حضرت مہدی کون؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ایک فرقہ کا نام لیکر اس پر حملہ کرنا اگر فرقہ واریت نہیں ہے تو اور کیا ہے اس پر آپ اگر کچھ فرما دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔
اس بارے میں اوپر فرما چکا ہوں غالبا آپ نے جواب غور سے پڑھا نہیں۔کسی کو غلط کام سے باز رکھنے سے پہلے خود غلط و صحیح کا عرفان بھی لازم ہے اور یقینا اس کے لیے منتظم ہونا لازم نہیں بلکہ انداز شستہ اور "حسن خلق" کی ضرورت ہے جس کی کمی آپ کی دونوں پوسٹوں میں ہے۔
جو باتیں میں نے کہیں ان میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ آپ لازما ان سے متفق ہوں تاہم ان کو جٹھلانے کے لیے دلائل کی ضرورت ہے اس کی کمی بھی آپ کی پوسٹ میں پائی جاتی ہے۔
آپ کیچڑ میں رہنے اور دوسروں کو رگیدنے کا شوق پورا کرتے رہیے مجھے کوئی اعتراض نہیں اور اب آپ کے لیے اور اس موضوع کے لیے بہتر ہو گا کہ آپ متعلقہ گفتگو کیجئے اگر۔۔۔ اگر۔۔۔ اگر کچھ دلائل رکھتے ہوں تو!
ذاتیات کا یہ باب میں یہیں بند کرتا ہوں
 

نبیل

تکنیکی معاون
مہوش بہن، من پسند احادیث ماننے والے ہر مکتبہ فکر میں پائے جاتے ہیں، اس میں کسی ایک کی تخصیص نہیں ہے۔
 

خرم

محفلین
ابن حسن مجھے آپکی ذات سے کوئی سروکار نہیں اور نہ آپکو کیچڑ میں رگیدنا مقصد ہے۔ صرف یہ گزارش تھی اور ہے کہ کسی فرقہ کو نشانہ بنائے بغیر اپنے افکار بیان کریں۔
 

سکون

محفلین
بالکل ٹھیک کہا آپ نے، اسی طرح من گھڑت روایتوں اور قصے کہانیوں کو عقیدے کا جزو قرار دینے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی خواہ اس کے لیے دوسروں کو کافر اور واجب القتل بھی قرار دے دیا جائے۔ امید کہ سمجھ گئے ہونگے۔



بہت شکریہ نبیل بھائی اتنی دلائل بیان کرنے کے بعد بھی یہ سب کچھ آپ کو افتراء اور جھوٹے قصے لگ رہے ہیں
میرا خیال ہے (بعض لوگ قرآن مجید سے زیادہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو زیادہ مانتے ہیں) اس لئے میں کچھ احادیث صحیحین سے بیان کرتا ہوں تاکہ آپ کے دل سے یہ گمان دور کیا جاسکے کہ یہ عقیدہ جھوٹے قصے نہیں ہیں بلکہ آپ کے بڑے بڑے علماءٰ نے اس کو ذکر کیا ہے ۔

بخاری اور مسلم دونوں نے اپنی اسناد کے ساتھ حضرت ابوھریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا تمہارا کیا حال ہوگا کہ جب مریم کا فرزند تم پر نازل ہوگا جبکہ تمہارا امام تم میں سے ہوگا (صحیح بخاری ج۴، ص۲۰۵، کتاب الانبیاء و صحیح مسلم ج۱، ح۲۴۴، ص۱۳۶)


مسلم نے اپی اسناد کے ساتھ جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے :



میں نے پیغمبر اکرم(ص) سنا کہ وہ فرما رہے تھے میری امت میں سے ایک گروہ قیامت تک واضح طور پر حق کی خاطر مقابلہ کرے گا پس عیسیٰ بن مریم نازل ہوں گے اس گروہ کے ا میر کہیں گے آئیں ہمارے لئے نماز جماعت اقامہ کریں تو وہ کہیں گے کہ نہیں یقینا آپ میں سے بعض اس امت کی افضلیت کی بنا پر دوسروں پر امیر ہیں (صحیح مسلم ج۱ ،ح۲۴۷، ص ۱۳۷)اوراگر ہم دیگر معتبر احادیث کی کتب کی طرف رجوع کریں اور ان روایات کو وہاں مشاہدہ کریں تو وہ واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ اس گروہ کے ا میر سوائے حضرت مہدی(عج) کے اور کوئی نہیں ہیں مثلا ابن شبیہ ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں:



مہدی اسی امت سے ہیں اور وہ وہی ہیں کہ جو عیسی بن مریم کے لئے امامت کریں گے (المصنف ج۱۵ ح ۱۹۴۹۸)

کتاب فتح باری شرح صحیح بخاری میں احادیث مہدویت کے تواتر پر تصریح کی گئی ہے اسی طرح گذشتہ حدیث کی تشریح میں شارح یہ کہتے ہیں :



حضرت عیسیٰ کا اس امت کے ایک شخص کے پیچھے نماز قائم کرنا چونکہ یہ آخرالزمان اور قیامت کے نزدیک کا زمانہ ہے ۔۔۔۔۔ یہ بذات خود اس کلام کے صحیح اور درست ہونے کی علامت ہے کہ جس میں فرمایا گیا بلاشبہ زمین اللہ تعالی کی طرف سے قائم یا حجت سے خالی نہیں ہوسکتی (فتح باری ج۶ ص ۳۸۳۔۳۸۵)



صحیح بخاری کے دوسرے مفسر و شارح قسطلانی اس حدیث کی تشریح میں کہتے ہیں کہ: حضرت عیسیٰ نماز میں امام مہدی کی اقتدا کریں گے (ارشاد الساری فی شرح صحیح البخاری ج۵ ص ۴۱۹)



اسی طرح صحیح بخاری کی دیگر شروحات مثلا عمدۃ القاری فی شرح صحیح بخاری اور فیض الباری فی شرح الصحیح بخاری میں بھی یہی تصریح کی گئی ہے بلکہ فیض الباری میں ابن ماجہ سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے اور پھر وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں الامام سے مراد وہ امام مہدی ہیں (فیض الباری ج۴ ص ۴۴۔۴۷)


