سید عمران

محفلین
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی مقدس و پاکیزہ ترین ہستی ہیں۔ جو شخص ایمان کی حالت میں آپ کی تھوڑی دیر کی بھی صحبت اختیار کرلیتا ہے اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس صحبت کی برکت سے اس کا شمار بھی دنیا کی بہترین ہستیوں میں ہونے لگتا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کی بے مثل خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔ جب غیروں کا یہ حال ہے تو جو آپ کے اپنے تھے،آپ کا خون اور آ پ کے جگر کے ٹکڑے تھے ان کی شرافت و عظمت اور تقدس کا آپ سے نسبت کی بنا پر کیا حال ہوگا اس کا تصور ہی محال ہے۔

اہلِ بیت اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور عظمت قرآن اور حدیث کی نصوص سے ثابت ہے۔ اسی بنا پر ان کا احترام کرنا اور ان سے محبت اور عقیدت رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے،اور ان سے بغض و عداوت رکھنا اور ان کو ادنیٰ درجہ میں بھی ایذا پہنچانا خدا اور رسول کی ناراضگی کا سبب ہے۔

بغضِ اہلِ بیت کی وجوہات:
جہاں عام مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی بنا پر آپ کی اولاد کو سر آنکھوں پر بٹھانا اپنی سعادت اور مغفرت کا ذریعہ سمجھتے تھے وہیں ایسے بدبخت بھی گزرے ہیں جنہوں نے دنیا کی چند روزہ حکومت و اقتدار بچانے کی خاطر اہل بیت سے جنگ کرکے آخرت کی دائمی زندگی تباہ و برباد کرلی۔

اس بربادی کا نقطۂ آغاز بنو امیہ کے سردار یزید بن معاویہ سے ہوا۔ اس کو اپنی حکومت کے مقابل کوئی طاقت نظر آئی تو وہ آلِ رسول یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ کے دور ِحکومت میں زہر دے کر شہید کردیا گیا تھا۔ مقابلہ میں اب صرف حضرت حسین باقی رہ گئے تھے۔ یزید کے بعد بھی بنو امیہ اور بنو عباس جب تک برسر اقتدار رہے اہلِ بیت کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے۔

دنیاوی اقتدار کی خاطر اہل بیت کا قتلِ عام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے نواسے اور آپ کے جگر کے ٹکڑے حضرت حسن کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے سترہ بیٹے تھے جن میں زیادہ تر کی شہادت میدانِ کربلا میں ہوئی آپ کی نسل آپ کے فرزند حضرت حسن مثنی اور حضرت زید سے چلی جو حسنی سادات کہلاتے ہیں۔ بعد میں حضرت حسن مثنی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی زہر دے کر شہید کردیا گیا۔

کربلا کے میدان میں اپنی حکومت بچانے کے لیے یزید نے تمام آلِ رسول کو تہہ تیغ کردیا تھا۔ ان میں علی اصغر کے نام سے مشہور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا چھ ماہ کا معصوم بچہ بھی تھا جو کئی وقتوں کی شدتِ پیاس سے رو نے لگا تو اسے بہلانے کے لیے خیمہ سے باہر بیٹھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی گود میں ڈال دیا گیا۔ حرملہ نامی شخص نے شیر خوار بچہ پر بھی ترس نہ کھایا اور اس کا نشانہ لے کر تیر چلا دیا۔ باپ کی گود میں لیٹے بچہ کے جسم سے خون کا فوارہ چھوٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی گود اپنے بچہ کے خون سے بھر گئی۔ یوں میدانِ کربلا کا شیر خوار بچہ شہید ہوگیا۔

اس جنگ میں حضرت حسین کی آل میں سے صرف حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ بچے جو بیماری کے باعث میدان جنگ میں نہ اتر سکےتھے۔ آج دنیا میں جتنے حسینی سید ہیں وہ حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں۔

میدان کربلا میں آلِ رسول کے قتلِ عام کے باوجود یزید کے دل کو چین نہ ملا۔ اس نے برسر منبر اہلِ بیت کو برا بھلا کہنے کا رواج ڈال کر دل کی بھڑاس نکالی۔اُس کے زمانہ میں حکومت کے وزیر اور مشیر اہلِ بیت کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے، حضرت علی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو برا بھلا کہتے اور ان کی تعریف کرنے والوں کو لعن طعن کرتے۔ قرآن و حدیث میں موجود اہلِ بیت کے فضائل بیان کرنے والے ہر شخص کو رافضی یا شیعہ ہونے کا طعنہ دیتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا دور آیا جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں ۔انہوں نے منبروں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو گالی دینے کا رواج حکماً بند کروایا۔لیکن اس عرصہ میں ایسا ماحول پیدا ہوگیا تھا کہ عام لوگ آلِ رسول اور اہلِ بیت کا نام زبان پر لانے سے جھجکتے بلکہ ایسا کرنے والے کو شیعہ سمجھتے۔

اہلِ بیت کون لوگ ہیں؟
اہل بیت کے معنی ہیں گھر والے۔ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اہلِ بیت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ تمام اہل خانہ ہیں جن پر زکوٰۃ و صدقہ حرام ہے۔ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادحضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہنَّ، آپ کے نواسے نواسیاں،آپ کے چچا حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، آپ کی تمام ازواجِ مطہرات اور بنوہاشم کے سارے مسلمان مرد و عورت شامل ہیں ۔

چناں چہ اہل بیت کی تین قسمیں ہوگئیں: ۱۔بیت نسبی، ۲۔بیت سکنی، ۳۔بیت ولادت۔بنو ہاشم یعنی عبدالمطلب کی اولاد کو نسب کے اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’اہلِ بیت نسبی‘‘ کہا جائے گا، ازواجِ مطہرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’اہلِ بیت سکنی‘‘ (اہلِ خانہ) کہا جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو ’’اہل بیت ولادت‘‘ کہا جائے گا۔

حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو خاص قرب اور تعلق تھا اور ان کے فضائل و مناقب جس کثرت سے ذخیرۂ احادیث میں وارد ہوئے ہیں اُس بنا پر ان چار ہستیوں کو ’’اہلِ بیت‘‘ میں خصوصی و امتیازی درجہ حاصل ہے۔ ’’سید‘‘ کا لفظ بھی صرف ان ہی کے لیے مخصوص ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہیں۔ سید کا لفظی مطلب سردار ہے جو احتراماً ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ عربی میں ان کے لیے شریف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

فضائل و مناقب آلِ رسول:
۱) امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْہ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی(سورۃ الشوریٰ، آیت:۲۳)
(اے ہمارے رسول)کہہ دیجیے کہ میں تم لوگوں سے اپنی تبلیغ دین کا کچھ اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے مَوَدَّت رکھو۔

مَوَدَّت یعنی ان سے محبت، عقیدت اور اُنسیت کا تعلق قائم رکھو۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
يَارَسُوْلَ اﷲِ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَۃ وَ ابْنَاهُمَا
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے۔‘‘(احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، ۲: ۶۶۹، رقم:۱۱۴۱)

۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہور ہے تھے کہ رابغ کے پاس خم نامی ایک چشمے پر قیام فرمایا ، چوں کہ عرفہ کے میدان میں یہ آیت نازل ہوچکی تھی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ( سورة المائدة ، آیت : ۳ )
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیاہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین چن لیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوا کہ اب آپ کا وقت قریب ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کے اس عظیم اجتماع کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہیں چند نصیحتی کلمات سے نوازا، ان میں دو اہم باتیں یہ تھیں کہ آپ نے فرمایا لوگو، میں تمہارے لیے دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں پہلی چیز کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ا س لیے تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو۔ پھر فرمایا : ( دوسری عظیم چیز ) میرے اہل بیت ہیں، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دہانی کراتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دہانی کراتا ہوں ، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دہانی کراتا ہوں۔ ( صحيح مسلم :۲۴۰۸، مسند احمد: ۴؍۳۶۷ )

۳) قرآن پاک کی آیت ہے:
فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (سورۃ المومنون، آیت:۱۰۱)
جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ آپس کے رشتے رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ ۔

اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
كلُّ سَبَبٍ و نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يومَ القيامۃِ إلَّا سَبَبي و نَسَبي
قیامت کے دن ہر واسطہ اور نسبی تعلق ختم ہوجائے گا البتہ میرا واسطہ اور نسبی تعلق قائم رہے گا۔ (السلسلۃ الصحيحۃ:۲۰۳۶)

ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت ام ہانی رضی اﷲ عنہا کی بالیاں (پردہ سے) ظاہر ہوگئیں اس پر ان سے کہا گیاان محمدالا یغنی عنك من اﷲ شیئا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تمہیں نہ بچائیں گے۔وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور حضور اقد س صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ واقعہ عرض کیا۔آپ نے ارشاد فرمایا:
مابال اقوام یزعمون ان شفاعتی لاتنال اھل بیتی وان شفاعتی تنال حاء وحکم
کیاحال ہے ان لوگوں کا جو زعم کرتے ہیں کہ میری شفاعت میرے اہل بیت کو نہ پہنچے گی۔بے شك میری شفاعت ضرور قبیلہ حاء وحکم کو بھی شامل ہے(یعنی دور دور کی قرابت داری تک میری شفاعت پہنچے گی)۔ (المعجم الکبیر حدیث ۱۰۶۰ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۲۴؍ ۴۳۴)

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اﷲ عنہا اپنے باپ کی یاد میں بلند آواز سے رو دیں تو ان کے اس عمل کو برا سمجھ کر ان سے بھی ایسا ہی کہا گیا کہ ان قرابتك من محمد صلی اللہ علیہ وسلم لا تغنی عنك من اللہ شیئا محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قرابت اﷲ کے یہاں کچھ کام نہ دے گی۔ حالاں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کیا ہوا ان لوگوں کو جو میری قرابت نافع نہیں بتاتے۔ہر رشتہ وعلاقہ قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا مگر میرا رشتہ تعلق دنیا و آخر ت میں جُڑا رہے گا۔ (مجمع الزوائد بحوالہ البزار کتاب علامات النبوۃ باب فی کرامۃ اصلہ دارالکتاب بیروت ۸؍ ۲۱۶)

۴) ۱۰ھ میں نجران کے عیسائیوں کا وفد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسلام اور عیسائیت پر بحث و مباحثہ کرنے لگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْۖ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ (سورۃ آل عمران، آیت:۶۱)
(اے ہمارے رسول آپ ) کہہ دیجیے کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بُلائیں، پھر سب التجا کریں اور اللہ کی لعنت بھیجیں ان پر جو جھوٹے ہوں۔

