نیرنگ خیال

لائبریرین
آج کل سوشل میڈیا پر ایک اداکار کی موت کی خبر زیر موضوع ہے۔ خبر جس کو گردونواح نے مہینہ بھر محسوس نہ کیا۔ اس سے قبل ایک فنکار کی خود کشی کی خبر نے بھی اہل درد کے دلوں پر دستک دی تھی۔ دلوں میں درد جاگ اٹھا، چند دنوں تک نوحہ گری جاری رہی، تحاریر، کیفیت ناموں میں دکھ بیان ہوئے، ہمدردی کی پیشکشیں سجیں۔ "جسے بات کرنی ہو، ہم حاضر ہیں، ہم موجود ہیں، خود کو تنہا مت سمجھیے۔"جیسی صدائیں ہر دیوار پر بصورت اشتہار نظر آئیں۔ مگر وقت جو سب صداؤں پر مٹی ڈال دیتا ہے، اس درد پر بھی زمانے کی گرد ڈال گیا۔ وہ پیشکش جو جذبہ تھی، محض ایک جملے میں ڈھل کر رہ گئی، ایسے جیسے دیوار پرکوئی پرانا اشتہار موجود ہو، تاہم اوپر موجود نئے اشتہار کی وجہ سے پڑھا نہ جا رہا ہو۔

ان سب کے بیچ جو ایک بہت اہم بات رہ گئی، جس پر بات ہونی چاہیے، وہ یہ کہ ہمارے لوگ تنہا ہونے اور تنہا رہ جانے کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تنہا ہونا ایک کیفیت ہے، جو لمحاتی ہو سکتی ہے۔ یہ کیفیت کبھی شعوری انتخاب اور کبھی مجبوری کی صورت ہوتی ہے۔ جیسے کوئی از خود گوشہ نشینی اختیار کر لے، یا اپنی آواز خود سننے کو تنہائی اختیار کرے۔ مگر تنہا رہ جانا، ایک نتیجہ ہے، ایک جبر ہے۔ جو نفسانفسی کے ہنگام میں جنم لیتا ہے۔ جب آوازیں ہوں، مگر سننے والا کوئی نہ ہو، جب چاہت ہو لیکن کوئی ساتھ نہ ہو۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تنہا ہونا اختیاری ہے اور تنہا رہ جانا معاشرے کا آپ سے بےخبر ہوجانا ہے۔ اس میں آپ تقدیر اور حالات وغیرہ کو بھی موردِ الزام ٹھہرانا چاہیں، تو مضائقہ نہیں۔ ہر وہ دل جو خود احتسابی، اور اپنے روز و شب پر گہری نظر ثانی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، کنارہ کشی اور کنارے پر رہ جانے کا فرق بخوبی سمجھتا ہے۔ جب ہجوم بےمعنی اور پاس کھڑے چہرے اجنبی ہوجائیں، تو ایسی تنہائی سکون کی جگہ زخم ہوجاتی ہے۔ ایک ایسے خلا میں ڈھل جاتی ہے، جو دوسروں کی موجودگی سے نہیں قبولیت سے بھرتا ہے۔ تنہائی کی ان دونوں حدوں پر زندگی رواں دواں رہتی ہے، کبھی سکون کی صورت اور کبھی دوسروں کی چپ کی اذیت میں۔ میں کوئی صوفی یا درویش نہیں، نہ ہی کوئی سالک ہوں کہ یہ کہوں، اختیاری تنہائی رب سے قربت کی سیڑھی ہے اور نفس سنوارنے کی سعی، جبکہ تنہا رہ جانے والے کی مثال قافلے میں پیچھے رہ جانے والے جیسی ہے، جو اپنا رہبر ہی کھو دے۔ لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب ہم کسی کی آواز کے منتظر ہوں، اور وہ نہ سنائی دے۔ جب دل کسی کے ربط کا متلاشی ہو اور رابطے کی کوئی صورت نہ ہو، تو وہ تنہائی نہیں بےخبری ہوتی ہے۔ اور یہ بےخبری یقینی طور پر آزمائش ہے نعمت نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حادثات و سانحات جو ہمارے ضمیر پر ضرب لگاتے ہیں، جو کچھ پل ہی سہی، ہمیں جھنجھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ نوحہ گری؟ درد بھرے کیفیت نامے یا تحاریر میں آفت رسیدہ سے ہمدردی کا اظہار؟ اس بات کا جواب یقیناً انکار کی صورت ہے۔ یا شاید نوحہ گری، اور درد کا اظہار بھی ضروری ہے مگر یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ ان کمزور لمحوں میں کوئی بھی کسی اجنبی سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے کہ آفت رسیدہ کے گرد بھی آوازوں کا ایک ہجوم ہے۔ ایک ایسا شور جو اُس کے شور سے کوئی تال میل نہیں رکھتا۔ لوگ تو ہیں، مگر بس میں سوار مسافروں کی طرح۔ ان کو کسی کے حال و قال سے کچھ دلچسپی نہیں ہے۔ سو اگر ہمیں ایسے مدقوق تنہا رہ جانے والے چہرے نظر آتے ہیں، تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو اپنے وجود کو دوسروں سے جوڑنے کا فن سکھائیں۔ خود بھی سیکھیں۔ ایسے رشتے بنانے سکھائیں جو موجودگی سے بالاتر ہو کر فہم و احساس کے ہوں۔ وقتاً فوقتاً کسی دل کی دہلیز پر دستک دیں، "میں ہوں" کہنا ہی تنہا رہ جانے کے خلاف پہلی دعا ہے۔ پہلی کاوش ہے۔ نکاسی کے راستے خود بھی سیکھیں، دوسروں کو بھی سکھائیں۔ سب سے اہم اور ضروری یہ ہے کہ اپنے بچوں کو بالخصوص اندرونی گھٹن کی نکاسی کے راستے سکھائیں۔ آج وہ آپ کو ہنستے کھیلتے نظر آ رہے ہیں، بہت اچھی بات ہے، لیکن ان کی گھٹن کے علاج ان کو سکھائیں، بتائیں۔تخریب کی یہ کیفیت اندرونی ہوتی ہے اور دیگر لوگ اکثر اس سے بےخبر رہتے ہیں، سو تنہا رہ جانے والا صرف اسی صورت بچ سکتا ہے، اگر وہ خود اپنی بےکسی سے واقف ہو۔ اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کے کسی بہتر طریقے سے واقف ہو۔لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ آپ بھی اپنی گونا گوں مصروفیات میں بھی اردگرد سے بےخبر نہ رہیں، اور جہاں کسی کو پیچھے ہٹتا، تنہا رہ جاتا محسوس کریں، رتی بھر بےپروائی سے کام نہ لیں، بلکہ اس کی بہتری کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ صرف تحاریر میں نوحہ گری سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ وقت اس پر مسائل کی موٹی تہہ جما دے گا، انتشار کی دھول ڈال دے گا۔

نیرنگ خیال
10 جولائی 2025
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
آج کل سوشل میڈیا پر ایک اداکار کی موت کی خبر زیر موضوع ہے۔ خبر جس کو گردونواح نے مہینہ بھر محسوس نہ کیا۔ اس سے قبل ایک فنکار کی خود کشی کی خبر نے بھی اہل درد کے دلوں پر دستک دی تھی۔ دلوں میں درد جاگ اٹھا، چند دنوں تک نوحہ گری جاری رہی، تحاریر، کیفیت ناموں میں دکھ بیان ہوئے، ہمدردی کی پیشکشیں سجیں۔ "جسے بات کرنی ہو، ہم حاضر ہیں، ہم موجود ہیں، خود کو تنہا مت سمجھیے۔"جیسی صدائیں ہر دیوار پر بصورت اشتہار نظر آئیں۔ مگر وقت جو سب صداؤں پر مٹی ڈال دیتا ہے، اس درد پر بھی زمانے کی گرد ڈال گیا۔ وہ پیشکش جو جذبہ تھی، محض ایک جملے میں ڈھل کر رہ گئی، ایسے جیسے دیوار پرکوئی پرانا اشتہار موجود ہو، تاہم اوپر موجود نئے اشتہار کی وجہ سے پڑھا نہ جا رہا ہو۔

