حکیم سعید: سو سال پہلے پیدا ہونے والے ’ایک مزاجاً پاکستانی‘

عدنان عمر

محفلین
حکیم سعید: سو سال پہلے پیدا ہونے والے ’ایک مزاجاً پاکستانی‘

جمعرات 9 جنوری 2020 8:46
جاوید مصباح -اردو نیوز، اسلام آباد

پاکستان بننے کے بعد ایک لڑائی ختم ہوئی تو دہلی کے ایک امیر گھرانے میں ایک نئی ’جنگ‘ شروع ہو گئی۔ اس کا ایک نوجوان یہ کہتے ہوئے ’یہاں جس انداز کی حکومت ہے اس کی تابعداری نہیں کی جا سکتی‘ پاکستان جانے پر تُلا تھا۔ والدہ اور بڑا بھائی سمجھا سمجھا کر ہار مان چکے تو اجازت ملی۔
’اب جا ہی رہے ہو تو یہ چادر اور تکیہ میری نشانی کے طور پر اپنے ساتھ رکھنا‘ ماں نے ایک گٹھڑی بڑھاتے ہوئے کہا، جو اس نے نم آنکھوں کے ساتھ تھام لی۔ اسی ’نشانی‘ نے ہی کچھ عرصے بعد زندگی بدل ڈالی۔
اس کے بعد اس نوجوان نے واپس پلٹ کر نہیں دیکھا اور عمر بھر پاکستان نہیں چھوڑا، حتیٰ کہ پاکستان کے لیے جان دے دی۔
یہ نوجوان حکیم محمد سعید تھے جنہوں نے ہمدردی سے بھرپور ’ہمدرد دواخانہ‘ کی بنیاد رکھی جو آج بھی ان کے طے کیے ہوئے خطوط پر خدمات بجا لا رہا ہے۔

آج سے ٹھیک ایک صدی پہلے 9 جنوری 1920 کو دہلی میں پیدا ہونے والے حکیم محمد سعید کی پاکستان آمد کے بعد ان کے بھائی خط و کتابت میں اکثر کہتے ’واپس آ جاؤ، یہاں یہ ہے وہ ہے،‘ جس کے جواب میں وہ لکھتے ’یہاں جو کچھ ہے وہ وہاں نہیں۔‘
جب پاکستان میں کوئی سانحہ ہوتا بھائی کا اصرار بڑھ جاتا، تاہم ان کا فیصلہ اٹل رہتا۔
یہ تکرار خطوط ہی نہیں ملاقاتوں میں بھی سالہا سال چلتی رہی۔
ان کی خواہش تھی کہ ان کی موت بھائی سے پہلے ہو، بھائی جنازے کے لیے آئیں تو کفن ہٹا کر کہیں ’تم صحیح تھے۔‘
ایسا ہوا بھی، وہ بھائی سے قبل یہ دنیا چھوڑ گئے، لیکن کیا ان کے بھائی نے ایسا کہا؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ذہن میں رکھتے ہوئے، کہ جس ملک کے لیے انہوں نے سب کچھ چھوڑا وہاں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا کیا وہ اس کے مستحق تھے؟

حکیم محمد سعید کون تھے؟
حکیم محمد سعید کے آبائی خاندان کا تعلق چین کے شہر سنکیانگ سے تھا، جو سترھویں صدی کے اوائل میں پشاور منتقل ہوا، پھر ملتان اور وہاں سے دہلی منتقل ہوا اور حوض قاضی میں رہائش پذیر ہوا۔ وہیں پر حکیم سعید، حکیم عبدالمجید کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ دو سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ اٹھ گیا۔ ان کی تربیت والدہ اور بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے کی۔
حکیم سعید کو صحافت کی طرف رغبت تھی مگر بڑے بھائی کے کہنے پر حکمت کی طرف آ گئے۔
انہوں نے 1936 میں طیبہ کالج دہلی میں شعبہ طب میں داخلہ لیا۔ 1940 میں تعلیم مکمل کر کے بطور معالج کام شروع کیا۔ انہی دنوں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور آزادی کی جدوجہد زور پکڑنے لگی، جس نے ان کے اندر بھی تحریک پیدا کی۔