اس آیت کو آیتِ مُباہلہ کہا جاتا ہے۔ مباہلہ یہ ہونا تھا کہ عیسائی اور مسلمان دونوں اپنے اپنے اہل و عیال لے آئیں اور ایک دوسرے پر بددعا کریں کہ اگر دوسرے کا مذہب جھوٹا ہے تو وہ ہلاک ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا کر فرمایا: یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔(صحيح مسلم:۲۴۰۴)

جب عیسائیوں نے ان نفوسِ قُدسیہ کو دیکھا تو آپس میں مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہوجائیں گے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ ایسے چہرے ہیں کہ اگر اﷲ کے نام پر قسم کھا لیں کہ وہ پہاڑوں کو سرکا دے تو وہ ضرورسرکا دے گا۔ آخر کار وہ مباہلہ کرنے کے بجائے آپ سے صلح کر کے چلے گئے۔

۵) حجۃ الوداع سے واپسی پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان’’غدیر خم‘‘ نامی مقام پر کچھ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کچھ فیصلوں سے متعلق شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما کر حضرت علی کے فیصلہ کو درست قرار دے دیا کہ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے۔ (الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علی رضی الله عنہ، ۵؍ ۶۳۳، الحديث رقم :۳۷۱۳)

یہاں مولیٰ سے مراد، دوست، محبوب یا سردار کے ہیں۔ لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو مجھے اپنا دوست اور محبوب سمجھتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ علی سے بھی محبت رکھے یا جو مجھے اپنا آقا اور سردار سمجھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ علی کو بھی اپنا آقا اور سردار سمجھے اور ان کی اطاعت کرے۔

۶) عن عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سألت ربی ان لا یدخل احدا من اہل بیتی النار فاعطانیہا
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے مانگا کہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی کو دوزخ میں نہ ڈالیں۔ تو اللہ نے میری مراد پوری فرمائی ۔ (کنز العمال للمتقی ، ۳۴۱۴۹، ۱۲؍ ۹۵)

۷) عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : وعدنی ربی فی اہل بیتی من اقرمنہم بالتوحید ولی بالبلاغ ان لا یعذ بہم

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے اہلِ بیت میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان لائے گا اسے عذاب نہ فرمائے گا ۔‘‘(المستدرک للحاکم، ۳؍ ۱۵۰۔ الکامل لا بن عدی کنز العمال للمتقی، ۳۴۱۵۶،۱۲؍ ۹۶۔الجامع الصغیر للسیوطی، ۲؍ ۵۷۱)

۸) عن امیر المؤمنین علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا علی ! ان اول اربعۃ یدخلون الجنۃ انا و انت والحسن والحسین وذرارینا خلف ظہورنا
امیر المؤمنین حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے علی، سب سے پہلے جو چار جنت میں داخل ہوں گے ، ان میں سے ایک میں ہوں ، اور تم اور حسن و حسین ، اور ہماری ذریتیں ہمارے پسِ پشت ہوں گی ۔( تاریخ دمشق لا بن عساکر،۴؍ ۳۲۱۔کنز العمال للمتقی ۳۴۲۰۵، ۱۲؍۱۰۴)

۹) عن امیر المؤمنین علی قال، قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اول من یرد علی حوض اہل بیتی و من احبنی من امتی
امیر المؤمنین حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر آنے والے میرے اہل ِبیت ہیں اور میری امت سے میرے چاہنے والے۔ (تاریخ دمشق لا بن عساکر، ۴؍ ۳۲۱۔کنز المعال للمتقی۳۴۲۰۵، ۱۲ ؍۱۰۴)

۱۰) عن ام المؤمنین عائشۃ الصدیقۃ رضی اللہ تعالی عنہا قالت، قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ستۃ لعنتہم و لعنہم اللہ،وکل نبی مستجاب ، الزائد فی کتاب اللہ ، والمکذب بقدر اللہ والمتسلط بالجبروت فیعز بذلک من اذل اللہ و یذل من اعزاللہ والمستحل لحرم اللہ ، والمستحل من عترتی ما حرم اللہ ، والتارک لسنتی ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چھ شخص ہیں جن پر میں نے لعنت کی ، اللہ انہیں لعنت کرے اور ہر نبی کی دعا قبول ہے، کتاب اللہ میں بڑھانے والا، تقدیر الٰہی کا جھٹلانے والا، جو ظلم کے ساتھ تسلط کرے کہ جسے خدا نے ذلیل بنایا اسے عزت دے اور جسے خدا نے معزز کیااسے ذلیل کرے، اور حرم مکہ کی بے حرمتی کرنے والا ، اور میری عترت (یعنی میرے متعلقین)کی ایذا و بے تعظیمی روا رکھنے والا ، اور جو سنت کو برا ٹھہرا کر چھوڑ دے۔ (الجامع للترمذی، الجامع الصغیر للسیوطی ، ۲؍ ۲۸۶،مجمع الزائد للہیثمی،۱؍ ۱۷۶)

۱۱) عن عبد اللہ بن بدر الخطمی عن ابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من احب ان یبارک لہ فی اجلہ ، و ان یمتعہ اللہ بما خولہ فلیخلفنی فی اہلی خلافۃ حسنۃ، و من لم یخلفنی فیہم تبک امرہ وورد یوم القیامۃ مسودا وجہہ
حضرت بدر خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور خدا اسے اپنی دی ہوئی نعمت سے بہرہ مند کرے تو اسے لازم ہے میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے، جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اڑ جائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کر آئے ۔(کنز المعال للمتقی ، ۳۴۱۷۱، ۱۲؍ ۹۹)

۱۲) عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان للہ عزوجل ثلث حرمات ، فمن حفظہن حفظ اللہ دینہ ودنیا ہ ، و من لم یحفظہن لم یحفظ اللہ دینہ و دنیاہ ،حرمۃ الاسلام وحرمتی ، و حرمۃ رحمی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ عزوجل کی تین حرمتیں ہیں جو ان کی حفاظت کرے اللہ تعالیٰ اس کے دین و دنیا محفوظ رکھے ، اور جو ان کی حفاظت نہ کرے اللہ تعالیٰ اس کے نہ دین کی حفاظت فرمائے اور نہ دنیا کی ، ایک اسلام کی حرمت، دوسری میری حرمت ، تیسری میری قرابت کی حرمت ۔ (المعم الکبیر للطبرانی، ۳؍۱۳۵،مجمع الزوائد للہیثمی، ۱؍۸۸،کنز العمال للمتقی ،۳۰۸،۱؍ ۷۷،میزان الاعتدال للذہبی ، ۲۳۰۸، لسنان المیزان لا بن حجر، ۵؍۱ )

۱۳) الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر و من قال لعالم عویلم او لعلوی علیوی قاصدابہ الاستخفاف کفر
سادات کرام اور علماء کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کر کے عویلم کہا یا علوی کو علیوی تحقیر کی نیت سے کہا تو اس نے کفر کیا۔ (مجمع الانہر:۲؍۵۰۹)

رسول اللہ کی اپنی اولاد سے محبت و شفقت:
۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل یعنی حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن وحسین رضی اللہ عنہم سے نہ صرف خود محبت کی ہے بلکہ اپنی امت کو بھی ان سے محبت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت فاطمہ سے متعلق آپ کا ارشاد گرامی ہے إنَّما فَاطِمةُ بَضعَةٌ منِّي يؤذيني ما آذَاها و ينصِبني ما أنصبَها فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو چیز اسے تکلیف دیتی ہےوہ مجھے تکلیف دیتی ہے، جو چیز اسے تعب میں ڈالتی ہے وہ مجھے تعب میں ڈالتی ہے۔(ترمذی:۳۸۶۹)

۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا و الذي فَلَقَ الحَبَّةَ، وبَرَأَ النَّسَمَةَ، إنَّه لَعَهْدُ النبيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إلَيَّ: أنْ لا يُحِبَّنِي إلَّا مُؤْمِنٌ، ولا يُبْغِضَنِي إلَّا مُنافِقٌ قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس نے گھاس اُگائی) اور جان بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ نہیں محبت رکھے گا مجھ سے مگر مومن اور نہیں دشمنی رکھے گا مجھ سے مگر منافق۔(صحيح مسلم:۷۸)

۳) ایک حدیث پاک میں ہے حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ،أَحَبَّ اﷲُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًاحسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔ (احمد بن حنبل، المسند،۴: ۱۷۲)

۴) حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاجس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں (حضرت حسن و حسین) سے بھی محبت کرے۔‘‘ (نسائی۔ ابن خزیمہ)

۵) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت فاطمہ اور حسن وحسین کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں إنَّ هذا ملَكٌ لم ينزلِ الأرضَ قطُّ قبلَ اللَّيلةِ استأذنَ ربَّهُ أن يسلِّمَ عليَّ ويبشِّرَني بأنَّ فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی:۷۳۸۱)

۶) اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ (چادر)ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: ’’یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟‘‘ آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین رضی الله عنہما تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو سے چپکے ہوئے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا:
هذانِ ابنايَ وابنا ابنتيَ ، اللَّهمَّ إنِّي أحبُّهما فأحبَّهما وأحبَّ مَن يحبُّهما
یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے۔(ترمذی:۳۷۶۹)

۷) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو ان سے لڑے گا میں اُس سے لڑوں گا، اور جو اِن سے مصالحت رکھے گا میں اُس سے مصالحت رکھوں گا۔ (جامع ترمذی)

۸) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے میری اولاد پراحسان کیا (اور میری اولاد کسی وجہ سے اس کا بدلہ نہ چکا سکی )تواس شخص کا بدلہ قیامت کے دن میں چکاؤں گا۔ (جامع صغیر، ص۵۳۳، حدیث:۸۸۲۱)

۹) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔ (الاحزاب ، آیت: ۳۳)
اے اہل بیت، اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔

تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ،حضرت علی،حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلاکران پر چادر اوڑھائی،حضرت علی پیچھے کھڑے تھے ، ان پر بھی چادر ڈالی۔پھر فرمایا: ’’اے اﷲ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔اے اﷲ، ان سے آلودگی دور کرکے انھیں خوب پاک کر دے۔‘‘حضرت ام سلمہ نے عرض کیا:’’اﷲ کے نبی، میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’تو اپنی جگہ ہے اور خیر پر ہے۔‘‘ (ترمذی،رقم ۳۷۸۷۔ مسلم، رقم ۶۲۶۱۔ موسوعہ مسند احمد، رقم ۲۶۵۰۸)

