اسکین دستیاب حیات شیخ چلی

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 8 حیاتِ شیخ چلی صفحہ 7

بسم اللہ الّرحمٰن الّرحیم

باب اول

شیخ چِلّی کا بانی خاندان

شیخ ابو الغنم قراقری بنی اطول سے شہر طیحوح من مضافات ماوراءالنہر کا رہنے والا تھا۔ جو بھیڑون اور دنبون کا بیوپار کرتا تھا۔ اس پیشہ مین اوسکو اسقدر دستگاہ اور وقت نظر حاصل ہو گئی تھی کہ نر اور مادہ کو بلا تامل پہچان لیتا تھا۔ اور بھیڑون کے علمل النساب کا پورا ماہر تھا۔ سو قدم سے وہ یقین کر لیتا تھا کہ یہ دنبہ ہے یا بھیڑ اور یہ بتا دیتا تھا کہ اگر بھیڑ ہے تو اُسکا خاندان یقیناً بھیڑ ہی ہو گا اور دنبہ کا بچہ ممکن نہین کہ دنبہ ہی نہ پیدا ہو۔ اس بات کے اظہار کی ضرورت نہیں کہ زمانہ دراز کی تجارت سے اسکو یہ ملکہ بھی پیدا ہو گیا تھا کہ بھیڑون کے تھن کا صحیح اندازہ وہ کر لیا کرتا تھا کہ دو سے زائد کبہی نہ ہونگے۔ اور ہمیشہ اسکی بات سچ نکلتی تھی۔ دنبون کی اونسے وہ کبہی بجز اس کے خیال ہی نہ کر سکا کہ کمل نہ بنے جائینگے سال مین ایک بار بھیڑون اور دنبون کی اون کتروانے میں کبہی اسنے غلطی نہین کی۔ اور بلا تامل قریب کی منڈیون مین بھیج کے وہ نفع کثیر حاصل کرنے مین نہین چوکا۔
چونکہ وہ بھیڑون کو دنبون پر ہمیشہ فضیلت دیتا تھا جسکی وجہ یہ ہے کہ دنبونکو ان کی چکّیوں کے بار سے چلنے مین ذرا دقت ہوتی ہے اور وہ دور دور مقامات
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 9 حیاتِ شیخ چلی صفحہ 8

اون کے لیجانے کو بہت ہی مصیبت خیال کرتا تھا۔ لہذا بار بار اُسنے دنبون اور دنبیون کے ساتھ مُنڈی ہوئی بھیڑون کے تبادلہ میں پس و پیش نہین کیا اور بھیڑون کو قبول کر لینے مین اپنی غیر معمولی ذکاوت سے بہت عجلت کی۔ چونکہ اس تجارت سے بڑھتے بڑھتے اسکے پاس اپنی ذاتی ملکیت کی بھیڑین بکثرت ہو گئی تھین اور گویا جو سرمایہ اُسنے پہلے لگایا تھا وہ پورا حاصل ہو کے نفع میں کئی گلے اُسکے یہان موجود ہو گئے تھے اسلئیے اُسکو اپنے نوکرون اور چرواہون کے سالہا سال عملی مشاہدے سے بھیڑون کا دودھ دوہنا بائین ہاتھ کا کام ہو گیا تھا۔ اور اُسکا استعمال حکیمانہ قاعدہ سے وہ کر سکتا تھا یعنی دودھ سے مکہن اور چھاچھ بنوا لینے مین مشاق ہو گیا تھا۔ اور کچھ بھی نقصان نہ ہونے دیتا۔ کرتے کی بدیا مشہور ہے۔ اسی وجہ سے اس سلیم تجارت مین اسکے تمام نکات اور باریکون پر علی وجہ الکمال پر اسکو قابو مل گیا تھا۔ جو سرمایہ اسکے پاس نقدی جمع ہوتا اسکے مصرف کے تدابیر سوچنے مین بھی اسکی قابلیت کچھ کم نہ تھی۔ یعنی وہ جاڑون مین بھیڑون کے لیے الگ الگ ڈربے بنوا دیتا۔ اور گرمیون مین فوراً انکو کھدوا ڈالتا تاکہ بھیڑون کو عادت نہ ہو جائے۔ برسات مین اسکو یہ دقت ضرور ہوتی کہ بے موسم بال کتروا کے کمل بنوا لیتا اور بھیڑون کے اوپر تان دیتا۔ اسکا اپنا ذاتی تجربہ تھا کہ جاڑون مین بھیڑین سُکڑ کے چھوٹی ہو جاتی ہین اور برسات مین پانی سے گھل جاتی ہے۔ اس جید نقصان کو ایسا باخبر آدمی کب گوارا کر سکتا۔ جسکی اسنے نے ڈربون اور شامیانون سے روک کر لی تھی۔ غرضکہ وہ اپنے وقت مین یکتا تاجر تھا۔ یا نہ تھا۔ مگر اس زمانہ کے لوگوں کے لیے تو اسکے کارنامے بہت بڑے استاد کا کام دیسکتے ہین۔ اگر ایشیائی گڑڑیے اور یورپین سورون کے سوداگر اسکے چھوٹی چھوتی روزمرہ قابلیتون پر توجہ کرین تو کچھ شنہین کہ بڑے مالدار ہو جائین۔
چونکہ مجھے اصل مین شیخ چلی کے حالت بہت تفصیل سے لکہنا ہین اور وہی نامور فخر روزگار اس کتاب کا ہیرو ہے لہذا مین اوسکے خاندان کے مختصر واقعات جلد جلد لکھ کے اُسکو شروع کر دونگا۔
شیخ اپنی تجارت مین شہرۂ آفاق ہو رہا ہے۔ ملکون ملکون اُسکا نام پھیلا ہوا ہے۔
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 10 حیاتِ شیخ چلی صفحہ 9

عراق عرب سے لیکر اسپین کے بربری حصہ تک اسکی تجارت کا سلسلہ چلا گیا ہے ادھر مشرق مین جمنا پار سے کابل کی سرحد اور اس سے داہنے طرف تبت کے مشہور مقامات تک پہونچا ہے دور دور سے بھیڑ یا دھسان خلقت اسکی تجارت کے تجربون کو سیکھنے آ رہی ہے اور افریقہ تک اسکی دساور کی مانگ ہو رہی ہے۔ یورپ کا ناشایستہ حصہ جو اسوقت بالکل اندھیرے مین پڑا ہوا تھا اسکی تجارت سے اگر کچھ فائدہ اٹھا سکا تو صرف اسی قدر کہ اسکے کارخانہ کے بُنے ہوے کمل تما یورپ کے جان بخش تھے اگر شیخ ابو الغنم کے کمل نہ جائین مارے جاڑون کے تمام یورپ اینٹھ جائے۔ پینتالیس برس کی عمر تک ملک التجار کا کارخانہ بڑی ہی رونق سے جاری رہا۔ اور دولت کثیر اسکے پاس جمع ہو گئی۔ اب شیخ نے شادی کیطرف توجہ کی ایسے بڑے دولتمند کو دلھن ملنا کیا دشوار تھا۔ یونتو سیکڑون قبلیون سے اسکے لیے لڑکیان تیار تھین اور جہان چاہتا وہ بلا تردد شادی کر لیتا۔ کیونکہ صرف مالداری کی شان ہی اسمین نہ تھی بلکہ اپنے شہر اور قرب و جوار مین اشراف خاندان سے وہ پیدا ہوا تاھ اور جوار کے کل قبیلے بوجہ نسب بھی اسکا احترام کرتے تھے مگر شیخ کو یہ ضد آ پڑی تھی کہ کوئی لڑکی خود مجھپر عاشق ہو اور اپنے مان باپ سے میرے ساتھ نکاح کی درخواست کرے۔ گو وہان کے طرز معاشرت مین یہ کوئی مشکل اور عجیب بات نہ تھی مگر ہمارے شیخ صاحب کچھ ایسے حسین و جمیل واقع ہوے تھے کہ قبائل عرب کی لڑکیان آپ کے نظارۂ جمال کی تاب ہی نہ لا سکتی تھین۔ آنکھ بھر کے دیکھین تو عاشق ہون۔ جب اسکی نوبت ہی نہ آنے پائے تو عشق کیسا۔ اس افتاد نے پانچ برس تک شیخ کو نامراد رکھا۔ لیکن آخر کار قبیلہ عقیلو کے شیخ الرئیس ابو احوش کی بیٹی سفیہہ نے شیخ ابو الغنم کی ضد کو پورا کیا۔ یعنی وہ عاشق ہو کر اپنے مان باپ سے عقد کی خواستگار ہوئی۔ یہ ایک غیر معمولی بیاہ تھا۔ تمام ملک کے مشہور قبائل شریک ہوے اور سُبہہ گھڑی نیک ساعت مین نکاح ہو گیا۔
سفیہہ کے نامبارک آئے ہوے قدم کو ابھی سال بھر بھی نہ ہوا تھا کہ ملک مین سخت قحط پڑا اور شیخ ابو الغنم کے اوپر تباہی آئی۔ یعنی ہزار ہا بھیڑیان
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 11 حیاتِ شیخ چلی صفحہ 10

بے آب و دانہ مر گئین۔ ہزار ہا کو بدوون نے چکھ ڈالا کئی گلے شیخ نے تنگ ہو کر جنگل مین لاوارث چھوڑ دیے۔ اور تھوڑے سے گلون کو لیکر مع کسی قدر نقدی کے خود شیخ دشت قبچاق کیطرف چل نکلا۔ خاتون محل بھی ساتھ تھی نوکر چاکر زیادہ نہین لیے صرف اسی قدر جو بھیڑون کو سنبھال سکین غرض یہ تھی کہ وہان چارہ بافراط ملے گا۔ بعد رفع قحط پھر وطن لوٹ آوینگے اور بھیڑون کو ترقی دے لین گے مگر خوش قسمتی نے تھوڑے دنون کے لیے رخصت لے لی تھی اور ادبار کو اپنی جگھ چھوڑ گئی تھی یعنی دشت قبچاق مین شیخ کی تمام زندہ اور بیجان دولت قزاقون نے لوٹ لی اور بیچارہ صرف ایک بیڑی پاؤن مین پہنے ہوے یعنی بی بی کو ساتھ لیے وہان سے غزنی کیطرف چل نکلا شیخ کی جغرافیہ دانی تو صرف ماوراءالنہر پر ہی محدود تھی اسلئیے یہ نہین کہا جا سکتا کہ اسنے غزنی کا قصد کر لیا تھا۔ بلکہ ملک خدا تنگ کے بھروسے پر ایک طرف منھ اوٹھا دیا اور مرتا جیتا غزنی مین پہونچ گیا۔
سلطان محمود کا دور سلطنت تھا۔ مسافرین اور معذورین کی خبر گیری کیجاتی تھی۔ شیخ کو بھی اس سے حصہ ملا۔ اور ایک کاروان سرا مین رہنے لگا۔
بھیڑون کا خیال شیخ کو آیا ضرور تھا۔ مگر غزنی کی آب و ہوا مین اُسوقت شیرونکی پیداوار کی زیادہ قابلیت تھی۔ اسوجہ سے وہ اپنے خیالی بھیڑونکو دور ہی رکھنا چاہتا تھا۔ اور اس فکر مین تھا کہ کسی طرح سلطان تک رسائی ہو جاے تو قزاقون کو پہلے سزا دلواؤن پھر اپنے وطن جانے کی اجازت اور زاد راہ مانگون۔ اسی دُھن مین وہ ایک دن فردوسی کے پاس پہونچ گیا۔ اور سلام کر کے دشت قبچاق کا ذکر چھیڑ دیا فردوسی شاہ نامہ کے لیے ایسے ایسے سامان کا تلاشی تھا۔ اُسنے دشت کے حالات پوچھے۔ شیخ نے قزاقون کی بیدادگری کے ساتھ اپنے معلومات کا ذخیرہ اُگلدیا۔ جو وہان کے سرگردانی کے زمانہ مین حاصل ہوا تھا۔ فردوسی نے ایاز سے سفارش کر دی اور ایاز نے سلطان تک پہونچا دیا۔ چونکہ سلطان روم مردم شناس بھی تھا اور *شیخ نے اپنے واقعات تجارت تفصیل سے بیان کیے لہذا دنبونکی داروغگی شیخ کو ملگئی گو اسنے وطن جانے کی کئی بار درخواست کی۔ مگر قبول نہ ہوئی۔ ناچار اسی پر قناعت کی اور بال منڈوانے مین کمال دکھانے لگا۔
---------------------------------------------------------------------
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ ۱۲
سطان کو ہندوستان پر بارہواں حملہ کرنا تھا۔۴۴۸؁ ھ میں وہ اس قصد سے فوج لیکر غزنی سے چلا۔ شیخ بھی ہمراہ ہو لیا مگر یہ نہیں معلوم کسطرح بہرحال ہندوستانکو اپنے قدوم میمنت لزوم سے عزت بخشی۔ سفیہہ بھی ساتھ تھی اُسکی ہمراہی سے شیخ کو کچھ اذیت نہیں ہوئی۔ کیونکہ دونوں کے اخلاق اور عادات میں خِلقی موافقت تھی۔ سلطان نے سومنات فتح کرلیا اور لوٹ گیا۔ مگر شیخ نے ہمت ہار دی اور ہندوستان میں رہ پڑے۔
بدایوں کے پاس ایک قصبہ تھا چلہ وہاں سطان نے تھوڑی سی جاگیر بطور آل تمغا شیخ کے نام مقرر کردی۔ اور شیخ بی بی کے اسی قصبہ میں رہنے لگے۔
باب دوم
شیخ چلی کی پیدایش
شیخ انعنم کا سلسلہ توالد وتناسل جاری ہوا اور بڑھتے بڑھتے ایک اچھا خاندان ہو گیا۔ سالہاے دراز کی پیداوار سے اس خاندان کو روز افزوں ترقی ہوتی گئی۔ آخر شیخ انعنم کی ساتویں پشت میں شیخ ملھو ایک ذی لیاقت اور تیز فہم شخص ہوا جسکی شادی اسکی چچا زاد بہن بی بی حمیقہ کے ساتھ ہوئی۔ چونکہ جاگیر میں بہت سے حصہ بخرے ہو گئے تھے لہذا شیخ ملھو کچھ زیادہ خوشحال نہ تھا۔ تاہم وہ اپنی ذاتی محنت اور زراعت سے ایک اعتدال کے ساتھ بسر کرتا تھا۔ اور بڑی بات یہ تھی کہ سامان معاشرت اسقدر وسیع نہ تھے جس سے اسراف کی نوبت آئے۔ بہرحال وہ روٹی دال سے خوش تھا اور اپنی محبوبہ بی بی کے ساتھ بسر کرتا تھا۔ ۹۵۱؁ ہجری میں شیخ ملہو کے یہاں بیٹا پیدا ہوا۔ چونکہ زمیندار تھا اور یہ لڑکا بڑی منت مرادونکا تھا۔ شیخ نے بڑی دھوم دھام کی اور پانچویں دن شیخ چلی قصبہ چلہ کی مناسبت سے نام رکھا۔
ولادت کے وقت اس نامی مولود نے یہ جدت کی کہ ٹانگیں اوپر اُٹھا دیں اب ہزار جھکاتے ہیں نہیں جھکتیں۔ خیال ہوا کہ شاید گھٹنوں میں قفلی کا جوڑ نہیں ہے۔

