حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک ورق

ساجد

محفلین
بِسمِ اللہ الرّحمٰن الرحیم​
قریب سوا تین برس پہلے شمشاد بھائی نے ”آج کی آیت“ کے نام سے ایک با برکت اور خوبصورت سلسلہ شروع کیا تھا۔اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے آج نبیل بھائی نے تجویز پیش کی کہ کیوں نا سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے ایسے ہی سلسلے کا آغاز کیا جائے۔ میں نے اور شمشاد بھائی نے ان کی اس تجویز پر لبیک کہا ۔ نبیل بھائی نے اس دھاگے کا عنوان ”سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک ورق“ تجویز کیا اور اس کے آغاز کی ذمہ داری ، بلکہ سعادت کہنا زیادہ مناسب ہو گا ، مجھے بخشی۔ بلا شبہ ہادی برحق صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات طیبہ کا ذکر کرنا اور اس کا ذکر آپ تک پہنچانا میرے لئے سرمایہ افتخار ہے۔​
  • اس سلسلے کو شروع کرنے کا مقصد صرف اور صرف علمی اور معلوماتی ہے۔ اس پر مناظرے کی گنجائس نہیں۔ البتہ مثبت اختلاف کی حد تک کوئی ہرج نہیں۔
  • اس کے علاوہ ایک وقت میں صرف ایک ہی پوسٹ کی جائے۔ اگر سیاق و سباق کی وجہ سے ضرورت پڑ جائے تو ایک سے زائد مراسلات پوسٹ‌ کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں تمام مواد تحریری شکل میں پوسٹ کیا جانا چاہیے۔ صرف قرانی آیت کا عربی متن تصویری شکل میں پوسٹ کیا جا سکتا ہے وہ بھی اگر ضرورت پڑے تو ورنہ اگر یہ بھی تحریری شکل میں ہو تو زیادہ بہتر ہے۔
  • میرے خیال میں فی الحال اتنی تفصیلات کافی ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو اس سلسلے میں مزید تفصیلات طے کی جا سکتی ہیں۔

 

ساجد

محفلین
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی کتاب "الرحیق المختوم" سے سلسلے کا آغاز کرتا ہوں​
ولادتِ با سعادت : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں شعبِ بنی ہاشم کے اندر 9 ربیع الاول سن 1 عام الفیل یوم دو شنبہ (پیر) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ اس وقت نوشیرواں کی تخت نشینی کا چالیسواں سال تھا اور 20 یا 22 اپریل سن 571 عیسوی کی تاریخ تھی۔علامہ محمد سلیمان صاحب سلمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ اور محمود پاشا فلکی کی تحقیق یہی ہے ۔ (1)
ابن ِ سعد کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ نے فرمایا "جب آپ کی ولادت ہوئی تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے ملک شام کے محل روشن ہو گئے"۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عرباض رضی اللہ عنہ بن ساریہ سے بھی تقریبا اسی مضمون کی ایک روایت نقل فرمائی ہے۔ (2)
بعض روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ ولادت کے وقت بعض واقعات نبوت کے پیش خیمے کے طور پر ظہور پذیر ہوئے یعنی ایونِ کسرٰی کے 14 کنگورے گر گئے۔ مجوس کا آتش کدہ ٹھنڈا ہو گیا۔بحیرہ سادہ خشک ہو گیااور اس کے گرجے منہدم ہو گئے۔ یہ بیہقی کی روایت ہے (3) لیکن محمد غزالی نے اس کو درست تسلیم نہیں کیا ہے۔ (4)
----------------------------------------------------------------
(1) تاریخ خضری62/1 رحمۃ للعالمین 1 / 38۔ 39 اپریل کی تاریخ کا اختلاف عیسوی تقویم کے اختلاف کا نتیجہ ہے۔
(2) مختصر السیرۃ شیخ عبداللہ صفحہ 12 ، ابنِ سعد 1/63 ۔
(3) ایضا مختصر السیرۃ صفحہ 12
(4) دیکھئے فقہ السیرۃ محمد غزالی صفحہ 46
 

زبیر مرزا

محفلین
نسب نامہ پاک : آپ صلٰی اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کا نسب نامہ پاک یہ ہے
محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک
بن نضربن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضربن نزاربن معد بن عدنان
عدنان بالاتفاق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں-
آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کی والدہ کا نام آمنہ تھا اور اُن کے والد وہب بن عبد ل مناف بن زہرہ بن کلاب تھے
یہ وہی کلاب ہیں جو والد کی طرف سے بھی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلٰہ وسلم کے نسب نامے میں آتے ہیں-
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجلیاتِ نبوت
(مولانا صفی الرحمن مبارکپوری)
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: الرحیق المختوم از صفی الرحمٰن مبارکپوری

جعّرانہ میں اموال غنیمت کی تقسیم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے محاصرہ ختم کرکے واپس آئے تو جعرانہ میں کئی روز مال غنیمت تقسیم کیے بغیر ٹھہرے رہے۔ اس تاخیر کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہو کر آپ کی خدمت میں آجائے اور اس نے جو کچھ کھویا ہے سب لے جائے۔ لیکن تاخیر کے باوجود جب آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس کوئی نہ آیا تو آپ نے مال کی تقسیم شروع کر دیتاکہ قبائل کے سردار اور مکہ کے اشراف جو بڑی حرص سے جھانک رہے تھے ان کی زبان خاموش ہو جائے۔ مؤلفۃ القلوب (1) کی قسمت نے سب سے پہلے یاوری کی اور انہیں بڑے بڑے حصے دیے گئے۔ ابوسفیان کو چالیس اوقیہ (کچھ کم چھ کیلو چاندی) اور ایک سو اونٹ عطا کیے گئے۔ اس نے کہا میرا بیٹا یزید؟ آپ نے اتنا ہی یزید کو بھی دیا۔ اس نے کہا، اور میرا بیٹا معاویہ؟ آپ نے اتنا ہی معاویہ کو بھی دیا۔ (یعنی تنہا ابوسفیان کو اس کے بیٹوں سمیت ا8 کیلو چاندی اور تین سو اونٹ حاصل ہو گئے۔)

حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو ایک سو اونٹ دیے گئے۔ اس نے مزید سو اونٹون کا سوال کیا تو اسے پھر ایک سو اونٹ دیے گئے۔ اسی طرح صفوان بن امیہ کو سو اونٹ، پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ (یعنی تین سو اونٹ) دیے گئے۔

حارث بن کلدہ رضی اللہ عنہ کو بھی سو اونٹ دیے گئے اور کچھ مزید قرشی و غیر غیر قرشی رؤساء کو سو سو اونٹ دیے گئے۔ کچھ دوسروں کو پچاس پچاس اور چالیس چالیس اونٹ دیے گئےیہاں تک کہ لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بے دریغ عطیہ دیتے ہیں کہ انہیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں۔ چنانچہ مال کی طلب میں بدّو آپ پر ٹوٹ پڑے اور آپ کو ایک درخت کی جانب سمٹنے پر مجبور کر دیا۔ اتفاق سے آپ کی چادر درخت میں پھنس کر رہ گئی۔ آپ نے فرمایا، لوگو میری چادر دے دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میر پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد میں بھی چوپائے ہوں تو انہیں بھی تم پر تقسیم کر دوں گا۔ پھر تم مجھے بخیل نہ پاؤ گے، نہ بزدل، نہ جھوٹا۔

اس کے آپ نے اپنے اونٹ کے بازو میں کھڑے ہو کر اس کی کوہان کے کچھ بال لیے اور چٹکی میں رکھ کر بلند کرتے ہوئے فرمایا: لوگو! واللہ میرے لیے تمہارے مال فے میں سے کچھ بھی نہیں، حتی کہ اتنا بال بھی نہیں۔ صرف خمس ہے اور خمس بھی تم پر ہی پلٹایا دیا جاتا ہے۔

مؤلفۃ القلوب کو دینے کے بعد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ مال غنیمت اور فوج کو یکجا کر کے لوگوں پر غنیمت کی تقسیم کا حساب لگائیں۔ انہوں نے ایسا کیا ایک ایک فوجی کے حصے میں چار چار اونٹ اور چالیس چالیس بکریاں آئیں۔ جو شہسوار تھا اسے بارہ اونٹ اور ایک سو بیس بکریاں ملیں۔

یہ تقسیم ایک حکیمانہ سیاست پر مبنی تھی کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنی عقل کے راسرے سے نہیں بلکہ پیٹ کے راستے سے حق پر لائے جاتے ہیں۔ یعنی جس طرح جانوروں کو ایک مٹھی ہری گھاس دکھلا دیجیے اور اس کی طرف بڑھتے لپکتے اپنے محفوظ ٹھکاناے تک جا پہنچتے ہیں اسی طرح مذکورہ قسم کے انسانوں کے لیے بھی مختلف ڈھنگ کے اسباب کشش کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ایمان سے مانوس ہو کر اسکے لیے پرجوش بن جائیں۔

انصار کا حزن و اضطراب

یہ سیاست پہلے پہل سمجھی نہ جا سکیاسی لیے کچھ زبانوں پر حرف اعتراض آ گیا۔ انصار پر خصوصاً اس سیاست کی زد پڑی تھی۔ کیونکہ وہ سب کے سب ہی ان عطایا سے بالکلیہ محروم رکھے گئے۔ حالانکہ مشکل کے وقت انہیں کو پکارا گیا تھا اور وہی اڑ کر آئے تھے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر اس طرح جنگ کی تھی کہ فاش شکست شاندار فتح میں تبدیل ہو گئی تھی لیکن اب وہ دیکھ رہے تھے کہ بھاگنے والوں کے ہاتھ پر ہیں اور وہ خود محروم و تہی دست۔