صحیح مسلم کی احادیث

مسلم اپنی اسناد کے ساتھ جابر ابن عبد اللہ سے نقل کرتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: میری ا مت کے آخری دور میں ایک خلیفہ آئیں گے جو فراوان مال عنایت کرے گا اور اسے شمار نہیں کرے گا (صحیح مسلم ج۱۸ ص ۳۸)



انہوں نے اس حدیث کو جابر اور ابوسعید خدری کی دیگر اسناد کے ذریعہ بھی رسول اکرم(ص) سے نقل کیا ہے اہل سنت کی دیگر معتبر احادیث کی کتب کے مطابق یہ فراوان مال عطا کرنے والا خلیفہ سوائے امام مہدی(عج) کے اور کوئی نہیں ہیں ۔



ترمذی نے اپنی اسناد کے ساتھ ابو سعید خدری سے اور انہوں نے رسول اکرم(ص) سے نقل کیا آپ نے فرمایا: مہدی میری امت میں ہے (یہاں تک کہ آپ نے فرمایا )ایک شخص اس کے پاس آئے گا اور کہے گا اے مہدی مجھے مال عطا کر تو وہ اس کے مال اٹھانے کی طاقت کے مطابق اس کی گود میں مال و دولت ڈال دیں گے (سنن ترمذی، ج۴ ،ح ۲۲۳۴)



تو کیا یہ سب افراء ہے اگر یہ سب من گھڑت قصے ہیں تو یہ ہماری کتابوں میں نہیں آپ کی کتابوں میں ہے۔
اب فیصلہ آپ ہی کریں‌کہ ۔کیا اب بھی عقیدہ مہدی ایک فسانہ ہے ۔
 

سکون

محفلین
مہوش بہن، من پسند احادیث ماننے والے ہر مکتبہ فکر میں پائے جاتے ہیں، اس میں کسی ایک کی تخصیص نہیں ہے۔


نبیل بھائی لیکن جو احادیث ہم سب نے بیان کی ہیں وہ ہمارے مکتب سے نہیں آپ کے ہی کتابوں سے ہی روایات لائے ہیں ۔
کیا بآخری شریف اور صحیح ملسم اور شروح بخاری ہماری کتابین ہیں یا آپ کی ؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
سکون، آپ کو آپ کا عقیدہ مبارک ہو۔ ہم یہاں صرف معلومات شئیر کرتے ہیں، کسی کا عقیدہ زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ورنہ یہاں میں کچھ لوگوں کھلی چھوٹ دوں تو شاید آپ دوبارہ یہاں شکل دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں۔ اور یہ ہماری اور تمہاری کتابیں کونسی ہوتی ہیں؟ میں تو قران پر یقین رکھتا ہوں، اس میں تو کوئی امام مہدی کے قصے موجود نہیں ہیں۔ کیا قران کے بعد بھی الہامی کتب نازل ہوئی ہیں جن پر آپ ایمان رکھتے ہیں؟ اور قرانی آیات کے مطالب کو جس بھونڈے انداز میں آپ بگاڑ کر اس سے مہدی کی دلیل برآمد کر رہے ہیں، وہ قادیانیوں کا ہی طریقہ ہے، ان کی کسی سائٹ پر بھی جا کر چیک کر لیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میرے خیال میں اس موضوع شاید علمی انداز میں بات آگے بڑھانا ممکن نہیں رہا ہے۔ خاص طور پر جب جاہل قسم کے لوگ اپنی بات کا آغاز ہی دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار دے کر کریں۔ اگر کسی کو اعتراض نہ ہو تو اس تھریڈ کو مقفل کر دیا جائے گا۔ اور آئندہ اس قسم کے موضوعات شروع کرنے سے گریز کیا جائے تو بہتر ہوگا۔
 

سکون

محفلین
سکون، آپ کو آپ کا عقیدہ مبارک ہو۔ ہم یہاں صرف معلومات شئیر کرتے ہیں، کسی کا عقیدہ زبردستی تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ورنہ یہاں میں کچھ لوگوں کھلی چھوٹ دوں تو شاید آپ دوبارہ یہاں شکل دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں۔ اور یہ ہماری اور تمہاری کتابیں کونسی ہوتی ہیں؟ میں تو قران پر یقین رکھتا ہوں، اس میں تو کوئی امام مہدی کے قصے موجود نہیں ہیں۔ کیا قران کے بعد بھی الہامی کتب نازل ہوئی ہیں جن پر آپ ایمان رکھتے ہیں؟ اور قرانی آیات کے مطالب کو جس بھونڈے انداز میں آپ بگاڑ کر اس سے مہدی کی دلیل برآمد کر رہے ہیں، وہ قادیانیوں کا ہی طریقہ ہے، ان کی کسی سائٹ پر بھی جا کر چیک کر لیں۔


نبیل بھائی پھلی بات تو یہ کہ ۔
آپ کو بھی آپ کا عقیدہ مبارک ہو ۔
دوسری بات یہ کہ
ہم آپ اگر قراں پر ہی ایمان رکھتے ہیں‌تو قراں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں ہے ۔آپ انھیں کیوں مانتے ہیں‌؟اس کا مطلب ہے حدیث کی اہمیت ہی آپ کے پاس نہیں ہے !! آپ سے بات کرنا ہی فضول ہے جب دل چاہا حدیث کو مانا اور جب دل چاہا نہیں مانا۔ اپنی من پسند کی روایات صحاح ستہ سے تو مانتے ہیں‌ لیکن انھیں‌صحاحہ ستہ میں تواتر کی حد تک احادیث موجود ہیں‌وہ سب من گھڑت ہیں‌؟؟ یہ کونسا انصاف ہے ۔؟؟؟ کیا سب چیزقرآن سے ہی ڈھونڈنی ہے ؟تو ڈھونڈو لیکن وہی پرانی بات ۔قرآن میں بہت سی چیزیں موجود نہیں ہین آپ انھین مانتے ہیں اور انھیں حدیث سے ثآبت کرتے ہیں کیونکہ وہ آپ کے فکر کے عین مطابق ہوتی ہیں۔ لیکن جس چیز کو نہ ماننے کا ارادہ ہو اسے آپ نہیں مانتے ۔
تیسری بات یہ کہ ۔
ہم یہاں کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی کسی سے دشمنی لینے کا موڈ ہیے ۔
آپ کا اچھا لگتا ہے اس تھریڈ کو کلوز کردیں ۔ کیونکہ جو حق کا معترف اور حق کو اپنانا چاہتا ہےا س کے لئے اتنی باتیں کافی ہیں ۔
ہماری کسی بات سے آپ کی دل آزاری ہویے ہو تو سوری
خوش رہیں ۔ اپنے خرچہ پہ:grin::grin::grin:
 