پاکستان آمد
تقسیم کے ساتھ ہی انہوں نے برملا کہنا شروع کر دیا کہ ’میں مزاجاً پاکستانی ہوں، یہاں رہنا مشکل ہو گا۔‘
وہ پاکستان جا کر مسلمانوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
ٹھیک 72 برس قبل یعنی آج ہی کے روز نو جنوری 1948 کو حکیم سعید بیوی، بیٹی اور ماں کی دی گئی ’نشانی‘ لیے دہلی سے نکلے اور کراچی پہنچ گئے۔
جب وہ پاکستان پہنچے تو کسی امیر خاندان کے چشم و چراغ نہیں بلکہ ایک عام سے انسان تھے۔ بالکل خالی ہاتھ، سب کچھ بھائی کو سونپ آئے تھے۔
یہاں رہائش کے مسائل بھی تھے اورغم روزگار بھی، ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھے، ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کیا۔ کچھ روز بعد بارہ روپے ماہوار پر ایک دس بائی دس کا کمرہ حاصل کیا اور وہیں مطب کی بنیاد رکھی۔ کاغذ پر ’ہمدرد مطب‘ اپنے ہاتھ سے لکھ کر لگایا۔ ساڑھے بارہ روپے کا فرنیچر کرائے پر لیا اور یوں ان کے کام کا آغاز ہوا۔

ماں کی نشانی جو نعمت ثابت ہوئی
ماں کی چادر اور تکیہ انہوں نے ہمیشہ اپنے پاس رکھا۔ اسی تکیے پر سوتے۔ شروع کے سخت ایام میں ان کی اہلیہ نعمت بیگم نے تکیے کا غلاف دھونے کے لیے اتارا اور ہاتھ سے روئی کو ٹھیک کیا تو محسوس ہوا کہ اس میں کچھ ہے۔ انہوں نے کھول کر دیکھا تو اندر نوٹ تھے جو قریباً 25000 روپے تھے۔ انہوں نے حکیم سعید کو دکھائے تو وہ بہت خوش ہوئے اور انہیں یہ بات سمجھ میں آئی کہ ماں نے یہ نشانی کیوں دی تھی۔ اسی پیسے سے، جو اس وقت کافی بڑی رقم تھی، انہوں نے مطب اور دواخانے کو وسعت دی اور دوسرے شہروں میں بھی شاخیں کھولیں۔ کام وسیع ہوتا گیا، ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی شہرت پھیلتی گئی۔

مطب کے معمولات
حکیم سعید کی خاص بات یہ تھی کہ وہ فیس نہیں لیتے تھے، مستحق مریضوں کو دوائی بھی مفت دیتے، بلکہ کچھ مریضوں کی پرچیوں پر لکھ دیتے کہ ’دوائی دینے کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کر دی جائے۔‘

بچے ان کی کمزوری تھے، ان کی دراز میں ٹافیوں کے پیکٹ اور کھلونے پڑے ہوتے، کسی مریض کے ساتھ بچہ ہوتا، یا مریض ہی بچہ ہوتا ان کو وہ چیزیں دیتے۔ مریضوں سے انتہائی نرمی سے بات کرتے اور موقع کی مناسبت سے کوئی چٹکلہ بھی سنا دیتے جس سے مریض اپنا مرض بھول جاتا۔
حکیم سعید کہا کرتے تھے ’معالج میں روحانیت کا عنصر ہونا چاہیے، جب وہ نبض چھوتا ہے تو انگلیوں سے شعاعیں نکل کر مریض میں منتقل ہو جاتی ہیں، اگر معالج پاکباز ہو گا تو مریض شفایاب ہو گا۔‘
وہ روزے کے حامی تھے اور رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھتے تھے۔ دوپہر کے کھانے کے سخت خلاف تھے بلکہ یہاں تک کہا کرتے تھے کہ ’میرا بس چلے تو لنچ پر پابندی لگا دوں۔‘
وہ کہتے تھے ’تین وقت کا کھانا انسانی جسم اور ضروریات کے حساب سے مناسب نہیں۔ اس سے صحت کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘

گورنر ہاؤس نہیں دواخانہ
’اس عہدے کی وجہ سے میں مریضوں کی بہتر خدمت نہیں کر پا رہا‘ یہ جملہ انہوں نے گورنر سندھ کا عہدہ ملنے کے محض ایک ماہ بعد استعفے کے طور پر لکھا، جسے تین ماہ بعد منظور کر لیا گیا حالانکہ انہیں گورنرشپ پانچ سال کے لیے دی گئی تھی۔
وزارت ملنے کے بعد بھی مطب جانے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔
انہوں نے ہمدرد دواخانہ، ہمدرد فاؤنڈیشن اور ہمدرد یونیورسٹی جیسے ادارے قائم کیے۔ ’نونہال‘ کے نام سے بچوں کے لیے رسالہ بھی نکالا اور دو سو سے زائد کتابیں لکھیں۔
خدمات کے صلے میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔

درویش سے دشمنی
سراپا شفقت اور امن درویش صفت حکیم سعید، جن کی کسی سے دشمنی نہیں تھی، 17 اکتوبر 1998 کو ان کا جسم اس وقت گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، جب وہ اپنے مطب جا رہے تھے۔ وہ اس وقت بھی روزے کی حالت میں تھے۔
حکیم سعید کا قتل کا سانحہ آج بھی پاکستان کے ان بڑے حادثات میں شامل ہے جو منطقی انجام کے منتظر ہیں۔
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
حکیم سعید کا قتل کا سانحہ آج بھی پاکستان کے ان بڑے حادثات میں شامل ہے جو منظقی انجام کے منتظر ہیں۔
حکیم سعید کے لیے ہمارے دل میں انتہائی عزت و احترام ہے مگر ہم نے اُن کے ساتھ بہت ظلم کیا۔ جاوید چودھری صاحب کی طرزِ فکر کے ہم سخت ناقد رہے ہیں تاہم کیا تاریخی جملے ان کے کالم میں پڑھنے کو ملے۔ اس سے بہتر کوئی کیا لکھے گا، اُن کے کالم 'مدینہ کا شہید' سے ایک اقتباس، بیاد ہمدردِ ملت، حکیم محمد سعید مرحوم رحمۃ اللہ علیہ،

