محمد وارث

لائبریرین
انتظارِ قتل، نامردی است در آئینِ عشق
خونِ خود چوں کوہکن مردانہ می ‌ریزیم ما

(صائب تبریزی)

قتل ہونے کا انتظار کرنا، عشق کے آئین میں کم ظرفی (کم ہمتی) ہے، میں اپنا خون کوہکن (فرہاد) کی طرح مردانہ وار بہا رہا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شاخِ نہالِ سدرۂ، خار و خسِ چمن مَشو
منکرِ او اگر شدی، منکرِ خویشتن مشو


(اقبال لاھوری)

تُو سدرہ کے پودے کی شاخ ہے، چمن کا کوڑا کرکٹ مت بن، اگر تُو اُس کا منکر ہو گیا ہے تو اپنا منکر تو نہ بن۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اوّل‌ آں‌ کس‌ کہ‌ خریدار شدش‌ مَن‌ بُودم‌
باعثِ‌ گرمیِ بازار شدش‌ من بودم‌


(وحشی بافقی)

سب سے پہلا وہ کون تھا جو اسکا خریدار بنا، میں (آدم، آدمی) تھا۔ اسکے بازار کی گرمی کا باعث میں بنا تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جاں بہ جاناں کی رسد، جاناں کُجا و جاں کُجا
ذرّه است ایں، آفتاب است، ایں کجا و آں کجا


(ھاتف اصفہانی)

(اپنی) جان، جاناں پر کیا واروں کہ جاناں کہاں اور (میری) جان کہاں۔ یہ (جان) ذرہ ہے، (وہ جاناں) آفتاب ہے، یہ کہاں اور وہ کہاں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

بیدل رقمِ خفی جلی می خواھی

اسرار نبی و رمزِ ولی می خواھی
خلق آئینہ است، نورِ احمد دریاب
حق فہم اگر فہمِ علی می خواھی


(عبدالقادر بیدل)

بیدل، تُو پنہاں اور ظاہر راز (جاننا) چاہتا ہے، نبی (ص) کے اسرار اور ولی (ع) کی رمزیں جاننا چاہتا ہے۔ (تو پھر) خلق آئینہ ہے، احمد (ص) کا نور اس میں دیکھ، اور حق کو پہچان اگر علی (ع) کو پہچاننا چاہتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب، بیدل کا کلام اردو ترجمے کے ساتھ تو میں بھی سالہا سال سے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن افسوس نہیں ملتا بلکہ مجھے تو صرف فارسی کلیات بھی نہیں ملے۔

لیکن اس تلاش میں ایک نایاب کتاب میرے ہاتھ لگی، اس کتاب کا نام Life and Works of Abdul Qadir Bedil ہے اور یہ ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کا Ph. D thesis ہے اس میں بیدل کا کچھ کلام نمونے کے طور پر مع انگریزی ترجمہ کے موجود ہے اور وہیں سے دیکھ کر لکھتا ہوں۔ یہ کتاب 1960 میں چھپی تھی اور بہت اعلٰی اور تحقیقی مواد سے بھر پور ہے، مصنف نے اس سلسلے میں افغانستان کا سفر بھی کیا تھا اور وجہ یہ ہے کہ بیدل کا اب بھی افغانستان میں وہی مقام ہے جو غالب اور اقبال کا برصغیر ہندوستان، پاکستان میں اور افغانستان میں ہر پڑھے لکھے شخص کے پاس کلیاتِ بیدل ہوتے ہیں جیسے یہاں غالب کا دیوان اور اقبال کی کتب ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ نیٹ پر بیدل کا کچھ کلام ملتا ہے، نیچے دیا گیا ربط دیکھیئے، یہ بھی افغانستان کے کسی شخص کی سائٹ ہے۔