نبیل

تکنیکی معاون
سکون، مجھے آپ کی مجبوری کا اچھی طرح سے علم ہے۔ جن لوگوں کو معلوم نہیں انہیں بھی بتا دیتا ہوں کہ سکون ایک بیہودہ سی فرقہ پرست فورم بھی چلاتے ہیں۔ ان جیسوں کا خیال ہوتا ہے کہ بس ہمارا عقیدہ خطرے میں ہے اور اپنے خیال میں اس کا دفاع کرنے نکل پڑتے ہیں اور نتیجہ ویسا ہی نکلتا ہے جیسا اس دھاگے میں ان صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ معاملہ سکون کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ یہاں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جنہیں قران سے الرجی ہے اور قران کی آیات پیش کی جائیں تو پوچھتے ہیں کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے۔ ان کے نزدیک زیادہ اہمیت ان روایات کی ہے جن میں عورتوں کو منحوس، شیطانی اور فتنہ قرار دیا جاتا ہے۔
پہلے صحیح اور ضعیف احادیث ہوا کرتی تھیں، اب متواتر حدیث بھی ایجاد ہو گئی ہے۔ لگتا ہے کہ خاص مہدیت کو عقیدے کا جزو بنانے کے لیے ایک متواتر روایت بنائی گئی ہے۔ دین کے اور کسی خاص حکم کے لیے اس طرح کا تواتر تو نہیں پایا جاتا۔ اس سے آگے کچھ کہوں گا تو مجھ پر بھی منکر حدیث کا لیبل لگ جائے گا۔ یہاں پر کچھ لوگ ویسے ہی دیر نہیں لگاتے اور اپنے بلاگ پر جا کر واویلا مچا دیتے ہیں۔
 

سکون

محفلین
سکون، مجھے آپ کی مجبوری کا اچھی طرح سے علم ہے۔ جن لوگوں کو معلوم نہیں انہیں بھی بتا دیتا ہوں کہ سکون ایک بیہودہ سی فرقہ پرست فورم بھی چلاتے ہیں۔ ان جیسوں کا خیال ہوتا ہے کہ بس ہمارا عقیدہ خطرے میں ہے اور اپنے خیال میں اس کا دفاع کرنے نکل پڑتے ہیں اور نتیجہ ویسا ہی نکلتا ہے جیسا اس دھاگے میں ان صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ معاملہ سکون کے ساتھ ہی نہیں ہے بلکہ یہاں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جنہیں قران سے الرجی ہے اور قران کی آیات پیش کی جائیں تو پوچھتے ہیں کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے۔ ان کے نزدیک زیادہ اہمیت ان روایات کی ہے جن میں عورتوں کو منحوس، شیطانی اور فتنہ قرار دیا جاتا ہے۔
پہلے صحیح اور ضعیف احادیث ہوا کرتی تھیں، اب متواتر حدیث بھی ایجاد ہو گئی ہے۔ لگتا ہے کہ خاص مہدیت کو عقیدے کا جزو بنانے کے لیے ایک متواتر روایت بنائی گئی ہے۔ دین کے اور کسی خاص حکم کے لیے اس طرح کا تواتر تو نہیں پایا جاتا۔ اس سے آگے کچھ کہوں گا تو مجھ پر بھی منکر حدیث کا لیبل لگ جائے گا۔ یہاں پر کچھ لوگ ویسے ہی دیر نہیں لگاتے اور اپنے بلاگ پر جا کر واویلا مچا دیتے ہیں۔

آپ کا شکریہ اتنا تمغہ دینے کا مجھے ایسے بہت سے لوگوں کا پتا ہے جو حق واضح ہو جانے کے بعد گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں ۔یہ بات کوئی نئی بات نہیں ہے۔جب کوئی جواب نہیں رہتا تو ایسے ہی راستے اپناتے ہیں ۔
باقی اہلسنت و اہل تشیع کے کتب میں امام مہدی کے بارے میں احادیث و راوایت تواتر کی حد تک ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں ہے ۔
حق واضح ہوجانے کے بعد اگر کسی کو غصہ آئے تو اور وہ نہ مانے تو اس کی قسمت کی بات ہے۔

میری آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے ۔اور میں کیا کرتا ہوں اور کیا نہیں‌کرتا یہ میرا مسئلہ ہے ۔ کسی کو تکلیف نہیں‌ہونی چاہئے ۔
میں ایک فورم نہیں‌چار فورم چلاتا ہوں ۔
اپ کو اگر اس تھریڈ میں میری شرکت پسند نہیں ہے تو میں نہیں کرونگا میرا یہی مشورہ ہے کہ تھریڈ کلوز کر دیں ۔کیونکہ اتنا کچھ بیان ہو چکا ہے کہ حق کی تلاش کرنے والے کے لئے کوئی دقت نہیں ہوگی۔
کونکہ آپ کے بقول ایسی صحیح روایات موجود موجود ہیں تو پھر ان صحیح روایت کو مان کر بندہ حق تک پہنچ سکتا ہے ۔:grin::grin:
والسلام خدا حافظ
 
سکون، سلام

آپ کو نبیل نے کس قدر سمجھایا لیکن
، صاحب آپ اور بہت سے دوسرے افراد لفظ "حدیث"‌ پر بری طرح‌اٹکے ہوئے ہیں۔ حتی کہ غیر القرآن اور مخالف قران روایات کو بھی آپ حدیث یا سنت نبوی کا درجہ دیتے ہیں۔ کیا اس لئے کہ بس اپنی خواہشات کی پیروی کرنی ہے۔