یہ واقعہ مجھے مرحوم حکیم سعید نے سنایا تھا ، مجھے آج بھی وہ گرم سہ پہر یاد ہے میں ہمدرد دواخانہ راولپنڈی میں حکیم صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا ، مرحوم خلاف معمول تھکے تھکےسے لگ رہے تھے میں نے ادب سے طبیعت کے اس بوجھل پن کی وجہ دریافت کی تو دل گرفتہ لہجے میں بولے " ہم نے اس دکھ سے بھارت چھوڑا تھا کہ ہمیں وہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی ، ۔۔۔۔۔ شر پسند پچھلی صفوں میں کھڑے نمازیوں کو چھرے گھونپ کر بھاگ جاتے تھے ، ہم نے سوچا چلو پاکستان چلتے ہیں وہاں ہمارے سجدے تو آزاد ہوں گے ، ہماری مسجدیں ، ہماری درگاہیں تو محفوظ ہونگی لیکن افسوس آج مسلح گارڈز کے پہرے کے بغیر پاکستان کی کسی مسجد میں نماز کا تصور تک نہیں ، مجھے میرے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید دہلی سے لکھتے ہیں ۔ سعید واپس آجاؤ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ، یہاں ادھر کم از کم مسجدیں تو محفوظ ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن میں ۔ " ان کی آواز اکھڑ گئی ۔
" پاکستان آنے پر آپ کو کبھی پچھتاوا ہوا ؟ " میں نے نرمی سے پوچھا ۔ " انہوں نے اچکن کے بٹن سہلائے " نہیں ہر گز نہیں ، یہ سودا ہم نے خود کیا تھا ۔ حمید بھائی میرے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے ، ان کی خواہش تھی میں دہلی ہی میں ان کا ہاتھ بٹاؤں لیکن مجھے لفظ پاکستان سے عشق تھا لہذا ادھر چلا آیا ، اللہ تعالی نے کرم کیا اور وہ ادارہ جس کی بنیاد میں نے بارہ روپے سے رکھی تھی آج پاکستان کے چند بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے ، یہ سب پاکستان سے عشق کا کمال ہے ۔ " ان کی آواز میں بدستور ملال تھا ۔
" لیکن پاکستان کے حالات سے دکھ تو ہوتا ہوگا ؟ " میں اپنے سوال پر اصرار کیا ۔
" ہاں بہت ہوتا ہے ۔ اخبار پڑھتا ہوں ، سیاستدانوں کے حالات دیکھتا ہوں عوام کی دگرگوں صورتحال پر نظر پڑتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے ۔ جب ادھر دہلی سے کوئی عزیز رشتے دار پاکستان آکر کہتا ہے ، " کیوں پھر " تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے ، لیکن کیا کریں ، گھر جیسا بھی ہے ، ہے تو اپنا ، ہم اسے چھوڑ تو نہیں سکتے ، لہذا لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے آخری سانس تک ۔ "
" کوئی ایسی خواہش جس کا آپ نے آج تک کسی کے سامنے اظہار نہیں کیا ؟ "
انہوں نے کچھ دیر تک سوچا ۔ " ہاں کبھی کبھی جی چاہتا ہے میری موت حمید بھائی سے پہلے ہو ، وہ میرے جنازے پر آئیں ، میرے چہرے سے چادر سرکا کر دیکھیں اور پھر آہستہ سے مسکرا کر کہیں ، ہاں سعید تمہارافیصلہ درست تھا ۔ "
وہ گرم دوپہر ڈھل گئی تو اس کے بطن سے آج کی خنک اور غمناک صبح طلوع ہوئی ، میرے سامنے میز پر آج کے اخبار بکھرے پڑے ہیں ، ہر اخبار کی پیشانی کے ساتھ آج کے سب سے بڑے انسان کی تصویر چھپی ہے ، خون میں نہائی اور حسرت میں ڈوبی ہوئی تصویر جو ہر نظر سے چیخ چیخ کر ایک ہی سوال کررہی ہے ۔ " میرا جرم کیا تھا ، مجھے کیوں مارا گیا ، میں تو زخموں پر مرہم رکھنے والا شخص تھا پھر میرے جسم کو زخم کیوں بنا دیا گیا ۔ " میرا دماغ سلگی لکڑیوں کی طر ح چٹخنے لگا ، یہ تصویر آج دہلی کے کسی اخبار میں بھی چپھی ہوگی ، وہ اخبار ہمدرد نگر کے ایک چھوٹے سے غریبانہ کمرے میں بھی پہنچا ہوگا ، چٹائی پر بیٹھے بیاسی برس کے ایک بوڑھے نے بھی اسے اٹھایا ہوگا ، اس کی آنکھیں بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح چھلک پڑی ہوں گی ، اس نے بھی شدت جذبات سے اخبار پرے پھینک دیا ہوگا ، اس نے بازو پر دانت جما کر چیخ ماری ہوگی ، اس نے بھی اپنی چھاتی پر ہاتھ مارا ہوگا ، اس نے بھی چلا چلا کر کہا ہوگا ۔ " سعید تمہارا فیصلہ غلط تھا ، مجھے دیکھو 82 برس کے بوڑھے کو دیکھو ، بغیر محافظ کے مسجد جاتا ہے ، پیدل مطب پہنچتا ہے ، روز صبح شام کافروں کے درمیان چہل قدمی کرتا ہے لیکن اس پر کبھی کوئی گولی نہیں چلی ، اس کا کبھی کسی نے راستہ نہیں روکا ۔ " ہاں اس 82 برس کے کمزور بوڑھے نے چلا چلا کرکہا ہوگا ۔ " سعید! میں کربلا میں زندہ رہا، تم مدینے میں مارے گئے ۔ "
 

