محمد وارث

لائبریرین
بہ لالہ زار و گلستاں نمی روَد دلِ من
کہ یادِ دوست گلستان و لالہ زار من است


شیخ سعدی شیرازی

میرا دل لالہ زار اور گلستان کی طرف نہیں جاتا کہ دوست کی یاد ہی میرا گلستان اور لالہ زار ہے۔
 
واعظ مکن دراز حدیثِ عذاب را
ایں بس بُوَد کہ بارِ دگر زندہ مے شوریم۔
(وحید قزوینی)
اے واعظ! عذاب کی بات لمبی مت کر۔ یہ کافی ہے کہ اگلی بار بھی ہم زندہ ہونگے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ایں بس بُوَد کہ بارِ دگر زندہ مے شوریم۔
تصحیح: بارِ دگر زندہ می شویم
===========

چه فتنه بود که حسنِ تو در جهان انداخت
که یک دم از تو نظر بر نمی‌توان انداخت
(سعدی شیرازی)

یہ کیا فتنہ تھا جو تمہارے حُسن نے جہاں میں برپا کیا کہ ایک لمحہ بھی تم سے نظر نہیں ہٹائی جا سکتی؟

دگر نه عزمِ سیاحت کند نه یادِ وطن
کسی که بر سرِ کویت مجاوری آموخت
(سعدی شیرازی)

جو شخص تمہارے کوچے کے کنارے پر مجاوری سیکھ جائے وہ پھر نہ سیاحت کا عزم کرتا ہے اور نہ وطن کی یاد۔
 
آخری تدوین:
کوہی اگر زمانہ فرستد ہزار غم
از غم چہ غم چو رطلِ گراں را بیآفرید
(خوشحال خان خٹک)
کوہی! اگر زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تو غم سے کیا ڈر کہ غم ہی تو شراب کا بڑا پیالہ بناتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کوہی اگر زمانہ فرستد ہزار غم
از غم چہ غم چو رطلِ گراں را بیآفرید
(خوشحال خان خٹک)
کوہی! اگر زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تو غم سے کیا ڈر کہ غم ہی تو شراب کا بڑا پیالہ بناتی ہے۔

میری فہم کے مطابق اس شعر کا اردو میں یہ مطلب نکل رہا ہے:
اے کوہی! خواہ زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تب بھی غم کا کیا غم کہ جب زمانے نے رطلِ گراں بھی ساتھ ہی خلق کیا ہے۔

'آفرید' زمانۂ ماضیِ مطلق شخصِ سومِ مفرد کا صیغہ ہے جس کا اردو میں لفظی مطلب 'اُس نے خلق کیا' ہے، جبکہ اس لفط کے شروع میں آنے والا 'ب' بائے تزئینی ہے جو شعر میں عموماً صرف وزن کی برقراری کے لیے استعمال ہوتا ہے اور جس کا اپنا کوئی خاص مطلب نہیں ہوتا۔ نیز، اس فعل کا فاعل مصرعِ اول میں آنے والا لفظ 'زمانہ' ہے۔ یہاں شاعر کی جانب سے 'غم' کو آفرینندۂ رطلِ گراں کہے جانے کے نحوی شواہد نہیں ہیں۔
علاوہ بریں، شعرِ مذکور میں 'چو' کا مطلب 'جب' ہے۔

پس نوشت: اس شعر میں 'آفریدن' کا فاعل خدائے تعالیٰ ہے کیونکہ یہ ایک غزلِ مسلسل کا شعر ہے جس کا مطلع یہ ہے:
ایزد چو چشمِ شوخ بتان را بیافرید
جادوی بردنِ دل و جان را بیافرید
اس تعبیر کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ مصدر 'آفریدن' عام طور پر خدا کے کارِ تخلیق کے سلسلے میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا، آپ کے پیش کردہ شعر کا اردو زبان میں یہ ترجمہ ہونا چاہیے:
اے کوہی! خواہ زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تب بھی غم کا کیا غم کہ جب خدا نے رطلِ گراں بھی ساتھ ہی خلق کیا ہے۔
 
آخری تدوین:
میری فہم کے مطابق اس شعر کا اردو میں یہ مطلب نکل رہا ہے:
اے کوہی! خواہ زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تب بھی غم کا کیا غم کہ جب زمانے نے رطلِ گراں بھی ساتھ ہی خلق کیا ہے۔

'آفرید' زمانۂ ماضیِ مطلق شخصِ سومِ مفرد کا صیغہ ہے جس کا اردو میں لفظی مطلب 'اُس نے خلق کیا' ہے، جبکہ اس لفط کے شروع میں آنے والا 'ب' بائے تزئینی ہے جو شعر میں عموماً صرف وزن کی برقراری کے لیے استعمال ہوتا ہے اور جس کا اپنا کوئی خاص مطلب نہیں ہوتا۔ نیز، اس فعل کا فاعل مصرعِ اول میں آنے والا لفظ 'زمانہ' ہے۔ یہاں شاعر کی جانب سے 'غم' کو آفرینندۂ رطلِ گراں کہے جانے کے نحوی شواہد نہیں ہیں۔
علاوہ بریں، شعرِ مذکور میں 'چو' کا مطلب 'جب' ہے۔