صفحہ ۱۳
مگر ٹٹولنے سے کوئی نقصان نہیں پایا گیا۔ دیر تک یہ حالت رہی اسکے بعد آپ روئے اور ٹانگیں سیدھی کر دیں۔ گو یہ ایک اتفاق بات تھی اسی وقت کا پیدا ہوا بچہ کسی ارادے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ مگر اوپر والوں نے بات کا بتنگڑ بنا دیا کہ بچہ آسمان کو گرتا ہوا سمجھ کے اپنے پاؤں پر روکنا چاہتا تھا۔ زمانۂ شیرخوارگی کے واقعات ہی کیا ہونگے جنکو ہم لکھیں اور جو کچھ ہونگے وہ اُسکے افعال ارادی تو ہو نہیں سکتے اسلیے ہم بجز اسکے کہ اسکو چھوڑ دیں چارہ ہی نہیں ہے۔ البتہ بہ تحقیق معلوم ہوا کہ جب وہ دودھ پیتے تھے آپ بےانتہا رویا کرتے تھے ادھر ماں نےمنھ سے چھاتی ہٹائی کہ خوش ہو گئے۔ قلقاریاں مارنے لگے شیخ ملھو اپنے تجربات کے بھروسے پر بہت غور کیا کرتے۔ اور بھیڑوں کے بچے کے دودھ پینے کے طریقہ سے بھی اسکو ملا کے دیکھا مگر اسکی علت اسکی سمجھ میں بھی نہ آئی۔ حمیقہ کا تو یہ مشغلہ ہو گیا تھا کہ جب تماشا دیکھنے کو جی چاہتا دودھ پلانے لگتی۔ طرفہ یہ ہے کہ سب بچوں کی طرح دودھ پینے میں ہمارے شیخ چلی صاحب حریص تھے۔ اور اسی طرح ہمک ہمک کے چٹخارے لیتے تھے مگر ساتھ ہی روتے بھی جاتے تھے۔
سوا دو برس تک خوب رو رو اور مچل مچل کے دودھ پیا۔ اسکے بعد بڑھا گیا ایلوے اور نیم کی پتی سے تو اُنہوں نے سلامتی سے کبھی منھ نہیں موڑا۔ مگر عقیلہ جوجو کےنام سے بوٹی کانپتی تھی۔ دودھ تو درکنار اُسکا نام سُن کے وہ پہروں آنکھیں نہ کھولتے۔ اور ماں کو ٹٹول ٹٹول کے ڈھونڈ لیتے۔
شیخ چلی چار سال چار مہینے کے بعد بسم اللہ کے لیے مستعد کیا گیا۔اللہ آمین امان باوا کے الفاظ کا وہ یوں بھی عالم بلکہ حافظ ہو چکا تھا اس رسم میں اُستاد نے بہت سر مارا۔ ہزار طرح پُھسلایا۔ بہلایا۔ مگر میرے شیر نے سون جو کھینچی پھر نہ بولنا تھا نہ بولا۔ شیخ ملھو نے اُستاد کو آخر کار روکدیا۔ شیخ کو ماں کے پاس پہونچا دیا۔ اسکی ماں نے چٹ پٹ بلائیں لے کے پوچھا کیوں بیٹا بسم اللہ پڑھ آئے۔ شیخ چلی نے گردن کو تین جھٹکے سامنے کی طرف دیے جو اقبال کا اشارہ تھا۔ مگر منھ سے نہ بولا۔ اس رسم کے بعد وہ چند روز تک یونہی چھوٹا رہا۔ اور اپنے ارادے سے جب چاہتا رو لیا کرتا یا ہنستا رہتا۔ اس کا کھیل بھی سب لڑکوں سے جدا تھا۔ یعنی لڑکوں کے ساتھ

صفحہ ۱۴
گرا۔ ساتھ ہی وہ رو کے مچل گیا۔ واہ تمنے میری محنت برباد کی میں نے منہ میں کلی بھر کے پیشاب کرنا چاہا کہ دیکھوں منہ کا پانی پیشاب کی راہ سے نکل جاتا ہے یانہیں۔
شیخ چلی آٹھ برس کا ہو گیا۔ مگر مکتب میں نہ بیٹھا۔ وہ اپنے ہمجولیوں کے ساتھ دنیا کے خارجی امور کا تجربہ حاصل کرنے میں تو بہت سرگرم تھا مگر پڑھنے میں انکا ساتھ کبھی نہیں دیا۔ چونکہ سلامت روی اسمیں اس درجہ تھی کہ باپ کو یقین نہ آتا تھا میرا بیٹا ایک غیر معمولی طبیعت کا انسان ہونے والا ہے۔ یا ایسی وارستہ مزاجی میں بلا کی جدت اور طباعی چھپی ہوئی ہے اسی وجہ سے شیخ ملھو نے اسکے مکتب میں زبردستی بٹھانے کی کوشش نہیں کی۔
شیخ چلی باغوں اور کھیتوں کی طرف اکثر نکل جاتا اور کھلے میدانوں میں گھنٹوں وہ اس بات کی کوشش کرتا کہ دوڑ کر آسمان کی جھکی ہوئی دیوار کو چھو لے ہر بار کی ناکامی سے وہ ایک منٹ کے لیے بھی مایوس نہ ہوا اور ہمت سے یہی باور کر لیتا کہ کل ضرور دیوار تک پہنچ جاؤں گا۔
وہ اکثر چلتے چلتے یہ خیال کرتا کہ دونوں پاؤں ایک ساتھ اُٹھیں اور ساتھ ہی زمین پر پڑیں تو زیادہ تیزی سے راہ طے ہو۔ اس امتحان میں وہ دیر تک اُچھلتا اور منہ ہاتھ کی چوٹوں کی پرواہ نہ کرتا۔ اسکو یقین تھا کہ چند روز میں میرے دونوں پاؤں ضرور ساتھ اُٹھنے لگیں گے۔
وہ انتہا کا نازک مزاج اور لطافت پسند تھا۔ بارہا اُس نے صرف اس لیے کپڑے اُتار کے پھینک دیے کہ میرا جسم بوجھ پڑنے سے کُچل نہ جائے۔ شبرات میں اسکے باپ نے آتشبازی منگوا دی۔ چونکہ برسات کا موسم تھا۔ چھچھوندریں۔ پھلجھڑیاں۔ انار وغیرہ سب نمی کی وجہ سے چھوٹتے نہ تھے۔ شیخ چلی سب گھر والوں کی آنکھ بچا کے اپنی طباعی کے جوہر دکھانے چاہے اور ایک بڑی سی پتیلی میں ساری آتشبازی بھر کے چولہے پر چڑھا دی۔ آنچ تیز کر دی۔ مطلب یہ تھا کہ اس ترکیب سے آتشبازی سوکھ جائے گی مگر دم بھر میں پتیلی تیز ہوئی اور چھچھوندروں نے زور باندھا۔ شیخ چلی نے اسکا تدارک پہلے ہی سوچ لیا تھا۔ گھڑا بھر پانی چھوڑ دیا اور اسطرح اپنی آتشبازی بچالی۔
اس عمر تک اُس کے جس قدر حالات معلوم ہوئے اُس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ معمولی

صفحہ ۱۵
طبیعت کا لڑکا نہ تھا بلکہ ذکاوت خداداد سے فوق العادت حرکتیں اسکی زندگی کے حصے کی نسبت یہ رائے قائم کرانے پر مجبور کرتی ہیں کہ وہ ایک بڑا مدبر اور موجد ہونیوالا ہے۔ اسوجہ سے ہم زیادہ تفصیل سے نہیں لکھتے۔ بلکہ اُس کی کسر اُسکے شباب اور جوانی کے حالات میں نکل جائے گی۔ تاہم بعض واقعات جو بالکل اسکی طبعزاد خاص ہونگے ہم بیان کرتے جائیں گے۔
تیسرا باب
شیخ چلی کی تعلیم وغیرہ
نویں برس باپ نے بہت مجبور کیا اور وہ محلے والی مسجد کے مکتب میں جانے لگا۔ اپنی لاجواب ذہانت سے بغدادی قاعدے اس نے دسواں برس شروع ہوتے ہوتے ختم کر دیے۔ اُستاد کو اس کے پڑھانے میں کچھ دقت ہی نہ ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ہر کام اصول سے کرتا تھا یعنی دو حرف یکمشت اُستاد اُسکو بتا دیتے تھے اور تین دن میں رے زے رے زے کہتے کہتے وہ بالکل یاد کر لیتا تھا۔
شیخ چلی کے مکتب میں بیٹھنے سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اُستاد کو اتنی سکت ہی نہ رہتی تھی کہ شیخ چلی کی مرمت کے بعد کسی اور لڑکے کو قمچیاں مارنے کا موقع ملتا تھا۔لڑکے وہی تھے جو اسکے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور اس لیے اس نوگرفتار سے انس اور یارانہ پیدا کرنے میں انکو کچھ محنت نہیں کرنا پڑی۔وہ سدھا ہواان کا ہمجولی تھا۔ آپس کی شرارتوں کو وہ آسانی کے ساتھ غریب شیخ کے سر تھوپنے میں کبھی نہ چوکتے اور مولوی صاحب کی پرسش پر یہ صابر اور متحمل لڑکا بے تکلف اپنا قصور قبول کر لیتا۔ بلکہ جس بدسلوکی کی فریاد ہوتی تھی اسی کو عملی طور پر بھی دکھا دیتا کہ میں نے یوں منہ چڑھایا تھا یا اس طرح چپت مار دی تھی۔ لڑکوں کی کتابوں اور قلم و دوات کے انتظام میں اس نے بڑی دلچسپی ظاہر کی۔ ممکن نہ تھا وہ کسی کی کتاب پا جاتا اور دو چار ورق کی تخفیف نہ کر دیتا اُس کا خیال تھا کہ اس ترکیب سے کتاب جلد ختم ہو سکتی ہے اور دوسری کتاب شروع کرنے کی اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں ہے۔ قلموں سے وہ میانجی کے حقہ بھرنے کی انگیٹہی کو ہمیشہ گرم کر دیا کرتا اور نیم سوختہ قلم نکال کے دیتا۔ اور کہتا پھر بنا لو
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
ریختہ صفحہ 22 حیاتِ شیخ چلی صفحہ 22

پانچوان باب

شیخ چلی کی شادی

غریب باپ کو جسقدر دقت اس معاملہ مین اٹھانی پڑی تمام عمر کو کافی تھی جب سے وہ جوان ہوا باپ کو شادی کی فکر ہوئی اور اپنے قبیلہ مین کئی لڑکیون کی خواستگاری اُسنے کی۔ لیکن شیخ چلی کی باریک بینی اور موشگافی سے سب نشانے ہیچ گئے۔ جب کہین بات چیت ہوئی بھی کوئی امر طے نہ ہونے پایا تھا کہ آپ سُسرال پہونچ جاتے اور اپنا استحقاق زوجیت انہار قبل مذکر کیطرح جتانے لگتے۔ ساتھ ہی یہ خواہش بھی پینش کیجاتی کہ ہماری منسوبہ جو عنقریب ہماری بی بی ہو گی۔ کیون ابھی سے ہمارے ساتھ نہین بھیجدی جاتی۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس دانشمند کو آجکل کے یورپ کے طریقۂ شادی کا موجد ہونا قدرت نے پہلے ہی مقدر کر دیا تھا یعنی اس درخواست سے اسکی غرض یہی تھی کہ جس عورت سے تمام عمر کا سابقہ ہے جو دنیا کی گاڑی کو میرے ساتھ کندھا دے کے ہمیشہ کھینچنے والی ہے۔ اُسکے اخلاق۔ عادات۔ تعلیم۔ تمیز۔ سلیقہ وغیرہ پر مجھ ہی سے مطلع ہو جانیکا ضرور حق ہے۔ دیکھ لو یہی طریقہ آج تمام دنیا مین جاری ہے اور نئی روشنی کے چشم و چراغ ایشیائی نوجوان جو یورپی تہذیب سے کامیاب ہو رہے ہین اس طریقہ کو جاری کرنے میں کسقدر مساعی ہین۔ اسمین شک نہین کہ شیخ چلی کی یہ جلد بازی سراسر حکمت اور دور اندیشی پر مبنی تھی۔ مگر واے ناکامی اسوقت کی جہالت اور خاندانی رسمون نے اسکی بات پیش نہ جانے دی اور تابڑتوڑ ناکامیون کا شکار بننا پڑا۔ شیخ چلی جب بہت تنگ آ گیا سرے سے شادی کا انکار ہی کر دیا اور باپ سے صاف کہدیا کہ یون صبر نہین کر سکتا جبتک میری منسوبہ میرے گھر نہ آ جائے۔ شادی کیسی۔ اس ضد نے شیخ کے باپ کو بہت پریشان کیا۔ ایک تو یونہی کوئی لڑکی اُسکے جوڑ کی اپنے کفو مین نہ تھی دوسرے اس حکیمانہ طلب نے سب کو چونکا دیا۔ اور شیخ چلی کے انکار سے پہلے ہی سب جگہ سے انکار ہو گیا۔
-------------------------------------------------------------

نوٹ: کتاب کا صفحہ نمبر 23 ریختہ پر موجود نہیں

--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 23 حیاتِ شیخ چلی صفحہ 24

سے متاثر ہو کر جو دربان نے انکےک ساتھ کی تھی وہین ٹھہر گئے۔ اور دیر تک غصہ مین روتے رہے دو ایک آدمی اور جمع ہو گئے۔ تب شیخ نے اپنے حالات خاص بیان کیے اور صاحبخانہ سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا۔
وہ دولت سرا جناب شریعت پناہ قاضی القضاۃ کی تھی اس زمانے مین قاضی بدرالہدیٰ اس مسند پر جلوہ فرما تھے۔ سپاہیون نے قاضی صاھب کو اطلاع دی انھون نے نہایت اخلاق سے شیخ کو اندر بلایا اور معمولی مراسم کے بعد استفسار حال کیا۔ شیخ نے اپنی شادی کی درخواست کو بہت ہی مؤدب طریقہ سے پیش کیا اور بعد بہت سی ***** کے صاحب نے اپنی خانہ زاد لونڈی کے ساتھ عقد قرار دیا۔ شیخ کو نہین معلوم تھا کہ وہ جاریہ زادی ہے۔ عقد پر راضی ہو گئے۔ مگر معمولی ہلا پتی مین قبل نکاح کے اپنی منسوبہ سے ملنے کی درخواست پیش کی۔
قاضی صاحب نے بہت سمجھایا لیکن ایسا تجربہ کار آدمی کب ماننے والا تھا۔ ناچار قاضی کے شرعی انکار پر شیخ ناراض ہو کر چلا آیا اور بہت حیران ہوا کہ شادی کیسے ہو اور کہان سے ڈھونڈھ کے بی بی لانا چاہئیے۔ اس فکر مین وہ دو روز تک برابر ایک غیر نافذہ کوچہ کی موڑ پر بیٹھا رہا اور عہد کر لیا کہ جبتک اپنی مرضی کی بیوی نہ ڈھونڈھ لونگا کھانا پینا حرام ہے۔ سچ کہا ہے۔
"جویندہ یا بندہ"
تیسرے روز سویرے ایک سڑان نوجوان عورت خوب گدبدی * ایک خاص مستانہ ادا سے اُدھر سے نکلی اور شیخ کی طرف نگاہ اٹھا کے دیکھا ہی تھا کہ شیخ بو اٹھا۔ ع پہچانتی ہو وہ طبلہ والا۔
دل کا میلان یا قدرتی سامان کچھ سمجہنے * کی بات نہیں۔ آنکھ چار ہوتے ہی دونوں مین وہ میل جول ہوا کہ برسوں کے شیدائیون اور چاہنے والون مین کیا ہو گا۔ شیخ کی اداشناسی کا امتھان ایسے ہی وقت پر منحصر تھا۔ اسنے سر سے پانؤن تک ایک بار اسے دیکھا اور گویا تمام اندرونی بیرونی خوبیونکی سلیس لکہی ہوئی کتاب پڑھ لی جس کے مطالب و معانی مین غور کرنے کی اُسے
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 24 حیاتِ شیخ چلی صفحہ 25