برادر من۔ آپ ایک سادہ سا اصول مان لیجئیے کہ آپ غیر قرآنی کچھ بھی تسلیم نہیں کریں‌گے۔ سنت کے سلسلے میں بھی صرف وہ روایت قابل قبول ہے جوغیر القرآن یعنی قرآن سے باہر نہ ہو۔ اگر قرآن اسلام کی اساس نہیں تو پھر کیا ہے صاحب؟‌ اگر اس قرآن الفرقان کو ہٹا دیا جائے تو پھر اسلام میں تو سب کچھ شامل ہوجائے، کوئی حد نہ کوئی حساب۔

آپ کیوں‌ کہتے ہیں‌کہ رسول صلعم پیشین گوئیاں‌کرتے تھے؟
آپ نے رسول اکرم سے اتنی ساری پیشین گوئیاں لکھیں ہیں یہ سب قرآن کی کس آیت کی ترجمانی ہے اور قرآن میں‌کہاں‌کہاں موجود ہیں؟

رسول اکرم نے کوئی پیشین گوئی نہیں کی اور خاص طور پر کسی بھی مہدی کی پیشن گوئی رسول اکرم فرما ہی نہیں سکتے تھے۔ ثبوت دیکھئے
[AYAH]72:26[/AYAH] وہ عالم الغیب ہے پس نہیں مطلع فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو۔

طنز:
ارے یہ کیا، اللہ تعالی نعوذ‌ باللہ جھوٹ‌بول رہے ہیں کیا؟ غیب کا حال تو بچہ بچہ کو معلوم ہے۔

شدید طنز:
ہم نے تو علم الغیب سے مہدی علیہ السلام کا شجرہ اور ان کی تاریخ‌پیدائش اور ان کے آنے کی تاریخ‌، وقت مع سیکنڈ کی کس چوتھائی میں آئیں گے نکال رکھا ہے۔ اس میں مدد کسی اور نے تھوڑی کی تھی، نعوذ‌باللہ نبی اکرم نے خود کی تھی۔

[AYAH]6:59[/AYAH] اور اُسی کے پاس ہیں کنجیاں غیب کی نہیں جانتا اُنہیں کوئی سوائے اس کے اور وہ تو جانتا ہے اسے بھی جو خشکی میں ہے اور جو سمندر میں ہے اور نہیں جھڑتا کوئی پتہ مگر وہ اس کے علم میں ہے اور نہ کوئی دانہ زمین کے تاریک پردوں میں (ایسا ہے)اور نہیں کوئی تر اورنہ کوئی خشک (چیز)مگروہ روشن کتاب میں (درج)ہے

[AYAH]10:20[/AYAH] اور کہتے ہیں کہ کیوں نہیں نازل کی گئی اُس پر کوئی نشانی اُس کے رب کی طرف سے سو کہہ دو! حقیقت ہے کہ غیب کا علم صرف اللہ ہی کو ہے سو انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں شامل ہوں

[AYAH]19:78[/AYAH] کیا پتہ چل گیا ہے اُس کو غیب کا یا لے رکھا ہے اُس نے رحمٰن سے کوئی عہد؟

[AYAH]7:188[/AYAH] آپ (ان سے یہ بھی) فرما دیجئے کہ میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا خود مالک نہیں ہوں مگر (یہ کہ) جس قدر اللہ نے چاہا، اور (اسی طرح بغیر عطاءِ الٰہی کے) اگر میں خود غیب کا علم رکھتا تو میں اَز خود بہت سی بھلائی (اور فتوحات) حاصل کرلیتا اور مجھے (کسی موقع پر) کوئی سختی (اور تکلیف بھی) نہ پہنچتی، میں تو (اپنے منصب رسالت کے باعث) فقط ڈر سنانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں٭

تو یہ واضح ہے کہ غیب کا علم کسی کو نہیں ملا، حتی کہ رسول کو بھی یہ علم نہیں ملا ، جبکہ غیب کے حالات سے رسول اکرم کو چند بار بتایا۔ لیکن اللہ تعالی نے جب بھی غیب کے بارے میں رسول اکرم کو بتایا تو بہت ہی واضح‌ طور پر بتایا ہے، اس میں‌کسی مہدی کا تذکرہ نہیں ہے۔ تو پھر کیوں‌ رسول اکرم سے اپنی مرضی کی روایات منسوب کرتے ہیں؟ کیا آپ کو ذاتی علم ہے یا کسی کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلارہےہیں ۔ یاد رکھئے کہ آپ کی ان غیر قرآنی روایات کی تبلیغ و اشاعت آپ کا اپنا فعل ہے۔ اس کے ذمہ دار بھی آپ ہیں۔ یہ آپ کا عمل ہے اور اس کی جزا و سزا آپ کا ہی حق ہوگی۔ یہی کچھ میرے لئے بھی درست ہے۔ جس بات کی میں‌نے خوب تحقیق کرلی ہے اس کا ہی حوالہ قرآن سے دیتا ہوں۔ ورنہ جواب ہی نہیں دیتا۔

[AYAH]11:49[/AYAH] یہ خبریں ہیں غیب کی جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف (اے نبی)، نہیں جانتے تھے یہ باتیں تم اور نہ تمہاری قوم اس سے پہلے، لہٰذا صبر کرو، یقیناً انجامِ کار متقیون کے حق میں ہے۔

[AYAH]9:94 [/AYAH] (اے مسلمانو!) وہ تم سے عذر خواہی کریں گے جب تم ان کی طرف (اس سفرِ تبوک سے) پلٹ کر جاؤ گے، (اے حبیب!) آپ فرما دیجئے: بہانے مت بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات پر یقین نہیں کریں گے، ہمیں اﷲ نے تمہارے حالات سے باخبر کردیا ہے، اور اب (آئندہ) تمہارا عمل (دنیا میں بھی) اﷲ دیکھے گا اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی (دیکھے گا) پھر تم (آخرت میں بھی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے (رب) کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں ان تمام (اعمال) سے خبردار فرما دے گا جو تم کیا کرتے تھے

مسلمان غیر القرآن کو مٹا دیتے ہیں۔
ایسا کیوں؟ دیکھئے ریفرنس کے ساتھ۔
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851
[ARABIC]‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار ‏ [/ARABIC]

