نیرنگ خیال
لائبریرین
آج کل سوشل میڈیا پر ایک اداکار کی موت کی خبر زیر موضوع ہے۔ خبر جس کو گردونواح نے مہینہ بھر محسوس نہ کیا۔ اس سے قبل ایک فنکار کی خود کشی کی خبر نے بھی اہل درد کے دلوں پر دستک دی تھی۔ دلوں میں درد جاگ اٹھا، چند دنوں تک نوحہ گری جاری رہی، تحاریر، کیفیت ناموں میں دکھ بیان ہوئے، ہمدردی کی پیشکشیں سجیں۔ "جسے بات کرنی ہو، ہم حاضر ہیں، ہم موجود ہیں، خود کو تنہا مت سمجھیے۔"جیسی صدائیں ہر دیوار پر بصورت اشتہار نظر آئیں۔ مگر وقت جو سب صداؤں پر مٹی ڈال دیتا ہے، اس درد پر بھی زمانے کی گرد ڈال گیا۔ وہ پیشکش جو جذبہ تھی، محض ایک جملے میں ڈھل کر رہ گئی، ایسے جیسے دیوار پرکوئی پرانا اشتہار موجود ہو، تاہم اوپر موجود نئے اشتہار کی وجہ سے پڑھا نہ جا رہا ہو۔
ان سب کے بیچ جو ایک بہت اہم بات رہ گئی، جس پر بات ہونی چاہیے، وہ یہ کہ ہمارے لوگ تنہا ہونے اور تنہا رہ جانے کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تنہا ہونا ایک کیفیت ہے، جو لمحاتی ہو سکتی ہے۔ یہ کیفیت کبھی شعوری انتخاب اور کبھی مجبوری کی صورت ہوتی ہے۔ جیسے کوئی از خود گوشہ نشینی اختیار کر لے، یا اپنی آواز خود سننے کو تنہائی اختیار کرے۔ مگر تنہا رہ جانا، ایک نتیجہ ہے، ایک جبر ہے۔ جو نفسانفسی کے ہنگام میں جنم لیتا ہے۔ جب آوازیں ہوں، مگر سننے والا کوئی نہ ہو، جب چاہت ہو لیکن کوئی ساتھ نہ ہو۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تنہا ہونا اختیاری ہے اور تنہا رہ جانا معاشرے کا آپ سے بےخبر ہوجانا ہے۔ اس میں آپ تقدیر اور حالات وغیرہ کو بھی موردِ الزام ٹھہرانا چاہیں، تو مضائقہ نہیں۔ ہر وہ دل جو خود احتسابی، اور اپنے روز و شب پر گہری نظر ثانی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، کنارہ کشی اور کنارے پر رہ جانے کا فرق بخوبی سمجھتا ہے۔ جب ہجوم بےمعنی اور پاس کھڑے چہرے اجنبی ہوجائیں، تو ایسی تنہائی سکون کی جگہ زخم ہوجاتی ہے۔ ایک ایسے خلا میں ڈھل جاتی ہے، جو دوسروں کی موجودگی سے نہیں قبولیت سے بھرتا ہے۔ تنہائی کی ان دونوں حدوں پر زندگی رواں دواں رہتی ہے، کبھی سکون کی صورت اور کبھی دوسروں کی چپ کی اذیت میں۔ میں کوئی صوفی یا درویش نہیں، نہ ہی کوئی سالک ہوں کہ یہ کہوں، اختیاری تنہائی رب سے قربت کی سیڑھی ہے اور نفس سنوارنے کی سعی، جبکہ تنہا رہ جانے والے کی مثال قافلے میں پیچھے رہ جانے والے جیسی ہے، جو اپنا رہبر ہی کھو دے۔ لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب ہم کسی کی آواز کے منتظر ہوں، اور وہ نہ سنائی دے۔ جب دل کسی کے ربط کا متلاشی ہو اور رابطے کی کوئی صورت نہ ہو، تو وہ تنہائی نہیں بےخبری ہوتی ہے۔ اور یہ بےخبری یقینی طور پر آزمائش ہے نعمت نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حادثات و سانحات جو ہمارے ضمیر پر ضرب لگاتے ہیں، جو کچھ پل ہی سہی، ہمیں جھنجھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ نوحہ گری؟ درد بھرے کیفیت نامے یا تحاریر میں آفت رسیدہ سے ہمدردی کا اظہار؟ اس بات کا جواب یقیناً انکار کی صورت ہے۔ یا شاید نوحہ گری، اور درد کا اظہار بھی ضروری ہے مگر یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ ان کمزور لمحوں میں کوئی بھی کسی اجنبی سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے کہ آفت رسیدہ کے گرد بھی آوازوں کا ایک ہجوم ہے۔ ایک ایسا شور جو اُس کے شور سے کوئی تال میل نہیں رکھتا۔ لوگ تو ہیں، مگر بس میں سوار مسافروں کی طرح۔ ان کو کسی کے حال و قال سے کچھ دلچسپی نہیں ہے۔ سو اگر ہمیں ایسے مدقوق تنہا رہ جانے والے چہرے نظر آتے ہیں، تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو اپنے وجود کو دوسروں سے جوڑنے کا فن سکھائیں۔ خود بھی سیکھیں۔ ایسے رشتے بنانے سکھائیں جو موجودگی سے بالاتر ہو کر فہم و احساس کے ہوں۔ وقتاً فوقتاً کسی دل کی دہلیز پر دستک دیں، "میں ہوں" کہنا ہی تنہا رہ جانے کے خلاف پہلی دعا ہے۔ پہلی کاوش ہے۔ نکاسی کے راستے خود بھی سیکھیں، دوسروں کو بھی سکھائیں۔ سب سے اہم اور ضروری یہ ہے کہ اپنے بچوں کو بالخصوص اندرونی گھٹن کی نکاسی کے راستے سکھائیں۔ آج وہ آپ کو ہنستے کھیلتے نظر آ رہے ہیں، بہت اچھی بات ہے، لیکن ان کی گھٹن کے علاج ان کو سکھائیں، بتائیں۔تخریب کی یہ کیفیت اندرونی ہوتی ہے اور دیگر لوگ اکثر اس سے بےخبر رہتے ہیں، سو تنہا رہ جانے والا صرف اسی صورت بچ سکتا ہے، اگر وہ خود اپنی بےکسی سے واقف ہو۔ اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کے کسی بہتر طریقے سے واقف ہو۔لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ آپ بھی اپنی گونا گوں مصروفیات میں بھی اردگرد سے بےخبر نہ رہیں، اور جہاں کسی کو پیچھے ہٹتا، تنہا رہ جاتا محسوس کریں، رتی بھر بےپروائی سے کام نہ لیں، بلکہ اس کی بہتری کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ صرف تحاریر میں نوحہ گری سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ وقت اس پر مسائل کی موٹی تہہ جما دے گا، انتشار کی دھول ڈال دے گا۔
نیرنگ خیال
10 جولائی 2025
ان سب کے بیچ جو ایک بہت اہم بات رہ گئی، جس پر بات ہونی چاہیے، وہ یہ کہ ہمارے لوگ تنہا ہونے اور تنہا رہ جانے کے فرق کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ تنہا ہونا ایک کیفیت ہے، جو لمحاتی ہو سکتی ہے۔ یہ کیفیت کبھی شعوری انتخاب اور کبھی مجبوری کی صورت ہوتی ہے۔ جیسے کوئی از خود گوشہ نشینی اختیار کر لے، یا اپنی آواز خود سننے کو تنہائی اختیار کرے۔ مگر تنہا رہ جانا، ایک نتیجہ ہے، ایک جبر ہے۔ جو نفسانفسی کے ہنگام میں جنم لیتا ہے۔ جب آوازیں ہوں، مگر سننے والا کوئی نہ ہو، جب چاہت ہو لیکن کوئی ساتھ نہ ہو۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تنہا ہونا اختیاری ہے اور تنہا رہ جانا معاشرے کا آپ سے بےخبر ہوجانا ہے۔ اس میں آپ تقدیر اور حالات وغیرہ کو بھی موردِ الزام ٹھہرانا چاہیں، تو مضائقہ نہیں۔ ہر وہ دل جو خود احتسابی، اور اپنے روز و شب پر گہری نظر ثانی کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، کنارہ کشی اور کنارے پر رہ جانے کا فرق بخوبی سمجھتا ہے۔ جب ہجوم بےمعنی اور پاس کھڑے چہرے اجنبی ہوجائیں، تو ایسی تنہائی سکون کی جگہ زخم ہوجاتی ہے۔ ایک ایسے خلا میں ڈھل جاتی ہے، جو دوسروں کی موجودگی سے نہیں قبولیت سے بھرتا ہے۔ تنہائی کی ان دونوں حدوں پر زندگی رواں دواں رہتی ہے، کبھی سکون کی صورت اور کبھی دوسروں کی چپ کی اذیت میں۔ میں کوئی صوفی یا درویش نہیں، نہ ہی کوئی سالک ہوں کہ یہ کہوں، اختیاری تنہائی رب سے قربت کی سیڑھی ہے اور نفس سنوارنے کی سعی، جبکہ تنہا رہ جانے والے کی مثال قافلے میں پیچھے رہ جانے والے جیسی ہے، جو اپنا رہبر ہی کھو دے۔ لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ جب ہم کسی کی آواز کے منتظر ہوں، اور وہ نہ سنائی دے۔ جب دل کسی کے ربط کا متلاشی ہو اور رابطے کی کوئی صورت نہ ہو، تو وہ تنہائی نہیں بےخبری ہوتی ہے۔ اور یہ بےخبری یقینی طور پر آزمائش ہے نعمت نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے حادثات و سانحات جو ہمارے ضمیر پر ضرب لگاتے ہیں، جو کچھ پل ہی سہی، ہمیں جھنجھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ نوحہ گری؟ درد بھرے کیفیت نامے یا تحاریر میں آفت رسیدہ سے ہمدردی کا اظہار؟ اس بات کا جواب یقیناً انکار کی صورت ہے۔ یا شاید نوحہ گری، اور درد کا اظہار بھی ضروری ہے مگر یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ ان کمزور لمحوں میں کوئی بھی کسی اجنبی سے بات کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ ظاہر ہے کہ آفت رسیدہ کے گرد بھی آوازوں کا ایک ہجوم ہے۔ ایک ایسا شور جو اُس کے شور سے کوئی تال میل نہیں رکھتا۔ لوگ تو ہیں، مگر بس میں سوار مسافروں کی طرح۔ ان کو کسی کے حال و قال سے کچھ دلچسپی نہیں ہے۔ سو اگر ہمیں ایسے مدقوق تنہا رہ جانے والے چہرے نظر آتے ہیں، تو ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم ان کو اپنے وجود کو دوسروں سے جوڑنے کا فن سکھائیں۔ خود بھی سیکھیں۔ ایسے رشتے بنانے سکھائیں جو موجودگی سے بالاتر ہو کر فہم و احساس کے ہوں۔ وقتاً فوقتاً کسی دل کی دہلیز پر دستک دیں، "میں ہوں" کہنا ہی تنہا رہ جانے کے خلاف پہلی دعا ہے۔ پہلی کاوش ہے۔ نکاسی کے راستے خود بھی سیکھیں، دوسروں کو بھی سکھائیں۔ سب سے اہم اور ضروری یہ ہے کہ اپنے بچوں کو بالخصوص اندرونی گھٹن کی نکاسی کے راستے سکھائیں۔ آج وہ آپ کو ہنستے کھیلتے نظر آ رہے ہیں، بہت اچھی بات ہے، لیکن ان کی گھٹن کے علاج ان کو سکھائیں، بتائیں۔تخریب کی یہ کیفیت اندرونی ہوتی ہے اور دیگر لوگ اکثر اس سے بےخبر رہتے ہیں، سو تنہا رہ جانے والا صرف اسی صورت بچ سکتا ہے، اگر وہ خود اپنی بےکسی سے واقف ہو۔ اپنی اس کیفیت پر قابو پانے کے کسی بہتر طریقے سے واقف ہو۔لیکن اس سب کے ساتھ ساتھ آپ بھی اپنی گونا گوں مصروفیات میں بھی اردگرد سے بےخبر نہ رہیں، اور جہاں کسی کو پیچھے ہٹتا، تنہا رہ جاتا محسوس کریں، رتی بھر بےپروائی سے کام نہ لیں، بلکہ اس کی بہتری کے لیے اپنا ہاتھ بڑھانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔ صرف تحاریر میں نوحہ گری سے کچھ تبدیل نہیں ہوگا۔ وقت اس پر مسائل کی موٹی تہہ جما دے گا، انتشار کی دھول ڈال دے گا۔
نیرنگ خیال
10 جولائی 2025