بافقیہ

محفلین
خبر لیجے زباں بگڑی

خط و کتابت اور پتہ
تحریر: اطہر علی ہاشمی
امریکہ سے خوش فکر شاعر غالب عرفان نے پچھوایا ہے کہ کیا ’’کمرۂ امتحان‘‘ کی ترکیب درست ہے؟ ہم چونکہ بار بار کمرۂ امتحان میں داخل ہوچکے ہیں اس لیے ہمارے خیال میں تو یہ ترکیب صحیح ہے، یہ اور بات کہ کمرۂ امتحان میں کیسی گزری۔ اس استفسار سے توجہ ’’کمرہ‘‘ پر گئی کہ یہ کس زبان کا لفظ ہے۔ کمرے ہر گھر میں ہوتے ہیں، ایک، دو یا زیادہ۔ کبھی خیال ہی نہیں آیا کہ اس کا مطلب کیا ہوسکتا ہے۔ کسی کی کمر حد سے تجاوز کرجائے تو اسے مزاحاً کمرہ کہہ دیا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ دنیا بجائے خود کمرۂ امتحان ہے، لیکن کمرہ نہ تو عربی، فارسی کا ہے، نہ ہندی کا، بلکہ یہ پرتگالی زبان سے آیا ہے۔ پرتگالی بھی برعظیم کے کچھ ساحلی علاقوں پر قابض رہے ہیں اور اُن کو اپنا کمرہ بنالیا ہے۔ پرتگالی میں کمرہ بفتح اول و دوم ہے یعنی پہلے دونوں حروف پر زبر ہے۔ یہ کمرہ جب لاطینی زبان میں کھلا تو دوسرے حرف کو زیر کرلیا (بکسر دوم)۔ معنیٰ اس کے کوٹھڑی، حجرہ تھا۔ اردو میں بالفتح ہے بروزن شجرہ، ہمزہ۔ ’’آبِ حیات‘‘ میں محمد حسین آزاد نے اسے اطالوی زبان کا قرار دیا ہے۔ بہرحال اردو میں کمرے کا مطلب سب کو معلوم ہے۔ اس میں رہنے سے غرض خواہ پرتگالی ہو، اطالوی ہو یا لاطینی۔ کمرہ کرائے پر لینا، کمرہ چکانا، خلوت خانہ وغیرہ عام استعمال ہے۔ عربی میں اسے غرفہ کہتے ہیں۔ سحرؔ کا ایک شعر سن لیجیے:۔
چکائیں یوسف بازار چوک کے کمرے
بتوں کے رہنے کو ہے خانۂ خدا موجود
مزے کی بات یہ ہے کہ ’میز‘ بھی پرتگالی زبان کا لفظ ہے اور ’کرسی‘ عربی کا۔ اب رہی بات کمرۂ امتحان کی، تو اس میں ’امتحان‘ عربی کا ہے۔ اردو میں ایسی کئی تراکیب عام ہیں جن میں اور زبانوں کے الفاظ یکجا کرلیے جاتے ہیں۔ کمرۂ خواب بھی تو کہا جاتا ہے جب کہ ’خواب‘ (تلفظ ’خاب‘) فارسی کا ہے، لیکن خواب کہیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ ’کرسی نشین‘ کی ترکیب بھی عام ہے۔ عربی میں ’میدان‘ چوک، چوراہے کو کہتے ہیں، جب کہ اردو میں کسی کھلی جگہ کو کہتے ہیں۔ عرب ممالک میں چوراہوں کے نام رکھے جاتے ہیں جیسے میدان دراجہ، میدان فلک۔ کراچی میں مکّہ چوک ہے۔ ’میدان التحریر‘ یعنی آزادی چوک اور کراچی میں خلافت چوک۔ چوک، چوراہے اور بھی شہروں میں ہیں۔ فیصل آباد کا گھنٹہ گھر چوک تو بڑا مشہور ہے۔ میدان پر ایک شعر سن لیں:۔

میدانِ امتحاں ہے کہتے ہیں جس کو دنیا
اللہ اپنے بندوں کو آزما رہا ہے
دوسرے مصرع میں شکست ِناروا ہے، یعنی مصرع غلط جگہ سے ٹوٹ رہا ہے۔ اللہ اپنے بندوں۔ کو آزما رہا ہے۔ اصولاً کو، بندوں کے ساتھ آنا چاہیے۔ لیکن بندے، بندے میں بھی تو فرق ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال علامہ اقبالؒ کے مصرع میں بھی ملتی ہے ’’کہ ہزاروں سجدے تڑپ۔ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں‘‘۔
شاعری سے ہمارا کوئی علاقہ نہیں، تاہم جسارت کے ایک کالم نگار بابا الف نے دِلّی اور لکھنؤ میں ادبی تنازع کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ مصرع دِلّی والوں نے لکھنؤ والوں کو بھیجا کہ ’’رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں‘‘۔ اس پر لکھنؤ والوں نے گرہ لگائی ’’سنا ہے کہ دِلّی میں الّو کے پٹھے۔ رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں‘‘۔ اس واقعہ یا گرہ بندی کا کوئی تعلق دہلی اور لکھنؤ کی گروہ بندی سے نہیں ہے اور شعر بھی غلط ہے۔ اردو کے بڑے مشہور ہندو شاعر چکبست خفیفہ عدالت میں وکالت کرتے تھے۔ اب خفیفہ عدالت کی اصطلاح بھی متروک ہوگئی ہے۔ انگریزی میں اسے SMALL CAUSE COURT کہتے ہیں۔ اس عدالت میں خفیف یا چھوٹے معاملات پیش کیے جاتے تھے۔ عام طور پر زر نقد کے معاملات پیش ہوتے تھے۔ اب تو طرح طرح کی عدالتیں وجود میں آگئی ہیں جہاں سائلین خفیف ہوتے ہیں۔
بہرحال مذکورہ عدالت کے جج صاحب ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے اس مصرع پر گرہ لگانے کو کہا کہ ’’رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں‘‘۔ چکبست نے عدالت میں تو کچھ نہیں کہا کہ وکالت نامہ منسوخ نہ ہوجائے۔ باہر نکل کر انہوں نے گرہ لگا کر شعر مکمل کیا:۔