۱۰) حضرت جُمیع بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنی پھوپھی کے ساتھ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ ‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فاطمہ سے۔ پھر میں نے پوچھا اور مَردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فاطمہ کے شوہر سے۔‘‘ (جامع ترمذی)

خلفاء راشدین کی آلِ رسول سے محبت:
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ:
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آپ کے اہل بیت کا خیال رکھ کے کرو۔( صحیح البخاری:۳۷۵۱)

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا میرے اپنے اہل قربت کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔( صحیح البخاری :۳۷۱۲)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علی کھڑے ہوکر چل دئیے، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا ۔(سنن الکبریٰ للنسائی،ج ۵،ص۴۸، حدیث:۸۱۶۱)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اولاد سے زیادہ اہل بیت سے محبت فرمایا کرتے تھے اور ہر موقع پر ان کو فوقیت دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو ہزار ہزار درہم دیئے اور اپنے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پانچ سو درہم دیئے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں جوان تھا اور آپ کے ساتھ جہاد کیا کرتا تھا۔ اس وقت یہ دونوں بچے تھے اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو ہزار ہزار درہم دیئے اور مجھے پانچ سو درہم دیئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بیٹا! پہلے وہ مقام اور فضیلت تو حاصل کرو جو ان حضرات کو حاصل ہے پھر ہزار درہم کا مطالبہ کرنا۔ ان کے باپ علی، ماں فاطمہ، نانی خدیجہ اور نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش ہوگئے۔

۱۵ھ میں خلیفۂ ثانی حضرت عمر نے اسلامی مملکت کے شہریوں کے لیے وظائف مقرر کرنے کے لیے دیوان ترتیب دیا۔انہوں نے حضرت حسن، حضرت حسین ،حضرت ابوذرغفار ی اور حضرت سلمان فارسی کا حصہ بدری صحابہ جتنا یعنی ۵ ہزار درہم سالانہ رکھاحالانکہ حسن و حسین بدر کے موقع پر پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔

ایک موقع پر حضرت عمر نے صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت حسن اور حُسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لیے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنایا، پھر فرمایا: ’’اب میرا دل خوش ہوا ہے۔‘‘(ریاض النضرۃ، ج۱، ص۳۴۱)

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کے لیے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علی کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لیے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا۔(سیراعلام النبلاء،ج۳،ص۲۵۹)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب فسادیوں کے نرغے میں گھر گئے جو انہیں قتل کرنا چاہتے تھے اور آپ اپنے گھر میں محصور ہوگئے تو اس وقت حضرت حسن آپ کے دفاع کے لیے تلوار کے ساتھ موجود تھے اور لڑنا چاہتے تھے مگر حضرت عثمان نے اپنی جان کو خطرہ ہونے کے باوجود اللہ کا واسطہ دےکر انہیں اپنے گھر بھیج دیا تاکہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور ان کی تکلیف کے باعث حضرت علی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ (البدایہ والنہایہ ۱۱؍۱۹۳)

صحابہ کرام کی آلِ رسول سے محبت
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
آپ فرمایا کرتے تھےاہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص۱۳۵)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :
آپ فرماتے ہیں میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔(مسند امام احمد،ج ۳،ص۶۳۲)

ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔ (سیراعلام النبلاء،ج ۴،ص۴۰۷)

ائمہ اربعہ کی اہلِ بیت سے محبت:
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ :
آپ اہل بیت سے اتنی شدید محبت اور تکریم کرتے تھے کہ لوگوں نے اُن کو شیعہ ہونے کا طعنہ دیا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آلِ رسول کے ظاہر و پوشیدہ نادار لوگوں پر خوب خرچ کرکے ان کی قربت حاصل کرتے تھے۔ آپ نے ان میں سے ایک نادار آدمی کو خفیہ طور پر بارہ ہزار درہم بھجوائے ۔ آپ اپنے ساتھیوں کو بھی ان کی تعظیم کا درس دیا کرتے تھے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ :
آپ کے دل میں اہل بیت کے لیے بڑی تعظیم وتکریم تھی۔ عباسی دور کے والیِ مدینہ جعفر بن سلیمان نے کوڑوں سے آپ کے جسم مبارک کو مارنا شروع کیا تو آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو حاضرین سے فرمایا: ’’میں نے اس اذیت دینے والے کو معاف کردیا ہے۔ ‘‘ لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے خوف ہوا کہ اگر اسی حالت میں میری موت واقع ہوجائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوجائے تو مجھے اس وقت ندامت و شرمندگی نہ اٹھانی پڑے کہ میری وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک قرابت دار کو عذابِ دوزخ کا مزہ چکھنا پڑے۔

امیر منصور نے امام مالک کو قصاص دلانا چاہا تو امام صاحب نے فر مایا کہ خدا کی پناہ! کوڑے لگتے وقت جو کوڑا بھی میرے جسم سے علیٰحدہ ہوتا تھا میں اسی وقت جعفر کو اس قرابت کی وجہ سے جو ان کو حضور علیہ السلام سے ہے معاف کر دیتا تھا۔ (کتاب الشفاء،حصہ دوم)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابن حجر مکی نے ’’الصواعق المحرقہ‘‘، امام الدمیاطی نے ’’اعانۃ الطالبین‘‘ اور بہت سارے محدثین نے اہل بیت کی محبت کے وجوب کے باب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایک رباعی بیان کی ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں ؎
يَا أَهْلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اﷲِ حُبُّکُمْ
فَرَضٌ مِنَ اﷲِ فِي الْقُرْآنِ أَنْزَلَهُ
کَفَاکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْقَدْرِ أَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ
(ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح، ۱ ؍ ۶۷)

’’اے اہلِ بیتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ سے محبت کرنا اﷲ کی طرف سے فرض ہے، جسے اس نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے اور آپ کے لیے یہ عظیم مرتبہ ہی کافی ہے کہ آپ وہ ہستیاں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود نہ پڑھے، اس کی نماز مکمل نہیں ہوتی۔‘‘

ان اشعار میں امام شافعی نے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو قرآن مجید کی طرف سے امت مسلمہ پر فرض ہونے کو بیان کیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ کہ جو شخص نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھے اُس کی نماز نہیں ہوتی۔ گویا ہم پر اہلِ بیت کی محبت فرض کردی گئی ہے۔

اہل بیت کے فضائل دیکھتے ہوئے امام شافعی سمیت بیشتر علماء اس طرف چلے ئے ہیں کہ سادات کی تعظیم کرنا فرض ہے اور ان کو برا بھلا کہنا، ان کی دل آزاری اور توہین کرنا حرام ہے۔ محبتِ اہلِ بیت کی وجہ سے امام شافعی کو بھی لوگ شیعہ اور رافضی کہتے تھے۔ آپ نے جواب میں فرمایا اگر محبت اہل بیت کا نام شیعہ ہونا ہے تو مجھے یہ تہمت قبول ہے۔ایک مرتبہ اہل بیت سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح فرمایا ؎

ان کان رفضا حب آل محمد
فليشهد الثقلان انی رافضی
’’اگر آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا نام رفض ہے تو دونوں جہاں گواہ رہیں کہ بے شک میں رافضی ہوں۔‘‘(تفسير کبير، الجزء السابع والعشرون، ص۱۶۶)
اور فرمایا ؎
اِذا فی مجلسٍ نَذکُرُ عِلیاً
و سبطیہِ و فاطمۃَ الزَّکیۃ
یُقالُ تَجاوزُوا یا قومُ ھَذا
فھذا مِن حدیث الرَّافضیۃ
برِئتُ اَلیٰ المُھیمن مِن اُنَّاسِ
یَرُونَ الرَّفِض حُبُّ الفاطِمیۃ

جب کسی محفل میں ذکر ِعلی، ذکر فاطمہ یا اُن کے دوفرزندوں کا ذکر ہو تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان باتوں سے بچو کیوں کہ یہ رافضیوں کی باتیں ہیں۔ میں (یعنی امام شافعی) خدا کی طرف سے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو فاطمہ سے عقیدت و محبت کرنے والے کو رافضی کہتے ہیں۔

ایک بار آپ نے فرمایا کہ جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں کی راہ پر چل رہے ہیں جو ہلاکت اور جہالت کے سمندر میں غرق ہیں تو میں اللہ کا نام لے کر نجات کے سفینے میں سوار ہوگیا اور وہ نجات کا سفینہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت ہیں۔(الصواعق المحرقه، احمد بن حجرالهيتمی، ص۵۴)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ:
آپ ہمیشہ اہل بیت کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ جب کوئی اولاد اہل بیت سے ان کے پاس آتا تو اپنی جگہ سے اٹھ جاتے اور انہیں مقدم فرمایا کرتے اور خود ان کے پیچھے بیٹھتے تھے۔

حضور اکرم کا اپنی اولاد سے تعلق:
۱) ابو العباس بن نفیس مقری رحمۃ اللہ علیہ جو نابینا بھی تھے کہتے ہیں کہ میں تین دن مدینہ طیبہ میں بھوکا رہا تو میں قبر شریف پر یہ عرض کرکے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوکا ہوں‘‘ ،ضعف کی حالت میں سو گیا۔ ایک لڑکی آئی اور پاؤں کو حرکت دے کر جگایا اور کہا چلو۔ میں ساتھ ہولیا۔ اپنے گھر لے گئی اور گیہوں کی روٹی اور گھی اور کھجوریں میرے سامنے رکھ کر کہنے لگی کہ ابو العباس کھاؤ، مجھے میرے دادے نے اس کا حکم فرمایا ہے اور جب بھوک لگا کرے یہاں آکر کھاجایا کرو۔ ابو سلیمان داؤد اس قصہ کو نقل کرکے لکھتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات بہت کثرت سے نقل کیے گئے ہیں اور ان میں بکثرت یہ دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شریف اولاد کو ہی زیادہ تر فرمایا ہے بالخصوص جب کھانے کی قسم سے کوئی چیز دینے کا ارشاد ہوا ہو اور کریموں کی عادت بھی یہی ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص ضیافت طلب کرے تو اپنے ہی گھر سے ابتدا فرمایا کرتے ہیں۔ اسی ضابطے کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اکثر کھانے کا حکم اپنی اولاد کو فرمایا ہے۔ (فضائل حج، ص:۱۴۴، شیخ الحدیث محمد زکریا ؒ)