عدنان عمر

محفلین
حکیم سعید کے لیے ہمارے دل میں انتہائی عزت و احترام ہے مگر ہم نے اُن کے ساتھ بہت ظلم کیا۔ جاوید چودھری صاحب کی طرزِ فکر کے ہم سخت ناقد رہے ہیں تاہم کیا تاریخی جملے ان کے کالم میں پڑھنے کو ملے۔ اس سے بہتر کوئی کیا لکھے گا، اُن کے کالم 'مدینہ کا شہید' سے ایک اقتباس، بیاد ہمدردِ ملت، حکیم محمد سعید مرحوم رحمۃ اللہ علیہ،

یہ واقعہ مجھے مرحوم حکیم سعید نے سنایا تھا ، مجھے آج بھی وہ گرم سہ پہر یاد ہے میں ہمدرد دواخانہ راولپنڈی میں حکیم صاحب کے کمرے میں بیٹھا تھا ، مرحوم خلاف معمول تھکے تھکےسے لگ رہے تھے میں نے ادب سے طبیعت کے اس بوجھل پن کی وجہ دریافت کی تو دل گرفتہ لہجے میں بولے " ہم نے اس دکھ سے بھارت چھوڑا تھا کہ ہمیں وہاں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی ، ۔۔۔۔۔ شر پسند پچھلی صفوں میں کھڑے نمازیوں کو چھرے گھونپ کر بھاگ جاتے تھے ، ہم نے سوچا چلو پاکستان چلتے ہیں وہاں ہمارے سجدے تو آزاد ہوں گے ، ہماری مسجدیں ، ہماری درگاہیں تو محفوظ ہونگی لیکن افسوس آج مسلح گارڈز کے پہرے کے بغیر پاکستان کی کسی مسجد میں نماز کا تصور تک نہیں ، مجھے میرے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید دہلی سے لکھتے ہیں ۔ سعید واپس آجاؤ پاکستان کے حالات ٹھیک نہیں ، یہاں ادھر کم از کم مسجدیں تو محفوظ ہیں ۔ ۔ ۔ لیکن میں ۔ " ان کی آواز اکھڑ گئی ۔
" پاکستان آنے پر آپ کو کبھی پچھتاوا ہوا ؟ " میں نے نرمی سے پوچھا ۔ " انہوں نے اچکن کے بٹن سہلائے " نہیں ہر گز نہیں ، یہ سودا ہم نے خود کیا تھا ۔ حمید بھائی میرے اس فیصلے سے خوش نہیں تھے ، ان کی خواہش تھی میں دہلی ہی میں ان کا ہاتھ بٹاؤں لیکن مجھے لفظ پاکستان سے عشق تھا لہذا ادھر چلا آیا ، اللہ تعالی نے کرم کیا اور وہ ادارہ جس کی بنیاد میں نے بارہ روپے سے رکھی تھی آج پاکستان کے چند بڑے اداروں میں شمار ہوتا ہے ، یہ سب پاکستان سے عشق کا کمال ہے ۔ " ان کی آواز میں بدستور ملال تھا ۔
" لیکن پاکستان کے حالات سے دکھ تو ہوتا ہوگا ؟ " میں اپنے سوال پر اصرار کیا ۔
" ہاں بہت ہوتا ہے ۔ اخبار پڑھتا ہوں ، سیاستدانوں کے حالات دیکھتا ہوں عوام کی دگرگوں صورتحال پر نظر پڑتی ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے ۔ جب ادھر دہلی سے کوئی عزیز رشتے دار پاکستان آکر کہتا ہے ، " کیوں پھر " تو دل پر چھری سی چل جاتی ہے ، لیکن کیا کریں ، گھر جیسا بھی ہے ، ہے تو اپنا ، ہم اسے چھوڑ تو نہیں سکتے ، لہذا لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے آخری سانس تک ۔ "