خفیفہ عدالت میں اُلّو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پَر باندھتے ہیں
اس واقعہ کا کوئی تعلق دِلّی اور لکھنؤ سے نہیں۔ دِلّی کے حوالے سے یہ واقعہ پہلے بھی کسی نے لکھا ہے۔ چکبست کا نام برج نارائن تھا (1882-1926)۔ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔
یہ تو خیر ادبی مغالطہ تھا۔ ایک تاریخی مغالطہ دیکھیے۔ ایک ٹی وی چینل کے اینکر نے بیان کیا کہ جب دشمن کی فوج ہندوستان کی سرحد تک پہنچ گئی تھی تو خفیہ کے اہلکاروں نے مغل بادشاہ محمد شاہ کو رپورٹ دی۔ اس پر بادشاہ نے کہا ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔ تاریخی مغالطے کے باوجود یہ تو ثابت ہوا کہ اینکر کو دِلّی دور است کے بارے میں کچھ نہ کچھ علم ضرور تھا۔ اس کی داد دینی چاہیے۔ لیکن اصل واقعہ یہ نہیں ہے۔ مغل دور سے پہلے کا دور ’سلاطین کا دور‘ کہلاتا ہے۔ فیروز شاہ تغلق کے دور میں دہلی میں شیخ نظام الدین تاج الاولیاکی عوامی مقبولیت اس درجے کو پہنچی ہوئی تھی کہ سلطان کے ہوا خواہوں نے اسے ڈرا دیا کہ وہ آسانی سے دِلّی کے تخت پر قبضہ کرسکتے ہیں، حالانکہ حضرت شیخ نے کسی دھرنے کا اعلان نہیں کیا تھا۔ بادشاہ اُس وقت کسی مہم پر جارہا تھا، چنانچہ شیخ نظام الدینؒ کو دھمکی دی کہ واپس آکر نمٹوں گا۔ جب وہ واپسی میں دہلی کے قریب پہنچا تو شیخ کے مریدوں نے مشورہ دیا کہ کسی اور شہر کی طرف نکل جائیں، بادشاہ دہلی کے قریب آگیا ہے۔ اس پر شیخ نظام الدین تاج الاولیا نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا ’’ہنوز دِلّی دور است‘‘۔ یہ جملہ مغل بادشاہ محمد شاہ کا نہیں جو ’رنگیلا‘ کے نام سے مشہور ہے۔ شیخ نظام الدین مغلوں کے دور سے پہلے کے ہیں۔ ان کے مرید امیر خسرو بھی کئی پہلوئوں سے مشہور ہیں۔ کرنا خدا کا یہ ہوا کہ دہلی سے باہر بادشاہ کے استقبال کے لیے اس کے ولی عہد محمد تغلق نے لکڑی کا ایک محل تعمیر کرایا تاکہ بادشاہ وہاں آرام کرکے دہلی میں داخل ہو۔ ہوا یوں کہ بادشاہ کے جرنیلوں نے یا خود محمد تغلق نے اپنے ہاتھی لکڑی کے محل کے ستونوں سے باندھ دیے۔ ہاتھیوں نے لکڑی کے محل کو تاش کے گھر کی طرح گرادیا اور بادشاہ اس میں دب کر ہلاک ہوگیا۔ دِلّی اس کے لیے دور ہی رہی۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس سانحہ میں محمد تغلق کا ہاتھ تھا جو بادشاہ بن گیا۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کا معاملہ کچھ اور ہے، وہ پھر کبھی سہی۔
خیر یہ تو لاعلمی کے واقعات تھے۔ جسارت میں شائع ہونے والے مضامین میں بھی کالم نگار عوام کو مونث بنانے سے باز نہیں آتے۔ اسی طرح ’’خط و کتابت اورپتہ‘‘ کا معاملہ ہے۔ بہت پڑھے لکھے لوگ بھی خط و کتابت لکھنے سے گریز نہیں کرتے، جب کہ ان حروف کے بیچ میں ’و‘ نہیں آتا۔ کراچی سے شائع ہونے والا موقر رسالہ ’’العلم‘‘ ہے۔ نام کے حساب سے اس کا کام علم کا فروغ ہے۔ اس کے بانی بڑی علمی و ادبی شخصیت سید الطاف علی بریلوی تھے۔ اس کے پہلے ہی صفحہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے ’’خط و کتابت کا پتہ‘‘۔ چلیے، ’پتا‘ کو ’’پتہ‘‘ لکھنا تو قبول کیا جاسکتا ہے، لیکن ستم یہ ہے کہ خط و کتابت کا پتہ پروفیسر ڈاکٹر سید وقار احمد رضوی کے نام ہے جو خود بھی ایک بڑے عالم اور ماہر لسانیات ہیں۔ ’معرکہ آراء‘ کی جگہ ’’معرکتہ الآرا‘‘ کی ترکیب بھی غلط ہے مگر لوگ اسے غلط العام قرار دے کر نظرانداز کردیتے ہیں، حالانکہ یہ غلط العوام ہے۔ اسی طرح کراچی سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ ہے۔ یہ علمی، دینی رسالہ ہے جس کے نگران بہت بڑے علماء ہیں۔ مگر اس میں بھی ’’خط و کتابت کا پتہ‘‘ موجود ہے۔ ایسے رسائل سے تو ہم دینی معلومات ہی نہیں زبان و بیان کا علم بھی حاصل کرتے ہیں۔ کیوں نہ لغت دیکھ لی جائے۔

- Bhatkallys.com - خبر لیجے زباں بگڑی۔۔۔ خط و کتابت اور پتہ۔۔۔ تحریر: اطہر علی ہاشمی - Bhatkallys.com
 

جاسمن

لائبریرین
یہ ایک زبردست سلسلہ ہے۔
جزاک اللّہ خیرا کثیرا۔
اگر اجازت دیں تو اپنی لڑی "لیے اور لئے" والی اسی میں ضم کروا دوں؟
 

سید عمران

محفلین
وفي تفسير القرطبي: والتهجد التيقظ بعد رقدة، فصار اسمًا للصلاة؛ لأنه ينتبه لها، فالتهجد القيام إلى الصلاة من النوم، قال: معناه الأسود، وعلقمة، وعبد الرحمن بن الأسود، وغيرهم، وروى إسماعيل بن إسحاق القاضي من حديث الحجاج بن عمر صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: أيحسب أحدكم إذا قام من الليل كله أنه قد تهجد! إنما التهجد الصلاة بعد رقدة ثم الصلاة بعد رقدة ثم الصلاة بعد رقدة. كذلك كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم. انتهى

وقال أيضًا : وقالت عائشة، وابن عباس أيضًا، ومجاهد: إنما الناشئة القيام بالليل بعد النوم. ومن قام أول الليل قبل النوم فما قام ناشئة. انتهى