ان سب کے بیچ جو ایک بہت اہم بات رہ گئی، جس پر بات ہونی چاہیے، وہ یہ کہ ہمارے لوگ تنہا ہونے اور تنہا رہ جانے کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تنہا ہونا ایک کیفیت ہے، جو لمحاتی ہو سکتی ہے۔ یہ کیفیت کبھی شعوری انتخاب اور کبھی مجبوری کی صورت ہوتی ہے۔ جیسے کوئی از خود گوشہ نشینی اختیار کر لے، یا اپنی آواز خود سننے کو تنہائی اختیار کرے۔ مگر تنہا رہ جانا، ایک نتیجہ ہے، ایک جبر ہے۔ جو نفسانفسی کے ہنگام میں جنم لیتا ہے۔ جب آوازیں ہوں، مگر سننے والا کوئی نہ ہو، جب چاہت ہو لیکن کوئی ساتھ نہ ہو۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تنہا ہونا اختیاری ہے اور تنہا رہ جانا معاشرے کا آپ سے بےخبر ہوجانا ہے۔ اس میں آپ تقدیر اور حالات وغیرہ کو بھی موردِ الزام ٹھہرانا چاہیں، تو مضائقہ نہیں۔ ہر وہ دل جو خود احتسابی، اور اپنے روز و شب پر گہری نظر ثانی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، کنارہ کشی اور کنارے پر رہ جانے کا فرق بخوبی سمجھتا ہے۔ جب ہجوم بےمعنی اور پاس کھڑے چہرے اجنبی ہوجائیں، تو ایسی تنہائی سکون کی جگہ زخم ہوجاتی ہے۔ ایک ایسے خلا میں ڈھل جاتی ہے، جو دوسروں کی موجودگی سے نہیں قبولیت سے بھرتا ہے۔ تنہائی کی ان دونوں حدوں پر زندگی رواں دواں رہتی ہے، کبھی سکون کی صورت اور کبھی دوسروں کی چپ کی اذیت میں۔ میں کوئی صوفی یا درویش نہیں، نہ ہی کوئی سالک ہوں کہ یہ کہوں، اختیاری تنہائی رب سے قربت کی سیڑھی ہے اور نفس سنوارنے کی سعی، جبکہ تنہا رہ جانے والے کی مثال قافلے میں پیچھے رہ جانے والے جیسی ہے، جو اپنا رہبر ہی کھو دے۔ لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب ہم کسی کی آواز کے منتظر ہوں، اور وہ نہ سنائی دے۔ جب دل کسی کے ربط کا متلاشی ہو اور رابطے کی کوئی صورت نہ ہو، تو وہ تنہائی نہیں بےخبری ہوتی ہے۔ اور یہ بےخبری یقینی طور پر آزمائش ہے نعمت نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حادثات و سانحات جو ہمارے ضمیر پر ضرب لگاتے ہیں، جو کچھ پل ہی سہی، ہمیں جھنجھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ نوحہ گری؟ درد بھرے کیفیت نامے یا تحاریر میں آفت رسیدہ سے ہمدردی کا اظہار؟ اس بات کا جواب یقیناً انکار کی صورت ہے۔ یا شاید نوحہ گری، اور درد کا اظہار بھی ضروری ہے مگر یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ ان کمزور لمحوں میں کوئی بھی کسی اجنبی سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے کہ آفت رسیدہ کے گرد بھی آوازوں کا ایک ہجوم ہے۔ ایک ایسا شور جو اُس کے شور سے کوئی تال میل نہیں رکھتا۔ لوگ تو ہیں، مگر بس میں سوار مسافروں کی طرح۔ ان کو کسی کے حال و قال سے کچھ دلچسپی نہیں ہے۔ سو اگر ہمیں ایسے مدقوق تنہا رہ جانے والے چہرے نظر آتے ہیں، تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو اپنے وجود کو دوسروں سے جوڑنے کا فن سکھائیں۔ خود بھی سیکھیں۔ ایسے رشتے بنانے سکھائیں جو موجودگی سے بالاتر ہو کر فہم و احساس کے ہوں۔ وقتاً فوقتاً کسی دل کی دہلیز پر دستک دیں، "میں ہوں" کہنا ہی تنہا رہ جانے کے خلاف پہلی دعا ہے۔ پہلی کاوش ہے۔ نکاسی کے راستے خود بھی سیکھیں، دوسروں کو بھی سکھائیں۔ سب سے اہم اور ضروری یہ ہے کہ اپنے بچوں کو بالخصوص اندرونی گھٹن کی نکاسی کے راستے سکھائیں۔ آج وہ آپ کو ہنستے کھیلتے نظر آ رہے ہیں، بہت اچھی بات ہے، لیکن ان کی گھٹن کے علاج ان کو سکھائیں، بتائیں۔تخریب کی یہ کیفیت اندرونی ہوتی ہے اور دیگر لوگ اکثر اس سے بےخبر رہتے ہیں، سو تنہا رہ جانے والا صرف اسی صورت بچ سکتا ہے، اگر وہ خود اپنی بےکسی سے واقف ہو۔ اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کے کسی بہتر طریقے سے واقف ہو۔لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ آپ بھی اپنی گونا گوں مصروفیات میں بھی اردگرد سے بےخبر نہ رہیں، اور جہاں کسی کو پیچھے ہٹتا، تنہا رہ جاتا محسوس کریں، رتی بھر بےپروائی سے کام نہ لیں، بلکہ اس کی بہتری کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ صرف تحاریر میں نوحہ گری سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ وقت اس پر مسائل کی موٹی تہہ جما دے گا، انتشار کی دھول ڈال دے گا۔

نیرنگ خیال
10 جولائی 2025
بہترین تحریر۔
میں آپ کی تحریر سے مکمل طور پر متفق ہوں۔
 
نین بھائی، آپ کے قلم کے کمالات کا تو ایک زمانہ معترف ہے اور یہاں بھی آپ نے دریا کو گویا کوزے میں بند کر دیا۔ اس موضوع پر بہت جامع لکھا ہے اور بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کر لیا ہے۔ میرے پاس لکھنے کے لیے آپ جیسی خوش اسلوبی نہیں، مگر یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے اردگرد کے انسانوں کے لیے زندگی کو سہل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جس کو سننے کے لیے کانوں کی حاجت ہو، سہارے کے لیے کاندھے کی یا گر کر اٹھنے کے لیے ہاتھ تھامنے کی، ان سب کے لیے اپنی ذات کو اتنا نارمل رکھنا چاہیے کہ آپ سے مدد مانگنی آسان ہو۔ اسی طرح انسان کو خود بھی اپنا سرکل ترتیب دینا چاہیے جہاں اس کو مدد مانگنی بری نہ لگے، جہاں اپنی ذات کی نمائندگی کے لیے کسی اور زبان میں ترجمہ نہ کرنا پڑے۔

