محمد وارث

لائبریرین
می شود خرجِ زمیں چوں میوہ خام اُفتد بخاک
وائے بر آں کس کہ اینجا ناتمام اُفتد بخاک


صائب تبریزی

جب پھل کچا ہی زمین پر گر جاتا ہے تو وہ (کسی کام کا نہیں ہوتا اور) زمین ہی کی نذر ہو جتا ہے۔ افسوس اُس پر کہ جو یہاں اِس دنیا سے ناتمام ہی خاک میں جا پڑتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اس شعر کے دوسرے مصرع کا ترجمہ نہیں ہو رہا
محمد وارث
حسان خان
تواے کبوتر بام حرم چہ میدانی
طپیدن رگ مرغاں رشتہ برپا را
المدد۔۔۔جلدی سے:)
وہ اس وجہ سے کہ دوسرے مصرعے میں اضافتیں نہیں لگی ہوئیں:

تو اے کبوترِ بامِ حرم چہ میدانی
طپیدنِ رگِ مرغانِ رشتہ برپا را

اے بامِ حرم کے کبوتر تُو کیا جانے، ان پرندوں کا تڑپنا جن کی رگ کا دھاگہ کٹ چکا ہو۔

ویسے ہو سکتا ہے خان صاحب بہتر ترجمہ فرما دیں کہ مجھے سو سمجھ میں آیا لکھ دیا! :)
 
وہ اس وجہ سے کہ دوسرے مصرعے میں اضافتیں نہیں لگی ہوئیں:

تو اے کبوترِ بامِ حرم چہ میدانی
طپیدنِ رگِ مرغانِ رشتہ برپا را

اے بامِ حرم کے کبوتر تُو کیا جانے، ان پرندوں کا تڑپنا جن کی رگ کا دھاگہ کٹ چکا ہو۔

ویسے ہو سکتا ہے خان صاحب بہتر ترجمہ فرما دیں کہ مجھے سو سمجھ میں آیا لکھ دیا! :)
بہت شکریہ
 
وہ اس وجہ سے کہ دوسرے مصرعے میں اضافتیں نہیں لگی ہوئیں:

تو اے کبوترِ بامِ حرم چہ میدانی
طپیدنِ رگِ مرغانِ رشتہ برپا را

اے بامِ حرم کے کبوتر تُو کیا جانے، ان پرندوں کا تڑپنا جن کی رگ کا دھاگہ کٹ چکا ہو۔

ویسے ہو سکتا ہے خان صاحب بہتر ترجمہ فرما دیں کہ مجھے سو سمجھ میں آیا لکھ دیا! :)
اچھا "برپا" کا ترجمہ "کٹنا" ہوتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
طپیدنِ رگِ مرغانِ رشتہ برپا را

ان پرندوں کا تڑپنا جن کی رگ کا دھاگہ کٹ چکا ہو۔
تصحیح: اُن پرندوں کی رگ کا تڑپنا جن کے پیر پر دھاگا (یعنی رسّی) ہو۔

رشته بر پا = وہ شخص/چیز جس کے پیر پر دھاگا ہو۔۔۔
یہ ترکیب 'پا به زنجیر' اور 'خانه بر دوش' جیسی ترکیبوں کے زُمرے کی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گاه می‌خندم ز شادی گاه می‌گِریَم ز درد
زان که هم از یار و هم ز اغیار دور اُفتاده‌ام

(صائب تبریزی)
میں گاہے شادمانی سے خندہ کرتا ہوں [اور] گاہے درد سے گریہ کرتا ہوں۔۔۔ کیونکہ میں یار سے بھی، اور اغیار سے بھی دُور ہو گیا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
دلِ عاشق ز گُل‌گشتِ چمن آزُرده‌تر گردد
که هر شاخِ گُلی دامی‌ست مُرغِ رِشته بر پا را

(صائب تبریزی)
چمن کی سَیر و گُلگشت سے عاشق کا دل مزید آزُردہ ہو جاتا ہے۔۔۔ کیونکہ جس پرندے کے پاؤں پر رسّی ہو اُس کے لیے ہر شاخِ گُل ایک جال [کی مانند ہوتی] ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کمندِ جذبهٔ خورشید اگر رحمت نفرماید
که چون شبنم ازین پستی به بالا می‌بَرَد ما را؟

(صائب تبریزی)
اگر خورشید کی کشِش کا کمند رحم و مہربانی نہ فرمائے تو شبنم کی طرح اِس پستی سے کون ہم کو بالا لے کر جائے گا؟
(خورشید کے طلوع ہونے پر شبنم بُخارات بن کر اُڑ جاتی ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
ز فرزندِ گرامی می‌شود چشمِ پدر روشن
سِرِشکِ آتشینِ من منوّر کرد دریا را

(صائب تبریزی)
فرزندِ مُعزِّز و مُکرَّم سے چشمِ پدر روشن ہو جاتی ہے۔۔۔ میرے اشکِ آتشیں نے بحر کو مُنوّر کر دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
فُرو رَو در وجودِ خویش صائب تا شود روشن
که قُدرت در دلِ هر قطره مُضمَر کرد دریا را

(صائب تبریزی)
اے صائب! اپنے وجود کے اندر جاؤ تاکہ واضح و آشکار ہو جائے کہ قُدرت نے ہر قطرے کے دل میں بحر کو پوشیدہ و پِنہاں کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صائب، چۆ من اۏنون سؤزۆنۆ یئره سالمادېم
بیلمم نئچۆن منیم قانېمې آسمان ایچر

(صائب تبریزی)
اے صائب! جب میں نے اُس (فلک) کے سُخن کو زمین پر نہیں مارا (یعنی پستی و حقارت کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا)، تو میں نہیں جانتا کہ [آخر] کس لیے فلک میرا خون پیتا ہے؟

Saib, çü mən onun sözünü yerə salmadım,
Bilməm neçün mənim qanımı asiman içər.


× ایک نُسخے میں مصرعِ اول میں 'یئره سالمادېم' کی بجائے 'سالمادېم یئره' نظر آیا ہے۔
صائب تبریزی کی مندرجۂ بالا تُرکی بیت کا منظوم فارسی ترجمہ:
صائب! کلامِ وَی نزدم هیچ بر زمین
از بهرِ چیست خونِ مرا آسمان خورَد؟!

(حُسین محمدزاده صدیق)
اے صائب! میں نے اُس (فلک) کے سُخن کو کبھی بھی زمین پر نہیں مارا (یعنی حقارت و پستی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا)۔۔۔ [پس آخر] کیا سبب ہے کہ آسمان میرا خون پیتا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
طعنہ کم تر زن حرم جویانِ رہ گم کردہ را
ایں ملامت بس کہ ما راہِ حرم گم کردہ ایم


عرفی شیرازی

(ہم) راہ گم کردہ حرم کے متلاشیوں کو طعنے ذرا کم کم مار، (ہمیں شرمسار اور رُسوا کرنے کے لیے) یہ ملامت ہی کافی ہے کہ ہم نے حرم کی راہ گم کر دی ہے۔
 
Top