ذرا بھی مشکل نہ پڑی۔ اسی وقت نظر نے سب کچھ تاڑ لیا کہ ہونہو یہی میرے لیے راحت اور باعث آسایش ہو۔ غرضکہ دونون بار ایک دوسرے کو تاڑ گئے اور ایسے بےتکلف ملے کہ پھر جدا ہونے کی قسم کھا لی۔ شیخ کوئی معمولی آدمی تھا نہین آناً فاناً اسکے انتخاب اور پسند کا چرچہ ہو گیا۔ اور ہر طرف سے لوگ امنڈ آئے۔ غریب الدیار آدمی اُسپر اتنا بڑا ذہین عقیل۔ سب نے اسکے ساتھ خالص ہمدردی کی۔ اور اس برخوردار جوڑے کو ایک عرفہ الحال * آدمی اپنے ہمراہ لے گیا۔ دوسرے ہی قاضی صاحب نے آ کے نکاح پڑھدیا۔ ع
ہو گئی دھوم دھام سے شادی

چھٹا باب

امتحان روزگار

شادی ہوئے پانچ برس بھی نہ گزرے تھے کہ تین چار بچے شیخ کے یہاں ہو پڑے۔ شیخ کے مان باپ دونون شادی کے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ اثاثہ خاندانی مین بڑی چیز کچھ غلہ چند بیل تھوڑی زمین ایک مکان شیخ کو ملا تھا۔ غلہ تو پہلے ہی سال ہو ہُوا گیا۔ بیلون کو اُسنے اپنی جبلی رحمدلی کی وجہ سے آزاد کر دیا اور زمین کی نسبت اُسکو ہمیشہ اپنی ایمانی قوت سے یہ شبہ رہا کہ ذرا بھی مینے اسمین تردد کہیا یا اسکو کھودا تو یقیناً خزانہ نکل آئیگا۔ جو دوسرے لوگ مفت مجھ سے چھین لینگے۔ مکان اس نے اپنے قبضہ مین رہنے دیا اور اپنی محبوبہ بیوی اور بچون کے ساتھ اُسمین بسر کرتا تھا۔
گھی کے گھڑے کا مشہور قصہ اہل زمانہ کی نافہمی یا شوخ مزاجی سے شیخ کی طرف بہت ہی بڑے اور قابل نفرت نتیجہ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سچے قصے کے رموز اور غوامض پر اگر غور کیا جاے تو وہ ایک محنتی دنیادار ایک اصولی تاجر۔ ایک متمدن دانشمند ایک بلند نظر اور مہربان افسر خاندان تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ضرورت کے وقت کے لحاظ سے اُسنے گھی کا گھڑا اُجرت پر پہونچا دینے مین جو آمادگی ظاہر کی اُس سے ثابت
--------------------------------------------------------------------
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۶۱

دونوں باغی ہو گئے۔ لڑائیان ہوئین رن پڑے۔ اور وہ قابو میں نہ آئے۔ آخر جنگ میں اکبر خود معرکہ میں موجود تھا۔ کڑہ مانک پور پر میدان داری تھی۔ پہلے تو توپ بندوق چلتے رہے۔ تب تک اکبر کے ہاتھی کے پیچھے شیخ بھی ڈٹے تھے۔ آخر دست بدست کو نوبت آئی اور جنگ مغلوبہ ہونے لگی۔ ایک کو دوسرے کی خبر نہیں۔ ہلڑ مچگیا۔ جب ہیرانند ہاتھی نے علی قلی خان کو چیر کے پھینکدیا۔ اور بہادر خان کو شہباز خان نے گرفتار کر لیا۔ لڑائی تھم گئی۔ میدان صاف ہو گیا۔ سردار اور خود بادشاہ اپنی اپنی جگہ پر پہونچے۔ مگر شیخ کا پتہ نہیں۔ زندون، مردوں سب میں تلاش ہوئی۔ ہوں تو ملیں۔ شام کو گولندار نے توپ صاف کرنی چاہی، سُمبہا ڈالتا ہے تو آگے نہیں بڑھتا۔ اس نے کھینچ لیا۔ ساتھ ہی شیخ جی آنکھیں ملتے نکل آئے۔ بادشاہ کے سامنے حاضر کیے گئے حال پوچھا عرض کیا۔ جب دست بدست لڑائی شروع ہو گئی مجھپر نیند نے بیحد غلبہ کیا۔ کہیں جگہ نہ ملی۔ بادل گرج توپ میں سو رہا۔

بائیسکل
آج ہر شہر میں بائیسکلون کی کثرت ہے۔ اسکی ایجاد کا بھی فخر شیخ چلی کو حاصل ہے۔ آگرہ میں وہ اکثر ایک بانس پر سوا ہو کے پھرا کرتا تھا اور نہایت تیز جاتا تھا۔ یشب انڈریو نے اس سواری کو بہت پسند کیا۔ اور یورپ میں جا کے اسکی شہرت دی۔ مدت تک یہی سواری وہاں مستعمل رہی مگر قاعدہ ہے ہر ایجاد میں زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق اصلاحیں ہوتی رہتی ہیں۔ رفتہ رفتہ بانس کی ہئیت کذائی یہ قرار پائی جو آج بائیسکلوں میں دیکھتے ہو۔ اسمیں اُسمیں تھوڑا سا فرق ہے۔

تثلیث کی تردید
پادری قریبتون نے جب دربار اکبری میں ثالث ثلثہ پر دلیلیں قائم کیں۔ تمام علماء حکماء دنگ ہو گئے کسی کو جواب نہ سوجھا۔ شیخ جی آستین چڑھا کے سامنے آئے فرمایا۔ ایک تین، نہیں، نہ تین ایک، ہم اور تم اور یہ (فیضی کی طرف اشارہ کیا) تین ہیں اور تین ہی رہیں گے۔ ایک ہو نہیں سکتے۔ اسیطرح تم اکیلے ایک ہو ہم دونوں ایک ہو گئے، تم نہیں بن سکتے۔ بات معقول تھی۔ پادری چپ اور بند ہو گئے۔

روپیہ نہ جائے
ملا دو پیازہ جب پہلی بار شیخ کو دربار میں لے گئے تو پانچ اشرفیاں


صفحہ ۶۲

انکو دیں کہ بادشاہ کو نذر دکھانا۔ آپ نے نذر پیش کی۔ بادشاہ نے ہاتھ بڑھا دیا کہ نذر لے۔ شیخ پیچھے ہٹا۔ اور ملا سے کہا "ارے غضب اشرفیاں لے ہی مرا تھا۔"

خاتمہ

تمام زمانہ میں شیخ کی نمود ہو رہی ہے۔ کوئی ملک ایسا نہیں جہاں شیخ چلی کا نام نہ لیا جاتا ہو جب کوئی فوق العادت کام کسی شخص کے ذہن میں آتا ہے اور اہل روزگار اسکے نتائج پر غور نہیں کرتے تو بادی النظر میں اس کام کو مشکل سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں "یہ تو شیخ چلی کے منصوبے ہیں" اس سے ثابت ہے کہ شیخ کی تقلید ہمیشہ عقلائے عقلاے روزگار کرتے آئے ہیں اور آج یہی دنیا کے دانشمند اسکی پیری اپنا فخر سمجھتے ہیں اور ایسے ایسے منصوبے باندھا کرتے ہیں جنکی بنیاد وہ عقلمند رکھ گیا تھا۔ اسکے نقش قدم پر چلنے والے نہ صرف ایشیا میں بلکہ یورپ میں ہزاروں لاکھوں آدمی موجود ہیں۔ جنمیں ممبران پارلیمنٹ سے لے کر راہ چلتے مزدور بھی اسکی پیروی اپنا فخر جانتے ہیں۔ ایشیا اور خصوص ہندوستان میں اُسکے کمالات، خیالات کی بہت زیادہ داد دیجاتی ہے اور قدر کی جاتی ہے۔ درحقیقت ان لوگوں کے لیے اُسنے جو راستے کھولدیے اور جو نقش قدم چھوڑ گیا ہے، اسکی تعریف نہیں ہو سکتی۔ عقلمندی اور حماقت کے بیچ میں جو عمیق سمندر واقع تھا۔ اسی باہمت شیخ نے اُسے گھنگول ڈالا اور دونوں کو اسطرح باہم آمیز کر دیا۔ جس سے اُسکی تمیز محال ہے کہ "آیا شیخ چلی عقلمند تھا یا احمق"

قطعہ تاریخ از مصنف

چہچہے ہیں قہقہے جو شوخیاں ہیں ہر طرف
ہے جو ہے سو فی المثل فرخندگی خندیدگی

سال تاریخیں جو ہیگا ہاتف غیبی بگفت
شیخ چلی آ گئے دنیا میں با سنجیدگی
۱۳۱۹ھ
 
صفحہ نمبر 45
الارم بندھا ہوا ہے۔نفری بج رہی ہے۔ جس سے کوٹھری گونج اٹھی ۔اب شیخ تھکا اور بازو سست ہوگئے ۔پھر برابر تلوار کرتا رہا۔ آخر کب تک تازہ دم رہتا ساتھ ہی حواس بھی بگڑے آپ جانئے لڑائی میں حواس ہی کا کھیل ہے۔ یہ نہیں تو کچھ نہیں ۔ اور غضب یہ ہوا کہ ایک تازہ دم فوج مچھروں کی اسی دم آ پڑی اور یہ خاص ملیشیاء کی پلٹنون سے مرتب تھی لیجیے اور بھی ہوش بگڑے باہر مینھ موسلا دھار برس رہا ہے۔ بھاگنے کا بھی رستہ نہیں کس مصیبت میں جان پڑی ہے۔ سب طرہ یہ کہ لوگ سنیں گے تو کیا کہیں گے مچھروں نے بھگا دیا۔ مگر اب تو جان ہی پر بنی ہے۔ اور طاقت و حواس دونوں نے جواب دیا۔ ناچار اسی شمشیر خونچکاں ہاتھ میں لیے ہوئے شیخ کوٹھری سے بھاگا۔ صحن میں کیچڑ اور پانی سے پاؤں نہیں ٹھہرتا۔ گھبراہٹ میں ایک گھوڑے کی پچھاڑی سے پیر الجھا اور دھڑام سے گرا اٹھا اور بھاگا۔ پھاٹک بند سارے مسافر سورہے ہیں۔ بھٹیارن الگ خراٹے لیتی ہیں کدھر جائیے کیا کرئیے آخر زور سے غل مچا دیا کہ دوڑو لوگو دوہائی ہے۔ سب اٹھ پڑے تو شیخ صاحب کو اس ہیبت کذائی سے دیکھا کہ ننگی تلوار ہاتھ میں خون ٹپک رہا ہے کپڑوں پر لہو کے لختے جمے ہیں اور سخت بدحواس ہے۔ لوگ سمجھے ڈاکہ پڑا۔ اب پوچھتے ہیں شیخ کچھ بتاتا نہیں ۔ایک تو تھکاوٹ دوسرے گھبراہٹ۔ بارے دیر کےبعد حواس ٹھکانے ہوئے۔ قصہ جہاد بیان کیا لوگوں نے دلاسا دیا بڑی تعریف کی۔ بس یہاں شیخ کے استقلال اور جمیعت خاطر میں ذرا سا اختلال آگیا ورنہ کیا طاقت کہ وہ سخت سے سخت معرکہ میں بھی گھبرائے۔

آن نہ من باشم کہ روز جنگ بنیی پشت من
آن منم کا ندر میان خاک ذخون بنیی سرے
قصبات دیہات میں خانہ جنگوں کی کیا کمی۔ شیخ کو ایسے القابات بارہا پڑے ہیں۔ وہ اکیلا دس دس کے مقابلے میں ڈٹ گیا۔ گھر میں جھنیگر بولا اور اس نےدھڑےسے لاٹھی رسید کی۔ چوہوں کا تو ناس ہی کردیا۔ کھیت میں

صفحہ نمبر 46

چڑیوں کو پھٹکنے تک نہ دیتا ۔ کتے اس کی تلوار کے گھاٹ روز ہی اترا کرتے اس کی دھاک تمام قصبہ میں اور اردگرد کے دیہات میں بندھی ہوئی تھی۔ ایسا جیالا منچلا سپاہی دیکھا ہی نہیں۔
ایک دفعہ اس کے قصبہ میں ایک شیر جنگل سے بھٹک کے آگیا۔ اور کئی آدمیوں کو زخمی کر ڈالا۔ شیخ کو اس وقت خبر ہوئی جب لوگوں نے شیر کا کام تمام کر دیا تھا۔ مگر اس بہادر کو اس وقت جوش اور غصہ آیاکہ میان گھرہی چھوڑی اور تلوار سوت کے لپکا ۔شیر کی نعش مارے تلواروں کے چورنگ بنا دی تب اس کا غصہ جلابت ٹھنڈا ہوا۔
شیخ کی غیوری کا کچھ ٹھکانا نہ تھا۔ فاقہ کی حالت میں بھی کسی سے سوال کرنا اس کے لیے موت تھی ۔اہل حیران اس کی مصیبت میں شریک ہو جاتے اور اس پر لاکھوں گھڑے پانی پڑ جاتا اور مارے غیرت کے جس طرح ممکن ہوتا وہ اس احسان کا بدلا ضرور کر دیتا۔ اس کا چھوٹا بچہ جاتا رہا۔اہل محلہ مخصوص ہمسایہ کے لوگ شریک ہوئے اور معمولی طور پر کفن دفن سے فراغت ہوگئی۔ اب شیخ کو فکر ہوئی کہ کسی طرح پڑوسی کا احسان اترے مگر اتفاق سے جلد کوئی موقع نہ ملا۔ مدت کے بعد بڑھیا چل بسی۔ شیخ سویرے ہی دروازہ پر پہنچ گئے اور کمال کشادہ پیشانی سے شریک رہے جب سب باتوں سے فراغت ہوگئی۔ شیخ نے بڑے ناز کے ساتھ صاحب میت سے کہاکہ بھائی آج اللہ نے تمہیں سرخرو کیا اور تمہارا احسان سر سے اترا۔ آئندہ بھی ضرورت ہو تو مجھے ضرور خبر کرنا۔
جن دنوں شیخ سفر غربت میں تھا ایک دن ایک گاؤں میں پہنچا وہاں نہ دوکان تھی نہ مسافر خانہ نہ سرا۔ اور کسی سے جان نہ پہچان مگر گاؤں کے زمیندار نے اس کو کمال منت سے اپنے گھر لیجا کے کھانا کھلایا شیخ نے بہ تقاضائے انسانیت کھانا تو منظور کرلیا۔ لیکن اس کے دروازے پر سونے کے لیے محض غیرت کی وجہ سے کسی طرح گوارانہ کیا۔ اور میدان میں ایک املی کے درخت پر چڑھ کے رات بسر کردی صبح کو اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔
 