ابن اسحاق نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے قریش اور قبائل عرب کو وہ عطیے دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا تو انصار نے جی ہی جی میں پیچ و تاب کھایا اور ان میں بہت چہ میگوئی ہوئی یہاں تک کہ ایک کہنے والے نے کہا، خدا کی قسم رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم اپنی قوم سے جا ملے ہیں۔ اس کے بعد حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ!آپ نے اس حاصل شدہ مال فے میں جو کچھ کیا ہے اس پر انصار اپنے جی ہی جی میں آپ پر پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ آپ نے اسے اپنی قسم میں تقسیم فرمایا، قبائل عرب کو بڑے بڑے عطیے دیے لیکن انصار کو کچھ نہ دیا۔ آپ نے فرمایا، اے سعد تمہارا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا، یا رسول اللہ میں بھی تو اپنی قوم ہی کا ایک آدمی ہوں۔ آپ نے فرمایا، اچھا تو اپنی قوم کو اس چھولداری میں جمع کرو۔ سعد رضی اللہ عنہ نے نکل کر انصار کو اس چھولداری میں جمع کیا۔ کچھ مہاجرین بھی آگئے تو انہیں داخل ہونے دیا۔ پھر دورے لوگ بھی آ گئے تو انہیں واپس کر دیا۔ جب سب لوگ جمع ہو گئے تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ قبیلہ انصار آپ کے لیے جمع ہو گیا ہے۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا:

انصار کے لوگ! یہ تمہاری کیا چہ میگوئی ہے جو میرے علم میں آئی ہے! اور یہ کیا ناراضگی ہے جو جی ہی جی میں تم نے مجھ پر محسوس کی ہے! کیا ایسا نہیں ہے کہ میں ایسی حالت میں تمہارے پاس آیا کہ تم گمراہ تھے، اللہ نے تمہیں ہدایت دی اور محتاج تھے، اللہ نے تمہیں غنی بنایا۔ اور باہم دشمن تھے، اللہ نے تمہارے دل جوڑ دیے؟ لوگوں نے کہا کیوں نہیں! اللہ اور اس کے رسول کا بڑا فضل و کرم ہے۔

اس کے بعد آپ نے فرمایا، انصار کے لوگو! مجھے جواب کیوں نہیں دینے؟ انصار نے عرض کیا، یا رسول اللہ بھلا ہم آپ کو کیا جواب دیں؟ اللہ اور اس کے رسول کا بڑا فضل و کرم ہے۔ آپ نے فرمایا: دیکھو! خدا کی قسم، اگر تم چاہو تو کہہ سکتے ہو۔۔ اور سچ ہی کہو گے اور بات سچ ہی مانی جائے گی۔۔ کہ آپ ہمارے پاس اس حالت میں آئے کہ آپ کو جھٹلا دیا گیا، ہم نے آپ کی تصدیق کی، آپ کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تھا، ہم نے آپ کی مدد کی، آپ کو دھتکار دیا گیا تھا، ہم نے آپ کو ٹھکانا دیا، آپ محتاج تھے، ہم نے آپ کی غمخواری و غمگساری کی۔

اے انصار کے لوگو! اپنے جی میں دنیا کی اس عارضی دولت کے لیے ناراض ہو گئے جس کے ذریعہ میں نے لوگوں کا دل جوڑا تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تم کو تمہارے اسلام کے حوالے کر دیا تھا؟ اے انصار! کیا تم اس سے راضی نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم رسول اللہ کو لے کر اپنے ڈیروں میں پلٹو؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی کا ایک فرد ہوتا۔ اگر سارے لوگ ایک راہ چلیں اور انصار دوسری راہ چلیں تو میں بھی انصار ہی کی راہ چلوں گا۔ اے اللہ رحم فرما انصار پر اور ان کے بیٹوں پر اور ان کے بیٹوں کے بیٹوں (پوتوں) پر۔

رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کا یہ خطاب سن کر لوگ اس قدر روئے کہ ڈاڑھیاں تر ہو گئیں اور کہنے لگے: ہم راضی ہیں کہ ہمارے حصے اور نصیب میں رسول اللہ ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہ واپس ہو گئے اور لوگ بھی بکھر گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں او ران کا دل جوڑنے کے لیے انہیں مالی مدد دی جائے تاکہ وہ اسلام پر مضبوطی سے جم جائیں۔
 

الشفاء

لائبریرین
رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نسب مطہرہ و مہذبہ۔۔۔

حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ کی قبولیت کے بعد اللہ عزوجل نے ان میں یہ دستور جاری فرما دیا کہ ہر حمل میں جڑواں بچے پیدا ہوتے، ایک لڑکا ، ایک لڑکی۔ مگر حضرت شیث علیہ السلام جو حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے جد امجد ہیں تنہا پیدا ہوئے۔ تاکہ نور مصطفوی میں ان کے اور کسی دوسرے کے درمیان اشتراک نہ ہو۔۔۔ حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے حضرت شیث علیہ السلام کو وصیت فرمائی کہ اس نور مبارک کو پاک بیبیوں میں منتقل کرنا۔ بعد میں حضرت شیث علیہ السلام نے بھی اپنے فرزند جن کا نام "انوش" تھا یہی وصیت فرمائی۔ اسی طرح اس وصیت کا سلسلہ ایک قرن سے دوسرے قرن تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہ نور مبارک حضرت عبدالمطلب سے حضرت عبداللہ تک آیا۔ اور حق تعالٰی نے آپ کے نسب شریف کو سفاح جاہلیت (یعنی زمانہ جاہلیت کے زنا) سے پاک و صاف رکھا۔۔۔
امام بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں زمانہ جاہلیت کی کسی برائی سے متولد نہیں ہوا حتٰی کہ میں ہمیشہ اسلامی نکاح سے ہی پیدا ہوا۔۔۔ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا، میں نکاح سے پیدا ہوا ہوں، سفاح جاہلیت سے نہیں، یہاں تک کہ آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک میرے ماں باپ کبھی جاہلیت کے زنا و سفاحت کے قریب تک نہیں گئے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا کہ حق تعالٰی نے مجھے ہمیشہ اصلاب طیبہ سے ارحام طاہرہ،مصفا و مہذبہ میں منتقل فرمایا۔ ان میں جب بھی دو قبیلے بنتے تو مجھے بہترین قبیلہ میں رکھا جاتا۔۔۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، ارشاد باری تعالٰی وتقلبک فی الساجدین کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ نبی سے نبی کی طرف منتقل ہوتا رہا۔ اور ہمیشہ اصلاب انبیاء علیہم السلام میں منتقل ہوتا رہا، یہاں تک کہ آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو پیدا فرمایا۔۔۔
ابو نعیم نے " دلائل" میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبریل علیہ السلام سے نقل کیا کہ جبریل نے کہا کہ میں نے زمین کے مغارب و مشارق کو دیکھا ہے مگر کسی شخص کو محمد مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے افضل نہیں دیکھا اور کسی کی اولاد کو میں نے نہیں دیکھا جو بنی ہاشم سے افضل ہو۔۔۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، میں ہر زمانہ میں بنی آدم کے بہترین قرن میں منتقل کیا گیا یہاں تک کہ مجھے اس قرن میں پیدا کیا گیا جس میں میں ہوں۔ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نے فرمایا ، حق تعالٰی نے اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے بو کنانہ کو برگزیدہ کیا اور کنانہ سے قریش کو اور قریش سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم سے مجھ کو برگزیدہ فرمایا۔۔۔

نسب شریف:- آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے نسب شریف کو مواہب لدنیہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔کہ
محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی (بضم قاف وفتح صاد و تشدید یاء) بن کلاب (بکسر کاف) بن مرہ (بضم میم وتشدید راء) بن کعب (بفتح کاف و سکون عین) بن لوئی (بضم لام وفتح ہمزہ وتشدید یاء) بن غالب بن فہر (بکسر فا و سکون ہاء) بن مالک بن نضر (بفتح نون و سکون ضاد) بن کنانہ (بکسر کاف) بن خزیمہ (بخاء معجمہ و زاء بر لفظ تصغیر) بن مدرکہ (بضم میم وسکون دال وکسر راء) بن الیاس بن مضر (بضم میم وفتح ضاد) بن نزار (بکسر نون) بن معد (بضم میم وفتح عین اور بعض کے نزدیک بفتح میم وسکون عین، اسے صحیح کہتے ہیں) بن عدنان (بفتح عین و سکون دال)۔۔۔
یہاں تک سلسلہ نسب میں ارباب سیر و اصحاب علم النساب سب کا اتفاق ہے اور اس سے اوپر معلوم و صحیح نہیں ہے۔۔۔ اس میں اتفاق ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اولاد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہیں اور حضرت ابراہیم ، حضرت نوح، حضرت ادریس علیہم السلام آپ کے اجداد میں ہیں۔۔۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام جب اپنا نسب شریف بیان فرمایا کرتے تھے تو معد بن عدنان سے تجاوز نہیں فرماتے اور اس جگہ ٹہر جاتے تھے اور فرماتے کذب النسابون، نسب گویوں نے جھوٹ ملا رکھا ہے۔۔۔

(از مدارج النبوۃ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃاللہ علیہ)۔۔۔

خلق سے اولیاء ، اولیاء سے رُسُل
اور رسولوں سے اعلٰی ہمارا نبی۔۔۔
صل اللہ علیک وسلم یا سیدی یا حبیبی یا مولائی یا رسول اللہ۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی عظمت و بزرگی اور آپ کے اسم مبارک کی برکت کا کچھ بیان۔

حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ، آپ کے لئے نبوت کب ضروری قرار دی گئی۔ تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام روح و جسد کے درمیان تھے۔
حضرت خالد بن معدان سے مروی ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ، ہمیں آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں میں اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا ہوں جب انہوں نے کہا تھا ، ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم۔ اے ہمارے رب ، بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے۔ اور میری بشارت حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دی۔ میری پیدائش کے وقت میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ ان میں سے ایک نور نکلا ہے جس کی روشنی سے بصرہ کے محل اور شام کی زمین روشن ہوگئی اور سعد بن بکر کی اولاد میں مجھے دودھ پلایا گیا۔ انہی دنوں میں اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ اپنے گھروں کے پیچھے بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک دو مرد سفید لباس میں میرے قریب آئے۔ ایک سونے کا طشت برف سے بھرا ہوا لائے اور مجھے پکڑ کر گردن سے لے کر ناف تک میرے پیٹ کو چاک کیا۔ پھر میرا دل نکال کر اس کو چیرا اور اس میں سے سیاہ جما ہوا خون نکال کر دور کیا۔ اس کے بعد میرے دل اور میرے پیٹ کو اسی سرد پانی (برف) سے دھویا اور صاف کیا۔دوسری حدیث میں ہے کہ پھر ان دونوں مردوں نے کوئی چیز لی، دیکھا تو وہ نور کی ایک ایسی انگوٹھی ان کے ہاتھ میں تھی کہ دیکھنے والا حیرت زدہ ہو جائے۔انہوں نے اس سے میرے دل پر مہر لگائی اور اسے ایمان و حکمت سے پُر کیا۔ اس کے بعد اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ دوسرے مرد نے چاک شدہ جگہ پر اپنا ہاتھ پھیرا تو وہ درست ہو گئی۔ پھر ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے کہا، امت کے دس مردوں کے ساتھ وزن کرو۔ اس نے مجھے وزن کیا تو میں ان سے بڑھ گیا۔ پھر کہا کہ امت کے سو مردوں کے ساتھ وزن کرو۔ اس نے مجھے وزن کیا تو میں ان سے بھی وزنی تھا۔ پھر کہا کہ آپ کو چھوڑ دو اگر تم ان کو ساری امت کے ساتھ بھی وزن کرو گے تب بھی یہ بھاری ہوں گے۔۔۔
پھر انہوں نے مجھے سینہ سے لگا کر میرے سر اور آنکھوں کو بوسہ دیا اور کہا : یا حبیب اللہ ، آپ ڈریئے نہیں۔ اگر آپ کو معلوم ہوتا کہ آپ کے ساتھ کیسی بھلائی کی گئی ہے تو آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتیں۔۔۔ اللہ عزوجل کے نزدیک آپ کا بڑا اعزازواکرام ہے۔ بے شک اللہ عزوجل اور اس کے فرشتے آپ کے ساتھ ہیں۔۔۔ پھر وہ چلے گئے۔ اب میں اس امر کو بخوبی دیکھ رہا ہوں۔۔۔

ابو محمد مکی اور فقیہہ ابواللیث سمرقندی رحمھمااللہ اور دیگر علماء نے بیان کیا ( اور امام طبرانی نے طبرانی صغیر اور امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں نقل کیا) کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کے وقت بارگاہ الٰہی میں عرض کیا۔ اللّٰھم بحق محمد اغفرلی خطیئتی ویُروی وتقبّل توبتی۔ اے اللہ،محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم طفیل میری خطا کو معاف کر اور میری توبہ قبول فرما۔ اللہ عزوجل نے دریافت کیا کہ تم نے کہاں سے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جانا؟ عرض کیا، میں نے جنت کے ہر مقام پر لا الٰہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے عرض کیا، جب تو نے مجھے پیدا فرمایا تو میں نے اپنے سر کو تیرے عرش کی طرف اٹھایا۔ تب میں نے اس میں یہ کلمہ لکھا دیکھا تو اسی وقت جان لیا کہ تیرے نزدیک محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا (ان جیسا) کوئی عظیم المرتبت نہیں ہے جبھی تو نے اپنے نام کے ساتھ ان کا اسم مبارک ملایا ہے۔۔۔
پس اللہ عزوجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو وحی فرمائی۔ قسم ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی، بے شک محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری اولاد میں سب سے آخری نبی ہیں۔ ولولاہ ما خلقتک۔ اگر آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو اے آدم ، میں تم کو پیدا نہ فرماتا۔۔۔حضور علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی کنیت ابو محمد تھی اور ایک روایت میں ابوالبشر تھی۔۔۔

نام "محمد" کی عظمتیں :- سُریح بن یونس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: بے شک اللہ عزوجل کے کچھ فرشتے گشت کرتے ہیں۔ ان کی عبادت یہ ہے کہ جس گھر میں احمد یا محمد نام کا کوئی مرد ہو تو اس نام کی مناسبت کی بناء پر اس کا اعزاز و اکرام کریں۔۔۔
جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے والد سے روایت کی کہ قیامت کے دن ایک پکارنے والا کہے گا۔ جس کا نام " محمد " ہے وہ کھڑا ہو جائے تا کہ حضور کے نام کی برکت سے جنت میں داخل ہو جائے۔۔۔
ابن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " سماع" میں اور ابن وہب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "جامع" میں مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کی ہے کہ میں نے اہل مکہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ جس گھر میں "محمد" نام کا کوئی شخص ہو وہ ضرور بڑھے گا اور ان کو رزق (وافر) دیا جائے گا۔۔۔
حضور علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جس گھر میں "محمد" نام کے ایک یا دو یا تین شخص ہوں، ان کو کسی قسم کا اندیشہ نہیں۔(طبقات ابن سعد و مناہل الصفاء امام سیوطی)۔

خدا کی عظمتیں کیا ہیں ، محمد مصطفٰے جانے
مقام مصطفٰے کیا ہے ، محمد کا خدا جانے۔

(یہ مراسلہ، الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰے۔ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ سے ماخوذ ہے)۔


اللّٰھم صل وسلم وبارک علٰی سیدنا ومولانا محمد معدن الجود والکرم وعلٰی آلہ واصحابہ اجمعین۔۔۔
۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت عبداللہ (والد ماجد حضور) کا حسن و جمال۔

حضرت عبداللہ کے حسن و جمال کی شہرت عام ہوگئی تھی اور ذبیح و فدیہ کا واقعہ مزید شہرت کا باعث ہوا تو قریش کی عورتیں ان کے جمال و وصال کی طالب بن کر سرراہ نکل کھڑی ہوئیں اور ان کو اپنی جانب بلانے لگیں۔ مگر حق تعالیٰ نے انہیں محفوظ رکھا۔
اہل کتاب بعض علامتوں اور نشانیوں سے پہچان گئے تھے کہ نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود گرامی حضرت عبداللہ کے صلب میں ودیعت ہے۔ وہ ان کے دشمن بن کر ہلاکت کے درپے ہو گئے۔ اور اطراف و جوانب سے ان کو ہلاک کرنے کے ارادے سے مکہ آنے لگے۔یہاں انہوں نے عجیب و غریب آثار و قرائن کا مشاہدہ کیا اور وہ خائب و خاسر بے نیل و مرام لوٹ گئے۔۔۔
ایک دن حضرت عبداللہ شکار کے لئے تشریف لے گئے تو اہل کتاب کی ایک بہت بڑی جماعت شام کی جانب سے تلوار سونت کر حضرت عبداللہ کے قتل کے ارادے سے نمودار ہوئی۔ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ کے والد حضرت وہب بن مناف بھی جنگل میں موجود تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ چند سوار جن کی شکل و صورت اس دنیا کے لوگوں سے مشابہ نہ تھی غیب سے ظاہر ہوئے اور وہ اس حملہ آور گروہ کو حضرت عبداللہ کے آگے سے دور کرنے لگے۔ وہب بن مناف نے گھر آکر اپنے گھر والوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیٹی کی سیدہ آمنہ کا نکاح حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب سے کردوں۔ اور پھر یہ بات اپنے دوستوں کے ذریعہ حضرت عبدالمطلب کی خدمت میں پہنچائی۔ حضرت عبدالمطلب بھی یہی چاہتے تھے کہ عبداللہ کی شادی ہو جائے۔اس سلسلہ میں وہ کسی ایسی عورت کی جستجو میں تھے جو شرف حسب ونسب اور عفت میں ممتاز ہو۔ آمنہ بنت وہب میں یہ صفات موجود تھیں۔ عبدالمطلب نے اس رشتہ کو پسند کیا اور حضرت عبداللہ کا ان کے ساتھ نکاح کر دیا۔۔۔
منقول ہے کہ حضرت عبداللہ ، بنی اسد کی ایک عورت کے سامنے سے گزرے جو خانہ کعبہ کے پاس کھڑی تھی اور اس کا نام رقیصہ یا قتیلہ بن نوفل تھا۔ جب اس عورت کی نظر حضرت عبداللہ پر پڑی تو وہ آپ کے حسن وجمال پر فریفتہ ہو گئی اور کہنے لگی وہ سو اونٹ جو تم پر فدا کئے گئے ہیں میرے ذمہ ہیں میں پیش کروں گی۔ حضرت عبداللہ کو اس عفت و حیا دامنگیر ہوئی اور آپ انکار کر کے آ گے نکل گئے۔
دوسرے دن ایک خشعمی عورت نے جو علم کہانت میں ماہر اور خوب مالدار تھی نے بھی اپنے مال کے ذریعہ حضرت عبداللہ کو ورغلانا چاہا۔ اسی طرح بہت سی عورتوں نے پیشکش کی مگر حضرت عبداللہ کسی کے فریب میں نہ آئے۔ جب گھر تشریف لائے تو حضرت آمنہ سے زفاف ہوا۔ اور نور محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت مبارک سے منتقل ہو کر رحم آمنہ میں جلوہ فگن ہوا ۔ اور وہ حاملہ ہو گئیں۔ یہ منیٰ کے ایام تھے۔جیسا کہ آگے آئے گا۔ پھر جب دوسری مرتبہ اس عورت کے سامنے سے حضرت عبداللہ گزرے تو اس عورت نے حضرت عبداللہ کی پیشانی میں وہ نور مبارک نہ پایا تو وہ ان سے کہنے لگی کہ پہلی مرتبہ میرے پاس سے جانے کے بعد تم نے کسی عورت سے صحبت کی ہے؟ آپ نے فرمایا۔ ہاں میں نے اپنی منکوحہ بی بی آمنہ بنت وہب سے زفاف کیا ہے۔ اس خشعمی عورت نے کہا ، اب مجھے تم سے کوئی سروکار نہیں میں تو اس نور مبارک کی خواستگار تھی جو تمہاری پیشانی میں جلوہ افروز تھا۔ اب وہ دوسرے کے نصیب میں چلا گیا۔۔۔

