سلیم کوثر حکایتِ سفرِ عُمرِ رائیگاں سے الگ۔ سلیم کوثر

شیزان

لائبریرین
حکایتِ سفرِ عُمرِ رائیگاں سے الگ
ترے وصال کی خوشبو ہے جسم و جاں سے الگ
کہاں پڑاؤ کریں گے، کہاں پہ ٹھہریں گے
کہ تو زمیں سے جُدا اور میں آسماں سے الگ
گروہِ ابَر نے طوفان کو جگانا ہے
پھر اُس کے بعد ہوا بھی ہے بادباں سے الگ
بدل رہی ہے شب و روز کے تسلسل کو
وہ ایک آہ جو ہوتی نہیں فغاں سے الگ
ادُھورے پن کی سزا موت ہے، سو دُکھ ہے مجھے
مرا قبیلہ ہوا کیسے درمیاں سے الگ
فصیلِ شب سے قضا لے گئی اُٹھا کے سلیم
وہ اِک چراغ کہ تھا شہرِ رفتگاں سے الگ
سلیم کوثر
 

فرخ منظور

لائبریرین
فصیلِ شب سے قضا لے گئی اُٹھا کے سلیم
وہ اِک چراغ کہ تھا شہرِ رفتگاں سے الگ

واہ کیا خوب انتخاب ہے۔ شکریہ شیزان صاحب!
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب انتخاب
ادُھورے پن کی سزا موت ہے، سو دُکھ ہے مجھے
مرا قبیلہ ہوا کیسے درمیاں سے الگ
 
Top