آخری تدوین:
صفحہ نمبر 47
بارہواں باب
شیخ کی علمیت اور شاعری اور دیگر فنون
شیخ کی تعلیم کا حال ہم اس کی ابتدائی عمر میں لکھ چکے ہیں۔ مگر وہ صرف رسمی بات تھی اور کہ اس کے باپ نے زبردستی اس کو پڑھوایا ۔ خیر اچھا کیا ۔درحقیت اس کی استعدار علمی بہت کم تھی مگر وہ خداداد قابلیت جو فطرتا اس کی ذات میں ودیعت کی گئی تھی اس کے سامنے رسمی علوم کی نہ حقیقت تھی نہ ضرورت۔ اس کا جی حساب میں کبھی نہ لگا۔ گویا اسے طبعی نفرت تھی گو وہ سو تک گنتی بے تکلف جانتا تھا مگر اپنی ایجاد و اختراع کو اس نے کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا یعنی بیس تک تو وہ فر فر گن جاتا اس کے آگے اکیس کے عوض بیس پر ایک بیس پر دو اس طرح بیس پر نو کے بعد وہ تیس کہتا اور تیس پر نو کے بعد بجائے چالیس کے دوبیس اور ساٹھ کو تین بیس ۔اسی کو چچار بیس ۔اس کے بعد پورے سو اور پھر سو پر دس یا بیس اسی طرح شمار کرتا۔ مگر حق یہ ہے کہ اس فن میں اس نے مطلق بے توجہی کی اس لیے ہم کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔
فن انشا میں اس کی لیاقت کا حال معلوم نہیں ۔اس وقت ڈاک کی آسانیاں تو موجود نہ تھیں اس لیے خط لکھنے کا موقع ہی نہ تھا اور البتہ وہ کچھ علمی مسائل یا حکمت کے معرکہ آرا مباحث لکھ لیا کرتا تھا جس کو زمانے نے مٹا ڈالا پھر کیونکر اندازہ کیا جائے کہ اس کی فصاحت و بلاغت کا کیا رتبہ تھا۔
نظم میں البتہ اس کی دلچسپی تھی اور شعر خوب کہتا تھا اس وقت کی زبان تو نہ تھی خاص دربار شاہی میں فارسی بولی جاتی تھی عوام کچھ بھاکا ملی ہوئی بولی بولتے تھے ۔اس لیے اس کی شاعری میں ان دونوں خصوصعیتوں کی جھلک پائی جاتی ہے۔ اور یہ صنعت سب سے زیادہ مشکل ہے۔ جب شہزادہ سلیم کی شادی نواب جودہ بائی مہاراجہ بھگوان داس راجہ جودھیور کی بیٹی سے ہوئی ہے دربار اکبری کے شعراء نے بڑے صنایع و بدایع کے قصیدے ، مبارکبادیں ، سہرے وغیرہ لکھے شیخ صاحب نے بھی مبارک ۔ ع

صفحہ نمبر 48

ہمیشہ دلبرے سو جان مبارک باشد​
لکھ کے پیش کی۔اکبر نے اس کو اس قدر پسند کیا کہ اسی وققت نور بائی رقاصہ خاص کو یاد کرائی گئی اور عین نکاح کے بعد بزم طوی میں گائی گئء ۔اس کی خوبی اس کی مقبولیت ہی سےظاہر ہے کہ آج تک جشنون میں ضرور گائی جاتی ہے ۔ہزار روپیہ روز کا طائفہ بھی اس مبارکباد کو ضرور گائیگا۔ تذکرہ نگاعوں کو اختلاف ہے کہ یہ شعر
ضمنا ضمنی بہم آوتے ہیں
تو چھپر اٹھانے کو کم آوتے ہیں​
شیخ چلی کا ہے۔ یا لال بجھکڑ کا۔ مولاناغلام علی آزاد بلگرامی تو خزانہ عامرہ میں شیخ چلی ہی کا ثابت کرتے ہیں۔ مگر صاحب آتش کدہ لال بجھکڑ کے طرفدار ہیں اور حضرت آزاد سے ہیں متفق ہوں کیونکہ ایسی سلاست اور برجستگی نشت الفاظ۔طرز ادا حضرت شیخ کا خاص حصہ ہے۔ افسوس نا قدر دانی زمانہ نے جہاں اور ہزاروں گنج شائگان خاک میں ملا دیے۔ اسی طرح شیخ کا دیوان اور دوسرا کلام یعنی یہ لےبہالعل و گہر اس کے ساتھ ہی زمانے سے ناپید و گئے۔ چند اشعار متفرق طور پر جو زبان زد عام ہیں درج کیے جاتے ہیں ۔ہنسے انتخاب کو دخل نہیں دیا ہے ۔
اکہتر بہتر تہتر چوہتر
پچھتر چھیتر ستہتر اٹھتر
حسین آباد بنا بن کے نمودار ہوا
گلشن تو ایسا کہ بادشای کا نام یوا
آغا تقی کے باغ میں اک توپ کھڑی ہے
بندر کی شکل ہوکے مچھندر سی لڑی ہے
چندا ماموں آجا آجا آجا
دھا جا دھا جا سونے کا ٹکہ دے جا
اگر ہم باغباں ہوتے گلشن کو لٹادیتے
اگر ہم پتنگ ہوتے لگا کر پیج عشق کا فلک پر کٹا دیتے
زلف اس مکہڑے پہ اس طرح سے لہرا رہی ہے
بھینس جس طرح سے کونڈے میں کھلی کھا رہی ہے

موسیقی میں شیخ کا وہی پایہ ہے جو بغداد میں اسحق موصلی کا تھا۔ ڈفلی اور ڈفالیوں کا ربانہ آپ ہی کی ایجاد سے ہے۔ کنکڑی جو سرکیوں کی بنا کے بچے بجایا کرتے ہیں ۔اس کی اختراع کا فخر بھی اسی یگانہ روز حاصل ہے حضرت امیر خسرو نے اسی کو دیکھ کے ستار بنایا۔ سچ تو یہ ہے کہ خسرو کا ستار
 

مقدس

لائبریرین
53

پلتے ہی تھے کہ اپنی کوٹھری کے سائبان پر دس پانچ دھوپ کھاتے نظر پڑے آپ بہت چکرائے مگر حواس تو اس کے کبھی جاتے نہ تھے کوٹھری میں پلٹ کے چارپائی پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا۔ ہزاروں ترکیبیں ذہن میں آئیں مگر سب بیکار۔ آخر ایک بار سوجھ گئی اور شیخ نے فورا بھٹیارے کو بلا کے حکم دیا کہ ہمارے لیے جو کھانا پکے وہ دو جا ہو۔ بھٹیاری نے تعمیل کی اور جلد جلد کھانا تیار کر دیا۔ جب تک شیخ اندر ہی بیٹھا رہا تھا۔ کھانا پک کے آیا تو بندر پیچھے پیچھے وہ تو سمجھ ہی گئے تھے آج بڑے بھاگوان کا منہ دیکھا ہے دعوت چکھیں گے غرض شیخ ایک طرف سائبان میں کھانا رکھوا کے پھرتی کے ساتھ کوٹھری سے باہر ہوگیا اور آنا فانا سرا سے نکل کے یہ جا وہ جا۔ اپنا راستہ لیا۔ بندر کھانے میں ایسے مصروف ہوئے کہ شیخ کا شکریہ تک نہ ادا کر سکے۔


تیرہواں باب

چند نکتے اور بس

(اعتبار) شیخ کے گھر کسی نے لکھ کر بھیجا کہ شیخ کا انتقال ہو گیا۔ بیوی بیچارہ بہت روئی۔ چوڑیاں ٹھنڈی کر ڈالیں۔ نتھ بڑھا دی۔ رنڈ سالے کا جوڑا پہنا۔ سب رسوم سے فراغت کے بعد اکبر باد جو قاصد روانہ کیا یہاں پہنچا تو شیخ کو صحیح و سالم سے ہٹا کٹا پایا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ شیخ زاروقطار رونے لگا ملا دو پیازہ نے گھبرا کے پوچھا تم زندہ بیٹھے ہو بیوہ کیسے ہوئیں۔ شیخ نے فرمایا ہوں کیا میں یہ نہیں جانتا مگر یہ آدمی بڑا معتبر ہے۔

(وکیل قطعی) فیضی نے شیخ سے پوچھا کہ بتائیے تو سہی پہلے انڈا پیدا ہوا یا مرغی۔ شیخ نے ذرا سوچ کے اس مشکل مسئلہ کا چار طرح جواب دیا۔

1: انڈے سے مرغی پہلے پیدا ہوئی اور مرغی سے انڈا۔
2: مرغی سے انڈا ہوا اور انڈے مرغی۔
3: انڈا مرغی سے پہلے ہی کیونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے۔


54

4: مرغی پہلے تھی کیونکہ اس سے انڈہ ہوتا ہے۔
محنت کم فائدہ زیادہ: یورپ میں آج جو ہنرمندیاں پائی جاتی ہیں اور وہاں کے دانشمندوں کی طباعی ںے مشینوں کے ذریعہ سے ایک میں دو دو چار کام لیے ہیں۔ اس اصول سے شیخ بے خبر نہ تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کہ کھچڑی کی ترکیب اچھی تو ضرور ہے۔ مگر یہ دقت ہے کہ چاول دال ملانا پڑتے ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ ایسی ترکیب کی جائے کہ کھچڑی ہی کھیت میں پیدا ہو۔ بیوی نے اور شیخ نے چاول اور دال ملا کے تخمریزی کر دی۔ مگر اتفاق سے اس سال پانی نہ برسا اور روئیدگی مطلق نہ ہوئی ورنہ کامیابی میں کیا شبہ تھا۔


رحم: شیخ کے باوا کے وقت کی ایک گھوڑی تھی۔ چونکہ موے باپ کی نشانی تھی اس کو بہت پیار سے رکھتے اور دانہ چارہ خود ہی دیتے۔ ایک بار جنگل کو لے گئے اور گھاس چھیل کے گٹھس باندھا۔ پہلے گھوڑے پر رکھا اور خود بھی سوار ہونے کو تھے۔ خیال آگیا اس پر بوجھ ہو جائے گا لہذا گٹھا تو اپنے سر پر اٹھا رکھا آپ گھوڑے پر لد لئے اس طرح بوجھ تقسیم ہوگیا اور گھوڑے کو تکلیف نہ ہوئی۔


قومی جوش: شہنشاہ اکبر ایک روز بیربل کوحسب معمول قومی فضیلت کے بارے میں چھیڑ رہے تھے ہر پل نے عرض کیا خداوند ہندووں کو ہر طرح الویت اور فضیلت حاصل ہے جس کی ایک نظریہ یہ ہے کہ ہندو کا پہلے مسلمان کا بات نام لیا جاتا ہے۔ یعنی ہندو مسلمان شیخ کسی اور کام میں راجہ توڈرمل کے پاس مصروف تھے یا آواز جو کان میں پہنچی وہیں سے بول اٹھے۔جہاں پناہ جیسے جورد۔ مرد۔


سادگی: علامہ ابوالفضل نے ہنس کے شیخ سے کہا کہ یہ بات آج تک سمجھ میں نہ آئی آخری چہار شنبہ بدھ کے روز پڑھتا ہے۔ شیخ نے کہا آپ اسی کو پوچھتے ہیں۔ ہمارے قصبہ میں عشرہ محرم ہمیشہ چاندنی میں آیا کرتا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 16-19
-----------
صفحہ 16
-----------


تختی پر وہ اس طرح مشق کرتا کہ تل بھر سفیدی نہ چھوٹتی ۔ آسان لٹکا اس کے ہاتھ آگیا
تھا کہ دوات سے صوف نکالا اوت تختی پر لیپ دیا ۔ اس کامیابی پر وہ اس قدر خوش
ہوتا کہ استاد کو بغیر دکھائے نہ رہتا ۔ جس کا صلہ وہ خوشی سے قبول کرنے پر ہر دم
تیار تھا ۔
کتب فروش اس کو ہمیشہ دعا دیتے تھے ۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے نہ صرف اس کا
باپ دوسرے چوتھے روز نئی کتاب خرید کرتا اور لڑکی کے ورثا بھی جلد جلد کتابیں
لینے پر ضریف تھے ۔
استاد نے کئی بار اس کو عزت کے ساتھ یہ کہہ کے رخصت کر دیا کہ جاؤ تم فاضل ہو گئے
مگر وہ علم کا ایسا شوقین تھا کہ تیسرے ہی روز باپ کے ساتھ مکتب میں داخل
ہو جاتا ۔ اور پچھلاپڑھا لکھا از سر نو دہراتا ۔ تاکہ کچھ غلطی نہ رہ جائے ۔
تمام جہان کے معلم بد خؤ ترش مزاج ہوا کرتے ہیں ۔ اس مکتب کی میاں جی
ان صفات میں کسی سے پیچھے نہ تھے اور لونڈوں کو بھی بالطبع استاد سے عداوت
ہوتی ہے اس کلیہ کی بنیاد پر ایک بار لڑکوں نے سازش کی کہ مولوی صاحب کو
کوانچ کی پھلیوں کا مزہ چکھانا چاہیئے۔ بیچارے نے عمر بھر میں دیکھی نہ ہوں گی اس
اس مشورے میں شیخ چلی صاحب بھی شریک تھے ۔ گو سب لڑکوں سے ان کی رائے
مختلف تھی یعنی ان کی صلاح تھی کہ پھلیوں کو انتنجے کے ڈیلوں پر نہ ملنا چاہیئے
بلکہ دھوبی ہمارا دوست ہے اس سے کہہ کے پائجامہ میں ملوا دیں گے لیکن کثرت آرا
سے ان کی رائے نا منظور ہوئی ۔ اور حقہ کی مہنال ۔ استنجے کی ڈھیلوں وضو
کے لوٹے میں پھلیاں پیس کے چھڑکی گئیں ۔ سویرے یہ سب کام
ہو چکا تھا۔ مولوی ساحب نے ابھی کوئی چیز استعمال نہ کی تھی کہ شیخ کا آموختہ
سننے بیٹھے ۔ یہاں وہی الف دو زبر آن اور آگے آیۃ مطلق ۔ پٹے اور بہت
پٹے۔ تب تو دانت پیس کے مولوی صاحب سے کہہ دیا۔ میں نے تو پاجامہ
میں پھلیاں ملنے کو کہا تھا ۔ مگر سب نے لوٹے میں ڈالی ہیں اور ڈھیلوں
پر ملی ہیں اب کی بار میں بھی تم کو پان میں کھلا دوں گا ۔ مولوی چوکنا ہوئے
اور بھید کھل گیا ۔ شیخ چلی سے حماقت ہوئی ہے تو عمر میں یہی ہوئی کہ