اس میں ایک اور بات کا اضافہ کروں گی جس نکتے پر کوئی بھی بات نہیں کرتا کہ جب کسی کو اپنے غم میں شریک کیا ہے یا کسی سے مدد مانگی ہے تو پھر اسے مدد کرنے بھی دو۔ میرے اردگرد بہت سی مثالیں ہیں کہ میں دیکھتی ہوں لوگ ایک جگہ ساری عمر اٹکے رہنا چاہتے ہیں (اگرچہ وہ یہ اختیاری طور پر نہیں کرتے) لیکن پھر بھی وہ یہ غیر اختیاری سہی مگر بہت کرتے ہیں! یعنی کسی نے مجھ سے مدد لی اور میں نے حتی الوسع سب کچھ اسے اٹھانے کے لیے کِیا لیکن اس نے خود کو اٹھانے میں جو حصہ ڈالنا تھا وہ نہ ڈالا اور وہیں گرا رہا اور بار بار یہی سائیکل چلتا رہا، ایک مدت بعد بھی اسی شے میں پھنسا ہے جس میں پہلے تھا۔ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور انسان کی زندگی میں ہر وقت چیلنجز رہتے ہی ہیں، چاہے وہ اپگریڈ ہوتے رہیں ، ہر فیز آف لائف کے اپنے مسائل ہیں۔ کچھ ایسے چیلنجز بھی ہوتے ہیں جو ساری زندگی حل نہیں بھی ہوتے، وہ ہمارا امتحان ہی ہیں کہ زندگی انہی کنڈیشنز میں کیسے گزاریں۔ لیکن ہم اپنی ذات کو ان سے اوپر اٹھانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں؟ چاہے خود یا چاہے بیرونی عوامل کی مدد سے۔

میں یہ تبصرہ پڑھنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ نا صرف یہ کہ ہم نے دنیا میں مہربانی کی فضا قائم کر کے اسے رہنے کے قابل جگہ بنانا ہے، بلکہ خود اپنے آپ پر بھی کام کرنا ہے اور اگر کوئی چیز ہمارے اردگرد قطعا نہیں بدل سکتی تو پھر وہاں خود کو بدلنے کا محل ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ کسی کے مطابق خود کو بدلیں، مگر اتنا تو بدلیں کہ ان حالات کو ساری عمر بلیم کرتے رہنے کی بجائے، ان میں جو ہم کر سکتے ہیں اس اپنے کِیے کی ذمہ داری تو لیں!
 

یاز

محفلین
بہت شاندار تحریر ہے بھائی نیرنگ خیال ۔
تنہا ہونے اور تنہا رہ جانے میں فرق کی بابت بالکل درست توجہ دلائی آپ نے۔
تنہا ہونا تو وہی ہے جس کی بابت غلام مصطفیٰ تبسم صاحب فرما گئے ہیں کہ:
سو بار چمن مہکا ، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق ، دل کی وہی تنہائی

جبکہ تنہا رہ جانا تو محرومی کا استعارہ ہے، اور اس دنیا میں تمام خوف اور غم کسی نہ کسی محرومی سے متعلق ہی ہیں۔ اسی وساطت سے ہمارا یہ ماننا ہے کہ زندگی میں سب سے مقدم چیز انسان اور انسانی تعلقات کو سمجھا جانا چاہیے ۔ سب سے بہترین سرمایہ کاری انسانی تعلقات پہ سرمایہ کاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، نہ ہی کوئی فزیکل سرمایہ درکار ہے۔ اگر کچھ درکار ہے تو فقط کچھ وقت۔
ایک مشہور قول بھی یاد آتا ہے کہ "غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہے"۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ کی تحریر کی ایک ایک سطر سے متفق ہوں ۔ اس سے اچھے انداز میں اس سانحے کے پس منظر اور وجوہات کو بیان نہیں کیا جاسکتا ۔
میں ایک دوسرے زاویے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی طرف سے بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تنہائی ورثے میں نہیں ملتی۔ انسان اکثر خود اسے ڈھونڈ کر اپنی قسمت کی زینت بنا ڈالتا ہے ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
نین بھائی، آپ کے قلم کے کمالات کا تو ایک زمانہ معترف ہے اور یہاں بھی آپ نے دریا کو گویا کوزے میں بند کر دیا۔ اس موضوع پر بہت جامع لکھا ہے اور بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کر لیا ہے۔ میرے پاس لکھنے کے لیے آپ جیسی خوش اسلوبی نہیں، مگر یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے اردگرد کے انسانوں کے لیے زندگی کو سہل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور جس کو سننے کے لیے کانوں کی حاجت ہو، سہارے کے لیے کاندھے کی یا گر کر اٹھنے کے لیے ہاتھ تھامنے کی، ان سب کے لیے اپنی ذات کو اتنا نارمل رکھنا چاہیے کہ آپ سے مدد مانگنی آسان ہو۔ اسی طرح انسان کو خود بھی اپنا سرکل ترتیب دینا چاہیے جہاں اس کو مدد مانگنی بری نہ لگے، جہاں اپنی ذات کی نمائندگی کے لیے کسی اور زبان میں ترجمہ نہ کرنا پڑے۔

اس میں ایک اور بات کا اضافہ کروں گی جس نکتے پر کوئی بھی بات نہیں کرتا کہ جب کسی کو اپنے غم میں شریک کیا ہے یا کسی سے مدد مانگی ہے تو پھر اسے مدد کرنے بھی دو۔ میرے اردگرد بہت سی مثالیں ہیں کہ میں دیکھتی ہوں لوگ ایک جگہ ساری عمر اٹکے رہنا چاہتے ہیں (اگرچہ وہ یہ اختیاری طور پر نہیں کرتے) لیکن پھر بھی وہ یہ غیر اختیاری سہی مگر بہت کرتے ہیں! یعنی کسی نے مجھ سے مدد لی اور میں نے حتی الوسع سب کچھ اسے اٹھانے کے لیے کِیا لیکن اس نے خود کو اٹھانے میں جو حصہ ڈالنا تھا وہ نہ ڈالا اور وہیں گرا رہا اور بار بار یہی سائیکل چلتا رہا، ایک مدت بعد بھی اسی شے میں پھنسا ہے جس میں پہلے تھا۔ دنیا امتحان کی جگہ ہے اور انسان کی زندگی میں ہر وقت چیلنجز رہتے ہی ہیں، چاہے وہ اپگریڈ ہوتے رہیں ، ہر فیز آف لائف کے اپنے مسائل ہیں۔ کچھ ایسے چیلنجز بھی ہوتے ہیں جو ساری زندگی حل نہیں بھی ہوتے، وہ ہمارا امتحان ہی ہیں کہ زندگی انہی کنڈیشنز میں کیسے گزاریں۔ لیکن ہم اپنی ذات کو ان سے اوپر اٹھانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں؟ چاہے خود یا چاہے بیرونی عوامل کی مدد سے۔

میں یہ تبصرہ پڑھنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ نا صرف یہ کہ ہم نے دنیا میں مہربانی کی فضا قائم کر کے اسے رہنے کے قابل جگہ بنانا ہے، بلکہ خود اپنے آپ پر بھی کام کرنا ہے اور اگر کوئی چیز ہمارے اردگرد قطعا نہیں بدل سکتی تو پھر وہاں خود کو بدلنے کا محل ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ کسی کے مطابق خود کو بدلیں، مگر اتنا تو بدلیں کہ ان حالات کو ساری عمر بلیم کرتے رہنے کی بجائے، ان میں جو ہم کر سکتے ہیں اس اپنے کِیے کی ذمہ داری تو لیں!
یہ اتفاق پہلی سطر کے لیے نہیں تھا۔۔۔۔ آپ نے بہت اچھے نکات بیان کیے۔۔۔ یہ جو اٹکنے کی بات کی ہے۔۔ یا ضد بنا لینے کی۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں عرصہ قبل میں نے کچھ لکھا تھا۔۔۔۔ ڈھکا چھپا سا۔۔۔۔