۲) بازری نے توثیق عری الایمان ابو النعمان سے نقل کیا ہے کہ خراسان کے رہنے والے ایک صاحب ہر سال حج کو جایا کرتے اور جب مدینہ طیبہ حاضر ہوتے تو سید طاہر علوی کی خدمت میں بھی نذرانہ پیش کرتے۔ ایک صاحب نے جو مدینہ ہی کے رہنے والے تھے ان خراسانی سے ایک مرتبہ یہ کہا کہ تم طاہر علوی کو جو کچھ دیتے ہو وہ ضائع کرتے ہو، وہ اس کو گناہوں میں خرچ کردیتا ہے۔ خراسانی نے اس سال طاہر صاحب کو کچھ نہ دیا۔ اور دوسرا سال بھی ایسے ہی گزر گیا کہ وہ اپنی عادت کے موافق جو کچھ لے کر آئے تھے وہ اہل مدینہ کو تقسیم کرگئے اور طاہر صاحب کو کچھ نہ دیا۔ جب تیسرے سال وہ حج کے ارادے سے اپنے گھر سے چلنے لگے تو حضور اقدس کی زیارت خواب میں ہوئی حضور نے تنبیہ فرمائی کہ تو نے طاہر علوی کے بارے میں اس کے مخالف کی بات کا یقین کرلیا اور جو تو اس کو دیا کرتا تھا وہ بند کردیا ایسا نہ کرنا چاہیے جو وظیفہ اس کا رکا ہوا ہے وہ بھی دو اور آئندہ جب تک جاری رکھ سکو بند نہ کرو ۔ وہ خراسانی بہت خوفزدہ نیند سے اٹھے اور ایک تھیلی علیحدہ ان کے نام کی جس میں چھ سو اشرفیاں تھیں اپنے ساتھ لے لیں اور جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو سب سے پہلے سید طاہر علوی کے مکان پر پہنچے وہاں محفل بھر رہی تھی علوی صاحب نے ان خراسانی کا نام لے کر کہا کہ اگر تم کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد نہ فرماتے تو تم مجھ تک نہ آتے تم نے میرے بارہ میں اللہ کے دشمن کی بات کا یقین کرلیا اور اپنا معمول بند کرلیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامت فرمائی اور حکم فرمایا کہ تین سال وظیفہ دو جب لے کر آئے ہو یہ کہہ کر ہاتھ پھیلایا اور کہا لاؤ چھ سو اشرفیاں۔ یہ ساری بات سن کر خراسانی کو اور بھی دہشت ہوئی اور کہنے لگا کہ واقعہ تو سارا اسی طرح ہے مگر تمہیں اس سارے واقعہ کی کس طرح خبر ہوئی؟ علوی نے کہا مجھے سارا حال معلوم ہے۔ پہلے سال جب تم نے کچھ نہ دیا تو اس سے میری معیشت پر اثر پڑا جب دوسرے سال تم آکر چلے گئے اور مجھے تمہارے آنے اور جانے کا حال معلوم ہوا تو مجھے بہت ضیق ہوئی اور میں نے حضور اقدس کو خواب میں دیکھا حضور نے ارشاد فرمایا تو رنج نہ کر میں نے فلاں خراسانی کو خواب میں تنبیہ کردی اور اس سے کہہ دیا کہ گزشتہ بھی ادا کرے اور آئندہ بھی حتی المقدور بند نہ کرے۔ میں نے اس خواب پر اللہ کا شکر ادا کیا جب سامنے آئے تو یقین ہوگیا تم نے خواب دیکھ لیا یہ سن کر خراسانی نے چھ سو اشرفیوں کی تھیلی نکالی اور ان کو دے لک ان کی دست بوسی کی اور کوتاہی کی معافی چاہی کہ میں نے تمہارے مخالف کی بات کا یقین کرلیا۔ سید سمہوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ طاہر علوی حضرت حسین کی اولاد میں سے ہیں۔ (فضائل حج، ص: ۱۴۵، شیخ الحدیث محمد زکریا ؒ)

سادات کی خدمت کا اجر:
ہرات میں ایک سید خاندان تھا۔ خاوند کا انتقال ہوگیا تو بیوہ فاقوں سے مجبور ہوکر ثمرقند ہجرت کرگئیں۔ثمرقند اس وقت متمدن شہر تھا۔ خاتون اپنی بچیوں سمیت ثمرقند پہنچیں تو لوگوں سے پوچھا یہاں کوئی سخی ہے؟ معلوم ہوا شہرمیں ایک مسلمان اور ایک مجوسی (آتش پرست)بہت سخی ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمان کے پاس جاتی ہوں۔ جب وہ مسلمان کے پاس پہنچیں اور اپنا معاملہ بتایا کہ میں آل رسول سے ہوں، میرا خاوند فوت ہوگیا ہے اور میں بہت مجبور ہوکر یہاں آئی ہوں۔ تو اس نے کہا کہ کوئی سندد کھاؤ، یہاں تو ہر کوئی کہتا ہے کہ میں سید ہوں ،آلِ رسول ہوں۔ خاتون نے کہا کہ میں بہت مشکلیں اٹھاتی یہاں تک پہنچی ہوں، مسافر ہوں، سند کہاں سے دکھاؤں؟خاتون اس سے مایوس ہوکرآتش پرست مجوسی کے پاس گئیں اور اسے کہا کہ میں مسلمانوں کے رسول کی اولادمیں سے ہوں مجھے کوئی ٹھکانہ چاہیے۔ آتش پرست نے اس سیدزادی کو ٹھکانہ دے دیا۔

اسی رات مسلمان نے خواب دیکھا کہ جنت کا ایک محل ہے اوراس کے دروازے پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ یہ پوچھتا ہے یا رسول اللہ یہ محل کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک ایمان والے کا ہے۔یہ کہتا ہے کہ یارسول اللہ میں بھی ایمان والاہوں مجھے عنایت ہو۔آپ نے فرمایا کہ ایمان والاہے تو گواہ پیش کر تیرے پاس ایمان کی کیا سند ہے؟ وہ کانپ گیا توآپ نے فرمایا کہ میری بیٹی تجھ سے ٹھکانہ مانگنے آئی تھی اور تو نے اس سے سند مانگی کہ اپنے سید ہونے کی سند پیش کر۔

جب اس مسلمان کی آنکھ کھلی توبہت پریشان ہوا۔ نوکروں سے پوچھنے لگا کہ پتہ کرو کہ وہ کل والی بی بی کدھرگئیں؟ انہوں نے جواب د یاکہ وہ تو آتش پرست لے گیا۔ اس مسلمان نے سردی میں جوتے پہنے نہ کپڑے دوڑ لگائی اوراس کا دروازہ کھٹکھٹانےلگا۔وہ باہر نکلا تو کہا کہ میرے مہمان واپس کرو۔ آتش پرست بولا وہ تو میرے مہمان ہیں۔ مسلمان نے کہا میں تمہیں تین سو دینار دیتا ہوں مجھے میرے مہمان واپس کردو۔ مجوسی رونے لگا اور کہا کہ حضور دیکھے بغیر سودا کیا تھا، اب جب دیکھ لیا تو کیسے واپس کردوں۔ جس خواب میں تجھ کودھکے ملے اس خواب کو میں نے بھی دیکھا کہ اللہ کے نبی نے تجھے دورکیا اور میری طرف متوجہ ہوکر کہا کہ تو نے میری بیٹی کو ٹھکانہ دیا، تجھے اور تیری نسل کوجنت مبا رک ہو۔ اب میں کلمہ پڑھ کر ایمان لاچکا ہوں۔(کتاب البر و الصلۃ، لابن جوزی)

اہلِ بیت آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابی تو ہیں ہی لیکن قرآن و حدیث میں ان کی فضیلت باقی صحابہ کرام سے الگ اور ممتاز حیثیت میں آتی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے الگ الگ طریقے سے ان کے فضائل بیان کیے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں معصوم مانا جائے، ان کی شان میں افراط و غلو سے کام لیا جائے بلکہ آلِ رسول سے محبت و تعظیم کا مطلب ہے ان کی سیرت و کردار کے تابندہ نقوش کو اپنانا اور ان کی محبت و عظمت کو اپنے دل میں رکھنا اور شرعی حدود کے مطابق ان کی تعظیم کرنا۔ قرآن و حدیث کی رُو سے اہلِ بیت کی عزت و توقیر، ان کا احترام و تقدس اور ان سے محبت و عقیدت رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے۔

(فضائل کا ایک حصہ مولانا طارق جمیل صاحب کی کتاب ’’گلدستہ اہل بیت‘‘سے لیا گیا ہے!!!)
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
پر م
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی مقدس و پاکیزہ ترین ہستی ہیں۔ جو شخص ایمان کی حالت میں آپ کی تھوڑی دیر کی بھی صحبت اختیار کرلیتا ہے اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوتا ہے تو اس صحبت کی برکت سے اس کا شمار بھی دنیا کی بہترین ہستیوں میں ہونے لگتا ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات کی بے مثل خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے۔ جب غیروں کا یہ حال ہے تو جو آپ کے اپنے تھے،آپ کا خون اور آ پ کے جگر کے ٹکڑے تھے ان کی شرافت و عظمت اور تقدس کا آپ سے نسبت کی بنا پر کیا حال ہوگا اس کا تصور ہی محال ہے۔

اہلِ بیت اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور عظمت قرآن اور حدیث کی نصوص سے ثابت ہے۔ اسی بنا پر ان کا احترام کرنا اور ان سے محبت اور عقیدت رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے،اور ان سے بغض و عداوت رکھنا اور ان کو ادنیٰ درجہ میں بھی ایذا پہنچانا خدا اور رسول کی ناراضگی کا سبب ہے۔

بغضِ اہلِ بیت کی وجوہات:
جہاں عام مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی بنا پر آپ کی اولاد کو سر آنکھوں پر بٹھانا اپنی سعادت اور مغفرت کا ذریعہ سمجھتے تھے وہیں ایسے بدبخت بھی گزرے ہیں جنہوں نے دنیا کی چند روزہ حکومت و اقتدار بچانے کی خاطر اہل بیت سے جنگ کرکے آخرت کی دائمی زندگی تباہ و برباد کرلی۔

اس بربادی کا نقطۂ آغاز بنو امیہ کے سردار یزید بن معاویہ سے ہوا۔ اس کو اپنی حکومت کے مقابل کوئی طاقت نظر آئی تو وہ آلِ رسول یعنی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو حضرت معاویہ کے دور ِحکومت میں زہر دے کر شہید کردیا گیا تھا۔ مقابلہ میں اب صرف حضرت حسین باقی رہ گئے تھے۔ یزید کے بعد بھی بنو امیہ اور بنو عباس جب تک برسر اقتدار رہے اہلِ بیت کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے انہیں مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے۔

