نهالِ عشق که برگش غم است و بار افسوس
اگر ز گریه نشد سبز، صد هزار افسوس
(نواب اللہ دادخان ’صوفی‘)

عشق کا درخت، کہ جس کا برگ (پتا) غم ہے اور ثمر افسوس ہے، اگر گریہ سے سبز نہیں ہوا تو صد ہزار حیف!
 
من نه آن صورت پرستم کز تمنایِ تو مستم
هوشِ من دانی که بردست؟ آن که صورت می‌نگارد
(سعدی شیرازی)

میں وہ صورت‌پرست نہیں ہوں جو تیرے(وصال کی) تمنا سے مست ہو۔کیا تو جانتا ہے میرا ہوش کون اڑا لے گیا ہے؟ وہ (خدا) جو (ایسی زیبا) صورت بناتا ہے۔
 
گفتم:دلِ من از ذقنت قوتی گرفت
خندید و گفت :منفعت این است سیب را
(فضولی بغدادی)

میں نے کہا "میرے دل نے تیرے زنخداں سے قوت حاصل کی." وہ خندہ زناں ہوا اور بولا :"سیب کا یہی فائدہ ہے."

محبوب کے زنخداں کو سیبِ زنخداں کہا جاتا ہے
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ «لاہور» کے ایک فارسی شاعر «مُنیر لاهوری» سرزمینِ «کشمیر» کی سِتائش میں کہتے ہیں کہ «گُلشنِ کشمیر» کی فوق‌العادت زیبائی دیکھ کر دِیارِ «آذربائجان» بھی «کشمیر» کا بہ دل و جان غُلام ہو گیا ہے:

شِگُفته شد چو رُویِ گُلستانش
ز جان شد بنده آذربایجانش
(مُنیر لاهوری)


جب «کشمیر» کے گُلستان کا چہرہ شِگُفتہ ہوا (کِھلا) تو «آذربائجان» [دل و] جان سے اُس کا غُلام ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سرزمینِ «کشمیر» کے ایک فارسی شاعر کی بیت میں مُلکِ «کشمیر» کا ذِکر:

تا نِهالِ کِلکِ فانی گُل‌فشانی می‌کند
هر زمینِ شعر خاکِ گُلشنِ کشمیر شد
(مُحسِن فانی کشمیری)


جب سے «فانی» کے قلم کا نِہال (پَودا) گُل‌فِشانی کرتا ہے، ہر زمینِ شاعری خاکِ گُلشنِ کشمیر ہو گئی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
خُم و مِینائے شراب کی سِتائش میں مُلکِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر کی ایک بیت:

خُم فلاطون است کز وَی حل شود اَسرارِ عشق
قُلقُلِ میناست درسِ بوعلی سینا مرا
(مُحسِن فانی کشمیری‌)


خُمِ [شراب] «افلاطون» ہے کہ اُس [کے ذریعے] سے اَسرارِ عشق حل ہو جاتے ہیں۔۔۔ [جبکہ] مِینائے [شراب] کی [صدائے] قُلقُل میرے لیے درسِ «ابوعلی سِینا» ہے۔

× قُلقُل = صُراحی سے نِکلتے وقت آنے والی آوازِ شراب
 

حسان خان

لائبریرین
کِشوَرِ «کشمیر» کے ایک «کشمیری» شاعر «مولانا یعقوب صَرفی کشمیری» کی ایک بیت میں «گُلشنِ کشمیر» کا ذِکر:

جُدا ز رُویِ تو چون دوزخی‌ست صَرفی را
اگرچه رشکِ بهشت است گُلشنِ کشمیر
(مولانا یعقوب صَرفی کشمیری)


