حسان خان

لائبریرین
عقل می‌باشد غبارِ دیدهٔ مجنونِ ما
خاکِ صحرایِ جنون در چشمِ عاشق توتیاست
(نقیب خان طُغرل احراری)

عقل ہمارے دیدۂ مجنوں کا غبار ہے؛ [جبکہ] صحرائے جُنوں کی خاک چشمِ عاشق میں سُرمہ ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
صبا از شرم نتْواند به رویِ گل نگه كردن
كه رَخْتِ غنچه را وا كرد و نتوانست ته كردن
(شاہ عباس ثانی صفوی)

صبا شرم سے گُل کے چہرے کی جانب نگاہ نہیں کر سکتی، کیونکہ اُس نے غنچے کا لباس کھول دیا اور پھر وہ تہہ نہ کر سکی۔
 
مزی اندر جهانی کور ذوقی
که یزدان دارد و شیطان ندارد

علامہ اقبال رحمۃاللہ علیہ

(میں )ایسی بے ذوق دنیا میں نہیں رہنا چاہتا جہاں خدا تو ہو شیطان نہ ہو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

در دل دردیست از تو پنہاں کہ مپرس
تنگ آمدہ چنداں دلم از جاں کہ مپرس
با ایں ہمہ حال و در چنیں تنگ دلی
جا کردہ محبتِ تو چنداں کہ مپرس


میرے دل میں، تجھ سے پنہاں، ایسا درد ہے کہ کچھ مت پوچھ، اور میرا دل اِس جینے کے ہاتھوں ایسا تنگ ہے کہ کچھ مت پوچھ۔ لیکن دل کے اِس حال اور اِس تنگ دلی کے باوجود، میرے دل میں تیری محبت نے کچھ ایسے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں کہ بس کچھ مت پوچھ۔
 

حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
اندر دلِ من مها دل‌افروز تویی
یاران هستند لیک دل‌سوز تویی
شادند جهانیان به نوروز و به عید
عیدِ من و نوروزِ من امروز تویی
(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے ماہ! میرے دل کے اندر دل افروز تم ہو؛ یاراں موجود ہیں، لیکن مُشفِق و مہرباں تم ہو؛ مردُمِ دنیا نوروز اور عید پر شاد ہیں؛ [لیکن] میری عید اور میرا نوروز اِمروز تم ہو۔
× اِمروز = آج
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
به هوش باش دلی را به سَهْو نخراشی
به ناخنی که توانی گِره‌گشایی کرد
(صائب تبریزی)

ہوشیار رہو کہ جس ناخن سے تم گِرہ کشائی کر سکتے ہو کہیں اُس سے کسی دل کو غلطی سے نہ خراش دو۔
 

حسان خان

لائبریرین
صد حیف از محبتِ بیش از قیاسِ ما
با بی‌وفایِ حقِّ وفا ناشناسِ ما
(وحشی بافقی)
ہمارے حقِّ وفا نہ جاننے والے بے وفا کے ساتھ ہماری حد سے زیادہ محبت پر صید حیف!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشقِ ما پرتو ندارد ما چراغِ مرده‌ایم
گرم کن هنگامهٔ دیگر که ما افسرده‌ایم
(وحشی بافقی)

ہمارا عشق روشنی و تابش نہیں رکھتا، ہم چراغِ مردہ ہیں۔۔۔ [کوئی] ہنگامۂ دیگر شروع کرو کہ ہم افسردہ ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای مجلسیان سوزِ دلِ حافظِ مسکین
از شمع بپرسید که در سوز و گداز است
(حافظ شیرازی)
اے اہلِ مجلس! حافظِ مسکین کے دل کے سوز کو شمع سے پوچھیے جو سوز و گداز میں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رازی که برِ غیر نگفتیم و نگوییم
با دوست بگوییم که او محرمِ راز است
(حافظ شیرازی)

جو راز ہم نے غیر کے سامنے نہیں کہا اور نہیں کہیں گے، وہ ہم دوست سے کہتے ہیں کیونکہ وہ مَحرمِ راز ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فانی از بختِ سیاهت شده در هند وطن
ورنه جایِ تو به جز گوشهٔ کشمیر نبود
(فانی کشمیری)
اے فانی! تمہاری سیاہ بختی کے باعث تمہاری اقامت ہند میں ہو گئی ہے، ورنہ تمہاری جگہ بجز گوشۂ کشمیر نہ تھی۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چنان مزاجِ عروسانِ باغ نازک شد
که از صبا شود آشفته زلفِ سنبل‌ها
(فانی کشمیری)