" کوئی ایسی خواہش جس کا آپ نے آج تک کسی کے سامنے اظہار نہیں کیا ؟ "
انہوں نے کچھ دیر تک سوچا ۔ " ہاں کبھی کبھی جی چاہتا ہے میری موت حمید بھائی سے پہلے ہو ، وہ میرے جنازے پر آئیں ، میرے چہرے سے چادر سرکا کر دیکھیں اور پھر آہستہ سے مسکرا کر کہیں ، ہاں سعید تمہارافیصلہ درست تھا ۔ "
وہ گرم دوپہر ڈھل گئی تو اس کے بطن سے آج کی خنک اور غمناک صبح طلوع ہوئی ، میرے سامنے میز پر آج کے اخبار بکھرے پڑے ہیں ، ہر اخبار کی پیشانی کے ساتھ آج کے سب سے بڑے انسان کی تصویر چھپی ہے ، خون میں نہائی اور حسرت میں ڈوبی ہوئی تصویر جو ہر نظر سے چیخ چیخ کر ایک ہی سوال کررہی ہے ۔ " میرا جرم کیا تھا ، مجھے کیوں مارا گیا ، میں تو زخموں پر مرہم رکھنے والا شخص تھا پھر میرے جسم کو زخم کیوں بنا دیا گیا ۔ " میرا دماغ سلگی لکڑیوں کی طر ح چٹخنے لگا ، یہ تصویر آج دہلی کے کسی اخبار میں بھی چپھی ہوگی ، وہ اخبار ہمدرد نگر کے ایک چھوٹے سے غریبانہ کمرے میں بھی پہنچا ہوگا ، چٹائی پر بیٹھے بیاسی برس کے ایک بوڑھے نے بھی اسے اٹھایا ہوگا ، اس کی آنکھیں بھی ہزاروں لاکھوں لوگوں کی طرح چھلک پڑی ہوں گی ، اس نے بھی شدت جذبات سے اخبار پرے پھینک دیا ہوگا ، اس نے بازو پر دانت جما کر چیخ ماری ہوگی ، اس نے بھی اپنی چھاتی پر ہاتھ مارا ہوگا ، اس نے بھی چلا چلا کر کہا ہوگا ۔ " سعید تمہارا فیصلہ غلط تھا ، مجھے دیکھو 82 برس کے بوڑھے کو دیکھو ، بغیر محافظ کے مسجد جاتا ہے ، پیدل مطب پہنچتا ہے ، روز صبح شام کافروں کے درمیان چہل قدمی کرتا ہے لیکن اس پر کبھی کوئی گولی نہیں چلی ، اس کا کبھی کسی نے راستہ نہیں روکا ۔ " ہاں اس 82 برس کے کمزور بوڑھے نے چلا چلا کرکہا ہوگا ۔ " سعید! میں کربلا میں زندہ رہا، تم مدینے میں مارے گئے ۔ "
جناب حکیم محمد سعید کی شخصیت اور ان کی خدمات کے اتنے پہلو ہیں کہ جو ہمیں کسی اور بڑی شخصیت میں خال خال ہی نظر آتے ہیں: طبیبِ حاذق، سائنس دان، رحجان ساز ادیب، بچوں کے سفرنامہ نگار، ماہرِ تعلیم، مفکر، مدبر، شرافت، شائستگی اور دین داری کا مرقع۔۔ غرض کہ ایک جہان تھا جو ہم سے روٹھ گیا۔ ہمارے ہاتھ ایک ہیرا آیا تھا جس کی ہم نے قدر نہ کی۔
 