میری سمجھ میں آنے والا مفہوم :
میری طرف سے مت لکھو ، اور جس نے میری طرف سے غیر قرانی لکھا ہو وہ اسے مٹا دے ، اور کوئی حرج نہیں کہ میری طرف سے ( میری کہی گئی) بات کرو ، اور جس نے میرے بارے میں جھوٹ بولا ،---- ھمام سند میں ایک روای کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ نبی نے یہ بھی کہا کہ "جان بوجھ کر" (جھوٹ بولا ) تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناتا ہے
صحیح مسلم ، کتاب الزھد و الرقاق ، باب التثبت فی الحدیث و کتابۃ العلم ،"

دیکھئے
‏لا تكتبوا عنی :‌تم نہیں لکھو میری طرف سے
ومن كتب عني غير القرآن فليمحہ :‌اور جس نے لکھا ہے میری طرف سے غیر قرآنی ، مٹادے

غیر قرانی یہاں پر قرآن کے علاوہ یعنی رسول کی سنت کی روایات کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے۔
بلکہ جیسے کہتے ہیں ۔ غیر انسانی سلوک۔ انسانیت سے باہر کا سلوک
یا غیر مسلم - وہ جو مسلمان ہونے کے دائرہ میں‌نہ ہو۔
یا غیر ملکی - جو اس ملک کا نہ ہو۔
اس طرح‌ اردو میں ہم کہہ سکتے ہیں غیر قرآنی - جو قرآن میں شامل نہ ہو غیر قرانی یا قرآن سے باہر کا ہو۔

آپ کو غیر القرآن روایات کے بارے میں بہت ہی واضح رسول اکرم کا حکم مل گیا۔ آب آپ بتائیے کہ یہ روایات جو غیر القرآن ہیں‌ ان کو مستند قرار دینے پر کچھ لوگ کیوں مستعد ہیں؟

بھائی سکوں، اب آپ بتائیے کہ اللہ تعالی نے مہدی علیہ السلام کے بارے میں‌قرآن میں کہاں کہاں ‌بتایا ہے۔ اگر آپ کو جواب یہ ہے کہ یہ قرآن کے باہر کی بات ہے یعنی غیر القرآن ہے تو بہت سادی بات ہے ۔ یا تو آپ رسول صلعم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اس غیر القرآن کو تلف کردیجئے۔ یا پھر آپ ان روایات کو مانتے رہئیے ، ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے رہئیے کہ میں غیر القرآن پر بھی یقین رکھتا ہوں۔ جبکہ اور مسلمان رسول اکرم کے حکم کے مطابق غیر القرآن کو تلف کردیتے ہیں۔ اس کو پھیلاتے نہیں ہیں۔

کیوں‌ رسول اکرم سے اپنی مرضی کی روایات منسوب کرتے ہیں؟ کیا آپ کو ذاتی علم ہے یا کسی اور کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلارہےہیں ۔ یاد رکھئے کہ ان غیر قرآنی روایات کی تبلیغ و اشاعت آپ کا اپنا ذاتی فعل ہے۔ اس کے ذمہ دار بھی آپ ہیں۔ یہ آپ کا عمل ہے اور اس کی جزا و سزا آپ کا ہی ملے گی۔ یہی کچھ میرے لئے بھی درست ہے۔ جس بات کی میں‌نے خوب تحقیق کرلی ہے اس کا ہی حوالہ قرآن سے دیتا ہوں۔ ورنہ جواب ہی نہیں دیتا۔

والسلام
 
میں‌نے اس ضمن میں‌کبھی کوئی بات نہیں کی۔ آپ کا یہ بیان آپ کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔ اور اگر مثال ہے تو انتہائی بے معنی مثال ہے۔

سجدہ تعظیمی اور منکرینِ احادیث حضرات
5۔ اور اب فاروق صاحب اور دیگر منکرین حدیث کے اس لائسنسن کا سب سے خطرناک اور مہلک پہلو کہ جس کے فتنے کے متعلق میں بار بار انہیں خدا کا واسطہ دے کر سمجھا رہی ہوں٫۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ یہ کہ رسول اللہ ص کی اس واضح حکم کے باوجود [کہ اب اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ جائز نہیں] پھر بھی ایسے گمراہ لوگ ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر یہ حرام کام انجام دیتے ہیں اور فاروق صاحب کے اسی لائسنس کے تحت قرانی آیات سے کھیل رہے ہیں اور آرگومنٹ دیتے ہیں کہ:

۔ قران میں اتنی ساری جگہ بالکل صاف واضح، اور روشن طور پر انبیاء علیھم السلام کے آگے سجدے کا حکم ہے، تو پھر ان کی موجودگی میں کوئی [انکے زعم میں] گھڑی ہوئی اس ایک روایت کو کیوں مانے؟؟؟؟؟؟؟؟

تو کاش فاروق صاحب جیسے منکرین حدیث حضرات دیکھیں اور عبرت حاصل کریں کہ انکا یہ لائسنس کتنے فتنوں کا دروازہ کھول چکا ہے اور مستقبل میں نجانے کتنی اور بربادیاں امت پر لائے گا۔
ہ۔

سب سے پہلی بات تو یہ کہ جو کچھ مہوش بہن نے کہا ہے وہ ان کے ذہن کی اپنی اختراع ہے میں نے کبھی اس ضمن میں کچھ نہیں کہا۔

بہن مہوش نے اپنی طرف سے ایک صورتحال کھڑی کی قرآن میں سجدہ تعظیمی یعنی غیر اللہ یعنی اللہ کے علاوہ دیگر افراد کو سجدہ کا تذکرہ آیا ہے ۔ لہذا سجدہ تعظیمی درست ثابت ہوا۔
اب بہن مہوش اپنی معلومات کی کمی کی وجہ سے صرف اور صرف رسول اکرم سے منسوب کرتے ہوئے کہتی ہیں‌ کہ سجدہ تعظیمی تو رسول اکرم نے ختم کیا۔ جی؟ اور اس کا ثبوت کیا ہے؟

اقتباس:
3۔ مگر سجدہ تعظیمی کی اس حرمت کے متعلق کہیں بھی قران میں ایک بھی آیت موجود نہیں
[بلکہ فاروق صاحب اور دیگر منکرین حدیث حضرات کے دعوے کے بالکل برعکس بالکل واضح، روشن و صاف و غیر مبہم قرانی آیت تو ایک طرف رہی، کوئی غیر مبہیم آیت بھی سجدہ تعظیمی کو حرام قرار نہیں دے رہی۔
بلکہ اگر قران میں کچھ ہے تو وہ واضح اور صاف اور روشن طور پرسجدہ تعظیمی کو حلال بیان کر رہا ہے۔