دنیاوی اقتدار کی خاطر اہل بیت کا قتلِ عام:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے نواسے اور آپ کے جگر کے ٹکڑے حضرت حسن کو زہر دے کر شہید کردیا گیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے سترہ بیٹے تھے جن میں زیادہ تر کی شہادت میدانِ کربلا میں ہوئی آپ کی نسل آپ کے فرزند حضرت حسن مثنی اور حضرت زید سے چلی جو حسنی سادات کہلاتے ہیں۔ بعد میں حضرت حسن مثنی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی زہر دے کر شہید کردیا گیا۔

کربلا کے میدان میں اپنی حکومت بچانے کے لیے یزید نے تمام آلِ رسول کو تہہ تیغ کردیا تھا۔ ان میں علی اصغر کے نام سے مشہور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا چھ ماہ کا معصوم بچہ بھی تھا جو کئی وقتوں کی شدتِ پیاس سے رو نے لگا تو اسے بہلانے کے لیے خیمہ سے باہر بیٹھے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی گود میں ڈال دیا گیا۔ حرملہ نامی شخص نے شیر خوار بچہ پر بھی ترس نہ کھایا اور اس کا نشانہ لے کر تیر چلا دیا۔ باپ کی گود میں لیٹے بچہ کے جسم سے خون کا فوارہ چھوٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کی گود اپنے بچہ کے خون سے بھر گئی۔ یوں میدانِ کربلا کا شیر خوار بچہ شہید ہوگیا۔

اس جنگ میں حضرت حسین کی آل میں سے صرف حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ بچے جو بیماری کے باعث میدان جنگ میں نہ اتر سکےتھے۔ آج دنیا میں جتنے حسینی سید ہیں وہ حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں۔

میدان کربلا میں آلِ رسول کے قتلِ عام کے باوجود یزید کے دل کو چین نہ ملا۔ اس نے برسر منبر اہلِ بیت کو برا بھلا کہنے کا رواج ڈال کر دل کی بھڑاس نکالی۔اُس کے زمانہ میں حکومت کے وزیر اور مشیر اہلِ بیت کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے، حضرت علی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو برا بھلا کہتے اور ان کی تعریف کرنے والوں کو لعن طعن کرتے۔ قرآن و حدیث میں موجود اہلِ بیت کے فضائل بیان کرنے والے ہر شخص کو رافضی یا شیعہ ہونے کا طعنہ دیتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کا دور آیا جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں ۔انہوں نے منبروں پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو گالی دینے کا رواج حکماً بند کروایا۔لیکن اس عرصہ میں ایسا ماحول پیدا ہوگیا تھا کہ عام لوگ آلِ رسول اور اہلِ بیت کا نام زبان پر لانے سے جھجکتے بلکہ ایسا کرنے والے کو شیعہ سمجھتے۔

اہلِ بیت کون لوگ ہیں؟
اہل بیت کے معنی ہیں گھر والے۔ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک اہلِ بیت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ تمام اہل خانہ ہیں جن پر زکوٰۃ و صدقہ حرام ہے۔ ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادحضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہنَّ، آپ کے نواسے نواسیاں،آپ کے چچا حضرت حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما، آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا، آپ کی تمام ازواجِ مطہرات اور بنوہاشم کے سارے مسلمان مرد و عورت شامل ہیں ۔

چناں چہ اہل بیت کی تین قسمیں ہوگئیں: ۱۔بیت نسبی، ۲۔بیت سکنی، ۳۔بیت ولادت۔بنو ہاشم یعنی عبدالمطلب کی اولاد کو نسب کے اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’اہلِ بیت نسبی‘‘ کہا جائے گا، ازواجِ مطہرات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ’’اہلِ بیت سکنی‘‘ (اہلِ خانہ) کہا جائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو ’’اہل بیت ولادت‘‘ کہا جائے گا۔

حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو خاص قرب اور تعلق تھا اور ان کے فضائل و مناقب جس کثرت سے ذخیرۂ احادیث میں وارد ہوئے ہیں اُس بنا پر ان چار ہستیوں کو ’’اہلِ بیت‘‘ میں خصوصی و امتیازی درجہ حاصل ہے۔ ’’سید‘‘ کا لفظ بھی صرف ان ہی کے لیے مخصوص ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد میں سے ہیں۔ سید کا لفظی مطلب سردار ہے جو احتراماً ان کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قرابت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ عربی میں ان کے لیے شریف کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

فضائل و مناقب آلِ رسول:
۱) امام احمد ابن حنبل رحمۃ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی :
قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْہ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی(سورۃ الشوریٰ، آیت:۲۳)
(اے ہمارے رسول)کہہ دیجیے کہ میں تم لوگوں سے اپنی تبلیغ دین کا کچھ اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرے قرابت داروں سے مَوَدَّت رکھو۔

مَوَدَّت یعنی ان سے محبت، عقیدت اور اُنسیت کا تعلق قائم رکھو۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:
يَارَسُوْلَ اﷲِ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَۃ وَ ابْنَاهُمَا
یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے۔‘‘(احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ، ۲: ۶۶۹، رقم:۱۱۴۱)

۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس ہور ہے تھے کہ رابغ کے پاس خم نامی ایک چشمے پر قیام فرمایا ، چوں کہ عرفہ کے میدان میں یہ آیت نازل ہوچکی تھی:
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلاَمَ دِیْنًا ( سورة المائدة ، آیت : ۳ )
آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیاہے اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین چن لیا ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہوا کہ اب آپ کا وقت قریب ہے۔ اس لیے صحابہ کرام کے اس عظیم اجتماع کو غنیمت سمجھتے ہوئے انہیں چند نصیحتی کلمات سے نوازا، ان میں دو اہم باتیں یہ تھیں کہ آپ نے فرمایا لوگو، میں تمہارے لیے دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں پہلی چیز کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ا س لیے تم اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو۔ پھر فرمایا : ( دوسری عظیم چیز ) میرے اہل بیت ہیں، میں تمہیں اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دہانی کراتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دہانی کراتا ہوں ، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یاد دہانی کراتا ہوں۔ ( صحيح مسلم :۲۴۰۸، مسند احمد: ۴؍۳۶۷ )

۳) قرآن پاک کی آیت ہے:
فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ فَلَا أَنسَابَ بَيْنَهُمْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَتَسَاءَلُونَ (سورۃ المومنون، آیت:۱۰۱)
جب صور پھونکا جائے گا اس دن نہ آپس کے رشتے رہیں گے، نہ آپس کی پوچھ گچھ ۔

اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
كلُّ سَبَبٍ و نَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يومَ القيامۃِ إلَّا سَبَبي و نَسَبي
قیامت کے دن ہر واسطہ اور نسبی تعلق ختم ہوجائے گا البتہ میرا واسطہ اور نسبی تعلق قائم رہے گا۔ (السلسلۃ الصحيحۃ:۲۰۳۶)

ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت ام ہانی رضی اﷲ عنہا کی بالیاں (پردہ سے) ظاہر ہوگئیں اس پر ان سے کہا گیاان محمدالا یغنی عنك من اﷲ شیئا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تمہیں نہ بچائیں گے۔وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور حضور اقد س صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ واقعہ عرض کیا۔آپ نے ارشاد فرمایا:
مابال اقوام یزعمون ان شفاعتی لاتنال اھل بیتی وان شفاعتی تنال حاء وحکم
کیاحال ہے ان لوگوں کا جو زعم کرتے ہیں کہ میری شفاعت میرے اہل بیت کو نہ پہنچے گی۔بے شك میری شفاعت ضرور قبیلہ حاء وحکم کو بھی شامل ہے(یعنی دور دور کی قرابت داری تک میری شفاعت پہنچے گی)۔ (المعجم الکبیر حدیث ۱۰۶۰ المکتبہ الفیصلیۃ بیروت ۲۴؍ ۴۳۴)

ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اﷲ عنہا اپنے باپ کی یاد میں بلند آواز سے رو دیں تو ان کے اس عمل کو برا سمجھ کر ان سے بھی ایسا ہی کہا گیا کہ ان قرابتك من محمد صلی اللہ علیہ وسلم لا تغنی عنك من اللہ شیئا محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قرابت اﷲ کے یہاں کچھ کام نہ دے گی۔ حالاں کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ کیا ہوا ان لوگوں کو جو میری قرابت نافع نہیں بتاتے۔ہر رشتہ وعلاقہ قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا مگر میرا رشتہ تعلق دنیا و آخر ت میں جُڑا رہے گا۔ (مجمع الزوائد بحوالہ البزار کتاب علامات النبوۃ باب فی کرامۃ اصلہ دارالکتاب بیروت ۸؍ ۲۱۶)

۴) ۱۰ھ میں نجران کے عیسائیوں کا وفد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اسلام اور عیسائیت پر بحث و مباحثہ کرنے لگا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْۖ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰہِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ (سورۃ آل عمران، آیت:۶۱)
(اے ہمارے رسول آپ ) کہہ دیجیے کہ آؤ ہم اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں بُلائیں، پھر سب التجا کریں اور اللہ کی لعنت بھیجیں ان پر جو جھوٹے ہوں۔

اس آیت کو آیتِ مُباہلہ کہا جاتا ہے۔ مباہلہ یہ ہونا تھا کہ عیسائی اور مسلمان دونوں اپنے اپنے اہل و عیال لے آئیں اور ایک دوسرے پر بددعا کریں کہ اگر دوسرے کا مذہب جھوٹا ہے تو وہ ہلاک ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حضرات حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا کر فرمایا: یا اللہ! یہ میرے اہل ہیں۔(صحيح مسلم:۲۴۰۴)

جب عیسائیوں نے ان نفوسِ قُدسیہ کو دیکھا تو آپس میں مشورہ کیا کہ اگر یہ نبی ہیں تو ہم ہلاک ہوجائیں گے۔ اور یہ بھی کہا کہ یہ ایسے چہرے ہیں کہ اگر اﷲ کے نام پر قسم کھا لیں کہ وہ پہاڑوں کو سرکا دے تو وہ ضرورسرکا دے گا۔ آخر کار وہ مباہلہ کرنے کے بجائے آپ سے صلح کر کے چلے گئے۔

۵) حجۃ الوداع سے واپسی پر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان’’غدیر خم‘‘ نامی مقام پر کچھ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کچھ فیصلوں سے متعلق شکایت کی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرما کر حضرت علی کے فیصلہ کو درست قرار دے دیا کہ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ جس کا میں مولیٰ ہوں اس کا علی مولیٰ ہے۔ (الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علی رضی الله عنہ، ۵؍ ۶۳۳، الحديث رقم :۳۷۱۳)