آپ نے فرمادیا تو یقینا بات صحیح ہی ہوگی۔ اصل میں تھجد کہتے ہی ہیں رات میں سوکر اٹھنے کو یا اٹھ کر نماز پڑھنے کو۔
مزید:
عن ایاس بن معاویۃ المزنی رضی اللّٰہ عنہ ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال ما کان بعد صلاة العشاء فہو من اللیل(رواہ الطبرانی فی الکبیر، کذا فی الترغیب والترہیب، کتاب النوافل؍الترغیب فی قیام اللیل)

اگرچہ نصف شب کے بعد تہجد کی نماز پڑھنا افضل ہے۔ تاہم تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد شروع ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی آخر وقت میں نہ اٹھ سکے تو یوں ہاتھ پاؤں بھی ڈھیلے نہ ڈالے، اور عشاء کی دو سنتوں کے بعد وتر سے پہلے تہجد کی نیت سے کم از کم دو رکعات پڑھ لے۔
 

بافقیہ

محفلین
خبر لیجے زباں بگڑی

عربی کے تماشی کا تماشا
تحریر: اطہر ہاشمی​
آج کل ہر طرف ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ اور آج کل کیا، تماشا کب نہیں ہوتا! ایک شاعر نے اپنی غزل میں سوال بھی کیا ہے کہ ’’یہ تماشا ختم کب ہوگا؟‘‘ تماشا کو اخبارات ’’تماشہ‘‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ شاید اس طرح تماشے کی شدت یا اہمیت کم کرنا مقصود ہو۔ لیکن یہ تماشا عربی سے آیا ہے اور عربی میں یہ ’تماشی‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے باہم مل کر پیدل چلنا۔ فارسی والوں نے اسے تمنا، تقاضا کے مثل تماشا کرلیا۔ چونکہ سیر و تفریح کے مقام پر اکثر پا پیادہ ہی چلتے ہیں یا چلتے تھے بشرطیکہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نہ ہوں۔ بہرحال اس طرح عرفِ عام میں ’تماشا‘ تفریح اور شوق کے ساتھ دیکھنے کے معنی میں مستعمل ہوگیا۔ اہلِ فارس کے کلام میں تماشا دو معنوں میں مستعمل ہے۔ ایک ہنگامہ، دوسرے وہ چیز جس کو تعجب یا شوق سے دیکھیں۔ یہ مذکر ہے۔ دیدِ نظارہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے یہ محاورہ ’’بوڑھے منہ مہاسے، لوگ آئے تماشے‘‘۔ ’’لوگ آئے‘‘ کی جگہ ’’لوگ چلے‘‘ بھی سنا ہے۔ اس محاورے سے ظاہر ہے کہ بڑھاپے میں مہاسے نکلنا کوئی اچھی بات نہیں، گویا یہ جوانی کی علامت ہے۔ لیکن بڑھاپے کی عمر کا تعین کون کرے گا؟ مختلف ممالک میں بڑھاپے کی عمر مختلف ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اور کہاوت مردوں کے بارے میں ہے ’’ساٹھا، پاٹھا‘‘۔ یعنی مرد ساٹھ برس کی عمر میں بھی پاٹھا ہوتا ہے۔ ’پاٹھا‘ ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے ’’ہاتھی کا بچہ‘‘۔ مجازاً پہلوان یا پست قد اور فربہ شخص کو کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے رہے کہ ’پاٹھا‘ پٹھا سے ہے جیسے پٹھا فلاں۔ یہ پہلوانوں کی اصطلاح ہے۔ ویسے تو ایک پٹھا اُلّو کا بھی ہوتا ہے اور پٹھا عصب کو بھی کہتے ہیں جس کی جمع اعصاب ہے۔ یہ بھی پٹھے کہلاتے ہیں۔ سر کے دونوں طرف کے بال بھی پٹھے کہلاتے ہیں۔ پٹھا نوعمر، نوخیز، نوجوان کو بھی کہتے ہیں۔ داغؔ کا شعر ہے:۔

دیو غم سے لڑا ہے دل کشتی
یہ بھی پٹھا بلا کا نکلا ہے
اُلّو کے پٹھے کے لیے مزے کا شعر ہے:۔