پس نوشت: اس شعر میں 'آفریدن' کا فاعل خدائے تعالیٰ ہے کیونکہ یہ ایک غزلِ مسلسل کا شعر ہے جس کا مطلع یہ ہے:
ایزد چو چشمِ شوخ بتان را بیافرید
جادوی بردنِ دل و جان را بیافرید
اس تعبیر کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ مصدر 'آفریدن' عام طور پر خدا کے کارِ تخلیق کے سلسلے میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا، آپ کے پیش کردہ شعر کا اردو زبان میں یہ ترجمہ ہونا چاہیے:
اے کوہی! خواہ زمانہ ہزار غم بھی پہنچائے تب بھی غم کا کیا غم کہ جب خدا نے رطلِ گراں بھی ساتھ ہی خلق کیا ہے۔

اصلاح کرنے کا شکریہ۔ میرے پوسٹ کردہ اشعار کی اسی طرح اصلاح فرماتے رہیے۔
متشکرم ازیں کہ لطف فرمودید۔
 
بہ تُو دل بستم و غیرِ تو کسے نیست مرا
جُز تُو اے جانِ جہاں دادرسے نیست مرا
(امام آیت اللہ خمینی)
(اے خدا) میں نے تجھے دل دیا اور تیرے علاوہ اور کوئی میرا دوست نہیں۔ تیرے علاوہ اے جانِ جہاں میرا کوئی دادرس نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم: جفا و جورِ تو با ما چراست؟ گفت:
بنمای دلبری که به عاشق جفا نکرد!
(سید عمادالدین نسیمی)

میں نے کہا: تمہارا ظلم و ستم ہمارے ساتھ کیوں ہے؟ اُس نے کہا: کوئی (ایسا) دلبر دکھاؤ جس نے عاشق پر جفا نہ کی ہو!

هر کِرا غیر از تو باشد آرزویی در جهان
تشنه‌ای باشد که جوید آبِ حیوان در سراب
(سید عمادالدین نسیمی)

جس کسی کو تمہارے سوا دنیا میں کوئی (اور) آرزو ہو وہ اُس پیاسے کی طرح ہے جو سراب میں آبِ حیات ڈھونڈتا ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شیریں نکردہ ایم لب از گفت و گوئے کس
لب ہا بہ زہر شستۂ افسانۂ خودیم


عرفی شیرازی

ہم نے اپنے لب کسی دوسرے کی گفتگو سے شیریں نہیں کیے ہوئے بلکہ اپنے ہی افسانے کے زہر سے اِن کو تر کر لیا ہے۔
 
شرم کن شیخ! دگر حرف زِ اسلام مَزَن
چہ جفاہا زِ تُو بر پیکرِ اسلام گُذشت
(اسماعیل بلخی)
شرم کر شیخ اسلام کے بارے میں مزید بات مت کر۔ تیری ہی وجہ سے اسلام کے پیکر پر کیسی تکلیفیں گزریں۔
 
درخواست ہے کہ صائب تبریزی کی اس غزل کا ترجمہ کردیں:
شہپر پرواز ما خواہد کف افسوس شد
کز غلط بینی قفس را آشیاں پنداشتیم
بس کہ چوں منصور بر ما زندگانی تلخ شد
دار خون آشام را دارالاماں پنداشتیم
بیقراری بس کہ ما را گرم رفتن کرده بود
کعبہ مقصود را سنگ نشاں پنداشتیم
نشاهٔ سودائے ما از بس بلند افتاده بود
ہر کہ سنگے زد بہ ما، رطل گراں پنداشتیم
خون ما را ریخت گردوں در لباس دوستی
از سلیمے گرگ را صائب شباں پنداشتیم
 

سید عاطف علی

لائبریرین
درخواست ہے کہ صائب تبریزی کی اس غزل کا ترجمہ کردیں:
ترجمے کی ایک کوشش ۔ اریب آغا ۔
شہپر پرواز ما خواہد کف افسوس شد
کز غلط بینی قفس را آشیاں پنداشتیم
کیوں کہ ہم نے غلطی سے قفس کو آشیاں سمجھ لیا ہے تو اب ہمارے شہپر کف افسوس بن جائیں گے۔
بس کہ چوں منصور بر ما زندگانی تلخ شد
دار خون آشام را دارالاماں پنداشتیم
جب ہماری زندگی منصور کی طرح تلخ ہو گئی تو ہم نے بھی اس خون خرابے کو دارالامان سمجھ لیا ۔
بیقراری بس کہ ما را گرم رفتن کرده بود
کعبہ مقصود را سنگ نشاں پنداشتیم
ہمیں ہماری بیقرقری نے اس قدر سر گرم سفر رکھا کہ ہم منزل مقصود کو بھی سنگ میل سمجھ لیا (یعنی اور آگے گزر گئے) ۔
نشاهٔ سودائے ما از بس بلند افتاده بود
ہر کہ سنگے زد بہ ما، رطل گراں پنداشتیم
ہمارے جنوں کا نشّہ اتنا زیادہ تھا کہ جس نے بھی ہمیں پتھر مارا ، ہم نے اسے رطل گرں سمجھا۔
خون ما را ریخت گردوں در لباس دوستی
از سلیمے گرگ را صائب شباں پنداشتیم
آسماں (یہاں آسماں سے مراد زمانہ ہے ) نے ہمارا خوں دوستی کے پردے میں بہایا اورہم نے ملبوس بھیڑیے کو گلہ بان سمجھ لیا ۔
 

