حمیت نام تھا جسکا .... !

حمیت نام تھا جسکا ۔۔۔ !

اسکی حالت غیر تھی کہ جب اسے معلوم ہوا کہ اس کے دادا ایک مولوی تھے اور انکی داڑھی بھی تھی جی ہاں وہی داڑھی کہ جو طالبانیت اور دہشت گردی کی علامت ہے وہ بار بار کف افسوس ملتا کہ کس خانوادے میں پیدا کر دیا گیا ہے آج کہ جب اس نے گھر کی متروک اشیاء رکھے جانے والے اسٹور میں ایک پرانے صندوقچے سے اپنے دادا مرحوم کی تصویر نکالی تو اس وقت سے اس پر ماتمی کیفیت طاری تھی ....

أه ... اب میں اپنے لبرل حلقوں میں کیسے منہہ دکھاونگا ....

داڑھی والا پر نور چہرہ اور سر پر موجود قابل احترام دستار ........

اور پھر جب اسے معلوم ہوا کہ دادا مرحوم کا تعلق دہشت گرد احراری امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری اور مولانا مفتی محمد حسن سے بھی تعلق تھا تو افسوس سے اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے ...

ہائے ہائے ... اس نے سینے پر دو ہتھڑ مارے ...

ابھی وہ کل ہی تو اپنے کالم میں لکھ آیا تھا کہ یہ مخصوص احراری دیوبندی مسلک دہشت گردی کی علامت ہے اور دادا مرحوم نکلے دہشت گردوں کے دوست ..... اف ... افسوس .....

یہاں تک تو ٹھیک لیکن جب اسے دادا مرحوم کی ختم نبوت تحریک میں شمولیت کا علم ہوا تو اپنے مرزائی دوستوں کے سامنے شرمندگی سے اس پر حالت مرگ طاری ہو گئی .....

اب وہ زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتا تھا کہ دادا مرحوم کی تصویر گلی میں آواز لگاتے ردی پے پر والے کے حوالے کر دے .......

یاسر پیرزادہ ہم تمھارے غم میں برابر کے شریک ہیں .......

ایک طرف یہ پیر زادگی اور دوسری جانب ترقی کی جانب بلاتی لبرل روشنی بھلا تم کہاں اس دقیا نوسیت سے چمٹے رہنے والے ......

موصوف سینٹ ویلین ٹائین کے عشق میں اتنے مبتلا ہوئے کہ آپے سے ہی باہر ہو چلے اور ہر اس شخص کو کہ جو اس عالمگیری تیوہار کو منانے سے انکاری ہے دہشت گرد قرار دے دیا .......

موصوف اس اسلامی آئین والے پاکستان میں کم از کم دوسروں کو اتنا آئینی حق تو دیجئے ...

بے دھڑک بے دلیل بات کہ دینا تو موصوف کا خاصہ ہے شاید انہیں (research) نامی چڑیا کا علم نہیں اور موصوف حوالوں سے ایسے ہی کتراتے ہیں کہ جیسے اسلام سے گھبراتے ہیں .....

موصوف کا فرمانا ہے کہ موسیقی کی مخالفت کرنے والا انتہائی قسم کا دہشت گرد ہے اور ہر وہ مولوی جو اس دہشت گردی پر آمادہ ہے قابل گردن زدنی ہے ہاں دوسری طرف وہ مولویوں کے ایک گروہ کا موسیقی کی فضیلت پر اجماع بیان کرتے ہیں ......

ویسے ہمارے علم میں جدت پسند مولویوں کی فہرست میں سر سید سے جناب غامدی تک دس ایسے افراد بھی نہیں آتے کہ جو موسیقی کو کم سے کم درجے میں سنت غیر موکدہ ہی سمجھتے ہوں ہاں بعض اقسام کی موسیقی (قومی و ملی ترانوں سبق آموز نظموں اور جنگی ترانوں کا جواز ضرور ملتا ہے ) لیکن موصوف جس انداز میں چست لباس میں ملبوس عورتوں کے فحش گانوں پر رقص بسمل کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں اس سے تو ہر جدت پسند اور شدت پسند مولوی کا دامن پاک ہے ......