اگرچہ «گُلشنِ کشمیر» رشکِ بہشت ہے، [لیکن] تمہارے چہرے سے جُدا [و دُور] وہ «صَرفی» کے لیے اِک دوزخ کی مانند ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ہماری زبانِ فارسی میں مُلکِ «کشمیر» کا نام اِتنی زیادہ بار استعمال ہوا ہے کہ لفظِ «کشمیر» ایک فارسی لفظ ہی محسوس ہوتا ہے۔ علاوہ بریں، یہ لفظ صَوتی لِحاظ سے بھی فارسی الفاظ جیسا ہے۔ ایک نامعلوم شاعر کی مندرجۂ ذیل فارسی رُباعی دیکھیے جس کے تین مصرعوں میں «کشمیر» کو مُختَلِف معنوں میں بروئے کار لایا گیا ہے۔ اِس رُباعی سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کیسے یہ لفظِ «کشمیر» فارسی الفاظ سے قُربت رکھتا ہے۔

میرِ همه دل‌برانِ کشمیر تویی
خُرّم‌دِل آن سِپاه کش میر تویی
آن حور که روح را سزد کش گویند
کاندر کفِ پایِ نازُکَش میر تویی
(لاادری)


تمام دِل‌برانِ کشمیر کے امیر تم ہو۔۔۔ خوشا وہ سِپاہ کہ جس کے امیر ‌و سالار تم ہو!۔۔۔ وہ حُور کہ جس کی خاطِر زیب دیتا ہے کہ رُوح سے کہا جائے کہ "اُس کے پائے نازُک کے کف میں مر جاؤ!" تم ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
ہم میں سے تقریباً ہر ایک شخص کو عُمرِ دراز کی آرزو ہے، اور طویل عُمر ہماری نظر میں ایک مطلوب‌ترین و مرغوب‌ترین چیز ہے۔ لیکن تیموری پادشاہ «شهاب‌الدین محمد شاه‌جهان» کے ملِک‌الشُعَراء «ابوطالب کلیم کاشانی» ایک بیت میں «کشمیریوں» کے مِلّی وطن «کشمیر» کی سِتائش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کِشوَرِ «کشمیر» کے باغات کے خِیابان عُمرِ دراز سے بھی زیادہ دل‌پذیر و پسندیدہ و مرغوب ہیں۔
ہماری زبانِ فارسی میں لفظِ «خِیابان» باغ و چمن کے درمیان سے گُذرنے والی راہِ کُشادہ و ہموار کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

خِیابانش که نظّاره‌نواز است
خوش‌آینده‌تر از عُمرِ دراز است
(ابوطالب کلیم کاشانی)


اُس کا خِیابان، کہ جو نظارہ‌نواز ہے، عُمرِ دراز سے [بھی] زیادہ دل‌پذیر و پسندیدہ و مرغوب ہے۔

=========

«کشمیریوں» اور اُن کے مِلّی وطن «کشمیر» پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
«نیویارک ٹائمز» نے تین روز قبل ایک خبر کے عُنوان میں «کشمیر» کو "غَیظ و خَوف کی ایک زندہ جہنّم" کہہ کر یاد کیا ہے۔ حالانکہ یہ وہی مُلکِ «کشمیر» ہے کہ جس کے بارے میں فارسی کے ایک عالی‌ترین شاعر جنابِ «صائب تبریزی» نے فرمایا تھا کہ:

می‌کنم از سر بُرون صائب هوایِ خُلد را
بخت اگر از ساکنانِ شهرِ کشمیرم کند

(صائب تبریزی)

اے «صائب»! اگر [میرا] بخت مجھے کِشوَرِ «کشمیر» کے ساکِنوں وَ باشندوں میں سے کر دے تو میں سر سے آرزوئے جنّت کو بیرون کر دوں گا۔
× کِشوَر = مُلک

یعنی جنابِ «صائب» نے تو «گُلشنِ کشمیر» کو اِک ایسی جنّت پایا تھا کہ جس میں مُقیم و مُتَوَطِّن ہو جانے کے بعد اُن کو خُلدِ بریں کی بھی آرزو نہ رہتی۔
 