http://devoted.to/bedil

دیگر کتب میں مولانا شبلی نعمانی کی 'شعر العجم' میں بیدل کا کلام موجود ہے اور مولانا ابوالکلام آزاد کی 'غبارِ خاطر' میں بھی بیدل کے اشعار موجود ہیں لیکن سبھی بغیر ترجمے کے ہیں، دراصل اس زمانے کے علما سمجھتے تھے کہ فارسی اشعار کا اردو ترجمہ لکھنا بد ذوقی ہے اور اس زمانے سبھی پڑھے لکھے اشخاص ان اشعار کا مطلب سمجھ جاتے تھے لیکن اب تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر، ان کتب میں مجھے جس شعر کی سمجھ آ جائے اسکا ترجمہ اٹکل پچو سے لکھ دیتا ہوں۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
نظامی صاحب اور وارث صاحب ایسی کتاب تو شائد نہ ملے جسے آپ حضرات خرید سکیں - لیکن قائداعظم لائبریری، لاہور میں‌ بیدل کا فارسی کلام پڑا ہے، بغیر ترجمے کے - افسوس مجھے فارسی نہیں‌ آتی ورنہ میں اسکی فوٹو کاپی ضرور کرواتا - آپ اسکی فوٹو کاپی کروا سکتے ہیں‌ جسکی سہولت لائبریری میں ہی موجود ہے -
 

الف نظامی

لائبریرین
شکریہ نظامی صاحب، بیدل کا کلام اردو ترجمے کے ساتھ تو میں بھی سالہا سال سے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن افسوس نہیں ملتا بلکہ مجھے تو صرف فارسی کلیات بھی نہیں ملے۔

لیکن اس تلاش میں ایک نایاب کتاب میرے ہاتھ لگی، اس کتاب کا نام Life and Works of Abdul Qadir Bedil ہے اور یہ ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کا Ph. D thesis ہے اس میں بیدل کا کچھ کلام نمونے کے طور پر مع انگریزی ترجمہ کے موجود ہے اور وہیں سے دیکھ کر لکھتا ہوں۔ یہ کتاب 1960 میں چھپی تھی اور بہت اعلٰی اور تحقیقی مواد سے بھر پور ہے، مصنف نے اس سلسلے میں افغانستان کا سفر بھی کیا تھا اور وجہ یہ ہے کہ بیدل کا اب بھی افغانستان میں وہی مقام ہے جو غالب اور اقبال کا برصغیر ہندوستان، پاکستان میں اور افغانستان میں ہر پڑھے لکھے شخص کے پاس کلیاتِ بیدل ہوتے ہیں جیسے یہاں غالب کا دیوان اور اقبال کی کتب ہوتی ہیں۔

[/SIZE]
واہ کیا بات ہے ، ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کی ایک کتاب روح بیدل کی مجھے کتنے عرصہ سے تلاش ہے جس کا تذکرہ "امیر حزب اللہ" از ڈاکٹر عبدالغنی شائع کردہ اداہ حزب اللہ جلال پور شریف میں سرسری طور پر ہے۔
ڈاکٹر عبدالغنی صاحب نے پی ایچ ڈی مرزا بیدل پر ہی کی تھی اس کا تذکرہ بھی "امیر حزب اللہ" میں ملتا ہے۔
"امیر حزب اللہ" پیر سید فضل شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نظامی صاحب اور وارث صاحب ایسی کتاب تو شائد نہ ملے جسے آپ حضرات خرید سکیں - لیکن قائداعظم لائبریری، لاہور میں‌ بیدل کا فارسی کلام پڑا ہے، بغیر ترجمے کے - افسوس مجھے فارسی نہیں‌ آتی ورنہ میں اسکی فوٹو کاپی ضرور کرواتا - آپ اسکی فوٹو کاپی کروا سکتے ہیں‌ جسکی سہولت لائبریری میں ہی موجود ہے -


شکریہ فرّخ صاحب معلومات کیلیے، میری بدقسمتی ہے کہ میں تین سال لاہور میں رہا لیکن قائداعظم لائبریری تک نہ جا سکا اور اب تو شاید یہ ناممکنات میں سے ہو میرے لئے۔ فارسی مجھے بھی نہیں آتی لیکن اگر کہیں فارسی کلام مل جائے تو 'تبرک' کے طور پر اٹھا لیتا ہوں جیسے ایک دفعہ انارکلی سے تہران کے مطبوعہ 'کلیات سعدی نظم و نثر' مل گئے تھے، بغیر ترجمے کے سمجھ تو خاک نہیں آتی لیکن پڑھ کر خوشی بہت ہوتی ہے۔ :)