عدنان عمر

محفلین
آج حکیم محمد سعید کا یومِ پیدائش ہے

آج پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید کا یومِ پیدائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کے بین الاقوامی شہرت یافتہ معالج، سماجی کارکن اور مصنف حکیم محمد سعید نے نو جنوری انیس سو بیس کو دہلی میں آنکھ کھولی۔ دو برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ بچپن شرارتوں میں بیتا پھر اظہارِ ذہانت شروع ہوا۔

لکنت سے زبان لڑکھڑاتی تھی تو اپنی قوتِ ارادی اور مسلسل مشق سے اپنی ہکلاہٹ پر قابو پایا۔ زمانے کا شعور ہوا تو سر میں کئی پہاڑ سر کرنے کا سودا سمایا۔ طب و حکمت میں قدم رکھتے ہوئے اپنے بھائی کے ساتھ ملکر اپنے والد کے قائم کردہ ادارے ہمدرد کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔

پھر یوں ہوا کہ ہمدرد کا نام تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا۔ سعید پہلے صحافی بننا چاہتے تھے لیکن خاندانی کام کو آگے بڑھانے کے لئے اس سے وابستہ ہوئے۔

پاکستان بننے تک ہمدرد ایشیا میں طبی ادویہ کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا تھا۔

تقسیم کے بعد جب انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت شروع ہوئی تو سعید نے تمام کاروبار، عیش و آرام اور دولت چھوڑ کر پاکستان کا رخ کیا اور نو جنوری انیس سو اڑتالیس کو کراچی آگئے۔

شہزادہ سدارتھ کی طرح وہ سب کچھ خیرباد کہہ کر جب کراچی آئے تو دہلی میں پیکارڈ کار پر سفر کرنے والے محمد سعید نے اپنے ساتھ لائی ہوئی روح افزا اور گرائپ واٹر کی شیشیاں بیچنے کے لئے شہر کا چپہ چپہ چھان مارا، یہاں تک کہ ان کے جوتوں میں سوراخ ہوگئے۔

پچاس روپے مہینہ پر ایک دکان اور ساڑھے بارہ روپے ماہانہ پر فرنیچر کرائے پر لے کراپنے کام کا آغاز کیا۔ پھر ناظم آباد میں المجید سینٹر کی بنیاد ڈالی جس نے ہمدرد فاونڈیشن کی راہ ہموار کی اور حکیم محمد سعید نے اس ادارے کو بھی خدمتِ کے لیے باقاعدہ وقف کردیا۔ طبِ یونانی کا فروغ اور اسے درست مقام دلوانا حکیم محمد سعید کی زندگی کا اہم مشن رہا۔

گورنر سندھ بننے کے بعد بھی پاکستان بھر میں اپنے مریضوں کو باقاعدہ دیکھتے اور ان کا مفت علاج کرتے رہے۔ اسی طرح ضیاالحق کے دور میں وہ وزیر بننے کے بعد بھی کراچی ، لاہور، سکھر اور پشاور میں مطب کرتے رہے۔ سرکاری گاڑی نہیں لی اور نہ ہی رہائش یہاں تک کہ وہ غیر ملکی زرِ مبادلہ جو انہیں سرکاری خرچ کے لئے ملا تھا وہ بھی قومی خزانے کو واپس کردیا۔

محترمہ فاطمہ جناح نے چودہ اگست انیس سو اٹھاون میں ہمدرد کے طبی کالج کا باقاعدہ افتتاح کیا جس سے ہزاروں معالج فارغ ہوکر لوگوں کا علاج کررہے ہیں۔حکیم محمد سعید نے طب اور ادویہ سازی کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کیا۔

حکیم محمد سعید بچوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی ان کے دیوانے ٹھہرے۔ یہاں تک کہ پشاور کا ایک بچہ والدین کی ڈانٹ پر گھر سے یہ کہہ کر نکل آیا کہ میں کراچی میں حکیم سعید کے پاس جارہا ہوں۔ قولِ سعید ہے کہ بچوں کو عظیم بنادو، پاکستان خود بخود بڑا بن جائے گا۔