حسان خان

لائبریرین
از سلیمے گرگ را صائب شباں پنداشتیم
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'سلیم' کا ایک مطلب مردِ سادہ دل و احمق بھی ہے۔ لہٰذا مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقطع کے مصرعِ ثانی میں 'از سلیمے' نہیں بلکہ 'از سلیمی' ہے، یا بہ الفاظِ دیگر یہاں یائے تنکیر نہیں بلکہ یائے مصدری ہے۔ ایسی صورت میں مصرعِ مذکور کا یہ ترجمہ ہو گا: اے صائب! ہم نے (اپنی) سادہ دلی سے بھیڑیے کو چوپان سمجھ لیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
لغت نامۂ دہخدا کے مطابق 'سلیم' کا ایک مطلب مردِ سادہ دل و احمق بھی ہے۔ لہٰذا مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مقطع کے مصرعِ ثانی میں 'از سلیمے' نہیں بلکہ 'از سلیمی' ہے، یا بہ الفاظِ دیگر یہاں یائے تنکیر نہیں بلکہ یائے مصدری ہے۔ ایسی صورت میں مصرعِ مذکور کا یہ ترجمہ ہو گا: اے صائب! ہم نے (اپنی) سادہ دلی سے بھیڑیے کو چوپان سمجھ لیا۔

آپ کی بات بہت حد تک درست ہے خان صاحب، ایک دو برس قبل میں نے بھی اس غزل کا ترجمہ کیا تھا تو مقطع میں مخمصے میں پڑ گیا تھا لیکن پھر میں نے بھی ملبوس یا چادروں میں لپٹے ہوئے بھیڑیوں کو ترجیح دے ڈالی تھی اس وجہ سے کہ پہلے مصرع میں "لباسِ دوستی" ہے سو قرینے سے مجھے یہ لگا تھا کہ دوسرے مصرعے میں بھی چادروں میں لپٹے ہوئے یا ملبوس بھیڑیے ہوگا۔
 
صائب تبریزی کا یہ شعر:
خاکے بہ لبِ گور فشاندیم و گذشتیم
ما مرکب ازیں رخنہ جہاندیم و گذشتیم

اس شعر میں جہاندیم کا کیا مطلب ہے؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صائب تبریزی کا یہ شعر:
خاکے بہ لبِ گور فشاندیم و گذشتیم
ما مرکب ازیں رخنہ جہاندیم و گذشتیم
اس شعر میں جہاندیم کا کیا مطلب ہے؟
میرے خیال میں جہاندن سے "اٹھانا " مراد ہے ۔اورشاید رخنہ گور کی مناسبت سے ہے۔واللہ اعلم
 

حسان خان

لائبریرین
گر اناالحق‌های ما را بشنود منصورِ مست
هم به خونِ ما دهد فتویٰ و هم دار آورد

(سید عمادالدین نسیمی)
اگر منصورِ مست ہماری اناالحقوں کو سن لے تو وہ ہمارے قتل کا فتویٰ بھی جاری کر دے اور دار بھی لے آئے۔

ناتوان گردد ز سودا همچو من عاشق طبیب
لحظه‌ای گر در خیال آن چشمِ بیمار آورد

(سید عمادالدین نسیمی)
اگر طبیب کسی لمحے اُس چشمِ بیمار کو (اپنے) خیال میں لے آئے تو وہ (بھی) مجھ عاشق کی طرح جنونِ عشق کے سبب ناتواں ہو جائے۔
 
آخری تدوین:
اندکے پیشِ تو گفتم غمِ دل، ترسیدم
کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
(ذوقی کاشانی)
میں نے تمہارے سامنے تھوڑا سا (اپنے) دل کا غم بیان کیا کیونکہ میں ڈرا کہ کہیں دل آزردہ نہ ہوجاو ورنہ بات ابھی زیادہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر هوس داری نمازی کان بوَد مقبولِ حق
ابرویش را قبله ساز و چشمِ مستش را امام

(سید عمادالدین نسیمی)
اگر تمہیں کسی ایسی نماز کی آرزو ہے جو مقبولِ بارگاہِ حق تعالیٰ ہو تو تم [یار] کے ابرو کو قبلہ بناؤ اور اُس کی چشمِ مست کو امام مقرر کرو۔
 
آخری تدوین:
وفا آموختی از ما ، بکارِ دیگراں کردی
ربودی گوہرے از ما، نثارِ دیگراں کردی

(شاملو)
وفا کرنا تُو نے ہم سے سیکھا لیکن کسی اور کے لئے استعمال کیا۔ تُو نے ہیرا ہم سے چھینا لیکن قربان کسی اور کے لئے کیا
 
Top