تو بہن مہوش علی نے بہت آسانی سے یہ ثابت کردیا کہ قرآن سجدہ تعظیمی یعنی غیر اللہ کو سجدے کرنے کے بارے میں تذکرہ کرتا ہے ، لہذا یہ قرآن کی رو سے یہ حلال ہی رہا۔ کبھی ختم نہیں‌ہوا۔

اب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کیا صرف اللہ تعالی کو سجدے کے لئے کہا یا نہیں، دوسرے معبود نہ بنانے اور اللہ کو سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے کے بارے میں ؟

[ayah]15:95[/ayah] یقینا ہم کافی ہیں تمہاری طرف سے (خبر لینے کو) ان مذاق اُڑانے والوں کی۔
[ayah]15:96[/ayah] وہ (مذاق اُڑانے والے) جو ٹھہراتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسرے معبود، سو عنقریب اُنہیں معلوم ہوجائے گا۔
[ayah]15:97[/ayah] اور یقینا ہمیں معلوم ہے کہ سخت کوفت ہوتی ہے تمہارے دل کو اُن باتوں سے جو یہ کہتے ہیں۔
[ayah]15:98[/ayah] پس تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور ہوجاؤ شامل سجدہ کرنے والوں میں۔
[ayah]15:99[/ayah] اور بندگی کرتے رہو اپنے رب کی یہاں تک کہ آجائے تم پر امر یقینی (موت)۔

[ayah]22:77[/ayah] اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو

اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرنے کو شیطانی عمل قرار دینا ہدایت سے دور قرار دینا۔
[ayah]27:24[/ayah] میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اَعمالِ (بد) ان کے لئے خوب خوش نما بنا دیئے ہیں اور انہیں (توحید کی) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہے

جو لوگ ان آیات پر ایمان لائے ہیں وہی سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں
[ayah]32:15 [/ayah] پس ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں اُن (آیتوں) کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبّر نہیں کرتے

اور صرف اللہ کو سجدہ کیا کرو، نہ چاند کو اور نہ سورج کو ، بہت ہی واضح ہدایت، جو کسی بھی غیر اللہ کو سجدہ سے منع کرتی ہے۔
[ayah]41:37[/ayah] [arabic]وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ[/arabic]
اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اﷲ کے لئے کیا کرو جس نے اِن (سب) کو پیدا فرمایا ہے اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو

بہن مہوش علی آپ سے گذارش ہے کہ بہتر یہ ہے کہ آپ قرآن کا مطالعہ کیجئے۔ اور روزانہ کیجئے۔
اپنے ذہن و دل سے یہ بات نکال دیجئے کہ میں سنت رسول اللہ صلعم کو مستند نہیں سمجھتا۔ وہ سنت رسول ان روایات کی کتابوں میں غیرالقرآن نہیں وہ مستند اور صحیح ہیں۔ اگر کسی غیر القرآن امر پر آپ کا ایمان ہے تو کون کسی کو منع کرتا ہے۔
 
تو بھائی جی:
1۔ سب سے پہلے یہ کہ میں نے عرض کر دی تھی کہ ہم لوگ قرانی آیات کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑنے موڑنے کی بجائے اقوال نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی روشنی میں سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ اور یہ محض اس دفعہ اتفاق ہے کہ آپکی تفسیر بالرائے اور ہماری تفسیر اس آیت پر ایک ہی ہے۔
لہذا، میں نے کبھی یہ بحث ہی نہیں کہ اس آیت کا یہ ترجمہ غلط ہے۔
گویا آپ متفق ہیں کہ آپ کی تفسیر اور میرا فراہم کردہ مفہوم میں کوئی اختلاف رائے نہیں۔
2۔ بلکہ میرا آپ پر اعتراض یہ تھا کہ جس لائسنس کے تحت آپ آیات کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑتے مڑوڑتے ہیں، اسی لائسنس کے تحت ہزاروں دیگر عقائد رکھنے والے ان قرانی آیات سے اپنی مرضی کے مطابق کھیلتا پھرتا ہے اور بس فتنہ ہی فتنہ پھیلتا ہے۔
‌آپ کس لائسنس کی بات کررہی ہیں؟ آپ دیکھتی ہیں کہ میں‌ صرف حوالہ فراہم کرتا ہوں جو 23 عدد تراجم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یہ وہ تراجم ہیں جو ایک مستند تصویر پیش کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ میں مترجم قران نہیں ہوں۔ اگر ضرورت ہو تو نکات واضح کرنے کے لئے ترجمہ کے ساتھ وجوہات فراہم کردیتا ہوں یا اہم نکات کی طرف اشارہ کردیتا ہوں، آپ کو کس ترجمہ کے توڑنے مڑوڑنے کی شکایت ہے۔ ایک مثال عطا فرمائیے تاکہ میں درست اور متفق علیہ ترجمہ کی طرف اشارہ کرکے اپنی تصحیح کرسکوں۔ ممکن ہے کوئی غلطی ہوگئی ہو۔

