آتش خواجہ حیدر علی آتؔش ::::: آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا ::::: Khwaja Haidar Ali Aatish

طارق شاہ

محفلین
غزل
خواجہ حیدر علی آتؔش


آئنہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا
چہرۂ شاہدِ مقصُود عیاں ہے کہ جو تھا

عِشقِ گُل میں وہی بُلبُل کا فُغاں ہے کہ جو تھا
پرتَوِ مہ سے وہی حال کتاں ہے کہ جو تھا

عالَمِ حُسن ِخُداداد ِبُتاں ہے کہ جو تھا
ناز و انداز بَلائے دِل و جاں ہے کہ جو تھا

راہ میں تیری شب و روز بَسر کرتا ہُوں
وہی مِیل اور وہی سنگِ نِشاں ہے کہ جو تھا

روز کرتے ہیں شبِ ہجر کو بیداری میں
اپنی آنکھوں میں سُبک خوابِ گراں ہے کہ جو تھا

ایک عالَم میں ہو ہر چند مسیحا مشہوُر
نامِ بیمار سے تم کو خفقاں ہے کہ جو تھا

دولتِ عِشق کا گنجینہ وہی سینہ ہے
داغِ دل، زخمِ جگر مُہر و نِشاں ہے کہ جو تھا

ناز و انداز و ادا سے تمہیں شرم آنے لگی
عارضی حُسن کا عالَم وہ کہاں ہے؟ کہ جو تھا

جاں کی تسکیں کے لیے حالتِ دل کہتے ہیں
بے یقینی کا تِری ہم کو گُماں ہے کہ جو تھا

اثرِ منزلِ مقصوُد نہیں دُنیا میں
راہ میں قافلۂ ریگ رَواں ہے کہ جو تھا

دہن اُس رُوئے کتابی میں ہے پر نا پیدا
اسمِ اعظم وہی قرآں میں نہاں ہے کہ جو تھا

کعبۂ مدِّ نظر، قبلہ نُما ہے تاحال
کوُئے جاناں کی طرف دِل نگراں ہے کہ جو تھا

کوہ و صحرا و گُلِستاں میں پھرا کرتا ہے
متلاشی وہ تِرا آبِ رَواں ہے کہ جو تھا

سوزشِ دِل سے تسلسل ہے وہی آہوں کا !
عود کے جلنے سے مجمر میں دُھواں ہے کہ جو تھا

رات کٹ جاتی ہے باتیں وہی سُنتے سُنتے
شمعِ محِفل صَنَمِ چرب زباں ہے کہ جو تھا

پائے خُم مَستوں کی ہُو حق کا جو عالَم ہے سَو ہے
سرِ منبر وہی واعظ کا بیاں ہے، کہ جو تھا

کون سے دِن نئی قبریں نہیں اِس میں بنتیں
یہ خرابہ، وہی عبرت کا مکاں ہے، کہ جو تھا

بے خبرشوق سے میرے نہیں وہ نُورِ نِگاہ
قاصدِ اشک، شب و روز رَواں ہے کہ جو تھا

لیلتہ القدر کنایہ نہ شبِ وصل سے ہو؟
اِس کا افسانہ میانِ رَمَضاں ہے کہ جو تھا

دِین و دُنیا کا طلب گار ہنوز آتشؔ ہے
یہ گدا! سائلِ نقدِ دو جہاں ہے کہ جو تھا

خواجہ حیدر علی آتؔش
 

دائم

محفلین
اللہ اللہ.. کیا تیور ہیں غزل کے... اور شاہ جی! ویسے بھی آپ کا انتخاب واقعی کمال کا ہوتا ہے
 

دائم

محفلین
اللہ اللہ.. کیا تیور ہیں غزل کے... اور شاہ جی! ویسے بھی آپ کا انتخاب واقعی کمال کا ہوتا ہے
 
Top