انسان بھی گورکھ دھندہ ہے۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے۔ اس کو پلے سے باندھ لیتا ہے۔ اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ یہ وہ لکڑیاں ہیں جو اگر سیدھی ہیں تو صرف اس لیے کہ ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔ اور اگر الٹی ہیں تو ایک خوف ایک ڈر نے گھیر رکھا ہے کہ ہائے سیدھی کیسے ہو؟ ہماری زندگی میں بارہا ایسے لمحات آتے ہیں جن میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ جو معاملہ الٹا ہے اس کو سدھار لیں۔ اس کو سلجھا لیں۔ اور اس کوشش میں ہم بالکل بھول جاتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے بوجھ ہی سے الٹا ہے۔ اگر اس میں سے ہم اپنا آپ نکال لیں تو سب سیدھا ہوجائے گا۔لیکن ہم اس پکڑ کو چھوڑنا نہیں چاہتے، اس کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ذہن پر یہ بات حاوی ہوتی ہے کہ ہم اس چیز سے بندھے ہیں یا پھر یہ جو سب معاملات ہیں یہ ہماری وجہ سے ہی چل رہے ہیں۔ ہم نہ ہوں گے تو جانے کیا حالات ہوں۔ یہ پکڑ یہ بندھن اندرونی ہے۔ اس کو کسی نے باہر سے آکر نہیں کھولنا۔ اس کو ہم نے خود ہی کھولنا ہے۔ اچھا اس پکڑ سے مجھے ایک دلچسپ تاریخی واقعہ یاد آگیا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت شاندار تحریر ہے بھائی نیرنگ خیال ۔
تنہا ہونے اور تنہا رہ جانے میں فرق کی بابت بالکل درست توجہ دلائی آپ نے۔
تنہا ہونا تو وہی ہے جس کی بابت غلام مصطفیٰ تبسم صاحب فرما گئے ہیں کہ:
سو بار چمن مہکا ، سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق ، دل کی وہی تنہائی

جبکہ تنہا رہ جانا تو محرومی کا استعارہ ہے، اور اس دنیا میں تمام خوف اور غم کسی نہ کسی محرومی سے متعلق ہی ہیں۔ اسی وساطت سے ہمارا یہ ماننا ہے کہ زندگی میں سب سے مقدم چیز انسان اور انسانی تعلقات کو سمجھا جانا چاہیے ۔ سب سے بہترین سرمایہ کاری انسانی تعلقات پہ سرمایہ کاری ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کوئی ایسا مشکل کام نہیں ہے، نہ ہی کوئی فزیکل سرمایہ درکار ہے۔ اگر کچھ درکار ہے تو فقط کچھ وقت۔
ایک مشہور قول بھی یاد آتا ہے کہ "غریب وہ ہے جس کا کوئی دوست نہیں ہے"۔
سراپا سپاس ہوں یاز بھائی۔۔۔۔۔ ایک بات جو آپ نے آخر میں لکھی۔۔۔۔ غریب والی۔۔۔۔ میرا چھوٹا بھائی کہتا ہے کہ غریب وہ ہے جو ان لوگوں سے ملنے پر مجبور ہے جن سے وہ ملنا نہیں چاہتا۔۔۔ ۔اور امیر وہ ہے جو ان لوگوں سے ملتا ہے جن سے وہ ملنا چاہتا ہے۔ مجھے اس کا ورژن بہت دلچسپ لگتا ہے۔۔۔۔ اور اس کے ورژن کی روشنی میں اپنا آپ بہت غریب۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں ایک دوسرے زاویے کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی طرف سے بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تنہائی ورثے میں نہیں ملتی۔ انسان اکثر خود اسے ڈھونڈ کر اپنی قسمت کی زینت بنا ڈالتا ہے ۔
یہ ایک بہت اہم بات ہے۔۔۔۔ اور توجہ کی متقاضی ہے۔۔۔ جیسے ہو ویسے نظر نہ آؤ۔۔۔ یا مادیت پرستی کے دباؤ تلے پستے انسان اس کا شکار کسی قدر آسانی سے بنتے ہیں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب نین بھائی!

آپ نے نا صرف مسئلے کی نشاندہی کی بلکہ اس کا ممکنہ حل بھی پیش کیا۔ رہا تنہائی کا موضوع تو وہ بڑا گھمبیر ہے، کچھ کہنے سے عاجز ہوں۔

آپ جب بھی کوئی تحریر محفل میں لگاتے ہیں، تو میں یہی سوچتا ہوں کہ آپ جیسے بندے کو لکھتے رہنا چاہیے۔ بہت سوں کو اس سے حوصلہ ملے گا۔

شاد آباد رہیے۔
 
میں آجکل سوشل میڈیا اور ٹی وی تقریبا نہ ہونے کے برابر دیکھ رہی ہوں، اس لیے کئی خبروں کی زیادہ خبر نہیں بھی ہو رہی۔ تاہم یہ جو تازہ ترین واقعہ اداکارہ کی موت کا ہے، اس میں صرف خلوت گزینی ہی قابل غور نہیں، البتہ یونیورسل ضرور ہے۔ اس سے بھی زیادہ پھر سے مجھے اپنے معاشرے کی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کی بُوسب سے پہلے محسوس ہوئی اور اس کی لاش لینے سے انکار کرنے والے پھر سے اس کے گھر کے مرد تھے!

مجھے بہت بار یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ چیزیں یہاں نارمل ہو چکی ہیں اور نارمل چیزوں پہ بار بار وہی بات کیوں کرنی، عورت کے ساتھ امتیازی سلوک ہے تو ہے، ساری دنیا کو پتا ہے۔ لوگ اپنے گنہگار سے بھی گنہگار بیٹے کو سینے سے لگاتے ہیں اور اپنا راستہ خود چننے والی بیٹی کی لاش تک نہیں لیتے یا پھر خود ہی مار دیتے ہیں۔ اس کی اتنی چیدہ چیدہ مثالیں اور بڑے بڑے نام ہیں کہ کون کون سا نام لوں اور پھر سے تکلیف اٹھاؤں۔
لیکن میں یہ کہوں گی کہ اگر کچھ نہیں کر سکتے، اور ذرا بھی طاقت نہیں کہ ظالم کا ہاتھ روک سکیں تو بس اتنا کر لیں کہ ان چیزوں کو نارمل نہ سمجھیں۔ ان پہ چونکنا نہ چھوڑیں، انہیں دل میں تو برا جانیں۔ عورت ویسی ہی انسان ہے جیسا کہ مرد۔ یا پھر ہو سکتا ہے انسانیت میں اس سے چند ہاتھ بڑھ کر ہی ہو، کہ اس نےیہ سارے مرد پیدا کر رکھے ہیں اور ہر معاشرے میں اس کے جرائم کی شرح مردوں سے کئی گنا کم رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ عورت اور مرد میں ہمیشہ یہ امتیاز زمانے نے کِیا اور یہ میری اور آپ کی رہتی زندگی تک جاری رہنا ہے، تب بھی۔ اس زنجیر کی کوئی کڑی آپ اور مَیں نہ بنیں، نہ سوچ میں، نہ اظہار خیال میں، نہ عمل میں، نہ فیصلوں میں۔ باقی سب کی قبر اپنی اپنی۔مگر ہیں تو سب انسان ہی، زنجیر توڑنا بہت جی گردے کا کام ہے مگر کم سے کم یہ وہ شے ہے جو اگرتقریبا ہر انسان کرنے لگ جائے تو ایسا کچھ ہو ہی نہ۔

