محمد وارث

لائبریرین
زندگی در جمعِ ساماں رفت حیف
صبح در خوابِ پریشاں رفت حیف


شیخ علی حزیں

افسوس کہ ساری زندگی ساز و سامان جمع کرنے میں گزر گئی، گویا کہ سہانی صبح، پریشان اور ہولناک، وحشت بھرے خواب دیکھنے میں گزر گئی، افسوس صد افسوس۔
 

فیصل رومی

محفلین
غلامی

آدم از بے بصری بندگیٔ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد


یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد


(اقبال لاہوری، پیامِ مشرق)

آدمی اپنی بے بصری (اپنی حقیقت سے بے خبری) کی بنا پر آدمی کی غلامی کرتا ہے، وہ (آزادی و حریت) کا گوہر تو رکھتا ہے لیکن اسے قباد و جمشید (سے بادشاہوں) کی نذر کر دیتا ہے۔

یعنی اس غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی زیادہ خوار ہوتا ہے، (کیونکہ) میں نے نہیں دیکھا کہ (کبھی) کسی کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر خم کیا ہو۔
واہ کتنا بلند چھا گے ہیں
بہت خوشی ہوئی فاتح صاحب آپ کو دوبارہ محفل پر اور ادھر اس تھریڈ پر دیکھ کر۔ ایک شعر آپ کی نذر

بیک آمدن ربودی دل و دین و جانِ خسرو
چہ شود اگر بدینساں دو سہ بار خواہی آمد

(امیر خسرو دہلوی)
تیرے ایک بار آنے نے خسرو کے دل و دین و جان سب چھین لیے ہیں، کیا ہوگا اگر تو اسی طرح دو تین بار آئے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
از غمِ عشقت مرا نی تن نه جانی مانده‌است
آن خیالی گشته و زین یک گمانی مانده‌است
(سلطان حسین بایقرا)

تمہارے عشق کے غم کے باعث نہ میرا تن اور نہ کوئی جان باقی رہی ہے۔۔۔۔ وہ (= تن) ایک خیال بن گیا ہے جب کہ اِس (= جان) کا صرف ایک گمان باقی رہا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
فلک تا کرد دور از یار ما را
رگِ گل می‌نماید خار ما را
(قتیل لاهوری)

فلک نے جب سے ہمیں یار سے دور کیا ہے (تب سے) ہمیں رگِ گُل خار کی مانند نظر آتی ہے۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
من آن شب سیاهم کز ماه خشم کردم
من آن گدای عورم کز شاه خشم کردم

از لطفم آن یگانه می خواند سوی خانه
کردم یکی بهانه وز راه خشم کردم

گر سر کشد نگارم ور غم برد قرارم
هم آه برنیارم از آه خشم کردم


مولانا جلال الدین رومی، دیوان شمس تبریز

میں وہ شب سیاہ ہوں، ماہ سے جو خفا ہوا
میں وہ گدا حقیر ہوں، شاہ سے جو خفا ہوا

تھا وہ یگانہ مہربان، گھر کی طرف پکارتا
میں وہ بہانہ ساز ہوں، راہ سے جو خفا ہوا

اپنے نگار کے لیے، آہ میں بے قرار تھا
پھر بھی نہ میں نے آہ کی، آہ سے میں خفا ہوا

ترجمہ: فہمیدہ ریاض
 

یاز

محفلین
سرہنگِ لطیف خوی دلدار
بہتر زفقیہِ مردم آزار
(شیخ سعدی)


نرم مزاج دلداری کرنے والا سپاہی، لوگوں کو ستانے والے عالم سے بہتر ہے۔
 

یاز

محفلین
تلخ از شیریں لباں خوش می شود
خار از گلزار دلکش می شود
(مولانا رومی)


شیریں لب والوں سے کڑوا بھلا ہو جاتا ہے۔ گلشن کی وجہ سے کانٹا (بھی) خوبصورت لگتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وصلِ اُو یابی چو گیری ترکِ خویش
یوسف ارزاں است ما بے ہمّتیم


درویش ناصر بخاری

جب تُو اپنے آپ کو ترک کر دے گا (اپنی خواہشات کو ختم کر دے گا) تو تجھے اُس کا وصال بھی مل جائے گا، یعنی یوسف تو بہت ارزاں ہے لیکن ہم ہی کم ہمت ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای باغبانِ عشق! تو تا باخبر شدی
لب‌هاش از لبم گلِ صد بوسه چیده بود
(سیمین بهبهانی)

اے باغبانِ عشق! تم جب تک باخبر ہوئے (اُس وقت تک) اُس کے لب میرے لب سے گُلِ صد بوسہ چُن چکے تھے۔

خفته‌ست در تنم همه رگ‌های آرزو
ای پاس‌دارِ عشق، بزن تازیانه‌ای
(سیمین بهبهانی)

میرے تن میں آرزو کی سب رگیں سو چکی ہیں۔۔۔ اے پاسدارِ عشق، ذرا تازیانہ مارنا۔
 
آخری تدوین:

طالب سحر

محفلین
اگر کلام نه از آسمان فرود آید
چرا به هر سخنی خامه در سجود آید
(صائب تبریزی)

اگر کلام آسمان سے نازل نہیں ہوتا تو پھر ہر سخن کو لکھتے وقت قلم سجدے کی حالت میں کیوں آتا ہے؟


قلم جائے کہ سر بنہد بہ ھر نظمے کہ بنویسد
سرش باید قلم کردن کہ پیش نظم ننہد سر

-- امیر خسرو

قلم ہر طرح کی عبارت لکھتے وقت سر جھکائے رہتا ہے، اگر وہ نظم کے آگے سر نہ جھکائے تو اس کا سر قلم کر دینا چاہیے
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 