پیامی تُو ہے کیا اُلّو کا پٹھا
سمجھتا ہی نہیں کچھ بات میری
پٹھا (’پ‘ پر زبر) اس موٹے کاغذ کو بھی کہتے ہیں جو کتاب کی حفاظت کے واسطے چڑھا دیتے ہیں۔ اور اگر پہلے حرف یعنی ’پ‘ پر پیش ہو تو اس کا مطلب پٹھ یا پیٹھ ہے۔ قسائی کی دکان پر لوگ پٹھ کا گوشت طلب کرتے ہیں، جلدی گل جاتا ہے۔ اسی سے ایک محاورہ ہے ’’پٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دینا‘‘۔ ویسے تو یہ اُس گھوڑے کے بارے میں ہے جو بدن چھونے نہ دے۔ لیکن یہ انسانوں کے لیے بھی مستعمل ہے، یعنی ایسا شخص جو پاس نہ پھٹکنے دے۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ ایک فریق تو مذاکرات کی بات کررہا ہے اور دوسرا پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں دھرنے دیتا۔
’فریق‘ پر یاد آیا کہ اخبارات عموماً کئی یا ’’تمام فریقین‘‘ لکھ رہے ہیں، جب کہ فریقین کا مطلب ہے دو فریق۔ عربی میں فرق کی صفت مشبہ، اردو میں ’فریق‘ مدعی، مدعا علیہ یا دو مقابلہ کرنے والے اشخاص یا گروہ میں سے ہر ایک کو کہتے ہیں، اور ’فریقین‘ کا مطلب ہے دونوں مقابل شخص یا گروہ۔ طرفین، مدعی اور مدعا علیہ۔ اگر دو سے زیادہ فریق ہوں تو اردو میں ’فریقوں‘ لکھنا بہتر ہوگا۔ مثلاً ’’تمام فریقوں‘‘۔
گزشتہ دنوں جسارت میں ایک خبر میں ’’دست راز‘‘ شائع ہوا۔ متعلقہ شخص سے پوچھا تو اُس نے وضاحت کی کہ ایک ایسا شخص جو کسی کے معاملات کو راز میں رکھے۔ ایسا لگتا ہے کہ جسارت کی یہ خبر قائداعظم اکیڈمی میں بھی توجہ سے پڑھی گئی۔ چنانچہ 21 اکتوبر کو اس معتبر ادارے سے جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس میں بھی ’’دست راز‘‘ موجود ہے۔ جسارت کی غلطی کو سند بنانے کا شکریہ۔ ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن بھی بہت معتبر رسالہ ہے جو سید مودودیؒ نے جاری کیا تھا اور پروفیسر خورشید احمد اس کے مدیر ہیں۔ لیکن اس میں بھی زبان و بیان کی غلطیاں دخل پارہی ہیں مثلاً ’’لمحہ فکریہ‘‘۔ صحیح ’لمحہ فکر‘ ہے۔
کراچی کے اخبارات میں کچھ عرصے سے ایک محلے کا نام ’’اے بی سینا‘‘ چھپ رہا ہے۔ دو، ایک بار سمجھایا بھی، لیکن ہمارے رپورٹر سمجھتے ہیں کہ یہ اے بی (A-B) ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسی کا مطلب معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی۔ یہ دراصل ایبے سینا ہے جو افریقا کا ایک شہر ہے۔ کسی کی نظم بھی ہے ’’ایبے سینا کی لاش‘‘۔ جب برعظیم پر انگریز مسلط تھے تو وہ مختلف ممالک میں موجود اپنے فوجی دستوں کو بلواتے اور ان کے لیے بنائی گئی بیرکوں میں رکھتے۔ یہ بیرکیں انہی شہروں سے منسوب ہوتیں جہاں سے یہ دستے آتے تھے۔ ان کی بیرکیں چوں کہ ایک لائن میں ہوتی تھیں اس لیے یہ علاقے لائنز ایریا کہلائے جن میں ایبے سینا لائنز، ٹینشیا لائنز، جیکب لائنز وغیرہ ہیں۔ ان بیرکوں میں اب بھی سندھ حکومت کے دفاتر ہیں۔ راولپنڈی میں ایک مشہور محلہ ہے ’’لال کڑتی‘‘۔ اس کی وجہ تسمیہ بھی وہی ہے جو ایبے سینا کی ہے۔ وہاں پر اسکاٹ لینڈ سے بلوائے گئے دستے متعین کیے گئے تھے۔ اسکاٹ لینڈ کے فوجی ایک لال رنگ کا گھگرا پہنتے ہیں، اس کو راولپنڈی والوں نے ’’لال کرتی‘‘ قرار دیا، اور کرتی کو جانے کیوں کڑتی کرلیا، حالانکہ راولپنڈی میں بھی کرتا اور کرتی کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کرتی خواتین کا پہناوا ہے یا تھا۔ بہرحال یہ علاقہ آج بھی لال کڑتی کہلاتا ہے۔ لیکن ’’ٹنچ بھاٹہ‘‘ کی وجۂ تسمیہ کیا ہے یہ کوئی پنڈی وال ہی بتائے گا۔ اسلام آباد یونیورسٹی میں ہمارے ایک استاد اسے پٹخ بھاٹہ پڑھتے تھے۔ وہاں جانے والی بسوں پر ٹنچ بھاٹہ لکھا ہوا ہوتا تھا، اب کا پتا نہیں کہ بسیں رہ گئیں یا نہیں۔
اخبارات میں عام طور پر ’’علیحدہ‘‘ لکھا جاتا ہے، اور ہمارے خیال میں یہ فصیح ہوچکا ہے۔ ویسے عربی میں اس کا املا ’علاحدہ‘ ہے۔ علیحدہ میں ’ل‘ پر کھڑا زبر تھا جیسے عیسیٰ اور موسیٰ۔ یہ کھڑا زبر عربی میں مقصورہ کہلاتا ہے۔ ادنیٰ اور اعلیٰ پر سے تو یہ الف مقصورہ غائب کر ہی دیا گیا ہے۔ اسی طرح علیٰحدہ سے بھی غائب ہوگا۔ تلفظ اس کا ’علیٰ حدہ‘ ہے۔ علیٰ اوپر اور حدہ کا مطلب جدا، تنہا، الگ۔ علیٰحدہ کرنا کا مطلب ہوا: جدا کرنا، الگ کرنا،موقوف کرنا۔ اس کا مطلب چھانٹنا اور انتخاب کرنا بھی ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ’’علٰے وجہ الکمال‘‘۔ یعنی کامل طور پر۔ علی الاعلان، علیٰ ہذا القیاس وغیرہ۔ خانہ کعبہ کے قریب جو قبرستان ہے اسے بہت سے لوگ جنت المعلیٰ کہتے ہیں، معلیٰ بروزن مصلیٰ۔ جب کہ اس کا تلفظ ’’معلا‘‘ ہے یعنی ’’مع۔ لا‘‘۔
اسی طرح اعلانیہ بھی بغیر الف کے ہے یعنی ’علانیہ‘۔ تاہم عربی میں لفظ’اعلان‘ ہے یعنی اظہار، ظاہر کرنا۔ ناسخؔ کا شعر ہے:۔

یہ زمیں اچھی نہ تھی ناسخ ولیکن فکر نے
حسن پیدا کردیا ہے نون کے اعلان سے
یہ شاید ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ اردو کا ’لیکن‘ عربی کا ’لاکن‘ ہے۔ یہاں بھی ’ل‘ پر کھڑا زبر ہے۔ قرآن کریم میں بھی ’’ولاکن‘‘ آیا ہے۔ لیکن اب اردو میں لیکن، اعلانیہ اور علیحدہ ہی درست سمجھا جائے گا۔
ٹی وی چینلز پر تلفظ میں زیر، زبر کی غلطیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کبھی ایسی غلطیاں انگریزی میں کرکے دکھائیں۔ مثال کے طور پر ہدایت میں پہلا حرف بالکسر ہے لیکن ماہرین اس پر زبر لگادیتے ہیں۔ ایک بڑے ادیب و شاعر کے بیٹے بھی زبان کی اصلاح کرتے ہیں لیکن وہ انتڑیاں کو انتڑ۔ یاں کہہ رہے تھے۔ اس میں نون ساکن ہے۔

- http://www.bhatkallys.com/ur/articles/muniri-57
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہمیشہ کی طرح مزیدار لیکن کچھ تامل ہوا پٹھے پر۔پٹھے اردو میں عصب نہیں بلکہ عضلات لے لیے استعمال ہوتا ہے ۔جنہیں انگریزی والے مسلز کہتے ہیں ۔ پٹھوں میں کھنچاؤ یعنی مسل پُل ہو جانا وغیرہ ۔-
دوسرے یہ کہ قصاب جو ہمارے ہاں حلال حیوانات کو بوٹیوں کی حالت میں لاکر متمدن معاشرے میں پیش کیے جانے کے لائق بنانے کی ذمہ داری اٹھا تا ہے،اسے اردو والے قصائی لکھتے ہیں، بولنے میں تو البتہ اردو میں س اوور ص کے مخارج کا تکلف کچھ خاص روا نہیں رکھا جاتا ۔ لیکن یہاں قسائی دیکھ کر ایسا لگا کہ قصاب کی اس قساوت قلبی پر زور دیا گیا ہے جو بیچارہ قصاب اپنی پیشہ ورانہ تقاضے کے سبب حیوانات کے باب میں اپنے قلب میں پیدا کرنے پر مجبور ہوتا ہے ۔
 