استقرار حمل:-

جاننا چاہیئے کہ استقرار نطفہ زکیہ مصطفوی و ابداع ذرہ محمدیہ در صدف رحم آمنہ رضی اللہ عنہا، قول اصح کے بموجب ایام حج کے درمیانی تشریق کے دنوں میں شب جمعہ میں ہوا تھا۔ اسی بناء پر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک شب جمعہ، لیلۃ القدر سے افضل ہے۔ اس لئے کہ اس رات سارے جہان اور تمام مسلمانوں پر ہر قسم کی خیروبرکت اور سعادت و کرامت جس قدر نازل ہوئی اتنی قیامت تک کسی رات میں نہ ہو گی۔ بلکہ تا ابد کبھی نازل نہ ہوں گی۔ اور اگر اس لحاظ سے میلاد شریف کی رات کو شب قدر سے افضل جانیں تو یقیناً یہ رات اس کی مستحق ہے جیسا کہ علماء اعلام رحمہم اللہ نے اس کی تصریح کی ہے۔
حدیثوں میں آیا ہے کہ اس شب کو عالم ملکوت میں ندا کی گئی کہ سارے جہان کو انوار قدس سے منور کرو اور زمین و آسمان کے تمام فرشتے خوشی و مسرت میں جھوم اٹھے۔ اور داروغہ جنت کو حکم ہوا کہ فردوس اعلیٰ کو کھول دے اور سارے جہان کو خوشبوؤں سے معطر کردے۔ اور زمین و آسمان کے ہر طبقہ اور ہر مقام میں خوشخبری سنادے کہ نور محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آج رات رحم آمنہ میں قرار پکڑا ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ تمام خیرات و برکات، کرامات و سعادات اور انوار و اسرار کا مصدر اور مبداء خلق عالم، اصل اصول بنی آدم کے اس عالم میں تشریف آوری اور اس کے ظہور کا وقت قریب آ پہنچا ہے۔ یقیناً تمام جہان والوں کو منور و مشرف اور مسرور ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔
قریش کا یہ حال تھا کہ شدید قحط اور عظیم تنگی میں مبتلا تھے۔ چنانچہ تمام درخت خشک ہو گئے تھے اور تمام جانور نحیف و لاغر ہو گئے تھے۔ پھر حق تعالیٰ نے بارش بھیجی۔ جہان بھر کو سر سبز و شاداب کیا۔درختوں میں تروتازگی آئی۔ خوشی و مسرت کی ایسی لہر دوڑی کہ قریش نے اس سال کا نام "سنۃ الفتح والابتہاج" رکھا۔۔۔
حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم شکم مادر میں نو مہینے کامل رہے۔ مادر محترمہ نے عام عورتوں کی طرح کسی قسم کی گرانی، بار ، درد اور طبیعت کی بدمزگی محسوس نہ کی۔ سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ میں حمل سے ہوں۔ صرف اتنا تھا کہ حیض بند ہو گیا تھا۔۔۔ ابو نعیم، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت آمنہ کے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاملہ ہونے کے دلائل میں سے ایک بات یہ تھی کہ قریش کے ہر چوپایہ نے اس رات گویائی کی اور کہا کہ قسم ہے خانہ کعبہ کے رب کی، آج رات اللہ کا رسول حمل میں تشریف لایا ہے جو ساری دنیا کا امام اور تمام جہان والوں کا آفتاب ہے۔۔۔
سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ میں خواب و بیداری کی درمیانی حالت میں تھی کہ کسی نے ندا دی، اے آمنہ تم حمل سے ہو، گویا کہ میں نہیں جانتی تھی کہ میں حمل سے ہوں۔ اس کے بعد بتایا کہ تم اس امت کے افضل سے حاملہ ہو۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ساری مخلوق سے افضل سے حاملہ ہو۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ میں حمل سے ہوں۔۔۔۔۔۔
سیدہ آمنہ کے بطن اقدس سے رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اور کوئی فرزند تولد نہ ہوا۔ اور نہ ہی حضرت عبداللہ سے حضور کے سوا کوئی اور فرزند پیدا ہوا۔۔۔
محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ حضور ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ حضرت عبداللہ کی وفات ہو گئی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ آٹھ ماہ یا سات ماہ یا دو ماہ کے گود میں تھے کہ وفات پائی۔۔۔۔۔ حضرت عبداللہ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی۔ ان دنوں وہ بسلسلہ تجارت قریش کے ساتھ تھے۔ جب واپسی میں مدینہ منورہ سے گزر ہوا تو قافلہ سے جدا ہو کر اپنے بھائیوں کے پاس جو بنی نجار تھے ٹھہر گئے۔ جب قافلہ کے لوگ مکہ مکرمہ پہنچے تو حضرت عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ کے بارے میں دریافت کیا تو قافلہ والوں نے بتایا کہ ہم نے انہیں بیمار چھوڑا ہے۔ اس کے بعد حضرت عبدالمطلب نے اپنے بڑے فرزند حارث کو ان کو لانے کے لئے بھیجا۔ جب حارث مدینہ پہنچے تو ان کا انتقال ہو چکا تھا اور وہ "دار نابغہ" میں دفن کئے جا چکے تھے۔ لیکن بعض کہتے ہیں مقام ابواء میں مدفون ہوئے تھے۔ ابواء مدینہ شریف کے قریب ایک مقام کا نام ہے۔اور لوگوں میں یہی مشہور ہے۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عبداللہ نے وفات پائی تو فرشتوں نے مناجات کی کہ اے ہمارے رب، ہمارے سردار محمد مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تیرے نبی اور تیرے حبیب ہیں ، یتیم ہو گئے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، ان کا میں حافظ و ناصر اور کفیل ہوں۔ ان پر صلوٰۃ و سلام بھیجو اور ان کے لئے برکتیں مانگو اور ان کے لئے دعائیں کرو۔ صلوات اللہ تعالیٰ وملائکتہ والنبین والصدیقین والشہداء والصالحین علیٰ سیدنا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب وبرکاتہ وسلامہ۔۔۔

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام
( از مدارج النبوۃ۔ شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)​
۔۔۔​
 

الشفاء

لائبریرین
نُور محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کچھ بیان۔

عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا ، میرے ماں باپ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فدا ہوں، مجھے بتائیے کہ سب اشیاء سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کون سی چیز پیدا کی۔ آپ نے فرمایا، اے جابر۔ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے، یعنی اپنے نور کے فیض سے پیدا کیا۔ پھر وہ نور قدرت الٰہیہ سے جہاں اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا۔ اور اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم تھا، نہ بہشت تھی ، نہ دوزخ تھی، نہ فرشتے ، نہ آسمان ، نہ زمین، نہ سورج، نہ چاند، نہ جن، نہ انسان۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اور مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور (یعنی میرے نور) کے چار حصے کئے اور ایک حصے سے قلم پیدا کیا اور دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔۔۔
اس حدیث سے نور محمدی کا اول الخلق ہونا باولیت حقیقیہ ثابت ہوا۔ کیونکہ جن جن اشیاء کی نسبت روایات میں اولیت کا حکم آیا ہے۔اُن اشیاء کا نور محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متاخر ہونا اس حدیث میں منصوص ہے۔۔۔

شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ، آپ کب نبی بنائے گئے۔ آپ نے فرمایا کہ آدم علیہ السلام اُس وقت روح و جسد کے درمیان میں تھے جب کہ مجھ سے میثاق (عہد) نبوت کا لیا گیا۔ کما قال اللہ تعالیٰ: واذ اخذنا من النبین میثاقھم ومنک ومن نوح وابراھیم وموسٰی وعیسیٰ ابن مریم واخذنا منھم میثاقاً غلیظا۔۔۔

احکام ابن القطان میں من جملہ روایات کے جو ابن مرزوق نے ذکر کی ہیں۔ حضرت علی بن الحسین (امام زین العابدین) سے روایت ہے ، وہ اپنے باپ حضرت امام حسین اور وہ اپنے جد امجد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم اجمعین سے نقل کرتے ہیں کہ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار سال پہلے میں اپنے پروردگار کے حضور میں ایک نور تھا۔۔۔ اس عدد میں کمی کی نفی ہے، زیادتی کی نہیں۔۔۔

(از نشرالطیب فی ذکر النبی الحبیب- مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ)۔
 