حسان خان

لائبریرین
اِسلامی شریعت میں زکات اغنیاء پر واجب ہے۔ اِسی باعث فارسی شاعری میں شُعَراء معشوقوں سے زکاتِ حُسن ادا کرنے کا تقاضا کرتے ہیں کیونکہ معشوقوں کے نزد (پاس) ثروتِ حُسن کی فراوانی ہوتی ہے، اور شریعت کے مُطابق اُس ثروَت میں سے ناداروں کو زکات دینا اُن پر لازم ہے۔۔۔ فارسی شاعر «حاجی محمّد جان قُدسی مشهدی» ایک بیت میں مُلکِ «کشمیر» کی سِتائش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ چمن، کوہسارِ «کشمیر» سے زکات کی خواہش کرتا ہے کیونکہ کوہسارِ «کشمیر» نقدِ بہار سے مالامال ہے، جبکہ چمن بھی اُس کے مُقابلے میں نادار و گدا ہے:

چمن جوید زکات از کوهسارش
که باشد بر کمر نقدِ بهارش
(قُدسی مشهدی)


چمن «کشمیر» کے کوہسار سے زکات کی جُستجو کرتا ہے، کیونکہ اُس کی کمر (یعنی وسَطِ کوہ) پر نقدِ بہار ہے۔

=========

«کشمیریوں» اور اُن کے مِلّی وطن «کشمیر» پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
شہرِ «سمرقند» کے عالی‌صِفَت سیب مشہور رہے ہیں۔ تاہم دِیارِ «کشمیر» کے «باغِ فرح‌بخش» کی سِتائش میں کہی ایک بیت میں «قُدسی مشهدی» نے اُس نام‌بُردہ باغ کے سیبوں کو «سمرقند» و «اصفہان» کے سیبوں سے بھی زیادہ خُوب و لذیذ بتایا ہے:

به رنگ و بو سزَد گر سیبِ این باغ
سمرقند و صِفاهان را کند داغ
(قُدسی مشهدی)


اگر اِس باغ کا سیب [خود کے] رنگ و بُو سے سمرقند و اصفہان کو داغ کر دے (یعنی رشک سے سوزاں کر دے) تو زیب دیتا ہے۔

=========

«کشمیریوں» اور اُن کے مِلّی وطن «کشمیر» پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
ہماری زبانِ فارسی میں لفظِ «لُعبَت» عَروسَک (یعنی گُڑیا) اور بُت کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور مجازاً یہ لفظ معشوقۂ خُوش‌رُو و زیبا کے لیے بھی مُستَعمَل رہا ہے۔ فارسی شاعری کے ایک سُتونِ اساسی جنابِ «سعدی شیرازی» نے ایک غزل میں اپنے معشوق اور اُس کے جمال کی توصیف کرتے ہوئے اُس کو "هم‌سایهٔ لُعبَتانِ کشمیر" پُکارا ہے:

آن کیست که می‌رود به نخجیر
پایِ دلِ دوستان به زنجیر
هم‌شیرهٔ جادوانِ بابِل
هم‌سایهٔ لُعبَتانِ کشمیر
(سعدی شیرازی)


وہ [یارِ زیبا] کون ہے کہ جو شِکار کے لیے جا رہا ہے؟۔۔۔ [اور جس کی] زنجیر میں دوستوں کے دل کا پاؤں ہے؟۔۔۔ وہ ساحِرانِ «بابِل» کا ہم‌شِیر ہے۔۔۔ وہ لُعبَتانِ «کشمیر» کا ہم‌سایہ ہے۔

===========

«کشمیریوں» پر سلام ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
میرے محبوب‌ترین فارسی شاعر جنابِ «صائب تبریزی» جس زمانے میں کِشوَرِ «کشمیر» میں آئے تھے، اُس وقت مُلکِ «کشمیر» کے حاکِم «ظفر خان احسن» تھے، جو خود بھی ایک فارسی شاعر تھے۔ جنابِ «صائب» ایک غزل کے مقطع میں اپنی شاعری اور حاکمِ کشمیر «ظفر خان» کی سِتائش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