لیکن عجیب بات ہے، ہم دنیا کو نہیں بدل سکتے، یہ آٹھ بلین انسانوں نے کہا!
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
میں آجکل سوشل میڈیا اور ٹی وی تقریبا نہ ہونے کے برابر دیکھ رہی ہوں، اس لیے کئی خبروں کی زیادہ خبر نہیں بھی ہو رہی۔ تاہم یہ جو تازہ ترین واقعہ اداکارہ کی موت کا ہے، اس میں صرف خلوت گزینی ہی قابل غور نہیں، البتہ یونیورسل ضرور ہے۔ اس سے بھی زیادہ پھر سے مجھے اپنے معاشرے کی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کی بُوسب سے پہلے محسوس ہوئی اور اس کی لاش لینے سے انکار کرنے والے پھر سے اس کے گھر کے مرد تھے!
مجھے بہت بار یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ چیزیں یہاں نارمل ہو چکی ہیں اور نارمل چیزوں پہ بار بار وہی بات کیوں کرنی، عورت ہے ساتھ امتیازی سلوک ہے تو ہے، ساری دنیا کو پتا ہے۔ لوگ اپنے گنہگار سے بھی گنہگار بیٹے کو سینے سے لگاتے ہیں اور اپنا راستہ خود چننے والی بیٹی کی لاش تک نہیں لیتے یا پھر خود ہی مار دیتے ہیں۔ اس کی اتنی چیدہ چیدہ مثالیں اور بڑے بڑے نام ہیں کہ کون کون سا نام لوں اور پھر سے تکلیف اٹھاؤں۔
لیکن میں یہ کہوں گی کہ اگر کچھ نہیں کر سکتے، اور ذرا بھی طاقت نہیں کہ ظالم کا ہاتھ روک سکیں تو بس اتنا کر لیں کہ ان چیزوں کو نارمل نہ سمجھیں۔ ان پہ چونکنا نہ چھوڑیں، انہیں دل میں تو برا جانیں۔ عورت ویسی ہی انسان ہے جیسا کہ مرد۔ یا پھر ہو سکتا ہے انسانیت میں اس سے چند ہاتھ بڑھ کر ہی ہو، کہ اس نےیہ سارے مرد پیدا کر رکھے ہیں اور ہر معاشرے میں اس کے جرائم کی شرح مردوں سے کئی گنا کم رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ عورت اور مرد میں ہمیشہ یہ امتیاز زمانے نے کِیا اور یہ میری اور آپ کی رہتی زندگی تک جاری رہنا ہے، تب بھی۔ اس زنجیر کی کوئی کڑی آپ اور مَیں نہ بنیں، نہ سوچ میں، نہ اظہار خیال میں، نہ عمل میں، نہ فیصلوں میں۔ باقی سب کی قبر اپنی اپنی۔مگر ہیں تو سب انسان ہی، زنجیر توڑنا بہت جی گردے کا کام ہے مگر کم سے کم یہ وہ شے ہے جو اگرتقریبا ہر انسان کرنے لگ جائے تو ایسا کچھ ہو ہی نہ۔

لیکن عجیب بات ہے، ہم دنیا کو نہیں بدل سکتے، یہ آٹھ بلین انسانوں نے کہا!
آپ نے جو لکھا وہ ایک حساس دل کی آواز ہے۔ جو ہر دردناک حقیقت پر بےحس ہونے سے انکار کرتی ہے۔ یہ بجا طور پر قابلِ قدر ہے کہ ہم اس نوع کے واقعات پر چونکنے کی صلاحیت کھونا نہیں چاہتے۔ اگر ہم دل میں برا جاننا چھوڑ دیں تو بے حسی عام ہوسکتی ہے اور پھر معاشرے کا شعور مکمل زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
تاہم، میں یہاں ایک اور پہلو پیش کرنا چاہتا ہوں ،جیسا کہ میں نے نیرنگ خیال کی تحریر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ایک دوسرے زاویئے سے بھی اس واقعہ کو دیکھ رہا ہوں ۔ نہ بطور انکار، نہ بطور تردید، بلکہ بطور تجزیہ اور صرف تجزیہ۔
حادثے لمحوں میں نہیں ہوتے۔ وہ عشروں، بلکہ صدیوں کی تہذیبی، نفسیاتی اور معاشرتی تشکیل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، وہ صدیوں سے اجتماعی طور پر سسٹم زدہ ہے۔ یہ سسٹم صرف عورت پر جبر نہیں کرتا ،بلکہ مرد پر بھی ایک خاص کردار، روّیے اور توقعات مسلط کرتا ہے۔ جہاں عورت کو چُپ، صبر، قربانی کا آئکن بنایا گیا، تو وہاں مرد کو غیرت، خاندان کی عزت، سرد مہری کا پیکر بنا دیا گیا ہے۔
وہ مرد جو بیٹی کی لاش لینے سے انکار کرتا ہے ۔ وہ اپنی جگہ ظالم سہی ، لیکن وہ بھی ایک مخصوص نفسیاتی اور سماجی ذہن سازی کی پیداوار ہے۔ ہم صرف عورت کی مظلومیت کو دیکھتے ہیں، مگر شاید یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ظلم ایک پوری مشینری ہے جس میں کہیں جہالت ہے، کہیں ناکامیوں کا بوجھ، کہیں بدنامی کا خوف، کہیں مذہب یا روایت اور کہیں رسم و رواج کی ناقص تفہیم ہے۔
اور جو خواتین شو بزنس کا انتخاب کرتی ہے ۔وہ بھی سادہ فیصلہ نہیں ہوتا۔ اکثر یہ بغاوت ہوتی ہے، گھر کے بے سکون ماحول سے، کسی ناکامی یا تضحیک سے، یا صرف ایک خواب کی تعبیر کے لیے۔ لیکن اس شعبے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہاں چمک دمک سے زیادہ دھند اور گرد و جالا ہے۔ یہاں تعلقات کی حیثیت ،وقتی جسم کی قیمت میں تولی جاتی ہے، اور عورت کی عزت اکثر پہلے قدم پر نیلام ہو جاتی ہے۔ پھر جب شہرت ڈھلتی ہے، تو تنہائی، محرومی اور ندامت کے سائے طویل ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ صبا قمر کو میں نے اس معاملے میں کہیں بہت تلخ ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔
میں کسی صورت مرحومہ کے کردار یا فیصلوں پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ صرف مرد کی زیادتی نہیں، بلکہ پورے معاشرتی نظام کا بگاڑ ہے - جس میں ہم سب (خواہ مرد ہوں یا عورت) کہیں نہ کہیں شریکِ جرم بھی ہیں اور متاثر بھی واقع ہوئے ہیں ۔
اس لیے ہمیں فقط مرد بمقابلہ عورت کے بیانیے سے ہٹ کر سسٹم بمقابلہ انسانیت کے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔ ظلم صرف صنفی نہیں ہوتا ، فکری اور ادارتی بھی ہے۔ ہم اگر واقعی زنجیر توڑنا چاہتے ہیں تو پہلے زنجیر کی ماہیت کو سمجھنا ہوگا ۔ ورنہ ہم پرانی زنجیریں توڑنے کی جستجو میں اور مذید نئی زنجیریں گھڑتے رہیں گے۔
آپ نے لکھا،ہم دنیا کو نہیں بدل سکتے، یہ آٹھ بلین انسانوں نے کہا!
تو شاید جواب یہ ہے،ہم خود کو تو بدل سکتے ہیں ! بس یہی کافی ہے کہ ایک کڑی ہم نہ بنیں۔یہی شعور، یہی بیداری، تبدیلی کا پہلا قدم ہے۔ اور مکمل بیداری ، مکمل شعور اپنے ارتقاء کے عمل سے گذرتا ہے ۔ اور اپنا پورا وقت لیتا ہے ۔
 