3۔ اور جس آیت کے متعلق بحث ہے، وہ ہے:
[arabic]وَإِن مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلاَّ لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا[/arabic]
ترجمہ: اور نہیں کوئی اہلِ کتاب میں سے مگر ضرور ایمان لائے گا اسکی/[اپنی] موت سے پہلے اور قیامت کے دن ہوگا میسح ان پر گواہ۔
تو جو بہکے ہوئے فتنے فاروق صاحب کا قرانی آیات کی تفسیر کے معاملے میں جاری کیا گیا لائسنس استعمال کرتے ہیں، وہ "بہ" کا ترجمہ "اسکی" یعنی مسیح کی موت کی بجائے "اپنی" موت کر دیتے ہیں۔ کاش کہ فاروق صاحب دیکھ سکیں کہ انکا یہ لائسنسن کتنا بڑا فتنہ و بربادی ہے۔
میں نے کس کو لائسنس جاری کیا ہے ، صاحب؟ اگر کوئی دوسرا فرقہ ترجمہ درست نہیں کرتا تو ہم آپ کیا کرسکتے ہیں؟
اور جس طرح فاروق صاحب عجیب استدلال لا رہے ہیں کہ "بہ" واحد کا صیغہ ہے جمع کا نہیں [جبکہ یہاں واحد و جمع کی بحث ہی نہیں آ رہی اور "بہ" سے یہ بہکے ہوئے فتنے "اپنی" موت مراد لے رہے ہیں جو کہ پھر واحد کا صیغہ ہے۔ پتا نہیں فاروق صاحب پھر کیوں اس واحد جمع کے صیغوں کی بحث دہرا رہے ہیں جبکہ میں بالکل صاف طور پر اپنی پچھلی پوسٹ میں انکا بیان کردہ ترجمہ لکھ چکی ہوں جو کہ انہوں نے فاروق صاحب کے قرانی لائسنسن پر چلتے ہوئے یعنی اقوال نبی [ص] کو ٹھکراتے ہوئے کیا ہے۔ [میری اس پچھلی پوسٹ کا لنک یہ ہے]
[arabic]مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ[/arabic] : یہ تمام اہل کتاب ہوئے جو کہ ایک جمع کا صیغہ ہے، عربی زبان کے مطابق اگر آپ ان کے بارے میں جب کہیں گے تو "بہ" استعمال نہیں ہوگا۔ میں اس امر کی وضاحت کررہا تھا کہ، محترمہ یہ "بہ" اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ یہ " ان اہل کتاب کی اپن " موت کے لئے استعمال نہیں ہوا۔ جو لوگ، اس کے ایسے معانی کرتے ہیں ، ان کا ہم کیا بگاڑ سکتے ہیں؟
اپنی اس پوسٹ سے میں یہ چھوٹا سا اقتباس اذہان تازہ کرنے کے لیے دے دوں:
کاش کہ فاروق صاحب پھر اس بلاوجہ کی واحد و جمع کی بحث لانے کی بجائے غور کریں اور دیکھیں انکا لائسنسن کا یہ ٹوکن ہزاروں لوگ انہی کے خلاف استعمال کر رہے ہوں گے اور قرانی آیات سے متعلق اقوال و تفسیر نبوی [ص] کو ٹھکرا کر، نظر انداز کر کے ان قرانی آیات سے کھیل کھلواڑ کر رہے ہوں گے۔
بہت سے اقوال اور تفاسیر قرآن پہلے ہی کھیل کھلواڑ ہے۔ قادیانی 100 سال پرانے ہیں‌، میں تو اس وقت تھا بھی نہیں :) دیکھئے بنیادی بات کچھ اور ہے۔ اس پر زور دیجئے۔ اگر کوئی قرآن کو دوسرے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتا ہے تو یہ اس کا فعل ہے، اسکا حساب بھی اس کے ذمہ۔

کیا عقیدہ ظہور عیسی ابن مریم علیہ السلام پر قرانی آیات بالکل واضح، صاف، روشن اور غیر مبہم ہے؟
فاروق صاحب نے عقیدہ ظہور عیسی ابن مریم علیہ السلام پر صرف اور صرف ایک آیت ثبوت کے طور پر پیش کی ہے۔
میں نے اس تھریڈ کی 90 پوسٹ میں مکمل طور پر ثابت کیا ہے کہ مختلف فرقوں کے لوگ کس طرح اس آیت کو فاروق صاحب کے جاری کردہ لائسنس کے مطابق کسطرح اقوال نبی ص کو ٹھکراتے ہوئے کیسے اس آیت سے کھیلتے ہیں۔

آپ لوگوں سے درخواست ہے کہ آپ لوگ اس پوری پوسٹ کا مطالعہ کیجئے اور پھر خود فیصلہ کیجئِے کہ کیا واقعی یہ فاروق صاحب کے دعوے کے مطابق عقیدہ ظہور عیسی ابن مریم کے متعلق بالکل واضح، روشن اور غیر مبہم آیت ہے یا نہیں۔

گمراہ فرقے جو کہ عقیدہ ظہور عیسی علیہ السلام کے منکر ہیں وہ یہی تو اعتراض کر رہے ہیں کہ اگر عقیدہ ظہور عیسی کو اللہ نے قران میں بیان فرمانا ہی تھا تو قران میں دس پندرہ مرتبہ مختلف مقامات پر بالکل صاف اور واضح اور غییر مبہم آیات کیوں نہ بیان کر دیں؟ مثال کے طور پر جیسے "اور عیسی ابن مریم قرب قیامت سے قبل پھر ظہور کرے گا"۔ تو ایسی بالکل واضح و روشن آیات کو اگر اللہ قران میں دس پندرہ جگہ بیان کر دیتا تو کوئی اس میں شک نہ کر سکتا۔

تو فاروق صاحب، تو اب آپ دیجئیے ان گمراہ فرقوں کے اعتراضات کا جواب جو آپ کے تحت آپ ہی کی لات کھینچ رہے ہیں۔ اور کیجئیے انہیں ثابت کہ عقیدہ ظہور عیسی کے متعلق سورہ النساء کی آپکی بیان کردہ آیت غیر مبہم نہیں بلکہ بالکل واضح اور روشن ہے۔
دیکھئے آپ کبھی عقیدہ ظہور عیسی کی بات کرتی ہیں‌اور کبھی فرماتی ہیں کہ یہ نکتہ بحث نہیں۔ اپن ذہن ایک طرف طے کرلیجئے۔ آپ کو ایک آیت میں‌موجود معانی قبول نہیں۔ انشاء اللہ کوشش کروں‌گا کہ آپ کو مزید آیات فراہم کرسکوں۔ لیکن یہ کہنا کہ حضرت عیسی کا نزول قرآن سے ثابت نہیں اسی طرح مہدی کا نزول بیھ قرآن سے ثابت نہیں ، کچھ زیادہ نہیں ہوجاتا؟

آپ کا زور ہے اس بات پر کہ غیر قرآنی حوالہ جات کو درست تسلیم کر لیا جائے۔ چاہے اس کی کوئی بھی وجہ ہو۔ تو آپ ایسا کیجئے اس پر یقین رکھئے۔ اگر آپ کے خیال میں قرآن اساس نہیں ہمارے ایمان کی تو کیا ہے۔ کیا قرآن کے علاوہ بھی کوئی ایسی کتاب موجود ہے جو مکمل طور پر درست ہو؟ جس میں [ayah]2:2[/ayah] [arabic]ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ[/arabic] موجود ہے اور قرآن اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر کوئی ایسی کتاب ہے تو نشاندہی فرمائیے تاکہ ہم بھی اس سے استفادہ حاصل کرسکیں