نسبتِ معنی به لفظِ تازهٔ صائب
همچو ظفر خان بُوَد به خِطّهٔ کشمیر
(صائب تبریزی)


«صائب» کے لفظِ تازہ کے ساتھ معنی کی نِسبت [ویسی ہی ہے] جیسے «خِطّۂ کشمیر» کے ساتھ «ظفر خان» [کی نِسبت] ہے۔

مندرجۂ بالا بیت میں یہ چیز بھی جالبِ توجُّہ ہے کہ جنابِ «صائب» نے اپنی شاعری کے «لفظِ تازہ» کی سِتائش کرنے کے لیے اُس کو «خِطّهٔ کشمیر» کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کم دِه شرابِ وصل که پُر شد ایاغِ ما
روغن چُنان مریز که مِیرد چراغِ ما
(بدیعی کشمیری)


شرابِ وصل کم دو کیونکہ ہمارا پیالہ پُر ہو گیا [ہے]۔۔۔ رَوغن اُس قدر مت اُنڈیلو کہ ہمارا چراغ [ہی] مر جائے (بُجھ جائے)۔
 
عورت کی نکوہش میں نظامی گنجوی کہتے ہیں :
اگر نیک بودی سر احوالِ زن
زنان را "مزن" نام بودی، نه "زن‌"
چه خوش گفت جمشید بارایِ زن
که یا پرده یا گور بهِ جایِ زن
(نظامی گنجوی)

اگر عورت کے احوال نیک ہوتے تو عورتوں کا نام "مَزَن" (نہ مارو! ) ہوتا نہ کہ "زن" (مارو!). عورت کے بارے میں کیا خوب کہا جمشید (اساطیری ایرانی پادشاہ) نے کہ عورت کی بہتر جگہ یا پردہ یا قبر ہے.
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
یہ مُندَرِجۂ ذیل بیت اُس مثنوی سے مأخوذ ہے جو شاعر نے تیموری پادشاہ «شهاب‌الدین محمد شاه‌جهان» کے «کشمیر» میں وُرود کے موقع پر مُلکِ «کشمیر» اور «شاه‌جهان» کی سِتائش میں لکھی تھی۔

بهشت از شوقِ کشمیر است بی‌تاب
اِرم چشم از تماشایش دِهد آب
(قُدسی مشهدی)


بہشت «کشمیر» کے اِشتِیاق سے بے‌تاب ہے۔۔۔ [جبکہ] «اِرَم» اُس کے نظارے سے [اپنی] چشم کو آب دیتی ہے (یعنی «اِرم» دِیارِ «کشمیر» کے منظرِ مرغوب کے دیدار سے اِکتِسابِ فَیض کر کے اپنی چشم روشن کرتی ہے)۔

× «اِرَم» اُس جنّت کا نام ہے جو «شدّاد» نے بنوائی تھی۔ یہ لفظ مجازاً بہشت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
جس وقت «ظفر خان احسن» مُلکِ «کشمیر» کے حاکِم بنے تھے تو ایک «کشمیری» شاعر «مُحسِن فانی کشمیری» نے اُن کی سِتائش میں یہ بیت کہی تھی:

بهارِ گُلشنِ کشمیر باز رنگین شد
که ابرِ فیضِ ظفر خانِ کام‌گار آمد
(مُحسِن فانی کشمیری)


«گُلشنِ کشمیر» کی بہار دوبارہ رنگین ہو گئی، کیونکہ «ظفر خانِ» کامران و بختیار کے فَیض کا ابر آ گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نُسخهٔ دیوانِ ما تا یافت شُهرت در جهان
مُصحفِ حُسنِ بُتان مُستَغنی از تفسیر شد

(مُحسِن فانی کشمیری)
جب سے ہمارے دیوانِ [اشعار] کے نُسخے نے جہان میں شُہرت پائی، حُسنِ بُتاں (حُسنِ خُوب‌رُویاں) کا مُصحَف تفسیر و تشریح سے بے‌نیاز ہو گیا۔۔۔
 
Top