عَرُوسانِ باغ کا مزاج اِس قدر نازک ہو گیا کہ [بادِ] صبا سے سُنبُلوں کی زلف آشفتہ ہو جاتی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
می‌کنم از سر برون صائب هوایِ خلد را
بخت اگر از ساکنانِ شهرِ کشمیرم کند
(صائب تبریزی)
اے صائب! اگر [میرا] بخت مجھے کِشوَرِ کشمیر کے ساکنوں میں سے کر دے تو میں سر سے آرزوئے جنّت کو بیرون کر دوں گا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گرچه احسن گلشنِ کشمیر رشکِ جنّت است
مرغِ روحِ من به شوقِ باغِ کابل می‌پرد
(ظفر خان احسن)
اے احسن! اگرچہ گلشنِ کشمیر رشکِ جنّت ہے، [لیکن] میرا پرندۂ روح باغِ کابُل کے شوق میں پر مارتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دل و جاں شہیدِ عشقت، بہ درونِ گورِ قالب
سوئے گورِ ایں شہیداں، بگذر زیارتے کن


مولانا رُومی

(میرے) جسم کی قبر میں دل اور جان تیرے عشق میں شہید ہو کر پڑے ہوئے ہیں، کبھی ان شہیدوں کی قبر کی طرف گذر اور زیارت ہی کر لے۔
 

حسان خان

لائبریرین
پنجه زد عشق و لباسِ پارسایی پاره شد
طاعتِ صدساله‌ام تاراجِ یک نظّاره شد
(ملّا مظهری کشمیری)
عشق نے پنجہ مارا اور لباسِ پارسائی پارہ پارہ ہو گیا؛ میری طاعتِ صدسالہ ایک نظّارے سے تاراج ہو گئی۔
 
آخری تدوین:
مرغ باغ ملکوتیم دریں دیر خراب
می شود نور تجلائے خدا ، دانہ ما

(شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی)

ہم اس جہانِ خستہ و خراب میں ملکوتی پرندے ہیں اور ہمارا دانہ دنکا نورِ خدا کی تجلیاں ہیں۔
(محمد علی چراغ)
 

حسان خان

لائبریرین
مُحتَشَم کاشانی کی آرامگاہ کے اندرونی حصے میں یہ رباعی منقوش ہے:
(رباعی)
این منزلِ پُرفیض که جایِ الم است
بی‌فاتحه زین روضه گذشتن ستم است
باید به ادب گذشت زین در، قصّاب
این جایِ رفیع مدفنِ مُحتشَم است
(قصّاب کاشانی)
یہ منزلِ پُرفیض، کہ جو جائے الم ہے؛ اِس روضے سے بے فاتحہ گذرنا ستم ہے؛ اے قصّاب! اِس در سے ادب کے ساتھ گذرنا لازم ہے؛ [کہ] یہ جائے رفیع مدفنِ مُحتشَم ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چه حالت است ندانم جمالِ سلمیٰ را
که بیش دیدنش افزون کند تمنّا را
(مولانا مظهری کشمیری)
میں نہیں جانتا کہ سلمیٰ کے جمال کی کیسی کیفیت ہے کہ اُس کو زیادہ دیکھنا تمنّا میں اضافہ کر دیتا ہے۔
× سَلْمیٰ = ایک عرب معشوقہ کا نام، جو مجازاً معشوق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
× علی قُلی خان والہ داغستانی کے 'تذکرۂ ریاض الشعراء' کے مطابق یہ بیت مولانا مظہری کشمیری کی ہے، لیکن ذبیح اللہ صفا نے اپنی کتاب 'تاریخِ ادبیاتِ ایران' میں اِسے میرزا عبدالرحیم خانِ خاناں سے منسوب کیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به دربان دی نگه می‌کرد و می‌دید از غضب سویم
مرادش این که این دیوانه را بیرون کن از کویم
(منسوب به مُحتَشَم کاشانی)
وہ دِیروز دربان کی جانب نگاہ کر رہا تھا اور میری جانب قہر سے دیکھ رہا تھا؛ اُس کی مراد یہ [تھی] کہ 'اِس دیوانے کو میرے کوچے سے بیرون کر دو'۔
× دِیروز = روزِ گذشتہ، گذرا ہوا کل

مأخذِ شعر
 
آخری تدوین:
Top