سیما علی

لائبریرین
نین بھیا !!!!یہ تحریر آپ جیسے حساس انسان کے قلم ہی سے تخلیق ہو سکتی ہے
تنہا ہوناُاور تنہا رہ جانا کے فرق کو سمجھناُبہت ضروری ہے ۔۔کیونکہ جو تکلیف معاشرے میں رویوں کی بے حسی کے سبب آتی ہے
ہماری اقدار ہمیں اپنے رشتوں سے محبت اور اخلاص سے پیش آنے کی تاکید کرتی ہیں۔ لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں رشتوں میں منفی رویوں کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔یہی چیز انتہائی تکلیف دہ ہے ۔۔۔
آپ نے اسباب بھی بتائے اور تدارک بھی
؀
گھپ اندھیروں کا تدارک بھی ضروری ٹھہرا
شب کے پہلو سے ہیں تارے بھی نکلنے والے
اللہ تعالیٰ کے حضور دعاہے کہ آپکو ہمیشہ آسانیاں بانٹنے والا بنائے ۔۔
جیتے رہیے شاد و آباد رہیے آمین
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہ یہ سب کچھ صرف مرد کی زیادتی نہیں، بلکہ پورے معاشرتی نظام کا بگاڑ ہے - جس میں ہم سب (خواہ مرد ہوں یا عورت) کہیں نہ کہیں شریکِ جرم بھی ہیں اور متاثر بھی واقع ہوئے ہیں
آپکی بات سے ہم اتفاق کرتے ہیں ۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کے حقوق کی بات کرتا ہے تو اس میں بیلینس نہیں ہوتا پلڑا خواتین کی طرف جھک جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم خواتین کے حقوق کے بارے بات کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ مرد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ بھی اس معاشرے میں ویسے ہی پس رہے ہیں جیسے کہ خواتین۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ پوری دنیا میں ہے ۔
 