واہ کیا بات ہے ، ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کی ایک کتاب روح بیدل کی مجھے کتنے عرصہ سے تلاش ہے جس کا تذکرہ "امیر حزب اللہ" از ڈاکٹر عبدالغنی شائع کردہ اداہ حزب اللہ جلال پور شریف میں سرسری طور پر ہے۔
ڈاکٹر عبدالغنی صاحب نے پی ایچ ڈی مرزا بیدل پر ہی کی تھی اس کا تذکرہ بھی "امیر حزب اللہ" میں ملتا ہے۔
"امیر حزب اللہ" پیر سید فضل شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح ہے۔


شکریہ نظامی صاحب، ڈاکٹر صاحب کا تھیسس بس اتفاق سے مل گیا تھا ایک فٹ پاتھ پر، شاید ڈھونڈنے سے ایسی کتابیں نہیں ملتیں کہ ایک دفع شائع ہو جائیں تو دوسرے ایڈیشن کی کم ہی نوبت آتی ہے، بہرحال اگر کہیں سے 'روح بیدل' ملے تو اس ناچیز کو ضرور یاد رکھیئے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مےِ دیرینہ و معشوقِ جواں چیزے نیست
پیشِ صاحب نَظَراں حور و جَناں چیزے نیست


پرانی شراب اور جوان معشوق کوئی چیز نہیں ہے، صاحبِ نظر کے آگے حور اور جنت کوئی چیز نہیں ہے۔


دانَشِ مغربیاں، فلسفۂ مشرقیاں
ہمہ بتخانہ و در طوفِ بتاں چیزے نیست


مغرب والوں کی (عقل و) دانش اور مشرق والوں کا فلسفہ، یہ سب بُتخانہ ہے اور بتوں کے طواف میں کچھ بھی نہیں ہے۔


(اقبال لاھوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر سحر نالہ و زاری کنم پیشِ صبا
تا ز من پیغامے آرد بر سرِ کوئے شُما


ہر صبح صبا کہ سامنے نالہ و زاری کرتا ہوں کہ میرے لیے تمھارے کوچے سے کوئی پیغام لائے۔

چوں ندارم ہمدمے، با باد می ‌گویم سخن
چوں نیابم مرہمے، از باد می ‌جویم شفا

چونکہ کوئی میرا کوئی ہمدم نہیں ہے سو ہوا سے باتیں کرتا ہوں، اور چونکہ میں کوئی مرہم نہیں رکھتا سو (اسطرح) ہوا سے ہی شفا تلاش کرتا ہوں۔

(فخر الدین عراقی)
 

محمد وارث

لائبریرین
فریدون مشیری کی نظم 'معراج' مع ترجمہ

فریدون مشیری جدید فارسی شاعری کا ایک معتبر نام ہیں اور نوجوان ایرانی نسل میں انتہائی مقبول۔ کلاسیکی فارسی شاعری کے برعکس آپ کا تقریباً کل کلام آزاد نظموں پر مشتمل ہے۔ انکی ایک نظم پیش کر رہا ہوں جو مجھے بہت پسند آئی۔

انکا کلام اس ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے، وہیں سے یہ نظم حاصل کی ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کی 'جرأت' خود ہی کی ہے اسلیے اگر کہیں خامی نظر آئے تو درگزر کا طلبگار ہوں۔


معراج

گفت: آنجا چشمۂ خورشید هاست
(اُس نے کہا، اس جگہ سورجوں کا چشمہ ہے)
آسماں ها روشن از نور و صفا است
(آسمان نور سے روشن اور منور ہیں)
موجِ اقیانوس جوشانِ فضا است
(فضا سمندروں کی طرح جوش مار رہی ہے)
باز من گفتم که : بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے اوپر کیا ہے)
گفت : بالاتر جهانی دیگر است
(اس نے کہا اس سے بالا ایک دوسرا جہان ہے)

عالمی کز عالمِ خکّی جداست
(وہ ایک ایسا عالم ہے کہ عالمِ خاکی سے جدا ہے)
پهن دشتِ آسماں بے انتهاست
(اور آسمانوں کے طول و عرض، پہنائیاں بے انتہا ہیں)
باز من گفتم که بالاتر کجاست
(میں پھر پوچھا کہ اس سے پرے کیا ہے)
گفت : بالاتر از آنجا راه نیست
(اس نے کہا، اس سے آگے راستہ نہیں ہے)