آخری تدوین:

بافقیہ

محفلین
خبر لیجے زباں بگڑی

بغیر حلوے کے پوری
تحریر: اطہر ہاشمی​

ہم کیا اور ہماری بساط کیا، بڑوں کی غلطیاں پکڑ کر بڑا بننے کا شوق ہے۔ لیکن بڑوں کی غلطی چھوٹوں کے لیے سند بن جاتی ہے۔ ہمارے کچھ ساتھی تواتر سے ’’خانہ پوری‘‘ لکھتے ہیں۔ نظر پڑ جائے تو ٹھیک کروا دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نوجوان ساتھی جمعہ 11 اکتوبر کا جسارت لے کر بیٹھ گئے جس کے ادارتی صفحے پر ایک بہت بڑے کالم نگار نے اپنے مضمون میں کئی جگہ ’’خانہ پوری‘‘ لکھا ہے، اور یہ کمپوزنگ کی غلطی بھی نہیں ہے۔ ان کے لکھے کو ’’مستند‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نوجوان ساتھیوں میں سے جب کوئی ’’خانہ پوری‘‘ لکھتا ہے تو ہم اُس سے یہ ضرور پوچھتے ہیں کہ پوری کے ساتھ حلوہ کہاں ہے، کہ پوری کے ذکر پر حلوہ ہی یاد آتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ ’پُری‘ ہے یعنی خانہ پُری۔ مطلب ہے نقشہ بھرنا، جگہ بھرنا وغیرہ۔ ’پُر‘ کرنے کا مطلب تو معلوم ہی ہے، اسی سے ’پُری‘ ہے (’پ‘ پر پیش، ورنہ پری بن کر اُڑ جائے گی)۔ فارم پُر کیے جاتے ہیں جن سے سبھی کو واسطہ پڑتا ہے۔ پُر پر خوامخواہ ایک شعر یاد آگیا:۔

پُر ہوں میں درد سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
ممکن ہے پہلے مصرع میں کچھ گڑبڑ ہو، کوئی صاحب چاہیں تو تصحیح کرسکتے ہیں۔ پُر، خالی کا مقابل ہے۔ چنانچہ جو خانے خالی ہوں انہیں پُر کیا جائے تو خانہ پُری کہلائے گا۔ بطور سابقہ پر کئی الفاظ میں شامل ہے جیسے پُرآب، پُرمغز، پُرپیچ، پُرشکم وغیرہ۔ ’پر‘ فارسی کا ہے اور خانہ بھی۔ ’پر‘ ہندی میں چمڑے کے اُس بڑے ڈول کو کہتے ہیں جس سے کنویں سے پانی نکال کر آبپاشی کی جائے۔
جسارت ہی کے ایک کالم نگار نے لکھا ہے ’’ورطۂ حیرت سے عدالتوں کو دیکھتا انصاف‘‘۔ صاف ظاہر ہے کہ موصوف کو ’ورطہ‘ کا مطلب نہیں معلوم، اور معلوم کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ بس جملے کو بارعب بنانے کے لیے ورطہ پکڑ لائے۔ ورطۂ حیرت تک تو صحیح ہے، لیکن ورطہ عدالتوں کو دیکھتا ہے نہ انصاف کو، بلکہ کسی کو بھی نہیں دیکھتا۔ ورطہ کا مطلب ہے ’’ہلاکت کا مقام، ایسی زمین جہاں رستہ نہ ہو‘‘۔ مجازاً بھنور یا پانی کے چکر اور گرداب کو کہتے ہیں۔ جو مستعمل ہے وہ ہے ’’ورطۂ حیرت میں ڈوب جانا‘‘۔ یعنی حیرت بھنور میں پھنس کر غوطے کھانے لگی۔
ایک بڑا دلچسپ املا شائع ہورہا ہے اور کچھ لوگوں کی زبان پر بھی ہے۔ یعنی املا اور تلفظ دونوں ہی مزے کے ہیں۔ یہ لفظ ہے ’ہراول‘۔ جسارت سمیت کچھ اخبارات میں اسے تشدید کے ساتھ لکھا جارہا ہے یعنی ہر۔ اوّل۔ کچھ ٹی وی چینلز پر بھی اسی طرح سننے میں آرہا ہے۔ صحافی بھائی سے پوچھو تو وہ بڑے وثوق سے کہتا ہے کہ یہ ’’ہر اوّل‘‘ ہے۔ چلیے اوّل تو سمجھ میں آگیا، پھر یہ ’’ہر‘‘ کیا ہے؟ کیا یہ انگریزی کا HER ہے یا سنسکرت کا ’’ہر‘‘۔ ہندوئوں کے نزدیک اس کا مطلب وشنو، کرشن، مہادیو وغیرہ ہے۔ ہربھجن کا مطلب ہے وشنو کی عبادت۔ یہ ’ہر‘ فارسی میں بھی ہے اور اردو میں عام ہے۔ جیسے ہر دفعہ، ہر بار، ہر گھڑی۔ اہلِ زبان یہ لفظ جمع کے ساتھ استعمال نہیں کرتے۔ جیسے ہر لوگ، ہر ممالک، یہ غلط ہے۔ ناسخؔ کا مصرع ہے
’’ہیں حسیں اور بھی پر تجھ میں ہے ہر بات نئی‘‘
احمد فراز کا شعر ہے:۔