الشفاء

لائبریرین
ولادت نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کچھ بیان۔

جاننا چاہیئے کہ جمہور اہل سیر اور ارباب تواریخ کا اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارک عام الفیل کے چالیس یا پچپن دن کے بعد ہوئی ہے۔ یہ قول سب سے زیادہ صحیح ہے۔ اور یہ بھی مشہور ہے کہ ماہ ربیع الاول میں ولادت ہوئی ہے اور بعض علماء اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ اور بعض بارہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض دو ربیع الاول اور بعض آٹھ ربیع الاول کی رات گزرنے کے بعد کہتے ہیں۔ بہت سے علماء اسی کو اختیار کرتے ہیں اور بعض دس بھی کہتے ہیں۔ لیکن پہلا قول یعنی بارہ ربیع الاول کا زیادہ مشہور و اکثر ہے۔ اسی پر اہل مکہ کا عمل ہے۔ ولادت شریف کے مقام کی زیارت اسی رات کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھتے ہیں۔ ( یاد رہے یہ کتاب ساڑھے چار سو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے)۔
یہ ولادت مبارکہ بارہویں ربیع الاول کی رات روز دوشنبہ واقع ہوئی۔ اور وحی کی ابتداء، ہجرت، مدینہ منورہ پہنچنا، فتح مکہ مکرمہ اور وفات شریف بھی روز دوشنبہ ہوئی۔ اور وقت ولادت مبارک صبح صادق میں طلوع آفتاب سے پہلے اور "غُفر" (منازل فجر کے تین چھوٹے ستاروں کو کہتے ہیں) کے طلوع کے وقت ہوئی۔ مواہب الدنیہ میں ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی ولادت کا وقت یہی ہے۔۔۔۔۔ اور بعض منجمین اور اس فن کے ماہرین ولادت شریف کی ساعت کو سب سے زیادہ سعید ساعت شمار کرتے ہیں اور روضۃ الاحباب میں اسے بیان کیا گیا ہے۔ مگر حق یہ ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی زمانہ کے ساتھ شرافت و بزرگی حاصل نہیں کی ہے بلکہ زمانہ نے آپ سے شرافت و بزرگی پائی ہے۔ جس طرح کہ دیگر مقامات مقدسہ ہیں کہ مکان کو مکین سے شرافت و بزرگی حاصل ہوتی ہے اور یہی حکمت ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارک کسی ایسے مہینہ میں نہیں ہوئی جو بزرگی و برکت کے ساتھ مشہور ہو جیسے ماہ محرم ، ماہ رجب یا ماہ رمضان وغیرہ۔ اور یہ حکمت دن کی ہے کیونکہ تمام دنوں میں جمعہ کا دن افضل ہے اور اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اس دن میں ایک ساعت ایسی ہے کہ اس ساعت میں جو دعا مانگی جائے مستجاب ہوگی۔ لیکن یہ ساعت، اُس ساعت کو کہاں پہنچ سکتی ہے کہ جس ساعت میں سید المرسلین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تولد فرمایا۔ صاحب مواہب فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے روز دوشنبہ کو جو کہ حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا دن ہے عبادت کے لئے خاص نہیں فرمایا جیسا کہ روز جمعہ کو مخصوص فرمایا جو حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا دن ہے۔ اس کی وجہ اپنے حبیب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرامت اور آپ کی امت پر آپ کے وجود باوجود کی عنایت کے سبب سے تخفیف ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا
وما ارسلنٰک الّا رحمۃ ًاللعالمین۔ اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔

پیر کے دن روزہ رکھنا اس لحاظ سے کہ اس دن کو حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف سے بزرگی و کرامت حاصل ہوئی ہے مستحب ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضور روز دوشنبہ کو روزہ رکھا کرتے تھے اور جب اس دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت کی گئی تو فرمایا میں اس دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی۔(صحیح مسلم)۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک یہودی تھا جو تجارت کرتا تھا۔ جب وہ رات آئی جس میں سید عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولادت فرمائی تو اس یہودی نے کہا کہ اے گروہ قریش، کیا آج کی رات تم میں کوئی فرزند پیدا ہوا ہے۔ قریشیوں نے کہا ہمیں معلوم نہیں۔ اس یہودی نے کہا اس امت کا نبی پیدا ہو گیا ہے اور اس کے دونوں شانوں کے درمیان ایک علامت ہے جس میں گھوڑے کی رگ کی مانند بال مجتمع ہیں۔ پھر اس یہودی کو سیدہ آمنہ کے پاس لائے اس نے کہا اپنے فرزند کی زیارت کراؤ۔ پھر اس نے پشت مبارک سے قمیص اٹھا کر علامت دیکھی تو بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑا اور کہہ رہا تھا خدا کی قسم بنی اسرائیل سے نبوت جاتی رہی۔ رواہ الحاکم۔۔۔۔۔
عثمان بن ابی العاص اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت شریف کے وقت موجود تھی۔ میں نے دیکھا ایک نور ظاہر ہوا جس نے گھر اور تمام درودیوار کو نورانی کر دیا۔۔ میں نے دیکھا کہ آسمان کے ستارے زمین کے نزدیک آ گئے ہیں۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وہ مجھ پر گر پڑیں گے۔ تمام گھر پُر انوار ہو گیا۔۔۔۔۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنی والدہ سے جن کا نام شفا تھا روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا جس وقت حضرت آمنہ سے فرزند تولد ہوا تو وہ میرے ہاتھ میں آیا۔ جو ختنہ شدہ تھا۔ پھر چھینک آئی۔ اس پر کسی کہنے والے کی آواز سنی "یرحمک اللہ"۔ شفا بیان کرتی ہیں کہ مشرق ومغرب کے درمیان ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے اس وقت شام کے محلات و قصور دیکھے۔ ایک روایت میں روم کے محلات آئے ہیں۔ شام ہی زیادہ صحیح ہے کیونکہ شام حضور کا ملک ہے اور شام کی فضیلت میں بکثرت حدیثیں مروی ہیں۔ اور شفا بیان کرتی ہیں کہ میں ڈری اور مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ اس کے بعد ایک نور داہنی جانب سے ظاہر ہوا۔ کسی کہنے والے نے کہا، اسے کہاں لے گیا؟ دوسرے نے جواب دیا مغرب کی جانب تمام مقامات متبرکہ میں لے گیا۔ پھر بائیں جانب سے بھی ایک نور ظاہر ہوا۔ اس پر بھی کسی کہنے والے نے کہا، اس کہاں لے گیا۔ دوسرے نے جواب دیا اسے مشرق کی جانب تمام مقامات متبرکہ میں لے گیا۔ اور حضرت ابرہیم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے اسے سینہ سے لگایا اور طہارت و برکت کی دعا مانگی۔ شفا بیان کرتی ہیں یہ بات میرے دل میں ہمیشہ جاگزیں رہی یہاں تک حضور مبعوث ہوئے تو میں اسلام لائی اور اولین سابقین میں سے ہوئی۔۔۔

جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام۔

(از مدارج النبوۃ۔ شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)۔
 

الشفاء

لائبریرین
ایّام رضاعت ۔ (شیر خوارگی کے دن)

سب سے پہلے جس نے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا وہ ابو لہب کی باندی ثُویبہ تھی۔ جس شب حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ہوئی ، ثویبہ نے ابو لہب کو بشارت پہنچائی کہ تمہارے بھائی حضرت عبداللہ کے گھر فرزند پیدا ہوا ہے۔ ابو لہب نے اس خوشخبری پر اس کو آزاد کر کے حکم دیا کہ جاؤ دودھ پلاؤ۔۔۔ حق تعالٰی نے اس خوشی و مسرت پر جو ابو لہب نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت پر ظاہر کی ، اس کے عذاب میں کمی کردی۔ اور دو شنبہ کے دن اس پر سے عذاب اٹھا لیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ اس حدیث میں میلاد شریف پڑھوانے والوں کے لئے حجت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت کی رات میں خوشی و مسرت کا اظہار کریں اور خوب مال و زر خرچ کریں۔۔۔ مطلب یہ کہ ابو لہب کافر تھا اور اس کی مذمت قرآن کریم میں نازل ہو چکی ہے جب اس نے حضور کی میلاد کی خوشی کی اور اس نے اپنی باندی کو دودھ پلانے کی خاطر آزاد کر دیا تو حضور کی طرف سے حق تعالٰی نے اسے اس کا بدلہ عنایت فرمایا۔۔۔
ثویبہ کے اسلام میں اختلاف ہے۔ بعض محدثین انہیں صحابیات میں شمار کرتے ہیں۔ سیر کی کتابوں میں ہے کہ حضور نے بحکم رضاعت ان کا اعزاز و اکرام فرمایا۔ اور مدینہ مطہرہ سے ان کے لئے کپڑے اور انعام بھجواتے۔ ان کی وفات غزوہ خیبر کے بعد 8 ہجری میں ہوئی ہے۔ اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام جب فتح مکہ کے وقت مکہ مکرمہ تشریف لائے تو ان کے رشتہ داروں کے بارے میں دریافت کیا کہ کوئی عزیز و قریب ہے۔ معلوم ہوا کہ کوئی نہیں ہے۔ کذا فی روضۃ الاحباب۔ اور ثویبہ نے سیدالشہداء حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا ہے۔ اس بناء پر حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت حمزہ کے درمیان رضاعی بھائی کی نسبت بھی ثابت ہے۔۔۔
منقول ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات دن سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کا دودھ نوش فرمایا اور چند دن ثویبہ کا دودھ پیا ۔ اس کے بعد حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلانے کی سعادت حاصل کی۔ چونکہ ان کا اپنا نام ونسب ہی حلم و وقار اور سعادت کے ساتھ متصف تھا اور وہ قبیلہ بنی سعد بن بکر سے ہیں جن کی شیریں زبانی ، اعتدال آب و ہوا اور فصاحت و بلاغت مشہور و معروف ہے۔ مروی ہے کہ حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میں عربوں میں سب سے زیادہ فصیح ہوں ۔ اس لئے کہ میں قریشی ہوں اور میں نے قبیلہ بنی سعد بن بکر کا دودھ پیا ہے۔۔۔ حضرت حلیمہ سعدیہ کے دودھ پلانے کے ضمن میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے جو فضائل و کرامات اور معجزات مروی ہیں وہ احاطہ بیان اور گنتی و شمار کی حد سے باہر ہیں۔ ان میں سے مختصراً احاطہ تحریر میں لاتا ہوں۔۔۔(جاری ہے)۔