حسان خان

لائبریرین
در هر مژه برهم زدن این خلق جدید است
نظاره سِگالد که همان است و همان نیست

(غالب دهلوی)
ہر بار آنکھ کے جھپکنے میں یہ کائنات نئی ہوتی ہے۔ ہماری نظریں سمجھتی ہیں کہ یہ کائنات وہی ہے لیکن وہی نہیں ہوتی۔
اس شعر میں مرزا غالب نے ایک نہایت ہی دقیق نفسیاتی نکتہ بیان کیا ہے۔ انسان اپنے ادنیٰ سے ادنیٰ مشاہدے اور تجربے سے بدلتا رہتا ہے اور اس بدلنے پر جب وہ کائنات کو دیکھتا ہے تو وہ بظاہر وہی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ نہیں ہوتی۔
ایک معمولی سی مثال سے قیاس کر لیجیے۔ فرض کیا ہم نے ایک چیز کو پہلی دفعہ دیکھا، اس کے بعد ہم نے آنکھ جھپکائی اور پھر اُس پر نظر پڑی۔ اب کے وہ چیز وہ نہیں ہے جو ایک لحظہ پہلے ہم نے دیکھی۔ اب کے اس کے ادراک میں یہ تجربہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ یہ وہ چیز ہے جسے ہم پہلے دیکھ چکے ہیں اسی طرح وہ ہر بار دیکھنے پر بدلتی چلی جائے گی۔ پھر کائنات خود بھی تغیر پذیر ہے اگرچہ وہ تغیر نمایاں طور پر نظر نہیں آتا۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
پهلو بشگافید و ببینید دلم را
تا چند بگویم که چِسان است و چِسان نیست

(غالب دهلوی)
میرے پہلو کو چیر ڈالو اور میرے دل کو دیکھ لو۔ میں کب تک کہتا رہوں گا کہ میرا دل کیسا ہے کیسا نہیں ہے۔
(مترجم: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
جُز آستانِ تو جا در جہاں نمی دانم
من و تفکّرِ جائے دگر، دروغ دروغ

مُلّا نورالدین ظہوری ترشیزی

تیرے آستانے کے سوا میں ساری دنیا میں کوئی دوسری جگہ نہیں جانتا، میں اور مجھے کوئی دوسری جگہ ڈھونڈنے کی فکر ہو، جھوٹ جھوٹ، بالکل جھوٹ۔
 

حسان خان

لائبریرین
گفتمش: "از خود فضولی را میفکن دور"، گفت:
"نیست این صیدِ مُحقَّر قابلِ فتراکِ ما"
(محمد فضولی بغدادی)

میں نے اُس سے کہا: "فضولی کو خود سے دور مت پھینکو۔" اُس نے کہا: "یہ حقیر شکار ہمارے فتراک کے قابل نہیں ہے۔"
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
یا مکن با پیلباناں دوستی
یا بنا کن خانہ در خوردِ پیل
(شیخ سعدی)


یا تو ہاتھی والوں سے دوستی نہ کر، یا ہاتھی کے مناسب گھر بنا لے۔
 

طالب سحر

محفلین
کاسِ مالا مالِ معنی نیست شاں کارند پیش
میمہانش رفتہ و بر ریشِ شاں خندیدہ گیر

امیر خسرو

اُن کے پاس معنی سے لبریز جام نہیں ہے جو وہ پیش کریں- اُن کا مہمان رخصت ہو گیا اور اُن کی ڈاڑھیوں پر ہنستا ہے۔
(ترجمہ: پروفیسر لطیف اللہ)
 

حسان خان

لائبریرین
بِه که با نورِ چراغِ تهِ دامان سازیم
طاقتِ جلوهٔ سینا نه تو داری و نه من
(علامه اقبال)

بہتر ہے کہ ہم دامن کے نیچے چھپے ہوئے چراغ کی روشنی پر اکتفا کریں۔ کیونکہ تجلیِ وادیِ سینا برداشت کرنے کا دم خم نہ تو رکھتا ہے نہ میں۔
(مترجم: فقیرا خان فقری جدون)
 
دست بردم کہ کشم تیرِ غمش را از دل
تیرِ دگر زد و بردوخت دل و دست بہم
(وصال شیرازی)
میں نے ہاتھ بڑھایا کہ اس کے تیرِ غم کو دل سے نکالوں۔اس نے دوسرا تیر مارا اور دل و دست ہردو کو باہم باندھ دیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نازم به فریبی که دهی اهلِ نظر را
کز بوسه پیامی به دهان است و دهان نیست
(غالب دهلوی)

شعرا جس طرح محبوب کی کمر کو اتنا نازک دکھاتے ہیں کہ گویا اس کا کوئی وجود ہی نہیں اسی طرح معشوق کے دہنِ تنگ کو بھی یوں ہی دکھاتے ہیں۔ مرزا غالب نے اس نازک بیانی سے عجب کام لیا ہے۔ کہتے ہیں:
تو اہلِ نظر کو جو فریب دے رہا ہے میں اُس کی داد دیتا ہوں۔ تیرے دہن سے اُن کو پیامِ بوسہ تو ملتا ہے لیکن دہن کا وجود نہیں۔
شاعر کے مدِ نظر معشوق کے دہنِ تنگ کی کشش کو دکھانا ہے جسے دیکھ کر بے ساختہ چوم لینے کو جی چاہتا ہے۔
(ترجمہ و تشریح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
Top