یہاں مولیٰ سے مراد، دوست، محبوب یا سردار کے ہیں۔ لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جو مجھے اپنا دوست اور محبوب سمجھتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ علی سے بھی محبت رکھے یا جو مجھے اپنا آقا اور سردار سمجھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ علی کو بھی اپنا آقا اور سردار سمجھے اور ان کی اطاعت کرے۔

۶) عن عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سألت ربی ان لا یدخل احدا من اہل بیتی النار فاعطانیہا
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے مانگا کہ میرے اہلِ بیت میں سے کسی کو دوزخ میں نہ ڈالیں۔ تو اللہ نے میری مراد پوری فرمائی ۔ (کنز العمال للمتقی ، ۳۴۱۴۹، ۱۲؍ ۹۵)

۷) عن انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم : وعدنی ربی فی اہل بیتی من اقرمنہم بالتوحید ولی بالبلاغ ان لا یعذ بہم

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’میرے رب نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میرے اہلِ بیت میں سے جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور میری رسالت پر ایمان لائے گا اسے عذاب نہ فرمائے گا ۔‘‘(المستدرک للحاکم، ۳؍ ۱۵۰۔ الکامل لا بن عدی کنز العمال للمتقی، ۳۴۱۵۶،۱۲؍ ۹۶۔الجامع الصغیر للسیوطی، ۲؍ ۵۷۱)

۸) عن امیر المؤمنین علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یا علی ! ان اول اربعۃ یدخلون الجنۃ انا و انت والحسن والحسین وذرارینا خلف ظہورنا
امیر المؤمنین حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے علی، سب سے پہلے جو چار جنت میں داخل ہوں گے ، ان میں سے ایک میں ہوں ، اور تم اور حسن و حسین ، اور ہماری ذریتیں ہمارے پسِ پشت ہوں گی ۔( تاریخ دمشق لا بن عساکر،۴؍ ۳۲۱۔کنز العمال للمتقی ۳۴۲۰۵، ۱۲؍۱۰۴)

۹) عن امیر المؤمنین علی قال، قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اول من یرد علی حوض اہل بیتی و من احبنی من امتی
امیر المؤمنین حضرت علی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر آنے والے میرے اہل ِبیت ہیں اور میری امت سے میرے چاہنے والے۔ (تاریخ دمشق لا بن عساکر، ۴؍ ۳۲۱۔کنز المعال للمتقی۳۴۲۰۵، ۱۲ ؍۱۰۴)

۱۰) عن ام المؤمنین عائشۃ الصدیقۃ رضی اللہ تعالی عنہا قالت، قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ستۃ لعنتہم و لعنہم اللہ،وکل نبی مستجاب ، الزائد فی کتاب اللہ ، والمکذب بقدر اللہ والمتسلط بالجبروت فیعز بذلک من اذل اللہ و یذل من اعزاللہ والمستحل لحرم اللہ ، والمستحل من عترتی ما حرم اللہ ، والتارک لسنتی ۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چھ شخص ہیں جن پر میں نے لعنت کی ، اللہ انہیں لعنت کرے اور ہر نبی کی دعا قبول ہے، کتاب اللہ میں بڑھانے والا، تقدیر الٰہی کا جھٹلانے والا، جو ظلم کے ساتھ تسلط کرے کہ جسے خدا نے ذلیل بنایا اسے عزت دے اور جسے خدا نے معزز کیااسے ذلیل کرے، اور حرم مکہ کی بے حرمتی کرنے والا ، اور میری عترت (یعنی میرے متعلقین)کی ایذا و بے تعظیمی روا رکھنے والا ، اور جو سنت کو برا ٹھہرا کر چھوڑ دے۔ (الجامع للترمذی، الجامع الصغیر للسیوطی ، ۲؍ ۲۸۶،مجمع الزائد للہیثمی،۱؍ ۱۷۶)

۱۱) عن عبد اللہ بن بدر الخطمی عن ابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم من احب ان یبارک لہ فی اجلہ ، و ان یمتعہ اللہ بما خولہ فلیخلفنی فی اہلی خلافۃ حسنۃ، و من لم یخلفنی فیہم تبک امرہ وورد یوم القیامۃ مسودا وجہہ
حضرت بدر خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور خدا اسے اپنی دی ہوئی نعمت سے بہرہ مند کرے تو اسے لازم ہے میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے، جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اڑ جائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کر آئے ۔(کنز المعال للمتقی ، ۳۴۱۷۱، ۱۲؍ ۹۹)

۱۲) عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ان للہ عزوجل ثلث حرمات ، فمن حفظہن حفظ اللہ دینہ ودنیا ہ ، و من لم یحفظہن لم یحفظ اللہ دینہ و دنیاہ ،حرمۃ الاسلام وحرمتی ، و حرمۃ رحمی
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بیشک اللہ عزوجل کی تین حرمتیں ہیں جو ان کی حفاظت کرے اللہ تعالیٰ اس کے دین و دنیا محفوظ رکھے ، اور جو ان کی حفاظت نہ کرے اللہ تعالیٰ اس کے نہ دین کی حفاظت فرمائے اور نہ دنیا کی ، ایک اسلام کی حرمت، دوسری میری حرمت ، تیسری میری قرابت کی حرمت ۔ (المعم الکبیر للطبرانی، ۳؍۱۳۵،مجمع الزوائد للہیثمی، ۱؍۸۸،کنز العمال للمتقی ،۳۰۸،۱؍ ۷۷،میزان الاعتدال للذہبی ، ۲۳۰۸، لسنان المیزان لا بن حجر، ۵؍۱ )

۱۳) الاستخفاف بالاشراف والعلماء کفر و من قال لعالم عویلم او لعلوی علیوی قاصدابہ الاستخفاف کفر
سادات کرام اور علماء کی تحقیر کفر ہے جس نے عالم کی تصغیر کر کے عویلم کہا یا علوی کو علیوی تحقیر کی نیت سے کہا تو اس نے کفر کیا۔ (مجمع الانہر:۲؍۵۰۹)

رسول اللہ کی اپنی اولاد سے محبت و شفقت:
۱) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آل یعنی حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن وحسین رضی اللہ عنہم سے نہ صرف خود محبت کی ہے بلکہ اپنی امت کو بھی ان سے محبت کرنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت فاطمہ سے متعلق آپ کا ارشاد گرامی ہے إنَّما فَاطِمةُ بَضعَةٌ منِّي يؤذيني ما آذَاها و ينصِبني ما أنصبَها فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جو چیز اسے تکلیف دیتی ہےوہ مجھے تکلیف دیتی ہے، جو چیز اسے تعب میں ڈالتی ہے وہ مجھے تعب میں ڈالتی ہے۔(ترمذی:۳۸۶۹)

۲) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا و الذي فَلَقَ الحَبَّةَ، وبَرَأَ النَّسَمَةَ، إنَّه لَعَهْدُ النبيِّ الأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إلَيَّ: أنْ لا يُحِبَّنِي إلَّا مُؤْمِنٌ، ولا يُبْغِضَنِي إلَّا مُنافِقٌ قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس نے گھاس اُگائی) اور جان بنائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ نہیں محبت رکھے گا مجھ سے مگر مومن اور نہیں دشمنی رکھے گا مجھ سے مگر منافق۔(صحيح مسلم:۷۸)

۳) ایک حدیث پاک میں ہے حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ،أَحَبَّ اﷲُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًاحسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے۔ (احمد بن حنبل، المسند،۴: ۱۷۲)

۴) حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاجس نے مجھ سے محبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ ان دونوں (حضرت حسن و حسین) سے بھی محبت کرے۔‘‘ (نسائی۔ ابن خزیمہ)

۵) حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت فاطمہ اور حسن وحسین کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں إنَّ هذا ملَكٌ لم ينزلِ الأرضَ قطُّ قبلَ اللَّيلةِ استأذنَ ربَّهُ أن يسلِّمَ عليَّ ويبشِّرَني بأنَّ فاطمةَ سيِّدةُ نساءِ أَهْلِ الجنَّةِ وأنَّ الحسَنَ والحُسَيْنَ سيِّدا شبابِ أَهْلِ الجنَّةِ یہ ایک فرشتہ تھا جو اس رات سے پہلے زمین پر کبھی نہیں اترا تھا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے اور یہ بشارت دینے کی اجازت مانگی کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین اہل جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔(ترمذی:۷۳۸۱)

۶) اسامہ بن زید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک رات کسی ضرورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ (چادر)ایک ایسی چیز لپیٹے ہوئے تھے جسے میں نہیں جان پا رہا تھا کہ کیا ہے، پھر جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا تو میں نے عرض کیا: ’’یہ کیا ہے جس کو آپ لپیٹے ہوئے ہیں؟‘‘ آپ نے اسے کھولا تو وہ حسن اور حسین رضی الله عنہما تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو سے چپکے ہوئے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا:
هذانِ ابنايَ وابنا ابنتيَ ، اللَّهمَّ إنِّي أحبُّهما فأحبَّهما وأحبَّ مَن يحبُّهما
یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں، اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو ان سے محبت کرے۔(ترمذی:۳۷۶۹)

۷) حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو ان سے لڑے گا میں اُس سے لڑوں گا، اور جو اِن سے مصالحت رکھے گا میں اُس سے مصالحت رکھوں گا۔ (جامع ترمذی)

۸) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے میری اولاد پراحسان کیا (اور میری اولاد کسی وجہ سے اس کا بدلہ نہ چکا سکی )تواس شخص کا بدلہ قیامت کے دن میں چکاؤں گا۔ (جامع صغیر، ص۵۳۳، حدیث:۸۸۲۱)

۹) ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا۔ (الاحزاب ، آیت: ۳۳)
اے اہل بیت، اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے۔

تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ،حضرت علی،حضرت حسن اورحضرت حسین رضی اللہ عنہم کو بلاکران پر چادر اوڑھائی،حضرت علی پیچھے کھڑے تھے ، ان پر بھی چادر ڈالی۔پھر فرمایا: ’’اے اﷲ، یہ میرے اہل بیت ہیں۔اے اﷲ، ان سے آلودگی دور کرکے انھیں خوب پاک کر دے۔‘‘حضرت ام سلمہ نے عرض کیا:’’اﷲ کے نبی، میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟‘‘ آپ نے فرمایا:’’تو اپنی جگہ ہے اور خیر پر ہے۔‘‘ (ترمذی،رقم ۳۷۸۷۔ مسلم، رقم ۶۲۶۱۔ موسوعہ مسند احمد، رقم ۲۶۵۰۸)

۱۰) حضرت جُمیع بن عمیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنی پھوپھی کے ساتھ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے پوچھا : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ ‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فاطمہ سے۔ پھر میں نے پوچھا اور مَردوں میں سب سے زیادہ محبت کس سے تھی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فاطمہ کے شوہر سے۔‘‘ (جامع ترمذی)