از مدارج النبوۃ۔ شیخ محقق الشیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت حلیمہ سعدیہ کے دودھ پلانے کے ضمن میں فضائل و کرامات اور معجزات کا کچھ بیان۔

مواہب لدنیہ میں ہے کہ ابن اسحٰق بن راہویہ، ابو یعلیٰ، طبرانی، بیہقی اور ابو نعیم ، سعدیہ سے نقل کرتے ہیں ۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کے ساتھ دودھ پلانے کے لئے کسی بچے کو لینے مکہ مکرمہ آئی۔ یہ زمانہ شدید قحط سالی کا تھا۔ آسمان سے زمین پر پانی کا ایک قطرہ تک نہ برسا تھا۔ ہماری ایک گدھی تھی جو لاغری و کمزوری کی وجہ سے چل نہیں سکتی تھی۔ ایک اونٹنی تھی جو دودھ کا ایک قطرہ نہ دیتی تھی۔ میرے ساتھ میرا بچہ اور میرے شوہر تھے۔ ہماری تنگ دستی کا یہ عالم تھا کہ رات چین سے گزرتی تھی نہ دن آرام سے۔ جب ہمارے قبیلہ کی عورتیں مکہ مکرمہ پہنچیں تو انہوں نے دودھ پلانے کے لئے تمام بچوں کو لے لیا۔ سوائے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے۔ کیونکہ جب وہ یہ سنتی تھیں کہ وہ یتیم ہیں تو ان کے یہاں جاتی ہی نہ تھیں۔ کوئی عورت ایسی نہ رہی جس نے کوئی بچہ نہ لیا ہو۔ صرف میں ہی باقی تھی۔ اور حضور کے سوا کسی کو نہ پاتی تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا ، خدا کی قسم بغیر بچہ لئے مکہ مکرمہ سے لوٹنا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ میں جاتی ہوں اور اسی یتیم بچے کو لئے لیتی ہوں۔ میں اسی کو دودھ پلاؤں گی۔ اس کے بعد میں گئی۔ میں نے دیکھا کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام دودھ سے زیادہ سفید اونی کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اور آپ سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں لپٹیں مار رہی ہیں۔ آپ کے نیچے سبز حریر بچھا ہوا ہے۔ اور آپ خراٹے لیتے ہوئے اپنی قفا (گدھی) پر محو خواب ہیں۔۔۔ چونکہ حضور کی عادت شریف تھی کہ آپ نیند میں خراٹے لیتے تھے۔ اور کبر سنی میں بھی خراٹوں کی آواز سنائی دیتی تھی۔اگر یہ تیزوشدید نہ ہو تو محمود ہے۔حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ میں نے چاہا کہ آپ کو نیند سے بیدار کر دوں مگر میں آپ کے حسن وجمال پر فریفتہ ہو گئی۔پھر میں نے آہستہ سے قریب ہو کر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنا ہاتھ آپ کے سینہ مبارک پر رکھا تو آپ نے تبسم فرما کر اپنی چشم مبارک کھول دی۔ اور میری طرف نظر کرم اٹھائی تو آپ کی چشمان مبارک سے ایک نور نکلا جو آسمان تک پرواز کر گیا۔ میں نے آپ کی دونوں چشمان مبارک کے درمیان بوسہ دیا۔ اور اپنی گود میں بٹھا لیا تا کہ دودھ پلاؤں۔ میں نے داہنا پستان آپ کے دہن مبارک میں دیا ، آپ نے دودھ نوش فرمایا۔ پھر میں نے چاہا کہ اپنا بایاں پستان دہن مبارک میں دوں تو آپ نے نہ لیا اور نہ پیا۔۔۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حق تعالٰی نے آپ کو ابتدائی حالت میں ہی عدالت و انصاف ملحوظ رکھنے کا الہام فرما دیا تھا اور آپ جانتے تھے کہ ایک ہی پستان کا دودھ آپ کا ہے۔ کیونکہ حلیمہ کا ایک اپنا بیٹا بھی ہے۔ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا یہ حال رہا کہ ایک پستان کو حضور اپنے رضاعی بھائی کے لئے چھوڑ دیا کرتے تھے۔۔۔ پھر میں آپ کو لے کر اپنی جگہ آئی اور اپنے شوہر کو دکھایا۔ وہ بھی آپ کے جمال مبارک پر عاشق ہو گئے۔ اور سجدہ شکر ادا کیا۔ وہ اپنی اونٹنی کے پاس گئے ، دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے۔ باوجودیکہ اس سے پہلے اس کے تھن میں دودھ کا ایک قطرہ نہ تھا۔ انہوں نے اسے دوہا جسے انہوں نے بھی پیا اور میں نے بھی پیا اور ہم خوب سیر ہو گئے۔ اور خیر و برکت کے ساتھ اس رات چین کی نیند سوئے۔ چونکہ اس سے پہلے بھوک و پریشانی میں نیند نہیں آتی تھی۔ میرے شوہر نے کہا اے حلیمہ ، بشارت و خوشی ہو کہ تم نے اس ذات مبارک کو لے لیا۔ تم نہیں دیکھتیں کہ ہمیں کتنی خیر و برکت حاصل ہوئی ہے۔ یہ سب اسی ذات مبارک کے طفیل ہے۔ اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہمیشہ اور زیادہ خیرو برکت رہے گی۔ حلیمہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد چند راتیں ہم مکہ مکرمہ میں ٹھہرے رہے۔ ایک رات میں نے دیکھا کہ ایک نور آپ کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہے۔ اور ایک شخص سبز کپڑے پہنے آپ کے سرہانے کھڑا ہے۔ پھر میں اپنے شوہر کو جگا کر کہا کہ اٹھئے اور دیکھئے۔ شوہر نے کہا اے حلیمہ، خاموش رہو اور اپنی اس حالت کو چھپا کے رکھو۔ کیونکہ (مجھے معلوم ہوا ہے کہ) جس دن سے یہ فرزند پیدا ہوا ہے یہود کے علماء و احبار نے کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے۔ انہیں چین و قرار نہیں ہے۔ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے کو رخصت کیا اور مجھے بھی سیدہ آمنہ نے رخصت کیا۔ میں اپنے دراز گوش (یعنی گدھی) پر حضور کو اپنی گود میں لے کر سوار ہوئی۔ میرا دراز گوش خوب چست و چالاک ہو گیا۔ اور اپنی گردن اوپر تان کر چلنے لگا۔ جب ہم کعبہ کے سامنے پہنچے تو تین سجدے کئے اور اپنے سر کو آسمان کی جانب اٹھایا اور چلایا۔۔۔ پھر قبیلہ کے جانوروں کے آگے آگے دوڑنے لگا۔ لوگ اس کی تیز رفتاری پر تعجب کرنے لگے۔ عورتوں نے مجھ سے کہا ، اے بنت ذویب۔ کیا یہ وہی جانور ہے جس پر سوار ہو کر ہمارے ساتھ آئی تھیں۔ جو تہمارے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتا تھا۔ اور سیدھا ہل تک نہ سکتا تھا۔ میں نے جواب دیا۔ خدا کی قسم یہ وہی جانور ہے اور یہ وہی دراز گوش ہے لیکن حق تعالٰی نے اس فرزند کی برکت سے اسے قوی و طاقتور کر دیا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا خدا کی قسم۔ اس کی بڑی شان ہے۔ حلیمہ فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے دراز گوش کو جواب دیتے سنا کہ ہاں۔ خدا کی قسم میری بڑی شان ہے۔ میں مردہ تھا مجھے زندگی عطا فرمائی، میں لاغر و کمزور تھا مجھے قوت و توانائی بخشی۔ اے بنی سعد کی عورتو۔ تم پر تعجب ہے اور تم غفلت میں ہو اور تم نہیں جانتیں کہ میری پشت پر کون ہے۔ میری پشت پر سید المرسلین، خیرالاولین والآخرین اور حبیب رب العٰلمین ہے۔۔۔ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ راستہ میں دائیں بائیں میں سنتی کہ کہتے اے حلیمہ۔ تم تونگر ہو گئیں اور بنی سعد کی عورتوں کی تم بزرگ ترین ہو گئیں۔ اور بکریوں کے جس ریوڑ پر میں گزرتی، بکریاں سامنے آ کر کہتیں۔ اے حلیمہ۔ تم جانتی ہو کہ تمہارا دودھ پینے والا کون ہے؟ یہ محمد آسمان و زمین کے رب کے رسول اور تمام بنی آدم سے افضل ہیں۔۔۔ہم جس منزل پر قیام کرتے حق تعالٰی اس منزل کو سرسبز و شاداب فرما دیتا۔ باوجویکہ وہ قحط سالی کا زمانہ تھا۔ اور جب ہم بنی سعد کی بستی میں پہنچ گئے تو کوئی خطہ اس سے زیادہ خشک و ویران نہ تھا۔ لیکن میری بکریاں چراگاہ میں جاتیں تو شام کو خوب شکم سیر، تروتازہ اور دودھ سے بھری ہوئی لوٹتیں۔ تو ہم ان کا دودھ دوہتے اور ہم سب خوب سیر ہو کر پیتے اور دوسروں کو پلاتے۔ ہماری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں سے کہتے کہ تم اپنی بکریوں کو ان چراگاہوں میں کیوں نہیں چراتے جس چراگاہ میں بنت ابی ذویب کی بکریاں چرتی ہیں۔ حالانکہ وہ اتنا نہیں جاتے کہ ہمارے گھر میں یہ خیرو برکت کہاں سے آئی ہے۔ یہ برکت و نشاط غیبی چراگاہ اور کسی اور چارہ سے تھی۔ اس کے بعد ہماری قوم کے چرواہوں نے ہمارے چرواہوں کے ساتھ بکریاں چرانی شروع کر دیں۔ یہاں تک کہ حق تعالٰی نے ان کے اموال اور ان کی بکریوں میں بھی خیرو برکت پیدا کر دی۔ اور حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے تمام قبیلہ میں خیر و برکت پھیل گئی۔ میں جانتی تھی کہ یہ سب حضور کے وجود گرامی کی برکت سے ہے۔ حلیمہ فرماتی ہیں کہ جب حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی عمر مبارک بات کرنے کی ہوئی تو میں آپ کو یہ فرماتے سنتی۔ اللہ اکبر ، الحمد للہ رب العالمین وسبحان اللہ بکرۃً واصیلا۔۔ اور رات کے وقت آپ کے دل مبارک کو یہ فرماتے سنتی۔ لا الٰہ الا اللہ قدّوسنا مت العیون والرحمٰن لا تاخذہ سنتہً ولا نوم۔ ۔۔ اور حضور کو پنگھوڑے میں چاند سے باتیں کرتے اور اشارہ کرتے دیکھتی اور جس طرف چاند کو اشارہ فرماتے، چاند اسی جانب جھک جاتا اور فرشتے آپ کے گہوارے یعنی پنگھوڑے کو ہلاتے، یہ آپ کے معجزات میں مذکور ہے۔ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ حضور نے کبھی بھی کپڑوں میں بول و براز نہیں کیا۔ آپ کے بول و براز کا ایک وقت مقرر تھا۔ جب بھی میں ارادہ کرتی کہ آپ کے دہن مبارک کو دودھ وغیرہ سے پاک و صاف کروں تو غیب سے مجھ پر سبقت ہوتی اور آپ کا دہن مبارک پاک و صاف ہو جاتا۔ اور جب کبھی حضور کا ستر کھل جاتا تو آپ حرکت کرتے اور فریاد کرتے یہاں تک کہ میں ستر ڈھانپ دیتی اور اگر ڈھانپنے میں میری طرف سے تاخیر یا کوتاہی ہوتی تو غیب سے ڈھانپ دیا جاتا۔۔۔ (جاری ہے)۔
 