 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 16-19
-----------
صفحہ 17
-----------

مولوی صاحب بال بال بچ گئے۔ الغرض شیخ چلی اپنی خدا داد طبیعت کے زور دکھا رہا ہے
اور روز ایک نئی ادا اس دانشمند لڑکے کے انداز سے پیدا ہو رہی ہے۔ دنیا
کے مرقعہ میں کل نہیں تو اس کے قصبے سکونتی کے لوگ اس کی حرکات سے دلچسپی حاصل
کرنے لگے ہیں اور وہ اتنے سے سن میں ناموری کے آسمان پر زینہ لگا چکا ہے
چڑھنے کی کسر باقی ہے۔ صرف تعلیم میں اس نے پندرہ برس کے سن تک مصروفیت
کے ساتھ اپنے کمالات کو ایک متوسط ایشیائی ذہ علم کی حد تک پہنچا دیا ۔
کیوں کہ طباعی کے ساتھ اس کا حافظہ بھی بے نظیر تھا وہ اپنے کل سبق حفظ کر لیا
کرتا۔ اور چونکہ ذہین اور طباع آدمی بے پروا بھی ہوا کرتے ہیں اس لیے
وہ اپنے لکھنے پڑھنے میں استغنا کو بہت دخل دیتا تھا ۔ اسی وجہ سے آج کا
سبق جو حفظ کرنے کی حد کو پہنچ جاتا تھا کل بالکل سپاٹ اور سہو محو ہوجاتا
تھا۔ جس کو وہ باہمت طالب علم پھر دہرانے سے کبھی نہیں تھکتا تھا، اس نے تعلیم
کے بعد مکتب چھوڑ دیا۔ اور نامخدا اب جوان ہو گیا اس لیے شوریدگی شباب نے
اس کے دلی جذبات کو اور بھی چمکا دیاجس سے اس نے اپنی جدید زدنگی کو بہت ہی
قابل یادگار بنانے میں ذرا بھی مکی نہیں کی۔

چوتھا باب
شیخ چلی کا شباب

مرادوں کی راتیں جوانی کے دن۔ شباب کی امنگ۔سودا جوش پر ۔ یہ سن ہر انسان
کو جو رنگ دکھاتا ہے سارے زمانے کو معلوم ہے ۔ مغر اس حکیم مزاج ۔ فخڑ زمانہ ۔ہونہار
نوجوان کو اپنے شباب کے زمانہ میں ان مام نامعقول خؤاہشوں اور ارادوں کے
روکنے میں کچھ بھی دقت نہ پڑی۔ جس کو بڑے محتاط اور تعلیم یافتہ نوجوان بھی
نہیں روک سکتے۔
آغاز شباب کے آثار میں وہ غیر مہذب مقدمہ تھا جو ہر جوان ہونے والے
لڑکے قدرتاًپیش آیا کرتا ہے۔ شیخ چلی کوئی ایسا ویسا گھامڑ تو تھا نہیں کہ ایسے بڑے
معاملہ کو سرسری چھوڑ دیتا۔ اس نے قیاس کیا اندروار کوئی پھوڑا

 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 16-19
-----------
صفحہ 18
-----------

ہوا ہے جس کا ریم خارج ہوتا ہے ۔ دو ایک روز وہ خود سوچا کیا کہ اس کا کیا علاج ہونا چاہیے
مگر جب اس نے کچھ زیادہ احساس اس پھوڑے کا نہ پایا یعنی درد وغیرہ نہ ہوا تع اس نے
بے اعتنائی کی مگر دوسری بار تو اس کو بہت اہتمام کے ساتھ وہم نے گھیرا کہ پھوڑا اب تک
باقی ہے اس نے بالائی لیپ اور پولٹس وغیرہ کا استعمال کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ناچار
اس کو اپنے باپ سے اطلاع کرنے کی ضرورت پیش آئی اور اپنی ذہانت کواس نے اچھی
طرح ثابت کر دیا۔
باپ نے جو تدبیر اس کے دفعیہ کی فی الوقت کی ہو گی اس کا پتہ کسی تاریخ وغیرہ سے
نہیں چلتا۔ ہاں اتنا تحقیق ہوا کہ اس نے بیٹے کی شادی کر دینے کا مصمم ارادہ کر لیا
اور دلہن کی تلاش ہونے لگی ۔
شاید بلکہ یقیناً شیخ چلی تمام انسانوں کی طرح اپنے پھوڑے بےضرر ہونے
کی وجہ سے پھر اس کے علاج وغیرہ کا درپے نہ ہوا ہوگا کیونکہ عام قاعدہ یہی ہے کہ بیماری
جب دوامی ہو جائے یا متازی نہ ہو تو عملاً اس سے قطع نظر کر لی جاتی ہے شیخ چلی بھی
اس پھوڑے کو سمجھ گیا کہ ناسور ہو گیا ہے جو علاج پذیر نہیں ہے اور نہ اس کو تکلیف ہے۔
اس لیے مارو بھی گولی ۔
اب اس کا سن سترہ یا اٹھارہ برس کا ہو گیا ہے۔ شباب کے جادو اس پر چل رہے
ہیں۔ اور وہ پنگھٹ ۔ بازار۔ میلہ محلوں کی گلیوں میں معمول سے زائد
پھرنے لگا ہے۔ مگر اس کی باقابو طبیعت کا یہ حال ہے کہ کہیں دل نہیں اٹکتا۔
راہ چلتے کسی عورت کو عام اس سے کہ یقین ہو یا نہ ہو وہ ایک دو کنکریاں ایک آدھا
ٹھوکر یا دھکا رسید کرنے میں مشتاق ہو چلا ہے۔ جس کے عوض گالیاں کھا کے
بھی بد مزہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ہنستے ہنستے خود ہی لوٹ جاتا ہے۔ اس کی فرزانگی
کا یہ عمدہ نمونہ ہے کہ شیرے کی مکھی بن کے نہیں چمٹتا۔ بلکہ دوگال یہاں ہنس لیے
دوگال وہاں۔ بڑی بات یہ تھی کہ وہ بے فائدہ فکروں سے بچنے کی ہمیشہ کوشش
کرتا رہا اس لیے اس نے اس میں کوئی ایسا طوطا نہیں پالا جس کی وجہ سے زندگی
اجیرن ہو جائے۔ وہ دن بھر سو ہی بار عاشق ہوتا اور سو ہی بار عشق
رخصت کر دیتا۔ محبت کے مضبوط پھندے اس کو پھانستے ۔ مگر آنکھ اونٹ
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صفحہ 16-19
-----------

صفحہ 19
-----------
ہوتے ہی وہ سب کو تار تار کر ڈالتا۔ چونکہ فترتاً قلب و و دماغ مادۂ فساد سے خالی نہ تھا۔
پھر بھی باوجود تمام احتیاطوں کے دلی جذبات کے ہاتھوں پسپا ہو جاتا چنانچہ
وہ ایک دن چڑیماروں کے محلہ میں گیا اسی دن بہت سے جانور ایک چڑیمار پکڑ لایا
تھا۔ اس نے اپنی ناکتخدا بیٹی کو ان کے بیچنے کے لیے بھیجا تھا۔ گلی کے موڑ پر
ناگاہ شیخ چلی اس سے دوچار ہو گیا۔ اور تیر محبت ساتھ سینے میں ترازو ہوا۔
آشفتہ سروں کو کبھی ننگ و نام کی پروا ہوتی ہی نہیں۔ شیخ چلی بغیر اس کے کہ ذرا
بھی پس و پیش کرے لڑکی کے سامنے کھڑا ہو گیا وہ بچ کے
نکلنا چاہتی تھی اور یہ آڑ ہو جاتا تھا۔ آخرش اس نے ذرا ڈانٹا تو یہ بھی گرمائے
اور پوچھا کہ تو مجھ سے کیوں بات نہیں کرتی میں تیری چڑیاں نہ لوں گا۔ بلکہ تو کہے
تو ان کو بیچ کے لادوں۔ لڑکی گھبرائی کہ وہ سڑی تو نہیں ہو گیا ہے۔ اور پیچھے
پلٹنا چاہا۔ اس عاشق جانباز نے اتنی فرصت ہی نہ دی اور چڑیوں کی
پھٹکی چھین کے سب اڑا دیں۔ لڑکی کو زور سے کاٹ لیا اور اپنا راستہ
لیا۔ بلکہ کچھ پہلے ہی چڑیمار کے مکان پر پہنچ کر جڑ دیا کہ تیری لڑکی نے
جانور چھوڑ دیے۔ چڑیمار دوڑا تو لڑکی کے گال لہولہان اور اس کو زار و قطار روتے
پایاجب تک شیخ چلی کے پاس آئے آئے آپ دوسری تفریح کی فکر میں
جاچکے تھے۔
شیخ چلی شباب کی ترنگوں میں گویا کنہیا ہو رہا ہے۔ کوئی مقام تفریح اس سے
بچ نہیں رہتا۔ جہاں وہ دن میں ایک دو بار نہیں ہو آتا۔ اور ایک نہ ایک
کرشمہ نہ دکھا دیتا ہو۔ چونکہ اس کا خاندان معزز ہے اور باپ بڑا ملنسار نیک بخت
لہذا اس کے ساتھ لوگ ایک حد تک مراعات بھی کر جاتے ہیں۔ اور عادت سی
ہوجانے سے اس کی دراز دستیوں یا شوخیوں کی مکافات ناقابل برداشت
نہیں کرتے بلکہ اکثر ٹال جایا کرتے ہیں۔ غالباً اس کی بھی وجہ یہ تھی کہ شیک چلی
کے حرکات و افعال چونکہ معمولی ہوتے نہیں بلکہ ان کی تہہ مین ایک نہ ایک بدیع نکتہ
یا حکمت چھپی ہوئی ہے جسکے غوامض عوام الناس تو درکنار خاص لوگوں
کو
وقوف ہونا بہت مشکل ہے۔ اس لیے اپنے عجز کا اعتراف کر کے کوئی اس سے
 

صابرہ امین

لائبریرین
صفحہ 25 سے 28

ص 25

ہوتا ہے کہ وہ کام چوراورمحنت سے بھاگنے والا اسامی نہ تھا۔ اور زمانے کی نگاہ اور ضرورت کی ہوا پہچاننے میں ُبرا ہی صاحب نظر تھا - پھر جب اس نے یہ منصوبہ با ندھا کہ اس اُجرت سے میں مرغی لوں گا اور مرغی کے انڈے بیچ کے بکری خریدوں گا ۔ بکریوں کو ترقی د ے کے گائے اور پھر بھینس اور پھر گھوڑوں کا سوداگر بنوں گا ۔ اسکے بعد ہا تھیوں کا بیوپار کروں گا اس حد تک وہ ایک ماہر تاجراور تجارت کے تمام جزئی وکلی امورپر کامل بصیرت رکھنے والا انسان تسلیم کیا جاسکتا ہے ۔ دنیا میں آج اور آج سے ہزاروں برس پہلے تجارت کے یہی اصول مانے ہیں کہ یورپین تجارت کو دنیا بھر میں اس وقت جو کامیابی اورفتح حاصل ہے اُسکی ابتدا ہی یونہی ہوئی ہے - انگیریزوں کا ابتدائی داخلہ ہندوستان کی تاریخ کے ورقوں میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے ۔ اس سے ذرا بھی الگ نہیں ہے اوراسی طرح تجارت کے ساتھ ایک ایک قدم بڑھتے بڑھتے آج تمام ہندوستان کی سلطنت انگریزوں کے ہاتھ میں ہے۔ پس شیخ کی یہ خیالی ترقی تجارت ہرگز مضحکہ کے قابل نہیں ہے۔ اور اگر اتفاقی او تقدیری حرکت سے گھڑے کوگردن کی غصہ آمیزجنبش نے زمین پرنہ پٹک دیا ہوتا تو ہم دکھا دیتے کہ شیخ الغنم ملک التجار کے یادگار خاندان کا عروج اقبال کہاں تک پہنچا ہے ۔ ہاتھیوں کی تجارت کے بعد جو خاکہ اس نے کھینچا تھا اس کے اعتبار سے اسکی تدبیرمنزل اور تمدنی قوت کا اندازہ کرنے میں بڑے بڑوں کا وہم وقیاس قاصر ہے۔ چونکہ وہ ایک پُرمحبت شوبراورمہربان باپ بننے کی استعدا د رکھتا تها - لہذا اسنے اپنی خیالی دولت کو پہلے ایک امیرانہ عمارت کی طرف صرف کرنے میں پسند کیا اور ہونا بھی یہی چاہئےتھا- اس عمارت نقشے اور ایوان امارت کی تقسیم میں جو کچھ اس نے قابلیت دکهائی اُس سے اُس کی ریاضی دانی اورفن انجینئرنگ میں اعلیٰ مہارت ثابت ہوتی ہے اور اس پھراسکے سجنے اور آرائش میں تدبیرمنزل کی تمام ضرورتیں اسکے پیش نظرتھیں۔ اسی سلسلہ میں اس نے ان تمام ضروریات کو مکمل تسلیم کر کے شادی کی تجویز بھی کر لی ۔ اور اُسکے نتائج یعنی توالدو تناسل کی اصلی غایت