زانکه آنجا بارگاهِ کبریاست
(کیونکہ اس جگہ خدا کی بارگاہ ہے)
آخریں معراجِ ما عرشِ خداست
(ہماری آخری معراج، رسائی خدا کا عرش ہی ہے)
باز من گفتم که : بالاتر کجاست
(میں نے پھر پوچھا کہ اس سے بالاتر کیا ہے)
لحظه ای در دیگانم خیره شد
(ایک لحظہ کیلیئے میری اس بات سے وہ حیران و پریشان ہو گیا)
گفت : ایں اندیشه ها بس نارساست
(اور پھر بولا، تمھاری یہ سوچ اور بات بے تکی اور ناقابلِ برداشت ہے)
گفتمش : از چشمِ شاعر کن نگاه
(میں نے اس سے کہا، ایک شاعر کی نظر سے دیکھ)
تا نپنداری که گفتاری خطاست
(تا کہ تجھے یہ خیال نہ رہے کہ یہ بات خطا ہے)
دور تر از چشمۂ خورشید ها
(سورجوں کے چشمے سے دور)
برتر از ایں عالمِ بے انتها
(اس بے انتہا عالم سے بر تر)
باز هم بالاتر از عرشِ خدا
(اور پھر خدا کے عرش سے بھی بالا)
عرصۂ پرواز مرغِ فکرِ ماست
(ہماری فکر کے طائر کی پرواز کی فضا ہے)
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ واہ ! کیا خوب نظم ہے حضور!‌
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں‌ ہے گردوں
(اقبال لاہوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ قبلہ، آپ کی داد سے محنت کا صلہ مل گیا۔

علامہ کا ایک شعر اسی موضوع پر

در دشتِ جنونِ من جبریل زبوں صیدے
یزداں بہ کمند آور اے ہمتِ مردانہ


میرے جنون کے بیابان میں جبریل تو ایک ادنٰی سا شکار ہے، اے ہمتِ مردانہ خدا پر کمند ڈال۔

 

محمد وارث

لائبریرین
رباعی

در کعبہ اگر دل سوئے غیرست ترا
طاعت ہمہ فسق و کعبہ دیرست ترا
ور دل بہ خدا و ساکنِ میکده ‌ای
مے نوش کہ عاقبت بخیرست ترا


(ابوسعید ابوالخیر)

کعبہ میں اگر تیرا دل غیر کی طرف ہے، (تو پھر) تیری ساری طاعت بھی سب فسق ہے اور کعبہ بھی تیرے لیے بتخانہ ہے۔ اور (اگر) تیرا دل خدا کی طرف ہے اور تو (چاہے) میکدے میں رہتا ہے تو (بے فکر) مے نوش کر کہ (پھر) تیری عاقبت بخیر ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
در ہیبتِ شاہِ جہاں، لرزش زمین و آسماں
انگشتِ حیرت در دہاں، نیمِ دروں، نیمِ بروں
(روائت کے مطابق شاہ جہاں کی بیٹی زیب النسا کا شعر ہے)
ترجمہ: شاہ جہاں (بادشاہ) کی ہیبت سے زمین اور آسمان پر لرزہ طاری ہے اور میری انگلی حیرت سے میرے منہ میں آدھی اندر ہے اور آدھی باہر (یعنی حیرت سے انگشتِ بدنداں ہوں)
 

محمد وارث

لائبریرین
گر از بسیطِ زمیں عقل منعدم گردد
بخود گماں نبرد ہیچ کس کہ نادانم


(سعدی شیرازی)

اگر روئے زمین سے عقل معدوم بھی ہو جائے تو پھر بھی کوئی شخص اپنے بارے میں یہ خیال نہیں کرے گا کہ میں نادان ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مرا دو چشم تو انداخت در بلائے سیاه
وگرنہ من کہ و مستی و عاشقی ز کجا


(عبید زاکانی)

مجھے تو تیری دو آنکھوں نے سیاہ بلا میں مبتلا کر دیا ہے، وگرنہ میں کیا (کہاں) اور مستی اور عاشقی کہاں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من عاشقم، گواہِ من ایں قلبِ چاک چاک
در دستِ من جز ایں سندِ پارہ پارہ نیست


(محمد رضا عشقی)

میں عاشق ہوں اور میرا گواہ یہ دلِ چاک چاک ہے، میرے ہاتھ میں (میرے پاس) اس پارہ پارہ سند کے سوا اور کچھ نہیں۔
 
Top