮯ۔
ﺍﮮ ﮐﮧ ﺁﭖﷺ ﻗﺮﯾﺸﯽ ﮨﺎﺷﻤﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻄﻠﺒﯽ ﻟﻘﺐ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ۔

جان محمد قدسی
 
بر تو حسنِ سخن امروز نظیری ختم است
ہر کہ برہاں طلبد قولِ تو برہانِ تو بس


شاعری کا حسن نظیری آج تجھ پر ختم ہے۔ جو دلیل طلب کرے(اسے کہ دو) کہ تیرا قول ہی تیری دلیل ہے۔

نظیری نیشاپوری
 

محمد وارث

لائبریرین
ہرگز مگو کہ کعبہ ز بُتخانہ خوشتراست
ہر جا کہ ہست جلوۂ جانانہ خوشتراست


عرفی شیرازی

ہرگز یہ مت کہہ کہ کعبہ بُتخانے سے بہتر ہے کیونکہ ہر وہ جگہ کہ جہاں محبوب کا جلوہ ہو وہی جگہ بہتر ہے۔
 
سوی ایں بادیہ ہرگز نوزیدست نسیم
سینہ بر برق گشائیم و جگر تازہ کنیم


اس صحرا کی طرف نسیم کبھی نہیں چلی ہے اس لیے ہم بجلی کے لیے سینہ کھول دیں گے اور جگر تازہ کریں گے۔

نظیری نیشاپوری
 

حسان خان

لائبریرین
عاشقان شب‌زنده‌دار و دُزد هم شب‌زنده‌دار
هر دو بیدارند، امّا این کجا و آن کجا؟!
(نامعلوم)

عاشقاں بھی شب بھر جاگتے ہیں اور دُزد (چور) بھی تمام شب جاگتا رہتا ہے؛ دونوں ہی بیدار ہیں، لیکن یہ کہاں اور وہ کہاں؟
 

حسان خان

لائبریرین
صد نگه جایی که او باشد به هر سو می‌کنم
تا به تقریبی نگاهی جانبِ او می‌کنم
(حقیری تبریزی)

جس جا پر وہ ہو، وہاں میں ہر جانب صد نگاہیں کرتا ہوں؛ تاکہ کسی بہانے سے ایک نگاہ اُس کی جانب کر لیتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به هر مجلس که جا سازم حدیثِ نیکوان پُرسم
که حَرفِ آن مهِ نامهربان را در میان پُرسم
(شرف‌جهان قزوینی)
میں جس مجلس میں بھی شامل ہوتا ہوں، وہاں میں خُوبوں کی خبر پوچھتا ہے؛ تاکہ درمیان میں اُس ماہِ نامہرباں کی بات [بھی] پوچھ لوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
وحشی بافقی کی ترکیب بند 'گِلهٔ یارِ دل‌آزار' سے ایک بند:
دردِ من کشتهٔ شمشیرِ بلا می‌داند

سوزِ من سوختهٔ داغِ جفا می‌داند
مسکنم ساکنِ صحرایِ فنا می‌داند
همه کس حالِ منِ بی‌سر و پا می‌داند
پاک‌بازم همه کس طورِ مرا می‌داند
عاشقی همچو منت نیست خدا می‌داند
چارهٔ من کن و مگذار که بی‌چاره شوم
سرِ خود گیرم و از کویِ تو آواره شوم
(وحشی بافقی)
میرے درد کو کُشتۂ شمشیرِ بلا جانتا ہے۔ میرے سوز کو سوختۂ داغِ جفا جانتا ہے۔ میرے مسکن کو ساکنِ صحرائے فنا جانتا ہے۔ ہر شخص مجھ پست و ناتواں کا حال جانتا ہے۔ میں [عاشقِ] پاک باز ہوں، ہر شخص میرا طور و طرز جانتا ہے۔ مجھ جیسا تمہارا کوئی عاشق نہیں ہے، خدا جانتا ہے۔ میرا چارہ کرو، اور یہ مت ہونے دو کہ میں بے چارہ ہو جاؤں، اپنی راہ پکڑوں، اور تمہارے کوچے سے آوارہ ہو جاؤں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
تسبیح و زُہد خوش بوَد اما دریں دو روز
جشنِ گُل است شیشہ و پیمانہ خوشتر است


عرفی شیرازی

تسبیح اور عبادت گزاری بھی خوب ہے لیکن زندگی کے اِن دو دنوں میں کہ جشنِ گُل اور بہار ہے، صُراحی اور پیمانہ خوب تر ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
از قیمتِ یوسف نشود یک سرِ مو کم
هرچند خریدار به بازار نباشد
(نظیری نیشابوری)

اگرچہ بازار میں ایک خریدار بھی نہ ہو لیکن یوسف (ع) کی قیمت میں بال برابر کمی نہیں آ سکتی (یعنی اگر حُسن کے قدر داں موجود نہ ہوں تو اس سے حُسن بے قدر نہیں ہوتا)۔
(مترجم و شارح: پروفیسر محبوب الٰہی)
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی مدح میں کہے گئے فرّخی سیستانی کے ایک مشہور قصیدے سے ایک مبالغہ آمیز بیت:
به وقتِ شاهِ جهان گر پیمبری بودی

دویست آیت بودی به شأنِ شاه اندر
(فرّخی سیستانی)
اگر شاہِ جہاں (یعنی محمود غزنوی) کے وقت میں نبوّت ہوتی تو شاہ کی شان میں دو صد آیتیں [موجود] ہوتیں۔
 
حد حسن تو بہ ادراک نشاید دانست
این سخن نیز بہ اندازۂ ادراک من است


تیرے حسن کی حد ادراک سے نہیں جانی جا سکتی اور میری یہ بات بھی میرے ادراک کے مطابق ہے۔

عرفی شیرازی
 

حسان خان

لائبریرین
ایرانی شاعرہ فروغ فرّخزاد کی نظم 'گُذَران' سے ایک اقتباس:
"آن‌چنان آلوده‌ست
عشقِ غم‌ناکم با بیمِ زوال
که همه زندگی‌ام می‌لرزد
چون ترا می‌نگرم
مثلِ این است که از پنجره‌ای
تک‌درختم را، سرشار از برگ،
در تبِ زردِ خزان می‌نگرم
مثلِ این است که تصویری را
رویِ جریان‌هایِ مغشوشِ آبِ روان می‌نگرم"
(فروغ فرخزاد)


اِس طرح آلودہ ہے
میرا غم ناک عشق خوفِ زوال کے ساتھ
کہ میری کُل زندگی لرزتی ہے
جب میں تمہیں دیکھتی ہوں
تو ایسا لگتا ہے کہ کسی دریچے سے
اپنے تنہا درخت کو، پتّوں سے سرشار،
خزاں کی تبِ زرد میں دیکھ رہی ہوں
ایسا لگتا ہے کہ کسی تصویر کو
بہتے پانی کے آشفتہ بہاؤ پر دیکھ رہی ہوں

× تبِ زرد = زرد بُخار
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز مدهوشی نفهمم هر چه گوید آن پری با من
چو از بزمش روم مضمونِ آن از دیگران پرسم
(شرف‌جهان قزوینی)
وہ پری مجھ سے جو کچھ بھی کہتی ہے، میں [اُس کے کلام میں] مدہوش ہونے کے باعث سمجھ نہیں پاتا۔۔۔ میں جب اُس کی بزم سے جاتا ہوں تو اُس کا مضمون دیگروں سے پوچھتا ہوں۔
× ایک نسخے میں 'مدهوشی' کی بجائے 'بی‌هوشی' نظر آیا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top