اجی آپ (Striptease) سے لطف اندوز ہوں اور (Lap dance) سے دل بہلائیں مگر خدارا قوم کی بہن بیٹیوں کو اس راہ پر مت لگائیں ...
پی ایس ایل میں ناچتی عورتوں کی گنجائش آپ کے ذاتی اسلام میں تو ہو سکتی ہے
محمد عربی صل الله علیہ وسلم کے اسلام میں نہیں ہاں ہماری اس بات کو شاید موصوف مولوی کی بڑ سمجھ کر نظر انداز کر دیں لیکن جناب من نہ تو قرآن کریم مولویوں کا لکھا ہے اور نہ ہی حدیث مولویوں کی بنائی ہوئی کم از کم خود مطالعہ فرما کر دیکھ لیجئے .........


دوسری جانب موصوف خالص حسن نثاری اسٹائل میں مولویوں کا گریبان پکڑ کر انہیں جھنجھوڑتے دکھائی دیتے ہیں .......

ارے او ظالمو ... ! مغرب کی بنائی ہوئی مادی چیزوں کو استعمال کرتے ہو اور عمل اپنے
نبی (صل الله علیہ وسلم ) کی سنّت پر شرم سے ڈوب مرو ...


لعنت ہے تم لوگوں پر ارے جاہلو ... سر چارلس ڈارون کی رسالت پر ایمان لاؤ اور بندر کو اپنا باپ تسلیم کر لو ....

لیکن کیا کیجئے ان جاہل عوام کا کہ ان کی قومی غیرت اور خاندانی عصبیت ہی انہیں بندر کو باپ بنانے سے روک دیتی ہے مذھب تو دور کی بات ہے ...

خیر جناب آپ مغرب سے مستعار ثقافت پر بغلیں بجائیں اور بے حیائی کو ترقی کی علامت ٹھہرائیں ہمیں تو ایک واقعہ یاد آ رہا ہے .....

نظم :غلام قادر رہیلہ
علامہ محمّد اقبال : بانگ درا .


رہیلہ کس قدر ظالم، جفا جو، کینہ پرور تھا
نکالیں شاہ تیموری کی آنکھیں نوک خنجر سے


دیا اہل حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
یہ انداز ستم کچھ کم نہ تھا آثار محشر سے


بھلا تعمیل اس فرمان غیرت کش کی ممکن تھی !
شہنشاہی حرم کی نازنینان سمن بر سے


بنایا آہ ! سامان طرب بیدرد نے ان کو
نہاں تھا حسن جن کا چشم مہر و ماہ و اختر سے


لرزتے تھے دل نازک، قدم مجبور جنبش تھے
رواں دریائے خوں ، شہزادیوں کے دیدئہ تر سے


یونہی کچھ دیر تک محو نظر آنکھیں رہیں اس کی
کیا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بار مغفر سے


کمر سے ، اٹھ کے تیغ جاں ستاں ، آتش فشاں کھولی
سبق آموز تابانی ہوں انجم جس کے جوہر سے


رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر لیٹا
تقاضا کر رہی تھی نیند گویا چشم احمر سے


بجھائے خواب کے پانی نے اخگر اس کی آنکھوں کے
نظر شرما گئی ظالم کی درد انگیز منظر سے


پھر اٹھا اور تیموری حرم سے یوں لگا کہنے
شکایت چاہیے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے


مرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھی، تکلف تھا
کہ غفلت دور سے شان صف آرایان لشکر سے


یہ مقصد تھا مرا اس سے ، کوئی تیمور کی بیٹی
مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے میرے خنجر سے


مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے


حسیب احمد حسیب
 
شکر ہے اصل مسلمان میدان میں آگئے میں بھی ماڈریٹ مسلمانوں سے تنگ ہوں ایولوشن قرآن سے ثابت کرتے ہیں دہشت گردی کو حرام کہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
 

طالب سحر

محفلین

طالب سحر

محفلین
جناب انھوں نے شعر لکھ دیا ساری تھیوری ہی غلط ثابت کر دی آپ ابھی تک جواب ڈھونڈھ رہے ہیں۔

ریحان صاحب، آپ نے شاید میرا سوال نہیں پڑھا۔ میں نے پوچھا تھا:
جناب، یہ بندر کو باپ تسلیم کرنے والی بات کیا ڈارون کی تھیوری میں ھے؟

اس کا جواب باآسانی "ہاں" | "نہیں" |" شاید" | "معلوم نہیں" سے دیا جا سکتا تھا (اختیاری طور پر: کچھ وضاحتی مواد کے ساتھ)- لیکن حسیب صاحب نے دو شعر لکھ دئے جس سے نامعلوم شاعر کی یہ رائے تو معلوم ہو گئ کہ ڈارون خود کو بوزنہ سمجھتا تھا، یہ معلوم نہ ھو سکا کہ ڈارون کی اپنی رائے کیا تھی۔

آپ کا کہنا ہے کہ حسیب صاحب نے "ساری تھیوری ہی غلط ثابت کر دی"، اور میرا ابھی بھی سوال یہی ہے کہ ڈارون کی تھیوری ہے کیا؟
 
ڈارون کی تھیوری ہے ۔evolution by the means of natural selection
اور اس کا نظریہ یہ ہے کہ ہر جاندار ایک ہی جد سے آگے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آج والی حالت میں پہنچا ہے۔ وہ جد LUCA کہلاتا ہے۔
 
اکثر تحریروں میں مغرب کو برائیوں کی جڑ کہا جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ پھر بھی علامہ اقبال جیسے عظیم لوگوں کو تعلیم کے لیے مغرب کا رخ ہی کرنا پڑا

"عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال" کے عنوان سے ایک بہترین مضمون محفل پہ موجود ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/عالمی-تہذیبی-کشمکش-اور-علامہ-اقبال.62570/
 
ڈارون کی تھیوری ہے ۔evolution by the means of natural selection

اور اس کا نظریہ یہ ہے کہ ہر جاندار ایک ہی جد سے آگے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آج والی حالت میں پہنچا ہے۔ وہ جد LUCA کہلاتا ہے۔
اوپر جو تحریر موجود ہے اسے کالم کہا جاتا ہے اور اس میں جو پیرایۂ بیان استعمال ہوا ہے وہ ادبی ہے ....
ریحان صاحب، آپ نے شاید میرا سوال نہیں پڑھا۔ میں نے پوچھا تھا:


اس کا جواب باآسانی "ہاں" | "نہیں" |" شاید" | "معلوم نہیں" سے دیا جا سکتا تھا (اختیاری طور پر: کچھ وضاحتی مواد کے ساتھ)- لیکن حسیب صاحب نے دو شعر لکھ دئے جس سے نامعلوم شاعر کی یہ رائے تو معلوم ہو گئ کہ ڈارون خود کو بوزنہ سمجھتا تھا، یہ معلوم نہ ھو سکا کہ ڈارون کی اپنی رائے کیا تھی۔

آپ کا کہنا ہے کہ حسیب صاحب نے "ساری تھیوری ہی غلط ثابت کر دی"، اور میرا ابھی بھی سوال یہی ہے کہ ڈارون کی تھیوری ہے کیا؟


چند امور کی وضاحت کر دوں ...

کسی بھی تحریر پر گفتگو کرتے وقت بنیادی سوال اس کے مرکزی خیال یا اس سے برآمد ہونے والی فکر سے متعلق کیا جاتا ہے اور جب اس پر سیر حاصل گفتگو ہو جاوے تو پھر ضمنی موضوعات کی طرف گفتگو کا رخ پھیرا جاتا ہے ....
آپ کا سوال اسی قبیل سے ہے جیسا کہ اوپر زیک صاحب نے کیا ....