بیاں ہر ایک سے دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی
بہرحال ’ہراول‘ ایک ہی لفظ ہے اور بغیر کسی تشدد کے (ہرا۔ول)۔ اس کا مطلب ہے ’’وہ تھوڑی فوج جو لشکر کے آگے چلے، لشکر کا پیش خیمہ۔
اسلام آباد سے شائع ہونے والا ’اخبار اردو‘ زبانِ اردو کے حوالے سے ایک معتبر رسالہ ہے جو ادارہ فروغِ قومی زبان کے تحت شائع ہوتا ہے اور فروغِ قومی زبان میں حصہ لے رہا ہے۔ اس شمارے (اگست 2019ء) میں دائود کیف کا مضمون ’’اردو اور بلوچی کاسنگم‘‘ نہ صرف دلچسپ ہے، بلکہ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ مقامی زبانوں کو بھی اردو میں شامل کیا جائے۔ اردو تو ویسے بھی مختلف زبانوں کی آمیزش سے وجود میں آئی ہے۔ عربی اور فارسی کے علاوہ اب تو انگریزی کے الفاظ بے تحاشا جگہ پارہے ہیں بلکہ ٹھونسے جارہے ہیں۔ انگریزی کے وہ الفاظ جو اردو میں اپنی جگہ بنا چکے ہیں اور اب زبان کا حصہ بن گئے ہیں اُن کو ترک کرنے یا متبادل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، تاہم جن انگریزی الفاظ کا متبادل اردو میں موجود ہے اسے ترک نہیں کرنا چاہیے۔ مثلاً ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ’’ممبران‘‘ بے معنی ہی نہیں مضحکہ خیز بھی ہے۔ جب کہ ’ارکان‘ یا ’اراکین‘ سامنے کے الفاظ ہیں۔ ممبران تو آدھا تیتر، آدھا بٹیر ہے۔ ’’جج‘‘ کا لفظ اردو میں قدم جما چکا ہے، لیکن اخبارات میں خاص طور پر سرخیوں میں اس کی جمع ’’ججز‘‘ لکھنا غلط ہے۔ اس کی جگہ ’ججوں‘ لکھنا چاہیے، اور ’جج‘ بھی بطور جمع استعمال ہوسکتا ہے۔ مثلاً ’’تمام جج حاضر تھے‘‘۔ ’’پارلیمنٹ‘‘ انگریزی کا لفظ ہے لیکن اسے ’پارلیمان‘ لکھا جائے تو یہ اپنا ہوجائے گا۔ دائود کیف نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’جہاں تک اردو ذخیرۂ الفاظ کا تعلق ہے تو اس میں علاقائی زبانوں کے الفاظ عام لوگوں کے میل جول کے قدرتی نتیجے ہی کی بدولت شامل ہورہے ہیں (اردو بھی اسی طرح وجود میں آئی ہے) جب کہ ان میں ہم آہنگی اور اردو کی لغت میں اضافے کی شعوری کوششیں کم ہی کی گئی ہیں۔ البتہ ایک بات ضرور حوصلہ افزا ہے کہ ملک کے مختلف گوشوں کے رہنے والے ادیبوں نے جب ایک مخصوص دیہی ماحول اور خالص علاقائی فضا سے عام معاشرتی موضوع چن کر کوئی افسانہ یا ناول لکھا ہے تو اس سے قومی کلچر کی تصویر میں خوبصورت رنگوں کا اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔‘‘
علاقائی زبانوں کو اردو میں شامل کرنے کا مشورہ صائب ہے اور اس پر بڑی حد تک عمل بھی ہورہا ہے، تاہم بلوچی زبان اس عمل سے دور ہے۔ البتہ پنجابی کے ادیب بلاتکلف پنجابی کے الفاظ اردو افسانوں، ناولوں میں شامل کررہے ہیں۔ ان میں نمایاں مثال اشفاق احمد (مرحوم) کی ہے۔ سندھ میں سندھی کے الفاظ بھی اردو بولنے والوں کی زبان پر چڑھ گئے ہیں، لیکن اس عمل سے کراچی بڑی حد تک باہر ہے۔ اصول یہ ہے کہ اقلیت اکثریت کی زبان استعمال کرتی ہے۔ کراچی میں عام لوگوں کا واسطہ زبان کی حد تک سندھی بولنے والوں سے نہیں پڑتا۔ پنگا، پھڈا وغیرہ جیسے الفاظ اردو میں باہر سے آئے ہیں۔ کس زبان سے؟ یہ واضح نہیں ہے۔ ’پھڈا‘ پنجاب میں نہیں بولا جاتا۔ یہ لفظ کراچی کا خاص ہے۔ ’گڑھا‘ کی جگہ ’کھڈا‘ بھی پنجاب سے آیا ہے۔ ملتان میں ایک محلہ ’’گوجر کھڈا‘‘ ہے، گوکہ اب تو ملتان میں بھی قدم قدم پر کھڈے ہیں۔
اسی شمارے میں جامعہ آزاد جموں و کشمیر کے اردو لیکچرار فرہاد احمد فگار کا مضمون ہے، جنہوں نے ’’غلط العوام الفاظ اور املا‘‘ کی نہر نکالی ہے۔ ان کا ایک نکتہ قابلِ توجہ ہے ’’قریب المرگ‘‘۔ اس کا استعمال عام ہے لیکن قواعد کی رو سے یہ ترکیب درست نہیں، کیونکہ قریب اور مرگ دونوں فارسی کے الفاظ ہیں، جب کہ ’’ال‘‘ عربی ہے، اس لیے اس کی ترکیب نہیں بنے گی۔ چنانچہ ’’قریب المرگ‘‘ کے بجائے ’قریبِ مرگ‘ یا پھر ’قریب الموت‘ ٹھیک اصطلاح ہوگی۔ لیکن کیا ’قریب‘ فارسی کا لفظ ہے؟ ہم تو اسے عربی کا سمجھتے رہے۔ قریب کا مصدر قرب ہے اور یہ عربی کا لفظ ہے۔ اسی سے قربت، اقرباء وغیرہ ہے۔ قربان کا مطلب بھی خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے کسی شے کی قربانی دینا ہے۔ اردو کے استاد فرہاد احمد فگار نے جانے کس خیال میں ’’قریب‘‘ کو فارسی لفظ قرار دے دیا۔
ابوالکلام آزاد نے ایک بڑے شاعر اور ادیب ’’اخترالایمان‘‘ کے نام پر اسی ’’ال‘‘ کی وجہ سے اعتراض کیا تھا کہ ’اختر‘ فارسی کا لفظ ہے اور ’ایمان‘ عربی کا۔ لیکن اختر الایمان نے اپنا نام نہیں بدلا۔ لیکن ’’زیب النساء‘‘ کا کیا کیا جائے۔ بادشاہ اورنگ زیب خود بھی عالم تھے اور ان کی بیٹی زیب النساء بھی عالم، فاضل تھیں۔ لیکن ’زیب‘ فارسی کا لفظ ہے اور ’نساء‘ عربی کا۔ پھر یہ نام کیوں رکھا گیا؟ ’’ال‘‘ کے بغیر ’زیب نساء‘ بھی تو چل سکتا تھا۔ کراچی کے صدر بازار میں ایک معروف سڑک کا نام بھی ’زیب النساء اسٹریٹ‘ ہے۔ اس پر نہ تو ابوالکلام آزاد نے اعتراض کیا اور نہ ہی استاد فرہاد احمد فگار کو کوئی اعتراض ہے۔ بہرحال فرہاد صاحب کا مضمون اصلاح کی اچھی کوشش ہے جو جاری رہنی چاہیے۔ اس مضمون سے مزید استفادہ کیا جائے گا، گو کہ بیشتر باتیں وہ ہیں جن کی ہم بار بار نشاندہی کرچکے ہیں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ’قریب المرگ‘ جیسے علمی اعتراض سے اردو کا دامن تنگ ہوگا۔ ’دن بہ دن‘ لکھنا قواعد کے اعتبار سے غلط ہے کہ ’دن‘ ہندی کا لفظ ہے اور اس میں ’بہ‘ نہیں آئے گی، چنانچہ یا تو ’دن پر دن‘ لکھا جائے یا ’روز بروز‘۔ مگر ہم پھر یہی کہیں گے کہ اردو میں اگر ’دن بہ دن‘ آہی گیا ہے تو اسے کیوں باہر نکالا جائے۔ ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