ص26



پر کس قدر صحت اورعجلت کے ساتھ اُسکا ذہن منتقل ہوا ہے۔ جسکی مثال ہرمتمدن اور متاہل دانشمند میں پائی گئی ہے۔ الغرض اس نقل کوابناے روزگارنے نے جس حد تک نقل محفل بنا رکھا ہے اس سے کہیں زیادہ اُس کی شان ارفع اور اعلیٰ ہے ۔ اگر شیخ کا یہ منصوبہ جو شادی کے قبل زمانہ کا ہے پورا ہوجاتا تو اسوقت وہ بچوں کی ضروریات اور جوروکی فرمایئشوں سے باوجود کمال مستقل مزاجی کے کسی قدر کسی وقت پریشان نظر آتا ہے۔ ہرگز اس کی نوبت نہ آئی مگرسوا تدبیر بڑے بڑے مدبران سلطنت کو بھی مٹا چکی ہے۔ وہی سلوک اس غریب شیخ کے ساتھ ہوا کہ بچوں پر گھرکنے کی خیالی ادانے بناینایا کھیل بگاڑ دیا اور گھڑ ے کے گرنے سے اُسکی تمام امیدیں خاک میں مل گئیں۔
میرے نزدیک اہل کمال کی وہ عام پریشاں حالی جوضرب المثل ہے اور جس کی حکایتیں تاریخ عا لم میں کثرت سے موجود ہیں کہ کوئی نظیر پیش کرنے کی ضرورت نہیں اسی کلیہ میں ہمارا شیخ بھی پابند تھا ۔ اور کچھ نہین کہ اسکی غیر معمولی خلقت اورغیر معمولی صداقت ذہنی اوراعلیٰ درجے کی طباعيان خود اس کی کامیابیوں کے لیے سد راہ ہوجایا کرتی تھیں۔
بیچاره شیخ بال بچوں کی کثرت سے اُکتا گیا اوراسکی حکیما نہ طبیعت نے اپنی آزادی پرمضبوط پھرے تو اُس کوبہت الجھن ہوئی - ہرچند یوں بھی کہ وہ اپنی بےقید فطرت کے اعتبارسے کچھ زیادہ بال بچوں کے دھندوں میں پھنسنا پسند نہ کرتا اور نہ کبھی اس نے خود داری کو ہا تھ سے جانے دیا ۔ بلکہ بارہا اُس نے بچوں کے ہاتھ سے روٹی چھین کے صرف اس خیال سے کھالی کہ بچہ اگرایک وقت کا بھوکا رہا تو مضائقہ نہیں میں بھوکا رہوں گا تو دوسرے وقت کی روٹی کما لانے کی قوت ہی نہ رہے گی ۔ اس فعل میں اسکو کبھی کبھی طبی اصول کا بھی لحاظ رہتا تھا وہ جانتا کہ بچوں کی نازک امعا میں خشک روٹی سدوں کی تولید کا باعث ہوگی جس کے روکنے کی ہر مہربان ماں باپ کو ضرورت ہے۔
یہ زمانہ شیخ کے لیے انتہا کے کڑے امتحان کا تھا اوردنيا داروں میں شائد ہی کوئی اس امتحان سے بچا ہو۔ مگراس عالی ہمت بلند نظر نے جس خوبی اور


ص27

خوداری سے اس امتحان کو پاس کیا ہے۔ اور اس مسئلہ کوطے کر گیا ہے وہ دو سرے کا حوصلہ نہ تھا - بیوی کی فرمائشیں تو کیا دھیان میں لانے والا تھا - چڑچڑے پن اور زبان درازی سے البتہ بہت گھبراتا تھا۔ مگر ہمیشہ اس نے ایک غیرت مند شوہر کی طرح اُس کی بدمزجیاں برداشت کیں۔ گو بیوی اس کی پسند کی اورخلقتاً اس سے موافق مزاج تھی مگر غیرت اور تکلیف اچھے اچھے صابرین اور غمخوار لوگوں کا قدم ڈگا دیتی ہے۔ اِسی وجہ سے اس کی محبوبہ بیوی اس کے دق کرنے پر مجبورتھی اوربچوں کی چل پون الگ جان کھائے جاتی تھی ۔ گو شیخ خود بچوں کے ساتھ اتنا زیادہ مانوس نہ تھا کہ اُن کی سرشوریاں سہے ۔ مگر بیوی کی آرزردگی اور دلگیری کا خیال سب کچھ برداشت کرا رہا تھا۔ مگر با ایں ہمہ اس نے نہ کبھی قرض لیا نہ چوری کی۔ محنت مزدوری سے جب تک کام نکلا - مگر جب اُس سے بھی پورا نہ پڑا تووه بے تکلف کسی بنیے بقال کی دکان پرچلا جاتا ۔ اور جو کچھ اناج پانی نقد جنس اس کے ہا تھ لگتا اٹھا لیتا - لالا جی یونہی بڑے بہادر ہوتے ہیں اس پرشیخ کی معمولی آزادی کی دھاک سے مجال نہ تھی کہ اس کو کوئی روک سکے بلکہ شیخ کی آمد دیکھ کے وہ دست درازی یا دست اندزی کی نوبت ہی نہ آنے دیتے ۔ اور ہنسی خوشی خاطر مدارات کر دی جاتی۔ شیخ کی نسبت ان افعال سے یہ گمان پیدا ہو سکتا ہے کہ وہ سینہ زور اور مفت خورآدمی تھا ۔ مگر یہ گمان انہی لوگوں کا ہوگا جوسطحی اور اوپری باتوں کو دیکھتے ہیں ورنہ شیخ اصول سے باہر کبھی قدم نہیں رکھتا تھا ۔ا ور درحقیقت غور سے معلوم ہوگا کہ یہ فعل اس کا کچھ بھی بدنما اور قابل ملامت نہین ہے کیونکہ وہ اس بات کا سچے دل سے قائل تھا کہ جو کچھ انسان کو ملتا ہے خدا ہی دیتا ہے اس میں کسی کے باپ کا اجاره نہیں ہے دوسرے یہ کو تمدنی قاعدہ سے سمجھا ہوا تھا کہ ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے اور ممکن نہیں کہ دنیا میں اکیلا آدمی کچھ کر سکے۔ جب یہ کلیہ تسلیم کر لیا گیا تو ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بنی نوع انسان ایک دوسرے کی مدد پر مجبورہیں

ص28



پر کچھ فرض نہیں ہے کہ امداد کے لیئے ظاہری رضامندی یا معمولی ارادہ اور قصد پیدا ہونے کے بعد ہی امداد تسلیم ہوچکی توہرشخص کے مال و ملک میں دوسرے شخص کا حصہ ضرور ہے ۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ میں بنیے بقال سے اپنے حق اور حصہ کے حاصل کرنے میں انکی رضامندی اور اجازت کا منتظر رہوں یہی وجہ تھ کہ وہ قرضے کے ناقابل برداشت باراور اُس کے نفرت انگیز عزت بارنتاج سے ہمیشہ محفوظ رہا - اور نہ اسکوضرورت وقت اور احتیاج نے چوری وغیرہ سقیم جرائم پر متوجہ اور مائل کیا ۔ مگر اس امداد غیراختیاری با خود مختاری کا سہارا کچھ ایسا مستحکم او دوامی تو تھا نہیں کہ اس کو بہت عرصہ تک فارغ البال اور بے فکر رکھے۔ بلکہ ابنائے روزگارکی تنگ دلی اور کم ہمتی یا مہمل بخل نے اُس کو ایسے قابو اور دست رس کے موافق سے دوسرے دورے طور پر محروم اور مایوس کردیا اور اس بدخلقی اور بےمروتی سے وہ ایسا متاثرہوا کہ گھرچھوڑنے پر پوری آمادگی ہوگئی ۔

ساتواں باب
سفر وسیلۃ الظفر
قصبہ چلہ کی خلقت اورخاصۃً اہل تمول اور بنیے بقالون کی اذیتوں اور بے مروتیوں نے شیخ کوجب بہت ہی دلگیر اور مجبور کر دیا تو اس نے اپنی بیوی سے مشورہ کرنا ذرا ٹیڑھی کھیر خیال کیا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہئے اور نیز وہ خود ایک معلومات کا خزانہ تھا اور یہ بھی سمجھتا تھا کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے اس لیے اس نے چپکے چپکے اپنے ارادے کی تکمیل کے اسباب پرغورکرنا شروع کیا ۔ اورجب تمام دقتوں اور مشکلوں کو اس نے اپنی عالی ہمتی سے مار کے ہٹا دیا تو دفعتہً وه اٹھ کھڑا ہوا اور بغیرتعین اس امر کے کہ کہاں جاؤں گا آدھی رات کو گھر سے نکل گیا۔ چونکہ ہم شیخ کی سوانح عمری میں اُس کے اُن دھبوں کے مٹانے کا قصد کر چکے ہیں جو اس کے دامن ناموری پرلگا گئے ہیں اور جہاں تک امکان میں تھا ہم نے صحیح صحیح حالات
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
صفحہ ٣٩

قوت کے مبادی دوسروں کے انتہائی معقولات کے مساوی تھے پس وہ جانتا تھا کہ میری سرسری انتقالات ذہنی کے نتائج کا تو کوئی متحمل ہو ہی نہیں سکتا۔ دقیق باتوں کو کیسے سمجھاؤں۔ اسی وجہ سے اس نے اپںے دماغ کو اس حد تک استعمال ہی نہیں کیا جس کی دوسروں کو ضرورت ہوتی ہے اور اس میں وہ سچا بھی تھا۔

گیارہواں باب

طرز معاشرت اور بعض ذاتی خصائص

چوں کہ شیخ نے ابتدائے عمر سے سادگی کے ساتھ بسر کی اس لیے دربار اکبری میں پہنچنے تک تو بغیر کہے ہر شخص خیال کر سکتا ہے کہ اس کو تکلیفات کی پرواہ ہی نہ تھی اور وہ اس قدر صاف اور بے ساختہ پن کے ساتھ رہتا تھا کہ دوسرے سے بن نہ پڑے چناچہ اس کے حالات خود شاہد ہیں کہ اس نے کبھی نالش اور تکلیف کو پاس نہیں آنے دیا وہ غذا میں تو اس قدر بے پرواہ تھا کہ کئی مرتبہ اشتہائے صحیح میں اس نے اپنی محبوبہ بیوی کو روٹی پکانے کی بھی تکلیف نہ دی۔ اور دال چانول آٹا جو کچھ موجود ہوتا تھا یونہی استعمال کرلیا کرتا۔ اس کو یقینا معلوم تھا کہ غذا کی غایت پیٹ بھرنا یا بھوک کی تکلیف سے نجات پانا ہے جو بغیر پکائے بھی ممکن ہے پھر ضرورت کیا کہ ایک وقت طلب امر کے لیے بیوی کو الگ تکلیف ہو اور خود جدا انتظار کی زحمت اٹھائے۔ بھوک میں مٹی کا نوالہ سونے کا ہوتا ہے بس اسی پر اس کا عمل تھا اور بڑی ہمت سے وہ اس پر نباہ بھی کرلیا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ بیماری کے اسباب اور مرض کے موجبات غذا بد پرہیزی یا خارجی۔ علتین ہرگز نہیں وہ کہتا تھا کہ جس پیٹ میں پکی روٹی ہضم ہوجاتی ہے کچا آٹا کیوں نہ ہضم ہو ہمیشہ دہی کھایا کرتے ہیں۔ آج کیا وجہ ہے کہ دہی سے زکام ہوجائے۔ اگر دہی مضر ہوتا تو ہمیشہ مضر ہوتا۔ کبھی ہو کبھی نہ ہو یہ عقل کی بات نہیں ہے یا بیماری میں گھی کم کھایا جائے دودھ کی ممانعت ہو

صفحہ ٤٠

شیرینی سے پرہیز کرو۔ یہ سب باتیں واہیات ہیں بیماری میں ضعف ہوتا ہے اور گھی طاقت لانے والی چیز ہے پس ضرور عین بیماری میں کھانا چاہیے تاکہ ضعف نہ آنے پائے۔ اسی طرح دودھ اور شیرینی تو بخار میں کھانا فرض ہے کیوں کہ منہ کا مزہ کڑوا ہوجاتا ہے اس کے بدلنے کے لیے میٹھی چیز سے زیادہ کوئی ضروری بات ہی نہیں۔ وہ لرزہ اور بخار کی علت صاف طور پر اس طرح بیان کر دیتا تھا کہ جاہل اور گنوار تک سمجھ جاتے تھے۔ یعنی جب دھوپ میں بہت دیر تک رہو گے ضرور بدن گرم ہوجائے گا۔ یہی بخار ہے اور جاڑہ ایسے آتا ہے کہ برسوں سے خصوصی سردی کے دنوں میں جو پانی پیا جاتا ہے وہ جمع ہوتے ہوتے اور پیٹ کی کوٹھری میں جہاں مطلق گرمی یا آگ نہیں پہنچ سکتی۔ تھنڈا رہتے رہتے بدن میں کپکپی پیدا کر دیتا ہے۔ یہی لرزہ ہے۔ اسی پر دلیل یہ لاتا تھا کہ دیکھو جاڑوں میں جب سرد پانی پیو تو بدن کانپنے لگتا ہے پھر پیٹ میں اتنا بہت سا پانی جمع رہے اور لرزہ نہ آئے اس کے کیا معنی۔

دست آنے کے متعلق بھی اس کا یہ اعتقاد تھا کہ کسی دن پانی زیادہ پی لیا گیا پس پیٹ کے اندر فضلہ گھل گیا اور پتلا ہو کے نکلا۔

پیٹ میں درد اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آنتیں تو بڑی ہوشیار ہیں۔ جب کھانا ان میں پہنچتا ہے تو اتفاق سے ایک آدھ کو نہیں ملتا ہے۔ بس وہ دوسری آنتوں سے لڑتی اور چھینتی ہے۔ اب یہ سب پیٹ کے اندر دوڑی دوڑی پھرتی ہیں۔ ان کے چلنے اور دوڑنے سے پیٹ میں ان کے پاؤں زور زور سے پڑتے ہیں اور دکھنے لگتا ہے۔

دربار اکبری میں جب وہ پہنچا ہے تو وہاں کے امرا اور خواجہ شیون نے اس کی پر تکلف دعوتیں کیں۔ مگر وہ ہمیشہ شاکی اور متنفر رہا جس کی وجہ یہ تھی کہ کھانے تو اس قدر لزیز مگر کثرت اتنی کہ ایک ایک لقمہ بھی لیا اور پیٹ بھر گیا۔ پس منہ میں ایک لقمے کا مزہ کیسا معلوم ہوسکتا ہے جب تک ہر چیز کو بہت سی نہ کھایا جائے خاک بھی ذائقہ نہیں ملتا۔ ایسے کھانوں سے بجز اس کے کہ غصہ آئے کہ ہائے کچھ نہ کھایا

صفحہ ٤١

کوئی حاصل نہیں۔ اس وجہ سے اس نے چند روز کے بعد دعوتوں میں جانا چھوڑ دیا اور ملا دو پیازہ کے گھر پر چونکہ رہتا تھا ان کے کھانوں سے بھی ہچکچاتا رہتا اور ذرا ان کی آنکھ بچی کہ بازار سے سیر آدھ سیر چنے بھنوا منگائے یا دس پانچ پھوٹین دو تین سیر گاجرین کبھی چنے کے ستو لیے اور پیٹ بھر کھا کے آسودہ ہوگیا۔


جب ملا صاحب کے یہاں رہنے سے زیادہ تکلیف ہونے لگی اور اپنی پسند اور آزادی کے ساتھ کھانے کا موقع ملنے لگا تو شیخ الگ مکان میں اٹھ گیا مگر باورچی خانہ کا انتظام نہ کیا اور کھڑا کھیل فرخ آبادی بازار سے کچھ لیا کھا پی کے ٹھکانے لگا دیا۔