آپ نے جو لکھا وہ ایک حساس دل کی آواز ہے۔ جو ہر دردناک حقیقت پر بےحس ہونے سے انکار کرتی ہے۔ یہ بجا طور پر قابلِ قدر ہے کہ ہم اس نوع کے واقعات پر چونکنے کی صلاحیت کھونا نہیں چاہتے۔ اگر ہم دل میں برا جاننا چھوڑ دیں تو بے حسی عام ہوسکتی ہے اور پھر معاشرے کا شعور مکمل زوال پذیر ہو جاتا ہے۔
تاہم، میں یہاں ایک اور پہلو پیش کرنا چاہتا ہوں ،جیسا کہ میں نے نیرنگ خیال کی تحریر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ایک دوسرے زاویئے سے بھی اس واقعہ کو دیکھ رہا ہوں ۔ نہ بطور انکار، نہ بطور تردید، بلکہ بطور تجزیہ اور صرف تجزیہ۔
حادثے لمحوں میں نہیں ہوتے۔ وہ عشروں، بلکہ صدیوں کی تہذیبی، نفسیاتی اور معاشرتی تشکیل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، وہ صدیوں سے اجتماعی طور پر سسٹم زدہ ہے۔ یہ سسٹم صرف عورت پر جبر نہیں کرتا ،بلکہ مرد پر بھی ایک خاص کردار، روّیے اور توقعات مسلط کرتا ہے۔ جہاں عورت کو چُپ، صبر، قربانی کا آئکن بنایا گیا، تو وہاں مرد کو غیرت، خاندان کی عزت، سرد مہری کا پیکر بنا دیا گیا ہے۔
وہ مرد جو بیٹی کی لاش لینے سے انکار کرتا ہے ۔ وہ اپنی جگہ ظالم سہی ، لیکن وہ بھی ایک مخصوص نفسیاتی اور سماجی ذہن سازی کی پیداوار ہے۔ ہم صرف عورت کی مظلومیت کو دیکھتے ہیں، مگر شاید یہ نہیں دیکھتے کہ یہ ظلم ایک پوری مشینری ہے جس میں کہیں جہالت ہے، کہیں ناکامیوں کا بوجھ، کہیں بدنامی کا خوف، کہیں مذہب یا روایت اور کہیں رسم و رواج کی ناقص تفہیم ہے۔
اور جو خواتین شو بزنس کا انتخاب کرتی ہے ۔وہ بھی سادہ فیصلہ نہیں ہوتا۔ اکثر یہ بغاوت ہوتی ہے، گھر کے بے سکون ماحول سے، کسی ناکامی یا تضحیک سے، یا صرف ایک خواب کی تعبیر کے لیے۔ لیکن اس شعبے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہاں چمک دمک سے زیادہ دھند اور گرد و جالا ہے۔ یہاں تعلقات کی حیثیت ،وقتی جسم کی قیمت میں تولی جاتی ہے، اور عورت کی عزت اکثر پہلے قدم پر نیلام ہو جاتی ہے۔ پھر جب شہرت ڈھلتی ہے، تو تنہائی، محرومی اور ندامت کے سائے طویل ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ صبا قمر کو میں نے اس معاملے میں کہیں بہت تلخ ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے ۔
میں کسی صورت مرحومہ کے کردار یا فیصلوں پر تنقید نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سب کچھ صرف مرد کی زیادتی نہیں، بلکہ پورے معاشرتی نظام کا بگاڑ ہے - جس میں ہم سب (خواہ مرد ہوں یا عورت) کہیں نہ کہیں شریکِ جرم بھی ہیں اور متاثر بھی واقع ہوئے ہیں ۔
اس لیے ہمیں فقط مرد بمقابلہ عورت کے بیانیے سے ہٹ کر سسٹم بمقابلہ انسانیت کے زاویے سے دیکھنا ہوگا۔ ظلم صرف صنفی نہیں ہوتا ، فکری اور ادارتی بھی ہے۔ ہم اگر واقعی زنجیر توڑنا چاہتے ہیں تو پہلے زنجیر کی ماہیت کو سمجھنا ہوگا ۔ ورنہ ہم پرانی زنجیریں توڑنے کی جستجو میں اور مذید نئی زنجیریں گھڑتے رہیں گے۔
آپ نے لکھا،ہم دنیا کو نہیں بدل سکتے، یہ آٹھ بلین انسانوں نے کہا!
تو شاید جواب یہ ہے،ہم خود کو تو بدل سکتے ہیں ! بس یہی کافی ہے کہ ایک کڑی ہم نہ بنیں۔یہی شعور، یہی بیداری، تبدیلی کا پہلا قدم ہے۔ اور مکمل بیداری ، مکمل شعور اپنے ارتقاء کے عمل سے گذرتا ہے ۔ اور اپنا پورا وقت لیتا ہے ۔
یونہی ذہن میں آیا کہ اس پر بھی کچھ بات کروں۔ میں خود روز مرہ زندگی میں زیادہ تر حقوق مرداں کی پرچارک وغیرہ کے طور پر جانی جاتی ہوں اور اس کی وجہ بھی وہی ہے جو حقوق نسواں والی ہے۔ یعنی کچھ معاملات میں عورتوں کے بنیادی حقوق سلب ہو رہے ہیں اور کچھ معاملات میں مردوں کے۔ میں مردوں کے خلاف نہیں ہوں، بلکہ اتفاق سے لڑکیوں میں پلنے بڑھنے کی بجائے معاملہ ذرا الٹ ہی رہا ہے کیونکہ گھر میں میں اور امی ہی خواتین تھے، باقی سارے تقریبا چھے آدمی اور اب سسرال میں بھی کچھ ملتی جلتی پروپورشن ہے۔ مردوں پر بھی چند معاملات میں معاشرے کا ہاتھ ضرورت سے زیادہ سخت ہے اور عورتیں بھی ان معاملات میں خواہ مخواہ کا امتحان بننا پسند کرتی ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات ہونی تو نہیں چاہیے۔ ففٹی ففٹی آئیڈئیلی نہیں بھی ہو سکتا تو بھی دونوں جانب سے کنٹریبیوشن ہونی چاہیے ہر معاملے میں، کسی میں ایک صنف 70/30 ہو گی اور کسی میں دوسری۔۔۔میں مردوں کے خلاف کبھی بھی نہیں رہی اور ان کے جوتے میں پاؤں رکھنے کی کوشش بھی ہمیشہ رہی ہے تاکہ چیزوں کو بہتر اور مربوط انداز میں سمجھا جا سکے۔ بلکہ ہمارے شریک حیات کے مطابق یہی سٹیٹمنٹ رہی ہے کہ میں ایکسٹریم سپورٹیو اور انڈرسٹینڈنگ وغیرہ ہوں اور اس کے پیچھے بھی میری ذاتی آئیڈیل بھی وہی رہی ہیں۔ بس جہاں کہیں بات حقوق نسواں کی ہو رہی ہوتی ہے وہاں بھی میرا پوائنٹ یہی ہے اور جہاں حقوق مرداں کی ہو رہی ہو وہاں بھی یہی، کہ ایک دوسرے کی گردن سے بوٹ ہٹا دو۔ یعنی کسی ایک کے ارمانوں کے ملبے پہ دوسرے کا محل وغیرہ کھڑا نہ کرو، دونوں کو متوازی اور بطریق احسن چلنا چاہیےاور عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ مردوں کو سمجھیں تبھی تو ٹیم ورک ممکن ہے۔ اگر آپ بس اپنا راگ الاپتے رہیں گے تو پھر تو ایک پیج پہ آنا تقریبا ناممکن ہے۔ بس ایک بات کا اضافہ کروں گی کہ امتحانات بے شک عورت یا مرد کسی کے بھی کم یا زیادہ نہیں ہیں، بلکہ مرد تو اکثر اظہار بھی کم کر پاتے ہیں مگر انہیں بہت ساری چیزوں نے پیس رکھا ہوتا ہے، مگر ایک بات میں ڈیٹا کلئیر ہے کہ یہ مسائل کی تقریبا برابری مسائل کی نوعیت میں عدم توازن کا شکار ہے۔ یعنی عورتیں مردوں کے ہاتھوں مر رہی ہیں یا ایکسٹریم ابیوز کا شکار ہو رہی ہیں (آف کورس وہ سب مرد نہیں مگر کرائم کے لیے ہمیشہ چھوٹا طبقہ ہی ہوتا ہے جو بڑا امپیکٹ کری ایٹ کر جاتا ہے)، جب کہ عورتوں نے جن معاملات میں مردوں کی گردن پہ بوٹ وغیرہ رکھا ہوا ہے وہ مرنے سے تعلق کم ہی رکھتے ہیں بلکہ کھل کے جینے کی باتیں ہیں۔ سو میرے مشاہدے میں عورت پر زد و کوب کا ہر نیا واقعہ عورتوں میں مزید سے مزید عدم تحفظ کی لہر لا رہا ہے گویا کہ وہ کسی جگہ محفوظ نہیں اور ان پر زد و کوب والے بھی زیادہ تر ان کے اپنے ہی ہوتے ہیں، اس بارے میں شاید ڈیٹا بھی کچھ اکٹھا کیا تھا اور اپنے بلاگ پہ تھوڑا بہت لکھا تھا۔ میں مرد یا عورت کے ساتھ یا خلاف نہیں، ظلم کے خلاف ہوں۔ جہاں عورتیں غلط کر رہی ہوتی ہیں یا میں خود غلط ہوتی ہوں اسے ماننے یا سدھارنے میں بحیثیت عورت کوئی عار نہیں سمجھتی۔
کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن بس طبیعت عجیب سی ہے، اس لیے ملتے جلتے موضوع پر اپنےپہلے سے لکھےہوئے ایک اقتباس کی جانب اشارہ کر رہی ہوں اور مختصرا یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ لڑائی نہ میرے لیے مرد اور عورت کی لڑائی اور نہ حقیقتا اس کے محرکات ایسے ہیں۔ بہت سی عورتیں ظلم کا ساتھ دے رہی ہیں، بہت سے مرد عورتوں کے لیے آہنی سہارا بنے کھڑے ہیں۔ یہ لڑائی اگرچہ سسٹم کی ہی سہی مگر وہاں بھی ظالم کے منہ میں نوالے ڈالنے اور مظلوم کو دو لاتیں اور جڑنے کی ہے، یعنی سسٹم یہی کر رہا ہے۔ جہاں تک مردوں کی غیرت اور ایسے معاملات پہ کنڈیشننگ کی بات ہے تو یہ کہوں گی کہ کچھ چیزوں میں ہم کتنا بھی empathetic ہو جائیں، سامنے نظر آتے سورج کو آنکھیں میچ کے اندھیرا نہیں کہہ سکتے۔ بالکل ایسے ہی سامنے نظر آنے والے ہر سال کے اعداد و شمار سیدھے سبھاؤ یہ چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ ظلم کا شکار عورت زیادہ ہو رہی ہے اور اس کی جائز ضروریات اور شخصی آزادی میں بھی سسٹیمیٹک رکاوٹیں مرد سے زیادہ ہیں،شوبز تو بدنام زمانہ سہی، یہاں تو اپنی مرضی سے شادی کرنے یا صرف پسند کا اظہار کرنے والی عورتوں کے حالات میں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے دیکھے ہیں اور یہ دو ہزار پچیس ہے حضور جب چاند پہ پہنچے ہوئے بھی حضرت انسان کو ایک زمانہ بیت چکاہے۔ اس جملے پر اختتام کروں گی کہ برے کو برا کہنے کی بجائے برائی کو برائی کہنا زیادہ احسن ہے، چاہے وہ مرد کر رہا ہو یا عورت۔ لیکن مرد کر ہی زیادہ رہے ہیں، اب ہم کیسے آنکھیں بند کر کے عورتوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں کبھی زندہ اور کبھی مردہ۔ یہ سسٹم ہے بھی تو یہ کس کو serve کر رہا ہے؟ مرد مظلوم ہوگا ہی نہیں بلکہ ہے بھی، لیکن یہ دونوں چیزیں نہmagnitude میں same ہیں اور نہ ٹیلی نمبرز میں۔ اس لیے نیوٹرلائز کرنے کی ضرورت نہیں ، برائی برائی ہی رہے گی اور چین کا حصہ بنا ہر ذہن سازی کا ہرکارا شیطان کا چیلا ہی رہے گا!
 

سیما علی

لائبریرین
ور جو خواتین شو بزنس کا انتخاب کرتی ہے ۔وہ بھی سادہ فیصلہ نہیں ہوتا۔ اکثر یہ بغاوت ہوتی ہے، گھر کے بے سکون ماحول سے، کسی ناکامی یا تضحیک سے، یا صرف ایک خواب کی تعبیر کے لیے۔ لیکن اس شعبے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہاں چمک دمک سے زیادہ دھند اور گرد و جالا ہے۔ یہاں تعلقات کی حیثیت ،وقتی جسم کی قیمت میں تولی جاتی ہے، اور عورت کی عزت اکثر پہلے قدم پر نیلام ہو جاتی ہے۔ پھر جب شہرت ڈھلتی ہے، تو تنہائی، محرومی اور ندامت کے سائے طویل ہو جاتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں ۔ صبا قمر کو میں نے اس معاملے میں کہیں بہت تلخ ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے
درست ہے آپکی بات انکی چمکتی دمکتی زندگی اصل میں ایسی نہیں جیسی دکھائی دیتی ہے ۔۔اور یہ صرف پاکستان ہندوستان کی بات نہیں پوری دنیا میں شو بزنس کے لوگوں کی زندگی ایسی ہی ہے
ایک مرتبہ میں کسی نامور اداکار کا انڑویو سن رہی تھی جوکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں !!!جب اُن سے سوال کیا گیا کہ
آپ نے شو بزنس کو کیسا پایا تو جو جواب انہوں
دیا وہ یہ تھا کہ شو بز ایک دلدل ہے جو اس میں پھنس جائے اُسکا نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوب نین بھائی!