الشفاء

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
جب حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے کا زمانہ آیا اور آپ بچوں کو کھیلتا دیکھتے تو آپ ان سے دور رہتے۔ اور انہیں اس سے منع فرماتے اور کہتے کہ ہمیں کھیلنے کے لئے پیدا نہیں فرمایا گیا۔اسی کے مانند حضرت یحییٰ علیہ السلام سےبھی نقل کیا گیا ہے۔۔۔۔۔ حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی نشو ونما دوسرے بچوں سے نرالی تھی۔ ایک دن میں حضور کی نشو و نما اتنی ہوتی جتنی دوسرے بچوں کی ایک ماہ میں ہوتی ہے۔ اور ایک ماہ میں اتنی ہوتی جتنی دوسرے بچوں کی ایک سال میں ہوتی اور روزانہ ایک نور آفتاب کی مانند آپ پر اترتا اور آپ کو ڈھانپ لیتا۔ پھر آپ متجلٰی ہو جاتے۔ منقول ہے کہ روزانہ دو سفید مرغ، اور ایک اور روایت میں ہے کہ دو مرد سفید پوش آپ کے گریبان میں داخل ہو کر روپوش ہو جاتے تھے۔ آپ نہ روتے نہ چلاتے اور نہ بد خلقی کا اظہار فرماتے۔ شروع سے ہی آپ کا یہی حال تھا۔ اور جب کسی چیز پر آپ دست مبارک رکھتے تو بسم اللہ کہتے۔ اور میں آپ کی ہیبت اور دبدبہ سے اپنے شوہر کو اپنے قریب نہ آنے دیتی۔ یہاں تک کہ آپ پر دو سال پورے گزر گئے۔ فرماتی ہیں میں حضور کو کبھی دور نہ جانے دیتی۔ ایک روز مجھ سے غفلت ہوئی۔ آپ اپنی رضاعی بہن شیما کے ساتھ جو آپ کے ساتھ خاص طور پر رہتی تھی چلے گئے۔ یہ دن گرمی کا تھا۔ میں آپ کی تلاش میں چل دی۔ اور میں نے آپ کو شیما کے ساتھ پایا۔ میں نے شیما سے کہا کہ کیوں گرمی اور لو میں لے کر آ گئی۔ شیما نے کہا کہ ہم نے تو گرمی کی شدت محسوس نہیں کی، کیونکہ میں نے دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا آپ علیہ الصلاۃ والسلام پر سایہ کئے رہا۔ جہاں آپ تشریف لے جاتے، بادل ساتھ چلا آتا۔ یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے۔(الحدیث)۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ پر بادل کا سایہ کرنا بچپن سے ہی تھا۔لیکن علماء کہتے ہیں کہ یہ دائمی طور پر نہ تھا کہ ہمیشہ آپ کے سر مبارک پر ابر سایہ کرتا۔ اور یہ صورت ضرورت و احتیاج کے وقت ہوتی۔۔۔
سینہ مبارک کے چاک کرنے اور قلب اطہر کو غسل دینے کا قصہ بھی دایہ حلیمہ سعدیہ کے یہاں پیش آیا۔ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ ایک دن حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے حلیمہ سعدیہ سے فرمایا ، اے مادر۔ مجھے اپنے بھائیوں کے ساتھ جب وہ بکریاں چرانے جاتے ہیں کیوں نہیں بھیجتیں تاکہ میں سیر کروں اور آپ کی بکریوں کو چراؤں۔ چنانچہ حلیمہ سعدیہ نے حضور کے بالوں میں کنگھی کی اور آنکھوں میں سرمہ لگایا، کپڑے بدلے ، اور بد نظری سے بچنے کے لئے آپ کی گردن میں یمنی تختی باندھی۔ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اسے توڑ کر پھینک دیا اور فرمایا ، میرا رب میرا محافظ ہے۔۔۔
اس کے بعد حضور اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ باہر تشریف لے گئے۔ اور بکریاں چرانے میں مشغول ہوگئے۔ جب آدھا دن گزرا تو ضمرہ، حلیمہ کا بیٹا ابا جان۔ اماں جان پکارتا بھاگتا ہوا آیا۔ اور کہنے لگا۔ محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ کھڑے تھے کہ اچانک ایک شخص نمودار ہوا اور ان کے قریب آکر انہیں ہمارے درمیان سے پہاڑ پر لے گیا اور لٹا کر ان کا شکم مبارک چاک کیا۔ آگے ہم نہیں جانتے کہ ان کا کیا حال ہوا۔ اس پر حلیمہ اور ان کے شوہر دوڑتے ہوئے گئے ۔ جب آپ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ آپ پہاڑ پر بیٹھے ہوئے آسمان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ جب آپ نے ہمیں دیکھا تو تبسم فرمایا۔۔۔ یہ قصہ احادیث کی کتابوں میں مختلف نوعیتوں اور عبارتوں سے آیا ہے۔۔۔
ابو یعلٰی، ابو نعیم اور ابن عساکر، شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک روز میں بنی لیث بن بکر میں اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ وادی میں تھا کہ یکایک میری نظر تین اشخاص پر پڑی۔ ان میں سے ایک کے ہاتھ میں سونے کا طشت تھا جو برف سے بھرا ہوا تھا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ایک کے ہاتھ میں چاندی کا آفتابہ تھا۔ اور دوسرے کے ہاتھ میں سبز زمرد کی لگن تھی جو برف سے لبریز تھی۔ پھر انہوں نے مجھے اپنے ساتھیوں کے درمیان سے پکڑا۔ میرے سب ساتھی اپنے محلے کی جانب بھاگ گئے۔ اس کے بعد ان تینوں میں سے ایک نے مجھے زمین پر نرمی سے لٹایا اور ایک نے میرے سینہ کو جوڑوں کے پاس سے ناف تک چیرا۔ اور مجھے کسی قسم کا درد محسوس نہیں ہوا۔ اس کے بعد پیٹ کی رگوں کو نکالا اور اس برف سے اسے خوب غسل دیا۔ پھر اسے اپنی جگہ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ دوسرے شخص نے اس سے کہا۔ اب تم ہٹ جاؤ۔ اس کے بعد اس نے اپنے ہاتھ کو میرے جوف میں ڈال کر میرا دل نکالا۔ میں اسے دیکھ رہا ہوں ۔ پھر اسے چیرا۔ اور اس سے سیاہ لوتھڑا نکالا۔ اور ایک روایت میں ہے ، سیاہ نکتہ کو نکالا اور اسے پھینک دیا۔ اس نے کہا یہ شیطان کا حصہ ہے۔ پھر اس اس چیز سے بھرا ، جو ان کے پاس تھی۔ ایک روایت میں اسے شکبہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اپنے داہنے اور بائیں کچھ اشارہ کیا گویا وہ کسی چیز کو مانگ رہا ہے۔ تو انہوں نے ایک انگشتری نور کی دی۔ جس کی نورانیت سے آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں۔ اس کے بعد میرے دل پر مہر لگائی اور میرا دل نور سے لبریز ہو گیا۔اور وہ نور نبوت و حکمت کا تھا۔ پھر دل کو اپنی جگہ رکھ دیا تو میں اس مہر کی ٹھنڈک و خوشی عرصہ دراز تک محسوس کرتا رہا۔ اسی طرح مواہب کے الفاظ ہیں کہ کہا ، فوجدتُّ برد ذالک الخاتم فی صدری۔ تو میں نے اس مہر کی ٹھنڈک اپنے سینہ میں پائی۔ اور روضۃ الاحباب کی عبارت یوں ہے کہ اس کی ٹھنڈک اور خوشی اب بھی اپنے جوڑوں اور رگوں میں پاتا ہوں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹھنڈک کا پایا جانا تمام عمر مبارک تک رہا۔ واللہ اعلم۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے سینہ کے جوڑ سے ناف تک ہاتھ پھیرا اور وہ شگاف مل گیا۔ اس کے بعد مجھے آہستگی سے اٹھایا اور مجھے سینے سے لگایا اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا۔ اور کہنے لگے اے خدا کے حبیب۔ کچھ نہ پوچھئے، اگر آپ جانتے کہ آپ کے لئے کیا خیر و خوبی ہے تو آپ کی آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ اور آپ خوش ہوتے۔۔۔ اس کے بعد وہ مجھے وہیں چھوڑ کر آسمان کی جانب پرواز کر گئے۔ اور میں ان کو دیکھتا رہا۔۔۔حلیہ شریف کے بیان میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ہم رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ و شکم مبارک پر اس جوڑ کے نقش و نشان کو سیدھی لکیر کی مانند دیکھا کرتے تھے۔۔۔