خلفاء راشدین کی آلِ رسول سے محبت:
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ:
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال آپ کے اہل بیت کا خیال رکھ کے کرو۔( صحیح البخاری:۳۷۵۱)

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میرے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک کرنا میرے اپنے اہل قربت کے ساتھ حسن سلوک سے زیادہ محبوب ہے۔( صحیح البخاری :۳۷۱۲)

حضرت عُقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدُنا ابوبکر صِدّیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عَصْر کی نَماز پڑھائی، پھر آپ اور حضرت علی کھڑے ہوکر چل دئیے، راستے میں حضرت حَسن کو بچّوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں اپنے کندھے پر اُٹھا لیا ۔(سنن الکبریٰ للنسائی،ج ۵،ص۴۸، حدیث:۸۱۶۱)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اولاد سے زیادہ اہل بیت سے محبت فرمایا کرتے تھے اور ہر موقع پر ان کو فوقیت دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے مال غنیمت تقسیم فرمایا۔ حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کو ہزار ہزار درہم دیئے اور اپنے فرزند حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پانچ سو درہم دیئے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں جوان تھا اور آپ کے ساتھ جہاد کیا کرتا تھا۔ اس وقت یہ دونوں بچے تھے اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیلا کرتے تھے۔ آپ نے ان کو ہزار ہزار درہم دیئے اور مجھے پانچ سو درہم دیئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: بیٹا! پہلے وہ مقام اور فضیلت تو حاصل کرو جو ان حضرات کو حاصل ہے پھر ہزار درہم کا مطالبہ کرنا۔ ان کے باپ علی، ماں فاطمہ، نانی خدیجہ اور نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔ یہ سن کر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش ہوگئے۔

۱۵ھ میں خلیفۂ ثانی حضرت عمر نے اسلامی مملکت کے شہریوں کے لیے وظائف مقرر کرنے کے لیے دیوان ترتیب دیا۔انہوں نے حضرت حسن، حضرت حسین ،حضرت ابوذرغفار ی اور حضرت سلمان فارسی کا حصہ بدری صحابہ جتنا یعنی ۵ ہزار درہم سالانہ رکھاحالانکہ حسن و حسین بدر کے موقع پر پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔

ایک موقع پر حضرت عمر نے صَحابَۂ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت حسن اور حُسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ نے ان کے لیے یمن سے خُصوصی لباس منگوا کر پہنایا، پھر فرمایا: ’’اب میرا دل خوش ہوا ہے۔‘‘(ریاض النضرۃ، ج۱، ص۳۴۱)

جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضراتِ حَسَنَینِ کے لیے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی قَرابَت داری کی وجہ سے اُن کے والد حضرت علی کے برابر حصّہ مقرر کیا، دونوں کے لیے پانچ پانچ ہزار دِرہم وظیفہ رکھا۔(سیراعلام النبلاء،ج۳،ص۲۵۹)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ:
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب فسادیوں کے نرغے میں گھر گئے جو انہیں قتل کرنا چاہتے تھے اور آپ اپنے گھر میں محصور ہوگئے تو اس وقت حضرت حسن آپ کے دفاع کے لیے تلوار کے ساتھ موجود تھے اور لڑنا چاہتے تھے مگر حضرت عثمان نے اپنی جان کو خطرہ ہونے کے باوجود اللہ کا واسطہ دےکر انہیں اپنے گھر بھیج دیا تاکہ ان کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور ان کی تکلیف کے باعث حضرت علی کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ (البدایہ والنہایہ ۱۱؍۱۹۳)

صحابہ کرام کی آلِ رسول سے محبت
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:
آپ فرمایا کرتے تھےاہلِ مدینہ میں فیصلوں اور وِراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی کی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص۱۳۵)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :
آپ فرماتے ہیں میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فَرطِ مَحبّت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔(مسند امام احمد،ج ۳،ص۶۳۲)

ابو حازم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت حُسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔ (سیراعلام النبلاء،ج ۴،ص۴۰۷)

ائمہ اربعہ کی اہلِ بیت سے محبت:
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ :
آپ اہل بیت سے اتنی شدید محبت اور تکریم کرتے تھے کہ لوگوں نے اُن کو شیعہ ہونے کا طعنہ دیا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آلِ رسول کے ظاہر و پوشیدہ نادار لوگوں پر خوب خرچ کرکے ان کی قربت حاصل کرتے تھے۔ آپ نے ان میں سے ایک نادار آدمی کو خفیہ طور پر بارہ ہزار درہم بھجوائے ۔ آپ اپنے ساتھیوں کو بھی ان کی تعظیم کا درس دیا کرتے تھے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ :
آپ کے دل میں اہل بیت کے لیے بڑی تعظیم وتکریم تھی۔ عباسی دور کے والیِ مدینہ جعفر بن سلیمان نے کوڑوں سے آپ کے جسم مبارک کو مارنا شروع کیا تو آپ بے ہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو حاضرین سے فرمایا: ’’میں نے اس اذیت دینے والے کو معاف کردیا ہے۔ ‘‘ لوگوں نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا مجھے خوف ہوا کہ اگر اسی حالت میں میری موت واقع ہوجائے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات ہوجائے تو مجھے اس وقت ندامت و شرمندگی نہ اٹھانی پڑے کہ میری وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک قرابت دار کو عذابِ دوزخ کا مزہ چکھنا پڑے۔

امیر منصور نے امام مالک کو قصاص دلانا چاہا تو امام صاحب نے فر مایا کہ خدا کی پناہ! کوڑے لگتے وقت جو کوڑا بھی میرے جسم سے علیٰحدہ ہوتا تھا میں اسی وقت جعفر کو اس قرابت کی وجہ سے جو ان کو حضور علیہ السلام سے ہے معاف کر دیتا تھا۔ (کتاب الشفاء،حصہ دوم)

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابن حجر مکی نے ’’الصواعق المحرقہ‘‘، امام الدمیاطی نے ’’اعانۃ الطالبین‘‘ اور بہت سارے محدثین نے اہل بیت کی محبت کے وجوب کے باب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایک رباعی بیان کی ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں ؎
يَا أَهْلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اﷲِ حُبُّکُمْ
فَرَضٌ مِنَ اﷲِ فِي الْقُرْآنِ أَنْزَلَهُ
کَفَاکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْقَدْرِ أَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ
(ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح، ۱ ؍ ۶۷)

’’اے اہلِ بیتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ سے محبت کرنا اﷲ کی طرف سے فرض ہے، جسے اس نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے اور آپ کے لیے یہ عظیم مرتبہ ہی کافی ہے کہ آپ وہ ہستیاں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود نہ پڑھے، اس کی نماز مکمل نہیں ہوتی۔‘‘

ان اشعار میں امام شافعی نے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو قرآن مجید کی طرف سے امت مسلمہ پر فرض ہونے کو بیان کیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ کہ جو شخص نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھے اُس کی نماز نہیں ہوتی۔ گویا ہم پر اہلِ بیت کی محبت فرض کردی گئی ہے۔

اہل بیت کے فضائل دیکھتے ہوئے امام شافعی سمیت بیشتر علماء اس طرف چلے ئے ہیں کہ سادات کی تعظیم کرنا فرض ہے اور ان کو برا بھلا کہنا، ان کی دل آزاری اور توہین کرنا حرام ہے۔ محبتِ اہلِ بیت کی وجہ سے امام شافعی کو بھی لوگ شیعہ اور رافضی کہتے تھے۔ آپ نے جواب میں فرمایا اگر محبت اہل بیت کا نام شیعہ ہونا ہے تو مجھے یہ تہمت قبول ہے۔ایک مرتبہ اہل بیت سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح فرمایا ؎

ان کان رفضا حب آل محمد
فليشهد الثقلان انی رافضی
’’اگر آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا نام رفض ہے تو دونوں جہاں گواہ رہیں کہ بے شک میں رافضی ہوں۔‘‘(تفسير کبير، الجزء السابع والعشرون، ص۱۶۶)
اور فرمایا ؎
اِذا فی مجلسٍ نَذکُرُ عِلیاً
و سبطیہِ و فاطمۃَ الزَّکیۃ
یُقالُ تَجاوزُوا یا قومُ ھَذا
فھذا مِن حدیث الرَّافضیۃ
برِئتُ اَلیٰ المُھیمن مِن اُنَّاسِ
یَرُونَ الرَّفِض حُبُّ الفاطِمیۃ

جب کسی محفل میں ذکر ِعلی، ذکر فاطمہ یا اُن کے دوفرزندوں کا ذکر ہو تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان باتوں سے بچو کیوں کہ یہ رافضیوں کی باتیں ہیں۔ میں (یعنی امام شافعی) خدا کی طرف سے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو فاطمہ سے عقیدت و محبت کرنے والے کو رافضی کہتے ہیں۔

ایک بار آپ نے فرمایا کہ جب میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں کی راہ پر چل رہے ہیں جو ہلاکت اور جہالت کے سمندر میں غرق ہیں تو میں اللہ کا نام لے کر نجات کے سفینے میں سوار ہوگیا اور وہ نجات کا سفینہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت ہیں۔(الصواعق المحرقه، احمد بن حجرالهيتمی، ص۵۴)

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ:
آپ ہمیشہ اہل بیت کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔ جب کوئی اولاد اہل بیت سے ان کے پاس آتا تو اپنی جگہ سے اٹھ جاتے اور انہیں مقدم فرمایا کرتے اور خود ان کے پیچھے بیٹھتے تھے۔

حضور اکرم کا اپنی اولاد سے تعلق:
۱) ابو العباس بن نفیس مقری رحمۃ اللہ علیہ جو نابینا بھی تھے کہتے ہیں کہ میں تین دن مدینہ طیبہ میں بھوکا رہا تو میں قبر شریف پر یہ عرض کرکے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں بھوکا ہوں‘‘ ،ضعف کی حالت میں سو گیا۔ ایک لڑکی آئی اور پاؤں کو حرکت دے کر جگایا اور کہا چلو۔ میں ساتھ ہولیا۔ اپنے گھر لے گئی اور گیہوں کی روٹی اور گھی اور کھجوریں میرے سامنے رکھ کر کہنے لگی کہ ابو العباس کھاؤ، مجھے میرے دادے نے اس کا حکم فرمایا ہے اور جب بھوک لگا کرے یہاں آکر کھاجایا کرو۔ ابو سلیمان داؤد اس قصہ کو نقل کرکے لکھتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات بہت کثرت سے نقل کیے گئے ہیں اور ان میں بکثرت یہ دیکھا گیا ہے کہ اس قسم کا حکم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شریف اولاد کو ہی زیادہ تر فرمایا ہے بالخصوص جب کھانے کی قسم سے کوئی چیز دینے کا ارشاد ہوا ہو اور کریموں کی عادت بھی یہی ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص ضیافت طلب کرے تو اپنے ہی گھر سے ابتدا فرمایا کرتے ہیں۔ اسی ضابطے کے موافق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اکثر کھانے کا حکم اپنی اولاد کو فرمایا ہے۔ (فضائل حج، ص:۱۴۴، شیخ الحدیث محمد زکریا ؒ)