آپ نے نا صرف مسئلے کی نشاندہی کی بلکہ اس کا ممکنہ حل بھی پیش کیا۔ رہا تنہائی کا موضوع تو وہ بڑا گھمبیر ہے، کچھ کہنے سے عاجز ہوں۔

آپ جب بھی کوئی تحریر محفل میں لگاتے ہیں، تو میں یہی سوچتا ہوں کہ آپ جیسے بندے کو لکھتے رہنا چاہیے۔ بہت سوں کو اس سے حوصلہ ملے گا۔

شاد آباد رہیے۔
پتا نہیں آپ کا کیا مطلب ہوگا کہ آپ جیسے کو لکھتے رہنا چاہیے۔۔۔ باقی بھی سوچیں کہ یہ لکھ رہا ہے تو ہم بھی لکھ سکتے ہیں۔۔۔۔ ہوہوہوہوہوہو

شکریہ احمد بھائی۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں آجکل سوشل میڈیا اور ٹی وی تقریبا نہ ہونے کے برابر دیکھ رہی ہوں، اس لیے کئی خبروں کی زیادہ خبر نہیں بھی ہو رہی۔ تاہم یہ جو تازہ ترین واقعہ اداکارہ کی موت کا ہے، اس میں صرف خلوت گزینی ہی قابل غور نہیں، البتہ یونیورسل ضرور ہے۔ اس سے بھی زیادہ پھر سے مجھے اپنے معاشرے کی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کی بُوسب سے پہلے محسوس ہوئی اور اس کی لاش لینے سے انکار کرنے والے پھر سے اس کے گھر کے مرد تھے!

مجھے بہت بار یہ سننے کو ملتا ہے کہ یہ چیزیں یہاں نارمل ہو چکی ہیں اور نارمل چیزوں پہ بار بار وہی بات کیوں کرنی، عورت کے ساتھ امتیازی سلوک ہے تو ہے، ساری دنیا کو پتا ہے۔ لوگ اپنے گنہگار سے بھی گنہگار بیٹے کو سینے سے لگاتے ہیں اور اپنا راستہ خود چننے والی بیٹی کی لاش تک نہیں لیتے یا پھر خود ہی مار دیتے ہیں۔ اس کی اتنی چیدہ چیدہ مثالیں اور بڑے بڑے نام ہیں کہ کون کون سا نام لوں اور پھر سے تکلیف اٹھاؤں۔
لیکن میں یہ کہوں گی کہ اگر کچھ نہیں کر سکتے، اور ذرا بھی طاقت نہیں کہ ظالم کا ہاتھ روک سکیں تو بس اتنا کر لیں کہ ان چیزوں کو نارمل نہ سمجھیں۔ ان پہ چونکنا نہ چھوڑیں، انہیں دل میں تو برا جانیں۔ عورت ویسی ہی انسان ہے جیسا کہ مرد۔ یا پھر ہو سکتا ہے انسانیت میں اس سے چند ہاتھ بڑھ کر ہی ہو، کہ اس نےیہ سارے مرد پیدا کر رکھے ہیں اور ہر معاشرے میں اس کے جرائم کی شرح مردوں سے کئی گنا کم رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے کہ عورت اور مرد میں ہمیشہ یہ امتیاز زمانے نے کِیا اور یہ میری اور آپ کی رہتی زندگی تک جاری رہنا ہے، تب بھی۔ اس زنجیر کی کوئی کڑی آپ اور مَیں نہ بنیں، نہ سوچ میں، نہ اظہار خیال میں، نہ عمل میں، نہ فیصلوں میں۔ باقی سب کی قبر اپنی اپنی۔مگر ہیں تو سب انسان ہی، زنجیر توڑنا بہت جی گردے کا کام ہے مگر کم سے کم یہ وہ شے ہے جو اگرتقریبا ہر انسان کرنے لگ جائے تو ایسا کچھ ہو ہی نہ۔

لیکن عجیب بات ہے، ہم دنیا کو نہیں بدل سکتے، یہ آٹھ بلین انسانوں نے کہا!

کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن بس طبیعت عجیب سی ہے، اس لیے ملتے جلتے موضوع پر اپنےپہلے سے لکھےہوئے ایک اقتباس کی جانب اشارہ کر رہی ہوں اور مختصرا یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ لڑائی نہ میرے لیے مرد اور عورت کی لڑائی اور نہ حقیقتا اس کے محرکات ایسے ہیں۔ بہت سی عورتیں ظلم کا ساتھ دے رہی ہیں، بہت سے مرد عورتوں کے لیے آہنی سہارا بنے کھڑے ہیں۔ یہ لڑائی اگرچہ سسٹم کی ہی سہی مگر وہاں بھی ظالم کے منہ میں نوالے ڈالنے اور مظلوم کو دو لاتیں اور جڑنے کی ہے، یعنی سسٹم یہی کر رہا ہے۔ جہاں تک مردوں کی غیرت اور ایسے معاملات پہ کنڈیشننگ کی بات ہے تو یہ کہوں گی کہ کچھ چیزوں میں ہم کتنا بھی empathetic ہو جائیں، سامنے نظر آتے سورج کو آنکھیں میچ کے اندھیرا نہیں کہہ سکتے۔ بالکل ایسے ہی سامنے نظر آنے والے ہر سال کے اعداد و شمار سیدھے سبھاؤ یہ چیخ چیخ کر بتاتے ہیں کہ ظلم کا شکار عورت زیادہ ہو رہی ہے اور اس کی جائز ضروریات اور شخصی آزادی میں بھی سسٹیمیٹک رکاوٹیں مرد سے زیادہ ہیں،شوبز تو بدنام زمانہ سہی، یہاں تو اپنی مرضی سے شادی کرنے یا صرف پسند کا اظہار کرنے والی عورتوں کے حالات میں نے اپنی ان گنہگار آنکھوں سے دیکھے ہیں اور یہ دو ہزار پچیس ہے حضور جب چاند پہ پہنچے ہوئے بھی حضرت انسان کو ایک زمانہ بیت چکاہے۔ اس جملے پر اختتام کروں گی کہ برے کو برا کہنے کی بجائے برائی کو برائی کہنا زیادہ احسن ہے، چاہے وہ مرد کر رہا ہو یا عورت۔ لیکن مرد کر ہی زیادہ رہے ہیں، اب ہم کیسے آنکھیں بند کر کے عورتوں کی لاشیں اٹھاتے رہیں کبھی زندہ اور کبھی مردہ۔ یہ سسٹم ہے بھی تو یہ کس کو serve کر رہا ہے؟ مرد مظلوم ہوگا ہی نہیں بلکہ ہے بھی، لیکن یہ دونوں چیزیں نہmagnitude میں same ہیں اور نہ ٹیلی نمبرز میں۔ اس لیے نیوٹرلائز کرنے کی ضرورت نہیں ، برائی برائی ہی رہے گی اور چین کا حصہ بنا ہر ذہن سازی کا ہرکارا شیطان کا چیلا ہی رہے گا!
کچھ عرض کرتا ہوں۔
 
Top