لباس ہمیشہ سادگی کا لحاظ رہا۔ یورپ کے اصول اس کو اس وقت معلوم تھے جن پر آج عمل ہو رہا ہے یعنی وہ موٹے کپڑے کو بہت پسند کرتا تھا اور اس زمانے میں ملکی صنعت کے گاڑھے دھوتر اس کی مرغوب ترین چیزیں تھیں۔ دو سوتی کی مرزائی یا پینٹی پاجامہ اکثر پہنتا۔ گرمیاں ، جاڑے ، برسات ہر موسم میں اصول صحت کے قاعدہ سے اس کا لباس خالی نہ تھا یعنی جاڑوں میں مسامات بند ہونے کا اس کو کامل یقین تھا۔ اس لیے مصلحتا باریک کپڑا استعمال کرتا۔ جس کی کھلی دلیل یہ تھی کہ ایک تو مسامات بند اس پر اگر گرم لباس پہنا جائے تو یقینا دوران خون میں فرق واقع ہوگا اس لیے ہلکا اور باریک لباس پہننا چاہیے اس طرح گرمیوں میں گرم اور موٹا لباس اختیار کرتا۔


درباری لباس میں اس کو ہمیشہ الجھن اور بے چینی رہی۔ بڑے بڑے گھیردار جامے اور کمر میں پانچ سیر کا ٹپکا سر پر گران بار رفیدہ شلوار کی قطع نرالی یہ تکلفات اس کو بہت ناگوار تھے۔ وہ بے قید رہنا زیادہ پسند کرتا تھا۔ اور اسی وجہ وہ کبھی کبھی دربار میں بالکل تحت اللفظ ایک جانگیا یا مرزائی پہنے چلا جاتا اس کے الناس باللباس کے مشہور مقولہ سے کبھی اتفاق نہ تھا۔ وہ ذاتی خوبیوں کے سامنے صفات اصفانی کو کچھ چیز ہی نہ سمجھتا۔ اس کا قول تھا کہ گدھا جل اطلس سے گھوڑا ہوجائے تو ہوجائے۔ مگر انسان لباس فاخرہ سے




 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 60

معمولی ترکیب پر اس کی طبیعت نہ لڑی ۔ نہ کچھ مفید سمجھی مگر کھٹمل ہیں کہ سارا خون چوس لیتے ہیں۔ شیخ نے ایک دن ذرا غور کیا ۔ اور ایک ترکیب سمجھ میں آگئی۔ چار تولہ سنکھیا خرید لایا ۔ اور باریک پیس کر سوتے وقت تمام جسم میں اس کا اُبٹن مل لیا ۔ اب کاٹو ۔
بدلا
شیخ مبارک کے مرنے پر فیضی اور ابو فضل نے حسبِ آئین اکبری بھنڈارا کیا اورداڑھی مونچھیں منڈوا ڈالیں ۔دونوں بھائیوں کا تقرب اور اکبرِ اعظم کی مرضی سے اہلِ دربار کو بھی داڑھی مونچھ منڈوانی پڑی۔ شیخ بھی انہی میں شریک تھے ۔ مولانا عبدلقادر بدؤانی اور صدر جہان وغیرہ علماء نے البتہ مطلق انکار کیا ۔ خیر بات گئی گذری ہوئی ۔ مگر شیخ کو ضرور اس کا خیال رہا ۔ سال بھر کے بعد شیخ کی گائے مر گئی ۔ اور آپ نے اپنی داڑھی مونچھ کا صفایا کیا سو کیا ہی ۔ فیضی اور ابوالفضل کے سر ہوگئے کہ ہم نے تمہارے باپ کےسوگ میں بھنڈار کیا تھا ۔ تم ہماری گئو ماتا کا بھنڈار کیوں نہیں کرتے ۔ ہرچند دونوں بھائیوں نے فلسفہ بھگارا اور حکمت کے تمام رموز کھول کے بیسوں دلیلیں کیں ۔ مگر میرے شیر نے ایک نہ مانی ۔ آخر اکبر تک یہ قصہ پہنچا۔اور راجہ بیربل دیوان ٹوڈرمل ، مہاراجہ مہان سنگھ کچھوہہ نے تائید کی۔ دونوں بھائیوں کو داڑھی مونچھیں گئوماتا کے بھنڈار میں چڑھانا پڑیں ۔ تب جاکر شیخ نے دم لیا ۔

دورغِ مصحلتِ آمیز
شہزادہ جہانگیر (سلیم ) اکبر سے باغی ہوگیا ۔ مریم مکانی (اکبر کی ماں )الہٰ آباد گئیں ۔ لاڈے پوتے کو منالائیں ۔ وہ خبر پاتے ہی کشتیوں کے نواڑے میں بیٹھ کر بنگال چل دیا ۔ مریم مکانی کو سخت رنج ہوا ۔ اکبر کامل کی مہم پر حکیم مرزا کے مقابلہ میں صف آرا تھا ۔ اس خبر کو سنتے ہی بے چین ہوگیا ۔ ارکانِ دولت نے تدبیروں کے بادِ ہوائی کبوتر اُڑائے ۔ مگر ایک نے بھی چھتری پر پنجے نہ ٹیکے ۔ سب مہمل شیخ ہمراہ رکاب تھے ۔بادشاہ کوزیادہ متردد پاکے آپ نے بیڑہ اٹھایا ۔ کہ میں شہزادہ کو لے آؤنگا ۔ اکبر نے کچھ سوار ساتھ کیئے ۔ اور شیخ جی روانہ ہوئے ۔ شہزادہ قلعہِ بہار میں مقیم تھاکہ یہ پہونچ گئے ۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 29

فراہم کرلیے ہیں۔ اور مدنون کی عرقریزی اور محنت سے یہ واقعات جمع کرسکے ہیں۔ اس واقعہ کے تسلیم کرنے میں بالکل انکار ہے جو بڈھی عورتیں بچوں کے بہلانے کے لیے ایک کہانی میں اُسکی نسبت بیان کیا کرتی ہیں اور اسکا خلاصہ یہ ہے کہ شیخ چلی جب جواب ہوا تو گھر میں عسرت تھی اُسکی بوڑھی ماں نے بیٹے کو کمانے کی ترغیب دی مگر وطن میں اُسکی لیاقت کا اندازہ کرنے والا کون تھا۔ اس لیے وہ دل جانے پر آمادہ ہوا۔ ماں نے چار روٹیاں توشہ سفر کے لیے پکا دیں۔ وہ سویرے اُٹھ کے چلا۔ اور دوپہر کو ایک کنوے پر پہنچا چاروں روٹیوں کو چاروں کونوں پر رکھ کے کہنے لگا ایک کو کھاؤں دو کو کھاؤں تین کو کھاؤں کیا چاروں کو کھاؤں قضارا اس کونے میں چار پریاں رہتی تھیں وہ ڈریں کہ اللہ ایسا کون زبردست ہے جو ہم کو کھانے آیا ہے۔ مگر شیخ کی بے ساختہ تقریر سے سمجھ گئی تھیں کہ ہے کو تیکھا ہی۔ چنانچہ اُنہوں نے ایک بکری اس کو دی جو سونے کی مینگنیاں گراتی تھی۔ شیخ اس کو لے کے پلٹے تو سرامیں اُترے بھٹیاری نے بکری اور مینگنوں کو دیکھا تو ششدر ہوگئی اور بے ایمانی سے رات کو بکری بدل لی۔ دوسری بکری شیخ کے گلے منڈھی۔ وہ خوش خوش گھر آئے مان سے خوشخبری کہی کہ بکری ملی ہے اسکی سونے کی مینگنیاں ہوئی ہیں۔ ماں نے باندھا اور انتظار کیا تو بکری نے وہی معمولی مینگنیاں ڈالیں۔ شیخ حیران ہوگئے اور چار روٹیاں باندھ کر چلے اور کنوے پر وہی عمل کیا۔ اب کی بار ایک مرغی ملی جو سونے کا انڈا دیتی تھی۔ مگر سفاک بھٹیاری نے اُسے بھی اُڑا لیا تیسری بار گئے تو ایک دیگچی ملی جس میں یہ تاثیر تھی کہ لیپ پوت کے چولھے پر چڑھادیا۔ اور جو نعمت مانگی پک کے تیار ہوگئی۔ بھٹیاری کو خدا سمجھے اُسے بھی لے مری۔ ایک ٹھیکرا پتیلی دے کے شیخ کو رخصت گیا۔ چوتھی بار شیخ گئے تو پریوں نے تار لیا کہ اس بیچارہ سے کوئی وہ چیزیں چھین لیتا ہو تب انہوں نے ایک سونٹا اور ایک رسی حوالے کہ رسی حکم دیتے ہی مشکیں باندھ لے گی اور
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 30

سونٹا خود بخود پیٹ چلے گا۔ شیخ اب کی بار جو سرائے میں آئے تو بھٹیاری کو کوئی چیز نظر نہ آئی اور رسی سونٹے پر اس کی توجہ ہی مائل نہ ہوئی۔ شیخ بھی چپکے ہورہے۔ رات کو شیخ نے اپنے جی میں کہا اس کا امتحان کریں اور فوراً رسی کو حکم دیا کہ بھٹیاری اور اسکے گھر بھر کی مشکیں کس لے۔ رسی نے فوراً تعمیل کی تب تو شیخ نے کہا۔ "چل سونٹے تیری باری" سونٹا اُٹھا اور گداگد پیٹنے لگا۔ دہائی ہے تہائی ہے۔ بھٹیاری قدموں پر گر پڑی اور سب چیزیں بکری، مرغی، پتیلی شیخ صاحب کے حوالے کردیں اور وہ گھر لے آئے۔ اس کہانی کی اصولی غلطیاں تو ایک طرف سطحی باتیں بھی اس قابل نہیں کہ ایسے فخر روزگار کی طرف نسبت دی جائے۔ مثلاً روٹیوں کو رکھ کے اُنکے کھانے کا سوال ایک لغو بات تھی وہ تو کھانے ہی کے لیے ہیں پھر شیخ ایسی تحصیل حاصل میں کیوں پڑتا اسکے بعد پریوں کا ڈرنا اور رشوت دینا بالکل جھوٹ ہے۔ کیونکہ پریوں کو انسان کھا ہی نہیں سکتا بلکہ دیو پری انسان کا ناشتہ البتہ کیا کرتے ہیں جب ہی تو تاج الملوک ڈرا تھا۔ اور دیو نے بھی شکر کیا تھا کہ اللہ اللہ مدت کے بعد حلواے بے ۔۔۔۔ ملا ہے اور فرض کرو کہ پریوں کو تمقضا سے بشریت خوف ہوا تھا تو جیسے نکل کے دیکھا تو ایک مفلوک مفلس کو دیکھا ہوگا۔ جس سے ڈر گیا کیونکہ وہ ایک یہ چار کیا بنا لیتا۔

بکری سونے کی مینگنی نہیں کرتی نہ مرغی سونے کا انڈا دیتی ہے۔ اب بھلا دیگچی میں بغیر جنس ڈالے کیسے کھانا پک سکتا ہے۔ سونٹا اور رسی بے جان چیزیں ہیں انہیں ارادہ یا حکم کی تعمیل کجا۔ الغرض یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ ہمارے شیخ صاحب پر محض بہتان باندھا گیا۔

شیخ گھر سے نکلا تو راستے کی صعوبت کا حال اور منزل اور مقام کی تفصیل ہم اس لیے نہیں بتاسکتے کہ اُس نے کوئی سفرنامہ اپنا نہیں چھوڑا اور ہوا قلمی کتابوں میں کسی خاص کتب خانہ میں پڑا ہوگا۔ زمانہ کی ۔۔۔۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 31

ایسی بیش بہا چیزوں کو باہر آنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ ہمیں جو کچھ پتہ چلا یہ ہے کہ شیخ صاحب مدتوں مارے مارے پھرتے رہے اور کہیں تھل پڑا نہ لگا۔ آخر اکبر آباد پہنچے شہنشاہ اکبر اعظم کا زمانہ تھا اہلِ کمال کی اتنی قدر اس سے بھی پہلے نہ اس سے بعد کہی ہوئی نہیں۔ ہر طرف سے عقلائے روزگار اور ہر فن کے کامل چلے آتے تھے دربار میں داخل ہوئے اور پاس ہوگئے۔ شیخ جسدن اکبر آباد میں پہنچا ہی دو پیسے اُسکے پاس باقی تھے بیچارہ سرامین پہنچا اور اپنی معمولی دریا دلی اور فیاضی سے بھٹیاری سے کئی کھانوں کی فرمائش کردی اور اُس دن سرا کے سب مسافروں کو دعوت بھی دے دی کہ ہمارے ہی ساتھ ماحضر تناول فرمائیں۔ بھٹیاری نے بنئیے سے سودا لیا اور کھانا وانا پکا کے شیخ کو معہ دعوتیوں کے کھانا کھلایا صبح کو شیخ جی سے دام جو مانگے یہاں کیا دھرا تھا ٹھن ٹھن گوپال وہی دو پیسے پھینک دیے بھٹیاری حق حیران کہ معاملہ کیا ہے ٹھن ٹھن گوپال وہی دو پیسے پھینک دیے بھٹیاری حق حیران کہ معاملہ کیا ہے جب ذرا بات کھلی تو میان ما مہتر بھٹیاری کے کمترین شوہر بھی آدھمکے اُدھر سے بنیا بھی بھی لیے ہوئے دوڑا۔ اب آؤ تو جاؤ کہاں شیخ کے حواس پتیرا ہو ہی چکے تھے کہ د فعۃً ایک بزرگ شریف صورت مقطع تشریع سرائے میں پہنچے اور چونکہ ادھر بڑا مجمع تھا اور غو غو پشتو ہورہی تھی آپ بھی اُسی طرف چلے آئے۔ یہ مولانا عبدالقادر بدایوانی تھے جنہوں نے اکبر کی تاریخ بڑی دھوم کی لکھی ہے اور اکبر کو مذہباً کافر ملحد قرار دیا ہے جسکی نسبت آج تک جمہوریہ اہلِ علم و اہلِ دول میں ندا کرے جاری ہیں اور قول فیصل اب تک نہ ہوا کہ فی الواقع اکبر کا مذہب کیا تھا۔ غرضیکہ مولانا کے آتے ہی سب چُپ ہوگئے کیونکہ ایک ایک مشہور معروف آدمی اور دربار اکبری میں بھی بہت بااثر تھے مگر مُلا اور بالکل سادہ مزاج تھے ان کو اپنے اعزاز دنیا یا علو سے کمال اور بہتر علمی کا ذرا بھی غرہ یا گھمنڈ نہ تھا اور اس وقت تشریف لانے کی غایت نہ تھی کہ آپ کے وطن سے کوئی بزرگوار آنے والے تھے دن بہت ہوگئے تھے۔ انتظار سخت مشتاق تھا
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 32