سرور کہوں یا مالک و مولا کہوں تجھے
باغ خلیل کا گل زیبا کہوں تجھے۔
تیرے تو وصف عیب تناھی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے۔​
 

الشفاء

لائبریرین
قبیلہ بنی سعد سے مکہ مکرمہ کی طرف واپسی۔۔۔

حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ جب شق صدر کا واقعہ پیش آیا تو میرے شوہر اور دوسرے لوگوں نے بھی مشورہ دیا کہ اس سے پہلے کہ آپ کو کوئی گزند پہنچے بہتر یہی ہے کہ حضور کو ان کی والدہ ماجدہ اور ان کے جد امجد کے سپرد کر دینا چاہیئے۔۔۔ حلیمہ سعدیہ بیان کرتی ہیں کہ اس کے بعد ہم حضور کو لے کر مکہ مکرمہ کی طرف چل دیے۔ جب ہم مکہ کے قرب و جوار میں پہنچے تو میں حضور علیہ الصلاہ والسلام کو ایک جگہ بٹھا کر قضائے حاجت کے لئے چلی گئی۔ جب واپس آئی تو حضور کو اس جگہ موجود نہ پایا۔ بہت تلاش و جستجو کی مگر کوئی نشان نہ پایا۔ نا امید ہو کر سر پر ہاتھ مار کر ومحمداہ و والداہ کہہ کر پکارنے لگی۔ اتنے میں ایک بوڑھا شخص لاٹھی ٹیکتا میرے پاس آیا ۔ اس نے مجھ سے کہا، اے سعدیہ ، کیا بات ہے کیوں نالہ و شیون کر رہی ہو؟ میں نے کہا کہ میں نے محمد بن عبدالمطلب کو ایک مدت تک دودھ پلایا ہے۔ اب میں انہیں لے کر ان کی والدہ اور دادا کے سپرد کرنے آئی تھی لیکن وہ مجھ سے گم ہو گئے ہیں۔ بوڑھے نے کہا کہ روؤ نہیں اور غم نہ کھاؤ۔ میں تمہیں اس کی رہنمائی کرتا ہوں۔ جہاں وہ ہوں گے۔۔۔ اگر اس نے چاہا تو ممکن ہے کہ تمہیں ان تک پہنچا دے۔ میں نے کہا ، میرے جان تم پر قربان، بتاؤ وہ کون ہے؟ بوڑھے نے کہا وہ بڑا بت ہے جس کا نام ہبل ہے۔ وہ بڑا مرتبہ والا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تمہارا فرزند کہاں ہے۔ میں نے کہا، خرابی ہو تیری ، کیا تو نہیں جانتا اور تو نے نہیں سنا کہ اس فرزند کی ولادت کی رات میں بتوں پر کیا گزری تھی۔ وہ سب ٹوٹ کر اوندھے گر پڑے تھے۔ بوڑھا زبردستی مجھے ہبل کے پاس لے گیا اور اس کا چکر لگوایا اور میرا مقصد اس نے بت کے سامنے بیان کیا تو ہبل سر کے بل گر پڑا، اور دوسرے تمام بت اوندھے ہو کر گر پڑے۔ ان کے خول سے یہ آواز آئی، اے بوڑھے ، ہمارے سامنے سے دور ہو۔ اور اس فرزند جلیل کا ہمارے سامنے نام نہ لے۔ کیونکہ اس ذات مبارک کے ہاتھ سے ہماری ہلاکت، تمام بتوں کی تباہی اور تمام پجاریوں کی بربادی ہو گی۔ اس کا رب انہیں ہر گز ضائع نہ کرے گا اور وہ ہر حال میں اس کا محافظ ہے۔۔۔
حلیمہ سعدیہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں عبدالمطلب کے پاس آئی۔ جب ان کی نظر مجھ پر پڑی، فرمایا ، کیا بات ہے میں تمہیں فکر مند اور پریشان دیکھ رہا ہوں۔ اور ہمارا محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے ساتھ نہیں ہے؟ میں نے کہا، اے ابو الحارث، میں محمد (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خوب اچھی طرح لا رہی تھی۔ جب میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئی تو میں انہیں بٹھا کر قضائے حاجت کے لئے چلی گئی۔ واپسی پر وہ غائب ملے۔ ان کی جستجو و تلاش میں بہت زیادہ سرگرداں رہی مگر کوئی خبر نہ پا سکی۔ یہ سن کر حضرت عبدالمطلب کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور قریش کو آواز دی کہ اے آل غالب، میرے پاس آؤ۔ جب تمام قریش جمع ہو گئے تو قریش نے کہا کہ اے سردار ، آپ کو کیا معاملہ درپیش ہے؟ فرمایا کہ میرا فرزند محمد گم ہو گیا ہے۔ اس کے بعد عبدالمطلب اور تمام قریش سوار ہو کر حضور کی تلاش میں نکلے اور مکہ کی اعلیٰ و اسفل ، ہر جگہ تلاش کیا مگر حضور نہ ملے۔ اس کے بعد حضرت عبدالمطلب مسجد حرام میں آئے اور خانہ کعبہ کا طواف کیا اور بارگاہ الٰہی میں مناجات کی۔ یہاں آپ نے ہاتف غیبی کی آواز سنی کہ اے لوگو غم نہ کھاؤ، کیونکہ محمد کا اللہ محافظ ہے۔ وہ آپ کو اپنی حفاظت سے کبھی دور نہ فرمائے گا۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا ، اے ہاتف غیبی مجھے بتاؤ کہ محمد کہاں ہیں؟ اس نے کہا ، تہامہ کی وادی میں ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں۔ حضرت عبدالمطلب وادی تہامہ کی جانب چل دیے۔ راہ میں ورقہ بن نوفل ان کے سامنے آئے۔ وہ بھی ان کے ہمراہ ہو لئے۔ یہاں تک کہ جب وادی تہامہ پہنچے تو دیکھا کہ حضور کھجور کے درخت کے نیچے تشریف فرما ہیں اور اس کے پتے چن رہے ہیں۔ عبدالمطلب نے پوچھا، من انت یا غلام ، اے فرزند تم کون ہو؟ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں۔ حضرت عبدالمطلب نے کہا۔ میری جان تم پر قربان ہو، میں تمہارا دادا عبدالمطلب ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے حضور علیہ الصلات والسلام کو سواری پر اپنے آگے بٹھایا اور خوش خوش مکہ مکرمہ لے آئے۔ اور بہت سا سونا اور بے شمار اونٹ صدقہ میں دیے۔ اور حلیمہ سعدیہ کو قسم قسم کے انعام و اکرام سے مالا مال کیا۔ اور وہ اپنے قبیلے کی جانب لوٹ گئیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس گم شدگی میں کیا بھید تھا۔ بعض مفسرین آیہ کریمہ “ووجدک ضالاً فھدیٰ“ کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ اور اسی طرح پر حلیمہ سعدیہ کا حضور کو لانے سے پہلے شق صدر کا واقعہ بیان کرتے ہیں۔۔۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ جب حلیمہ سعدیہ مکہ مکرمہ میں سیدہ آمنہ کے پاس حضور کو لے کر آئیں تو اُس خیر و برکت کے پیش نظر جو آپ علیہ الصلات والسلام کے قدم مبارک سے پہنچی تھی، ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کچھ عرصہ مزید حضور ان کے پاس تشریف فرما رہیں۔ چنانچہ سیدہ آمنہ سے کہا کہ چونکہ مکہ مکرمہ میں وباء پھیلی ہوئی ہے اس لئے میں انہیں اپنے قبیلہ میں واپس لئے جاتی ہوں۔ سیدہ آمنہ اس پر راضی ہو گئیں۔ حلیمہ سعدیہ حضور کو دوبارہ قبیلہ بنی سعد لے گئیں۔ اس مرتبہ دو یا تین سال یہاں رہے اور اسی دوران شق صدر کا واقعہ ہوا۔۔۔
حلیمہ سعدیہ کے بعد ام ایمن نے حضور کی حفاظت و پرورش کی فرائض انجام دیے۔ یہ ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی باندی تھیں۔ اور وہ حضور کو حضرت عبداللہ کی میراث میں حاصل ہوئی تھی۔ مواہب لدنیہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ام ایمن کا حضانت کے فرائض انجام دینا سیدہ آمنہ کی رحلت کے بعد تھا۔ ام ایمن فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی حضور کو بھوک و پیاس کی شکایت کرتے نہ دیکھا۔ جب صبح ہوتی ، آپ ایک پیالہ زمزم کا نوش فرماتے اور شام تک کچھ طلب نہ فرماتے۔ اکثر ایسا ہوا کہ دوپہر کے وقت کھانے کے لئے عرض کیا جاتا تو فرماتے، مجھے کھانے کی رغبت نہیں ہے۔۔۔ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔

(از مدارج النبوۃ۔ شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ)۔

 
Top