۲) بازری نے توثیق عری الایمان ابو النعمان سے نقل کیا ہے کہ خراسان کے رہنے والے ایک صاحب ہر سال حج کو جایا کرتے اور جب مدینہ طیبہ حاضر ہوتے تو سید طاہر علوی کی خدمت میں بھی نذرانہ پیش کرتے۔ ایک صاحب نے جو مدینہ ہی کے رہنے والے تھے ان خراسانی سے ایک مرتبہ یہ کہا کہ تم طاہر علوی کو جو کچھ دیتے ہو وہ ضائع کرتے ہو، وہ اس کو گناہوں میں خرچ کردیتا ہے۔ خراسانی نے اس سال طاہر صاحب کو کچھ نہ دیا۔ اور دوسرا سال بھی ایسے ہی گزر گیا کہ وہ اپنی عادت کے موافق جو کچھ لے کر آئے تھے وہ اہل مدینہ کو تقسیم کرگئے اور طاہر صاحب کو کچھ نہ دیا۔ جب تیسرے سال وہ حج کے ارادے سے اپنے گھر سے چلنے لگے تو حضور اقدس کی زیارت خواب میں ہوئی حضور نے تنبیہ فرمائی کہ تو نے طاہر علوی کے بارے میں اس کے مخالف کی بات کا یقین کرلیا اور جو تو اس کو دیا کرتا تھا وہ بند کردیا ایسا نہ کرنا چاہیے جو وظیفہ اس کا رکا ہوا ہے وہ بھی دو اور آئندہ جب تک جاری رکھ سکو بند نہ کرو ۔ وہ خراسانی بہت خوفزدہ نیند سے اٹھے اور ایک تھیلی علیحدہ ان کے نام کی جس میں چھ سو اشرفیاں تھیں اپنے ساتھ لے لیں اور جب مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو سب سے پہلے سید طاہر علوی کے مکان پر پہنچے وہاں محفل بھر رہی تھی علوی صاحب نے ان خراسانی کا نام لے کر کہا کہ اگر تم کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد نہ فرماتے تو تم مجھ تک نہ آتے تم نے میرے بارہ میں اللہ کے دشمن کی بات کا یقین کرلیا اور اپنا معمول بند کرلیا جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامت فرمائی اور حکم فرمایا کہ تین سال وظیفہ دو جب لے کر آئے ہو یہ کہہ کر ہاتھ پھیلایا اور کہا لاؤ چھ سو اشرفیاں۔ یہ ساری بات سن کر خراسانی کو اور بھی دہشت ہوئی اور کہنے لگا کہ واقعہ تو سارا اسی طرح ہے مگر تمہیں اس سارے واقعہ کی کس طرح خبر ہوئی؟ علوی نے کہا مجھے سارا حال معلوم ہے۔ پہلے سال جب تم نے کچھ نہ دیا تو اس سے میری معیشت پر اثر پڑا جب دوسرے سال تم آکر چلے گئے اور مجھے تمہارے آنے اور جانے کا حال معلوم ہوا تو مجھے بہت ضیق ہوئی اور میں نے حضور اقدس کو خواب میں دیکھا حضور نے ارشاد فرمایا تو رنج نہ کر میں نے فلاں خراسانی کو خواب میں تنبیہ کردی اور اس سے کہہ دیا کہ گزشتہ بھی ادا کرے اور آئندہ بھی حتی المقدور بند نہ کرے۔ میں نے اس خواب پر اللہ کا شکر ادا کیا جب سامنے آئے تو یقین ہوگیا تم نے خواب دیکھ لیا یہ سن کر خراسانی نے چھ سو اشرفیوں کی تھیلی نکالی اور ان کو دے لک ان کی دست بوسی کی اور کوتاہی کی معافی چاہی کہ میں نے تمہارے مخالف کی بات کا یقین کرلیا۔ سید سمہوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ طاہر علوی حضرت حسین کی اولاد میں سے ہیں۔ (فضائل حج، ص: ۱۴۵، شیخ الحدیث محمد زکریا ؒ)

سادات کی خدمت کا اجر:
ہرات میں ایک سید خاندان تھا۔ خاوند کا انتقال ہوگیا تو بیوہ فاقوں سے مجبور ہوکر ثمرقند ہجرت کرگئیں۔ثمرقند اس وقت متمدن شہر تھا۔ خاتون اپنی بچیوں سمیت ثمرقند پہنچیں تو لوگوں سے پوچھا یہاں کوئی سخی ہے؟ معلوم ہوا شہرمیں ایک مسلمان اور ایک مجوسی (آتش پرست)بہت سخی ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ مسلمان کے پاس جاتی ہوں۔ جب وہ مسلمان کے پاس پہنچیں اور اپنا معاملہ بتایا کہ میں آل رسول سے ہوں، میرا خاوند فوت ہوگیا ہے اور میں بہت مجبور ہوکر یہاں آئی ہوں۔ تو اس نے کہا کہ کوئی سندد کھاؤ، یہاں تو ہر کوئی کہتا ہے کہ میں سید ہوں ،آلِ رسول ہوں۔ خاتون نے کہا کہ میں بہت مشکلیں اٹھاتی یہاں تک پہنچی ہوں، مسافر ہوں، سند کہاں سے دکھاؤں؟خاتون اس سے مایوس ہوکرآتش پرست مجوسی کے پاس گئیں اور اسے کہا کہ میں مسلمانوں کے رسول کی اولادمیں سے ہوں مجھے کوئی ٹھکانہ چاہیے۔ آتش پرست نے اس سیدزادی کو ٹھکانہ دے دیا۔

اسی رات مسلمان نے خواب دیکھا کہ جنت کا ایک محل ہے اوراس کے دروازے پر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ یہ پوچھتا ہے یا رسول اللہ یہ محل کس کا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک ایمان والے کا ہے۔یہ کہتا ہے کہ یارسول اللہ میں بھی ایمان والاہوں مجھے عنایت ہو۔آپ نے فرمایا کہ ایمان والاہے تو گواہ پیش کر تیرے پاس ایمان کی کیا سند ہے؟ وہ کانپ گیا توآپ نے فرمایا کہ میری بیٹی تجھ سے ٹھکانہ مانگنے آئی تھی اور تو نے اس سے سند مانگی کہ اپنے سید ہونے کی سند پیش کر۔

جب اس مسلمان کی آنکھ کھلی توبہت پریشان ہوا۔ نوکروں سے پوچھنے لگا کہ پتہ کرو کہ وہ کل والی بی بی کدھرگئیں؟ انہوں نے جواب د یاکہ وہ تو آتش پرست لے گیا۔ اس مسلمان نے سردی میں جوتے پہنے نہ کپڑے دوڑ لگائی اوراس کا دروازہ کھٹکھٹانےلگا۔وہ باہر نکلا تو کہا کہ میرے مہمان واپس کرو۔ آتش پرست بولا وہ تو میرے مہمان ہیں۔ مسلمان نے کہا میں تمہیں تین سو دینار دیتا ہوں مجھے میرے مہمان واپس کردو۔ مجوسی رونے لگا اور کہا کہ حضور دیکھے بغیر سودا کیا تھا، اب جب دیکھ لیا تو کیسے واپس کردوں۔ جس خواب میں تجھ کودھکے ملے اس خواب کو میں نے بھی دیکھا کہ اللہ کے نبی نے تجھے دورکیا اور میری طرف متوجہ ہوکر کہا کہ تو نے میری بیٹی کو ٹھکانہ دیا، تجھے اور تیری نسل کوجنت مبا رک ہو۔ اب میں کلمہ پڑھ کر ایمان لاچکا ہوں۔(کتاب البر و الصلۃ، لابن جوزی)

اہلِ بیت آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابی تو ہیں ہی لیکن قرآن و حدیث میں ان کی فضیلت باقی صحابہ کرام سے الگ اور ممتاز حیثیت میں آتی ہے۔ اسی لیے اہل علم نے الگ الگ طریقے سے ان کے فضائل بیان کیے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں معصوم مانا جائے، ان کی شان میں افراط و غلو سے کام لیا جائے بلکہ آلِ رسول سے محبت و تعظیم کا مطلب ہے ان کی سیرت و کردار کے تابندہ نقوش کو اپنانا اور ان کی محبت و عظمت کو اپنے دل میں رکھنا اور شرعی حدود کے مطابق ان کی تعظیم کرنا۔ قرآن و حدیث کی رُو سے اہلِ بیت کی عزت و توقیر، ان کا احترام و تقدس اور ان سے محبت و عقیدت رکھنا ہر مسلمان کے ایمان کا جزو ہے۔

(فضائل کا ایک حصہ مولانا طارق جمیل صاحب کی کتاب ’’گلدستہ اہل بیت‘‘سے لیا گیا ہے!!!)
پر محمد کے نواسے کو کفن بھی نہ ملا
 

فاخر رضا

محفلین
ایک مرتبہ اور پڑھ کر کچھ نوٹس لکھتا ہوں اور حوالا جات کے ساتھ پیش کرتا ہوں. والد صاحب کی ایک کتاب بھی آپ کے لئے پیش کروں گا اسی موضوع پر. اسکے علاوہ امام حسین علیہ السلام کا خطبہ منی' بھی بہت زبردست ہے اہل بیت کی شان میں جس میں رسول کریم کی سولہ احادیث ہیں.
 

سیما علی

لائبریرین
حُبِّ اہلِ بیت جزوِ ایمان ہے
بے شک
حب عمل اور پیروی آسان بنا دیتی ہے
بے شک بے شک
حُبِ اہلِ بیت عبادت و ایمان کا جُز ہے ۔
مفہوم احادیث مسلم 6225 - 6228؛ مشکوٰۃ 6140) قالَ ﷺ: میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: پہلی چیز "قرآن" ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، یہ الله کی رسی ہے، تم اس کو مضبوط پکڑنا؛ دوسری چیز میرے "اہل بیت" ہیں، میں ان کے متعلق تمہیں الله سے ڈراتا ہوں (کہ ان سے حسن سلوک کرنا)۔۔۔
 
Top