انہوں نے بچوں کی تربیت کے لئے رسالہ ہمدرد نونہال جاری کیا اور بزمِ نونہال کے ہزاروں پروگرامز کے ذریعے ان کی اصلاح اور تربیت کا سامان کیا۔ ساتھ ہی ہمدرد نونہال ادب کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں کتابیں شائع کیں ۔ سچی ڈائری کے عنوان سے بچوں کے لئے کتابیں شائع کرکے اپنی زندگی کے دن رات بیان کردئے۔

گزرتے وقت کے ساتھ ہی حکیم محمد سعید کے دل میں علم و حکمت کے فروغ کی تڑپ بڑھتی رہی اوروہ جنون میں بدل گئی-

کراچی میں مدینتہ الحکمت نامی منصوبہ بھی اسی دیوانگی کا نتیجہ ہے جہاں آج بیت الحکمت کے نام سے ایک بہت بڑی لائبریری، یونیورسٹی ، کالجز، اسکول اور دیگر اہم ادارے قائم ہیں۔ سائنس و ثقافت اورعلم و حکمت کا یہ شہر آج بھی اس شخص کی یاد دلاتا ہے جس کے عزم وعمل نے ریگستان کو ایک علمی نخلستان میں بدل دیا۔

بزمِ ہمدرد نونہال، ہمدرد شوریٰ، شامِ ہمدرد اور ہمدرد نونہال اسمبلی جیسے ماہانہ پروگراموں میں ممتاز عالموں ، علمائے سائنس ، ادیبوں اور دانشوروں کو مدعو کرکے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کے فکری نظریات کو عام آدمی تک بھی پہنچایا۔

حکیم محمد سعید نے دنیا بھر کا سفر کیا اور لاتعداد اہل علم کو اپنا دوست بنایا ۔ وہ ہرسال دنیا بھر میں تقریباً دس ہزار افراد کو عیدین اورنئے سال کے کارڈ بھجوایا کرتے تھے۔ جواہر لعل نہرو، سرمحمد ظفراللہ خان،ایان اسٹیفن، شاہ حسین، جوزف نیدھم، ڈاکٹر اکبر ایس احمد، سید حسن نصر، فاطمہ جناح اور دیگر ہزاروں شخصیات ان کے مداحوں میں شامل تھے۔

ممتاز قلمکار ستار طاہر ، حکیم محمد سعید کی زندگی پر تحریر کردہ اپنی ایک کتاب میں ان کی آخری خواہش اس طرح بیان کرتے ہیں۔

میں ایسے حال میں فرشتہ موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نگاہوں کے سامنے ہمدرد اسکول اور الفرقان میں پانچ ہزار بچے تعلیم پارہے ہوں۔ ہمدرد یونیورسٹی امتیازات کے ساتھ ہزار ہا نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو۔ اور یہ جوان دنیا بھر میں پھیل کر آوازِ حق بلند کرنے کی تیار ی کیلئے کمر بستہ ہوں۔

ان کی یہ خواہش تو زندگی میں پوری ہوئی لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد ہیں۔

سترہ اکتوبر انیس سو اٹھانوے کی ایک صبح کا ماجرہ ہے، جب سپیدہ سحر پوری طرح نمودار بھی نہیں ہوا تھا۔ حکیم محمد سعید اپنی سفید گاڑی میں اپنے آرام باغ میں واقع اپنے مطب پہنچے۔ گاڑی سے اترے اوراپنی ٹوپی اپنے ایک معاون کے ہاتھ میں دی اور مطب کی طرف بڑھنے لگے ۔

اسی دوران نیم اندھیرے میں آتشیں ہتھیاروں نے شعلے اُگلے اور کئی گولیاں حکیم سعید کے جسم میں پیوست ہوگئیں۔ پھر دنیا نے یہ دلخراش منظر بھی دیکھاکہ لاکھوں لوگوں کا علاج کرنے والے مسیحا کی لاش ایک گھنٹے تک سڑک پر پڑی رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ: سہیل یوسف
 
آخری تدوین:
Top