فرائیڈے اسپیشل

- Bhatkallys.com - http://www.bhatkallys.com/ur/articles/atharhsashimi/
 

بافقیہ

محفلین
خبر لیجے زباں بگڑی

دلی کی عدالت بمقابلہ اردو
تحریر: اطہر علی ہاشمی​
اردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی، وہیں پلی بڑھی۔ دہلی، لکھنؤ اس کے بڑے دبستان سمجھے جاتے تھے۔ لیکن اب یہیں اس کو ’’ستی‘‘ کیا جارہا ہے۔ گزشتہ دنوں دہلی کی عدالت نے پولیس ایف آئی آر میں اردو کے الفاظ کو مشکل قرار دے کر انہیں نکالنے کا حکم دیا ہے اور پولیس کی سرزنش بھی کی ہے۔ کبھی اردو زبان پورے ہندوستان میں رابطے کی زبان سمجھی جاتی تھی، تاہم ہندوئوں نے اسے صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک ہورہا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ عدالت نے اس لفظ کا متبادل نہیں بتایا اور عدالت کو عدالت ہی کہا ہے۔ یہ لفظ عدل سے ہے اور عربی کا ہے جو اردو میں عام ہے اور پورے ہندوستان میں سمجھا بھی جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں انگریزی کے الفاظ ایف آئی آر (فرسٹ انفارمیشن رپورٹ) پر تو کوئی اعتراض نہیں کیا، جب کہ یہ الفاظ ایک عام ہندوستانی کے لیے نامانوس ہیں۔ عدالت نے تعزیراتِ ہند کا حوالہ دیا ہے، جب کہ تعزیرات بھی عربی سے اردو میں آیا ہے۔ ’’دہلی پولیس کی سرزنش‘‘۔ اس میں ’پولیس‘ کا لفظ انگریزی اور ’سرزنش‘ فارسی کا ہے جس کا مطلب ایک عام آدمی کو معلوم نہیں۔ حکم نامے میں یہ ہے کہ ایف آئی آر اہم دستاویز ہوتی ہے، اسے سہل زبان میں لکھنے کی ضرورت ہے، چنانچہ اردو، فارسی کے ایسے مشکل الفاظ کا استعمال بند کردے۔ اب اس میں ’’دستاویز، سہل، حکم، ضرورت، زبان، مشکل‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ بھی حکم نامے میں درج نہیں ہونے چاہئیں۔ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس ہری شنکر کو چاہیے کہ ہائی کورٹ، چیف جسٹس، جسٹس جیسے انگریزی الفاظ کو بھی خارج کیا جائے اور ان کا ہندی متبادل لایا جائے۔ ’’شدہ ہندی‘‘ تو انگریزی الفاظ سے بھی پاک ہونی چاہیے۔ دوسری طرف اردو کو دارالحکومت دہلی میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ سنسکرت آمیز ہندی کے بارے میں بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کہا تھا کہ اب جو زبان بولی جارہی ہے وہ ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پنڈت جی کے نام میں ’جواہر‘ اور ’لعل‘ دونوں الفاظ عربی کے ہیں۔ ان کے والد موتی لعل تھے۔ کچھ اخبارات میں جواہر لعل کو جواہر لال لکھا جاتا ہے۔ چلیے لعل کو ’لال‘ کردیا لیکن جواہر کا بھی کچھ کریں۔ عدالت پنڈت جی کا نام بھی بدلے۔
عدالت کے حکم پر دہلی پولیس نے اردو کے 383 الفاظ پر مشتمل فہرست پیش کی کہ ان کا استعمال اب ترک کردیا گیا ہے۔ یہ فہرست طویل ہے لیکن ان الفاظ کا ہندی یا سنسکرت میں متبادل بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔ فہرست میں ایک لفظ ’’مسمّی‘‘ بھی ہے جس کا تلفظ خود اردو بولنے والے بھی غلط کرتے ہیں۔ پاکستان کی عدالتوں میں عام طور پر یہ آواز لگتی ہے ’’مسمی فلاں حاضر ہوں‘‘۔ جبکہ اس کا تلفظ ’’مسما‘‘ ہے، مسمیٰ پر کھڑا زبر ہے جیسے عیسیٰ، موسیٰ۔ عدالت کے حکم پر پولیس ٹریننگ کالج اور اسٹاف کا متبادل تلاش کیا جارہا ہے لیکن فی الوقت انگریزی الفاظ سے مکتی حاصل کرنے کا ارادہ نظر نہیں آتا، کیونکہ یہ پورے برعظیم کے سابق آقائوں کی زبان ہے، وہ بُرا مان جائیں گے۔ ایران میں زبان سے انگریزی الفاظ کو نکالنے کی مہم چلی تھی، لیکن زیادہ کامیاب نہیں ہوئی، البتہ کئی الفاظ کو ’’مفرّس‘‘ کرلیا گیا۔
اہلِ ہند علامہ اقبالؒ کو اپنا شاعر قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ ہندوستان ہی میں پیدا ہوئے اور انتقال بھی ہندوستان میں ہوا، اُس وقت تک پاکستان نہیں بنا تھا۔ وہاں علامہ اقبال پر علمی کام بھی بہت ہوا، ممکن ہے ان کی شاعری میں سے اردو کے الفاظ نکالنے کی مہم ابھی نہیں تو شاید جلد ہی شروع ہوجائے۔ علامہ کی اردو شاعری میں تو عربی اور فارسی کے الفاظ کی کثرت ہے۔ علامہ اقبال ہی نے کہا تھا:۔