اب پہلے زیک صاحب کو (Striptease) (Lap dance) کی تاریخ اس کی ابتداء اس کے طریقہ کار سے متعلق پوری معلومات فراہم کی جائیں اور اور اگر شیخ الجوجل کی مدد سے وہ معلومات درست ہوں تو زیک صاحب اعتراض اٹھائینگے لو جی یہ کیسے مولوی ہیں (جو کہ میں نہیں ہوں ) ........

اگر جواب غلط ہو تو صرف اس بنیاد پر کالم مسترد ٹھہرے گا .....

آپ نے پوچھا ؟


جناب، یہ بندر کو باپ تسلیم کرنے والی بات کیا ڈارون کی تھیوری میں ھے؟

اب یہاں میں بیان کرونگا جی ہاں میں اس حوالے سے معلومات رکھتا ہوں تو آپ اپنی معلومات کے نتیجے میں میری معلومات غلط ثابت کرنے کی کوشش فرمائینگے ......

اور اگر میں کہونگا نہیں ... ؟

تو پھر کالم کا بنیادی مقدمہ بھی ناقابل تسلیم ٹھہرے گا ........
 
جناب، آپ نے میرے سوال کا جو جواب دیا ھے، وہ واقعی "فکر ھر کس بقدر ہمت اوست" پر پورا اترتا ھے۔
مذکورہ بالا شعر کسی نا معلوم شاعر کا نہیں بلکہ اکبر کا ہے ....
ہاں یہ تسلیم کہ اکبر نظریہ ارتقاء کا ماہر نہیں تھا ..
 
اکثر تحریروں میں مغرب کو برائیوں کی جڑ کہا جاتا ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ پھر بھی علامہ اقبال جیسے عظیم لوگوں کو تعلیم کے لیے مغرب کا رخ ہی کرنا پڑا

"عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال" کے عنوان سے ایک بہترین مضمون محفل پہ موجود ہے
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/عالمی-تہذیبی-کشمکش-اور-علامہ-اقبال.62570/
میں نے ایسا کچھ نہیں کہا .....

یہ کالم میں پڑھ چکا ہوں .
 

طالب سحر

محفلین
ڈارون کی تھیوری ہے ۔evolution by the means of natural selection
اور اس کا نظریہ یہ ہے کہ ہر جاندار ایک ہی جد سے آگے ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آج والی حالت میں پہنچا ہے۔ وہ جد LUCA کہلاتا ہے۔

وضاحت کا بہت شکریہ- تو کیا ڈارون نے یہ لکھا ہے کہ بندر انسان کا باپ ہے؟
 
اب یہاں کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں ....

٢٤ نومبر ١٨٥٩ کو ڈارون کی کتاب

(Origin of Species)

مکمل نام

(On the Origin of Species by Means of Natural Selection, or the Preservation of Favored Races in the Struggle for Life)

کی اشاعت ہوئی اور اسے مقبولیت ملی ...

اسی زمانے میں ایک برطانوی کارٹونسٹ ڈارون کا کیریکیچر بناتا ہے جس میں سر ڈارون کا ہے اور دھڑ بندر کا ہے ...

(British cartoonists presented Darwin's theory in an un threatening way. In the 1870s iconic caricatures of Darwin with an ape or monkey body.)

حوالہ

(Browne, E. Janet (2002), Charles Darwin: Vol. 2 The Power of Place, London: Jonathan Cape, ISBN 0-7126-6837-3)

اگر خود وہاں کے لوگ وہی پھبتی کس سکتے ہیں تو جناب من میں نے کون سی غلطی کر دی .....

گو کہ اس امر سے متعلق تفصیلی بحث کا یہ محل ہے ہی نہیں ....
 
Top