آج خود ہی سرا میں بہ نفس نفیس اُن کو ڈھونڈھنے چلے آئے وہ تو ہنوز راہ ہی میں ہونگے کہ یہاں اس ہنگامہ میں شیخ صاحب انکو نظر پڑے۔ آدمی مردم شناس تھے وضع قطع نے بھی کچھ بتادیا اور تاڑ گئے کہ یہ شخص تو ہمارے جوار کا معلوم ہوتا ہے۔ دریافت کرنے سے رہا سہا شک بھی جاتا رہا اور قصبہ چکلہ کا نام سُن کے مولانا نے شیخ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بھٹیاری کی اُجرت اور بنئیے کے دام خدمتگار سے دلا دئے اور مکان پر لے آئے اور شیخ نے اپنے حالات سفر اور تجربات عظیم کا دفتر مولانا کے سامنے کھول دیا۔ مولانا شیخ کی ہمدردی کا خیال فطرتاً ہونا چاہیے تھے۔ مگر مجبوریہ یہ تھی کہ آج کل بعض دربار رس لوگوں سے ان بن ہوگئی تھی کیونکہ اکبری دربار میں مذہب کے متعلق اخترامات اور بدعات ہورہے تھے۔ مولانا اُس سے بہت ہی بیزار تھے اور بہتیروں پر کفر کے فتوے جڑ دیے تھے اس لیے چند روز سے آپ کا دربار بند تھا۔ سوچتے سوچتے خیال آگیا کہ ملا دوپازہ سے مجھے خلاف نہیں ہے اور وہ خود بھی ان بدعتوں سے متنفر ہیں۔ مگر ضرورت وقت سے ظاہر نہیں کرتے۔ لاؤ اُنہیں شیخ کی تقریب کردیں چنانچہ مولانا نے ملا صاحب کی خدمت میں ایک اشتیاقیہ رقعہ دے کے اپنے خدمتگار کو بھیجا۔ وہ اُسی وقت دربار سے آئے تھے اور کمر کھول رہے۔ اور آج معمول سے زائد خوش بھی تھے کیونکہ بیر بل کو اکبر کے سامنے کئی لطیفوں میں زک دی تھی۔ اور خاطر خواہ انعام ملا تھا اور نیز مولانا کے علم و فضل کے مقتدی تھے۔ زبانی کہلا بھیجا کہ آج رات کو خفیہ طور سے میں آپ سے ملونگا۔

اس وعدے کی تکمیل یوں ہوئی کہ ملا نے ایک بیراگی کا روپ بھرا اور چمٹا کھٹکا تے ہوے مولانا کے دروازہ پر پہنچے پہلے تو خدمتگار نے روکا۔ مگر جب ملا صاحب نے اپنی انگوٹھی مولانا کے پاس بھیج دی تو بُلا لیے گئے۔ اور بعد معمولی مزاج پُرسی جناب شیخ صاحب کا تعارف کرایا گیا
 

محمد عمر

لائبریرین
49

شیخ کی کنگڑی کا ہمیشہ ممنون رہوں گا۔ ایجاد کا حق کبھی زائل نہیں ہوتا اور مؤجد کی دماغی قوت ہر زمانہ میں قابل احسان سمجھی جائے گی۔ میرے نزدیک ڈیوٹ کا مؤجد اور چرخہ کا بانی صد ہا قطع کے لیمپوں اور ہزار ہا شکل کی مشینوں کے بنانے والوں سے بدرجہا قابلِ عزت ہیں کہ اُنہوں نے ایک صورت قائم کہ۔ اب تم تکلفات سے جو چاہو کر لو۔ شیخ خوش گلو ہو یا نہ ہو کیونکہ ہم نے اُس کا گانا نہیں سُنا۔ مگر اصول موسیقی کا بہت بڑا ماہر تھا۔ گدھے کی نہیق میں وہ ہمیشہ تال سم قائم کر لیا کرتا تھا اور زیر و بم اسی سے اُس نے حاصل کیا۔ نکہاو اور پنجم کے سروں میں ایسے جوڑ لگائے کہ اچھے اچھے کلاونت کان پکڑتے ہیں۔ ٹھیکہ پر سم اور دون میں گٹکری اسی کی ایجاد ہے۔ سارنگ وہ آدھی رات کو اور بھاگ دوپہر کو اس طرح چھیڑتا کہ بے وقت کی راگنی کا الزام ممکن نہیں اُس پر کوئی لگا سکے۔ دیپک عمر بھر میں ایک دن جب سفر میں تھا گائی تھی۔ آج تک مہابن نین آگ لگی ہوئی ہے۔ مشہور راگنیوں کے علاوہ اپنی اختراعی راگنیاں خوب ادا کرتا تھا۔ مثلاً ایک دُھن اُس نے صوت الحمیر نکالی تھی اُس میں ایسے ایسے لہرے نکالے کہ آج تک نام ہے۔ اُس کا قول تھا کہ حجرہ سے جو آواز نکل سکتی ہے وہ لے میں ڈوبی ہوتی ہے خواہ کسی کی ہو۔ طبلہ میں ٹکڑے بجانا تو اُس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ چوتا ایسا بجایا کہ منے خان اُس کا نام لے کے کان پکڑتا ہے۔ تغمتہ البعیر اس کا رسالہ اس فن موسیقی میں بہت مشہور ہے۔ اُس میں تھا پر سم کھانے کی ایسی باریک باتیں بتائی ہیں کہ سمجھنا دشوار ہے۔ اکبری دربار میں اس فن کے صلہ میں اُس کو اتنا کچھ ملا کہ اسحٰق کو ماموں رشید نے بھی نہ دیا ہو گا۔

علی ہئیت میں بھی اُس کو کسی قدر ملکہ تھا۔ دربار اکبری میں ایک حکیم نے بڑا سا برنجی کرہ پیش کیا جو نہایت عجیب و غریب تھا۔ مگر شیخ نے اُسی وقت ایک زبردست غلطی ثابت کر دی۔ اس برنجی کرہ میں درجوں اور دقیقوں کے خطوط مرکز سے قطر کی تقسیم کے لیے برابر کھچے تھے۔ ثابت

50

یہ کہا جاتا تھا کہ زمین گول ہے اور خط استوا کے دو جانب قطبین کی طرف اس کو بتدریج تدور ہوتی جاتی ہے۔ شیخ نے اعتراض کیا کہ زمین گول کیونکر ہو سکتی ہے۔ اگر گول ہوتی ایک آدمی یا ایک چیز اُس پر قائم نہ رہ سکتی۔ ادھر اُدھر لڑھکتی پھرتی گولے پر کہیں ٹھہرا جاتا ہے۔ قطع نظر اُس کے سارے دریا سمندر اسی زمین پر جاری ہیں اگر زمین گول ہوتی تو تمام زمین پر پانی پھیل جاتا گو آپ ہی ڈبکیاں

کھاتا پھرتا۔ یہ کیسی بد عقلی کی باتیں ہیں۔

شیخ باجرے کا ملیدہ اتنا خوش ذائقہ اور لطیف بناتا تھا کہ حلوائے مسقطی اور نان بشیر کی حقیقت نہ تھی۔ دوسرے کھانے بھی وہ پکا لیتا تھا اور اچھے پکاتا تھا۔ مگر ماش کی دال میں بتھوی کا ساگ اس کے واسطے مخصوص تھا۔ کھچڑی بغیر ادھن کے اُس نے کبھی نہیں بنائی اور نہ ارھر کی دال بغیر پالک کے ساگ کے اُس کو اچھی معلوم ہوئی۔ کیری کی چٹنی اور املی کچہا بہت ہی لذیذ اور چٹ پٹا بناتا تھا۔ کچے کیتھے کو نمک کے سات کھانا اُسی کی ایجاد ہے۔ جنگلی بیروں کو جوش دے کے وہ ایک قسم کی شراب بناتا تھا۔ اُسی کا نام شراب الصالحین ہے۔

شیخ نہایت سادہ مزاج تھا۔ اُس کو ہلکے ہلکے صوفیانہ رنگ بہت پسند تھے۔ ملتان مٹی میں وہ ہمیشہ اپنی لنگی اور چادر بہت ہی تکلف کے ساتھ رنگایا کرتا تھا۔ ببول کی چھال کا رنگ کاٹ کے وہ ایسا پائدار رنگ رنگتا تھا کہ کپڑا پھٹ جائے مگر رنگ نہ جائے۔ ایک بار اُس کے یہاں ایک بکری بیمار ہوئی جس کو ذبح کرنے کے بغیر چارہ نہ تھا۔ شیخ کو خون دیکھ کے اُس کا شوخ رنگ ایسا پسند آیا کہ اپنا کرتہ پاجامہ دونوں اُس میں رنگ لیے۔ گوالیار کے اکثر رنگ اُسی کی ایجاد سے ہیں۔

حقائق اشیا کا ماہر اتنا بڑا کوئی ہوا ہے۔ غلہ کے تمام اقسام کو وہ بلا تردّد پہچان لیتا تھا۔ اور سب کے نام اُس کو حفظ تھے۔ اُن کی ترکیب استعمال میں بھی اُس نے کبھی غلطی نہیں کئی۔ مثلاً گیہوں وہ ہمیشہ پسوا لیا کرتا تھا۔ چنوں کو بھون کے کھانے کی ترکیب اُس نے نکالی۔ تانبے، پیتل، لوہے کو وہ الگ الگ تمیز کر لیا کرتا تھا۔ اور اُن کے رنگ صاف

51

بتا دیتا تھا۔ معدنی اشیا کو ہمیشہ ایم فلزی چیزوں سے برابر تبادلہ کر لینے میں اُس کو اہتمام رہا۔ سونے چاندی کے متعلق اُس کو یہ بحث تھی کہ صرف رنگ کے فرق سے کیوں قیمت مین تفاوت ہے۔ اس کے متعلق دربار اکبری سے زیادہ امتحان کا کون میدان تھا۔ وہاں جب اُس نے مناظرہ کیا ہے تو کسی کو جواب دینے کی مجالی نہ تھی۔ اور وہ اس بات پر اڑا رہا کہ صرف ایک ذہنی فرق پر ایک چیز کو کم حقیقت دوسری کو گراں قیمت کیوں قرار دیا ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر اُس نے بار ہا اشرفی کو روپے کے ساتھ برابر تبدیل کرا لیا اور صفر صراف کو ماننا ہی پڑا۔

منطق الطیر میں بھی اس کو کچھ ملکہ تھا۔ سویرے سویرے کوے کے بولنے پر وہ دن بھر مہمان کا انتظار کرتا رہتا۔ صبح کو مرغ بولتے ہی وہ سمجھ جاتا کہ تڑکا ہو گیا۔ مرغیوں کے کڑکڑانے کے ساتھ ہی وہ بیوی کو بتا دیتا کہ اب انڈے دیں گی۔ گھر کے پلے ہوئے طوطے کی بولی وہ بہت ہی جلد اور صفائی کے ساتھ سمجھ جاتا تھا اور گھڑیوں اُس کی نعت میں باتیں کیا کرتا۔

اسی طرح اور جانوروں کی زبان جانتا تھا۔ گھر کی بکریاں جب رات کو غیر معمولی بور پر پکارتیں تو وہ کہہ دیتا کہ بھیڑیا یا کتا آیا ہے۔ جب بکری باہر سے چر کے آتی اور بچہ پکارتا تو وہ ہنس کے بیوی کو بتا دیتا تھا کہ دیکھو یہ دودھ مانگتا ہے اور ماں بھی اُس کا جواب دے رہی ہے کہ ٹھہر جا پلاتی ہوں۔ کتوں کی بات چیت چوروں کے آنے پر اُسے برابر معلوم ہو جاتی اور بے تحاشا، پڑوسیوں کو پکار کے اس خطرے سے آگاہ کر دیتا تھا۔ گھوڑا اُس نے پالا ہی نہیں۔ مگر سرائے وغیرہ میں کسی کا گھوڑا رات کو ہنہنایا کہ اُس نے بھٹیاری یا سائیس کو ڈانٹا کہ گھاس مانگتا ہے گھاس۔

بیل اُس کے گھر میں جب تک رہے وہ ان کی منطق ہی میں اُن سے بات چیت کیا کرتا۔ مثلاً بیل کو دھیما اور قابو میں کرنے کے لیے وہ ایک خاص آواز اور ادا سے چمکارتا اور وہ فوراً مان جاتا۔ یا چلنے کے لیے جو الفاظ بیل کی زبان میں متعین تھے شیخ وہ ہی لفظ بولا کرتا اور بیل چل پڑنا۔ پانی پیتا

52

باتیں اور ہی کچھ تھیں۔ جس سے بیل فوراً متوجہ ہو جاتا اور گھٹ گھٹ پانی پی لیتا۔

بھینس کی آواز جو کہ زیادہ سُریلی اور خوش ہوتی ہے، شیخ کو بہت مرغوب تھی اور جب وہ اپنے بچے سے دُلار کی باتیں کرتی تو شیخ زیادہ متوجہ ہو کے سُنتا۔ اور خود زبان دان تھا۔ اس کو لطف بھی بہت ملتا اور ہنسا کرتا۔

ہاتھی اکبر آباد میں بار ہا دیکھا اور تمام اراکین سلطنت اُس کے یار تھے۔ سب نے اُس کو چڑھنے پر مجبور کیا۔ مگر وه دانشمند ایسی جوکھم میں پڑنا پسند نہ کرتا تھا کہ ایک چلتے پہاڑ بیٹھ کے اپنی تشہیر کرا آئے اس لیے کبھی ہامی نہ بھری۔ اور دور ہی سے اُس کالی بلا کو سلام کیا۔ مگر زبان اُس کی بھی جانتا تھا اور اس فرق کے ساتھ کہ افریقہ کے ہاتھی عربی بولتے ہیں اور کجلی بن کے بھاگا۔ اس کا ثبوت اس طرح ہوا کہ ایک افریقہ کا دوسرا کجلی بن کا ہاتھی دونوں ایک مقام پر موجود تھے۔ پہلے ہاتھی کے فیل بان نے کہا میل میل۔ اور ہاتھی فوراً بڑھ گیا۔ شیخ نے تر سے بتا دیا کہ یہ عربی سمجھتا ہے۔ میل اور مائل ایک ہی مادہ سے ہیں فیل بان نے آگے بڑھنے کو کہا وہ چل نکلا۔ دوسرے ہاتھی کو دھت دھت کہا گیا وہ پیچھے ہٹا۔ شیخ نے بتایا کہ دھت کلمہ رجر کا ہے اور ہاتھی سمجھ گیا کہ مجھ پر ملامت ہوئی ہے وہ ہٹ گیا۔

بندر سے وہ بہت خفا رہتا کیوں کہ اس کی متانت کو اس مسخرے کی بےہودگیوں اور شرارتوں سے کوئی مناسبت ہی نہ تھی اکبر آباد کے سفر میں جب اس کا گزر بندرا بن ہوا چاہا راستہ ہی چھوڑ دیں اور باہر باہر نکل جائیں۔ چنانچہ اُس نے جہاں سے سنا تا کہ آگے بندرا بن ہے وہ وہیں سے کترا گیا اور داہنے ہاتھ کو مُڑ کے ایک طرف چل نکلا۔ شام تک چلا اور کچھ اس ترکیب سے چلا کہ جہاں سے مُڑا تھا اور جہاں شام کو پہنچا۔ نیم دائرہ کی شکل میں راستہ قطع کیا اور جب بستی میں پہنچ کے نام پوچھا تو معلوم ہوا کہ بندرا بن ہے۔ لا حول و لا قوة یہ تو کچھ نہ ہوا۔ خیر رات کو سرا میں سو رہا۔ صبح کو اُٹھا تو پہلے سامنے کھپریل پر ایک جغادری بندر ہی پر نظر پڑی اور اُس نے وہیں سے شیخ کو گھورا۔ یہ مُنہ بھرا کے
 
Top