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی، یہ گلستاں ہمارا
علامہ کے اس گلستان سے اردو کو نکالا جارہا ہے۔ علامہ کے ذکر پر یاد آیا کہ بھارتی جمہوریہ کے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اقبال سے موسوم ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اقبال بہت اچھے شاعر تھے لیکن افسوس وہ پاکستان چلے گئے‘‘۔ واضح رہے کہ راجندر پرشاد پی ایچ ڈی تھے۔
دہلی عدالت کے حکم نامے کی مخالفت کرتے ہوئے اردو کے فروغ کے لیے سرگرم تنظیم ’’اردو ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن‘‘ کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر معید احمد خان نے کہا کہ اردو بھارت میں رابطے کی سب سے بڑی اور اہم زبان ہے۔ صحیح ہے، لیکن اردو کے فروغ کے لیے سرگرم مذکورہ تنظیم کم از کم اپنا نام ہی اردو میں رکھ لیتی۔ مثلاً ’’تنظیم فروغِ اردو‘‘۔ افسوس کی بات ہے کہ اردو کے فروغ کے لیے کام کرنے والی تنظیم نے اپنے نام کے لیے انگریزی کو ترجیح دی، اور پھر کہا جائے کہ اردو دنیا کی پیاری اور عام فہم زبان ہے تو کیا آپ کو پیاری نہیں! بہت بڑے مزاحیہ شاعر دلاور فگار نے طنز کیا تھا:
’’آئی ایم دی ہیڈ آف دی اردو ڈیپارٹمنٹ‘‘۔ ایک زمانے میں کراچی میں یہ نعرہ لگتا رہا ہے ’’وی وانٹ اردو‘‘۔
دہلی کی عدالت نے تو اردو کے الفاظ نکالنے کا حکم دیا ہے، اب پاکستان کی عدالتوں کو چاہیے کہ وہ ملک کی قومی زبان سے بدسلوکی کرنے والوں کے خلاف حکم جاری کریں۔ بھارت کی تو چھوڑیے، پاکستان میں اردو کے ساتھ کون سا اچھا سلوک ہورہا ہے! پروفیسر غازی علم الدین سے علم و ادب کی دنیا خوب شناسا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’تخلیقی زاویے‘‘ میں اردو کی زبوں حالی کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’ہندوستان میں گنگا جمنی تہذیب کی آئینہ دار اردو زبان کی زبوں حالی پر میں ایسے موقع پر خامہ فرسائی کررہا ہوں کہ خود پاکستان میں قومی زبان کا وجود خطرے میں ہے اور اس کے دشمن بزعمِ خویش اس کی تجہیز و تکفین کی تیاریوں میں سرگرم ہیں۔ اردو کے حق میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے 8 ستمبر 2015ء کے تاریخ ساز فیصلے کے بعد بدقسمتی سے نام نہاد دانشوروں اور اشرافیہ نے باہم مل کر اردو کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا ہے۔ اب تو ایوانوں میں کھلے عام بے چاری اردو کے خلاف مشورے ہونے لگے ہیں۔ حال آں کہ بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 21 مارچ 1948ء کو قوم سے خطاب میں واضح طور پر فرمایا تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی، کوئی دوسری نہیں۔ آئینِ پاکستان بھی اسے قومی زبان کا درجہ دیتا ہے، مگر اس بے چاری کے حالات پاکستان میں کبھی اچھے نہیں رہے‘‘۔
یہ ایک ایسے دردمند اور اردو کے عاشق کی تحریر ہے جو معروف معنوں میں ’’اہلِ زبان‘‘ نہیں۔ ہم ایک بار پھر واضح کردیں کہ ہمارے خیال میں اہلِ زبان وہ ہے جو زبان کا صحیح استعمال کرے، خواہ وہ کوئی سی زبان ہو۔ انگریزی سمیت ہر زبان میں ماہرینِ لسانیات ہوتے ہیں جو زبان کی تہذیب اور درستی کے لیے مسلسل کام کرتے ہیں۔ اردو کے بارے میں کوئی ایسی کوشش کرے تو کہا جاتا ہے کہ ’’بات تو سمجھ آگئی ناں‘‘۔ لیکن بات تو ایک ناخواندہ شخص، ایک کسان اور مزدور کی بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس کے بعد جناب غازی علم الدین بھارت میں اردو کی صورت حال کے موضوع پر آتے ہیں لیکن ’’ہم کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ لیں‘‘۔ غازی صاحب نے عظیم اختر کے مضامین اپنی کتاب میں شامل کیے ہیں جو دہلی کی زبان، اس کی تہذیب، تاریخ اور ادب کا چلتا پھرتا دائرۃ المعارف ہیں۔ اردو اور دہلی ان کی دو کمزوریاں ہیں۔ ہندوستان میں اردو کے حوالے سے ان کے کئی مضامین شامل کیے گئے ہیں، مگر ہمیں تو شکوہ اپنے طبقۂ اشرافیہ، ذرائع ابلاغ اور دانشوروں سے ہے کہ جن کے چنگل میں پھنس کر اردو کا حال یہ ہے کہ:۔

قیدِ قفس میں طاقتِ پرواز اب کہاں
رعشہ سا کچھ ضرور ابھی بال و پر میں ہے
لیکن جب تک درد مندانِ اردو موجود ہیں… اور یہ بڑی تعداد میں ہیں… اردو کی طاقتِ پرواز نہ صرف برقرار رہے گی بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔ اب سندھ کے وزیر جناب ناصر حسین شاہ مبنی (مب۔نی) پر تشدد کرکے اسے مبّنی کہتے رہیں، یا جسارت کے ایک بزرگ کالم نگار اپنے شریر خامہ کے ذریعے ’باقاعدہ‘ کو ’’باقائدہ‘‘ لکھتے رہیں۔
’سوا‘ اور ’علاوہ‘ میں ذرائع ابلاغ فرق کرنے پر تیار نہیں۔ 3دسمبر کو ایک ٹی وی چینل نے خبروں میں ’’فلاں کے علاوہ دیگر 4 افراد کے پروڈکشن آرڈر جاری ہوگئے‘‘ کہا۔ 4 دسمبر کے ایک اخبار میں بھی یہی سرخی تھی۔ یہاں علاوہ کا مطلب ہے کہ ’’فلاں صاحب‘‘ بھی ان میں شامل ہیں جن کے پروڈکشن آرڈرز جاری ہوئے۔ جب کہ یہاں ’سوا‘ ہونا چاہیے تھا۔ اب بھارت کا کیا ذکر کریں، لیکن بھارتی فلموں میں ہندی کے نام سے اردو کے جو گانے مقبول ہیں، عدالت اُن پر کیا کارروائی کرے گی؟ مثلاً بڑا مشور گانا ہے ’’تعویذ بنا کر پہنوں تجھے، آیت کی طرح مل جائے کہیں‘‘۔ تعویذ اور آیت کا ہندی ترجمہ کریں اور پھر مقبولیت دیکھ لیں۔
 
Top