آپ کو جو تفاسیر اور حکایات اور روایات غیر قرآنی پسند ہوں‌ اور ان پر آپ کا ایمان ہے تو بہن میں کون ہوتا ہوں آپ کے دین کو تبدیل کرنے والا۔ نہ میں‌آپ کو کہتا ہوں کہ آپ اپنی سوچ میں کوئی تبدیلی لائیے۔ بس اتنا مان لیجئے کہ جو کچھ حضرت مہدی کے نزول کے سلسلے میں پیش کیا گیا ہے ، وہ غیر قرآنی ہے۔

رہی میری بات تو بہن میں صرف اور صرف ایک طالب علم قرآن ہوں، صرف حوالہ شئیر کرتا ہوں۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
پہلے صحیح اور ضعیف احادیث ہوا کرتی تھیں، اب متواتر حدیث بھی ایجاد ہو گئی ہے۔ لگتا ہے کہ خاص مہدیت کو عقیدے کا جزو بنانے کے لیے ایک متواتر روایت بنائی گئی ہے۔

نبیل صاحب !
ضعیف ، صحیح ، متواتر اور دوسری تمام اقسام حدیث کوئی آج یا کل نہیں بنائی گئیں ۔ بلکہ یہ تو علمائے متقدمین نے حدیث کو پرکھنے اور صحیح اور غلط کو جدا جدا کرنے کے لیے کسوٹی بنائی ہے ۔ اور کافی عرصہ سے علم اصول حدیث رائج ہے ۔۔

ہاں شاید آپ نے کبھی اصول حدیث کا مطالعہ نہ کیا ہو۔ یا شاید آپ کے علم میں نہ ہو۔

متواتر ایسی حدیث کو کہتے ہیں ۔۔

جسے اتنی کثرت روایت کرےکہ اس کثرت کے جھوٹ پر متفق ہونے کو محال "ناممکن" سمجھا جائے ۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
تجزیہ

میں نے تقریبآ 4 گھنٹے صرف کیے ہیں اس تمام دھاگے کو پڑھنے کے لیے ۔۔

مجھے افسوس ہے کہ بحث ایسی نہج پر پہنچ چکی ہے جہاں افہام و تفہیم کی بجائے ہٹ دھرمی اور ضد غالب آچکی ہے ۔۔

عقیدہ مہدیت بڑی شد و مد کے ساتھ عالم اسلام کے ایک اکثریتی گروہ نے قبول کیا ہے ۔ اور دوسرے اکثریتی گروہ نے کچھ تامل یا ردو بدل کے ساتھ قبول کیا ہے ۔

دو اکثریتی گروہوں کے قبول کرنے سے کم از کم اس بات کا تو یقین ہو ہی جانا چاہیے کہ اس عقیدہ کی کچھ نہ کچھ اصل ضرور ہے ۔ چاہے وہ غیر اسلامی / غیر قرآنی ہو یا عین اسلامی / قرآنی ۔

قرآن بے شک صحیح اور غلط کو پرکھنے کی اعلی ترین کسوٹی ہے۔ اور حجت ہے ۔۔ لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ قرآن کس جگہ عقیدہ مہدیت سے انکاری ہے ۔ "میرے علم میں کوئی صریح نص نہیں" اگر کوئی مہربانی کرے تو ممنون ہوسکوں "

اگر قرآن اتنا ہی کافی و شافی ہوتا اور اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہ ہوتی تو پھر نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور اس شان سے آمد کی کوئی حاجت ہی نہیں تھی ۔۔
یا پھر حدیث کی کوئی حاجت ہی نہیں تھی ۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں اتنی لمبی چوڑی تقریریں کرتے رہے ۔
اور صحابہ نے کیوں ان کی تقاریر کو محفوظ کرنا اپنا مقصد اورنصب العین بنایا اور کیوں احادیث کے حصول کے لیے اتنے لمبے سفر کیے ۔۔
بات صرف ضد کی ہے ۔۔
ورنہ قرآن پاک صریح فرما رہا ہے ۔۔
اگر تم کسی چیز میں جھگڑا کرو تو اسے لوٹا دو اللہ اور اس کے رسول"صلعم" کی طرف
وہ گروہ جو احادیث کو نہیں مانتے ان سے تو اس بات کی توقع ہی نہیں‌رکھی جا سکتی کہ وہ عقیدہ مہدیت کو تسلیم کریں گے بلکہ کسی بھی حدیث کو تسلیم کریں گے۔
البتہ جو لوگ احادیث کومانتے ہیں اور ان کی حجیت کو تسلیم کرتے ہیں ۔
تو وہ اس سے انکار نہیں کریں گے ۔ کیونکہ بہت سی احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے اور وہ احادیث روایت و درایت کے معیار پر بھی پوری اترتی ہیں ۔
منکرین حدیث کو تو پہلے حجیت حدیث اور اہمیت حدیث کو سمجھنا ہو گا ۔۔
ان کے لیے کچھ ابتدائی مواد یہاں موجود ہے
باقی میری گزارش یہی ہے کہ اس دھاگے سے غیر متعلقہ مباحث کو خارج کر دیا جائے اور اب اسے مقفل کر دیا جائے کیونکہ یہاں‌سے کسی کا نتیجہ پر پہنچنا امر محال است
اللہ سب کو ہدایت عطا فرمائے ۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں‌نے اس ضمن میں‌کبھی کوئی بات نہیں کی۔ آپ کا یہ بیان آپ کے اپنے ذہن کی اختراع ہے۔ اور اگر مثال ہے تو انتہائی بے معنی مثال ہے۔



سب سے پہلی بات تو یہ کہ جو کچھ مہوش بہن نے کہا ہے وہ ان کے ذہن کی اپنی اختراع ہے میں نے کبھی اس ضمن میں کچھ نہیں کہا۔

بہن مہوش نے اپنی طرف سے ایک صورتحال کھڑی کی قرآن میں سجدہ تعظیمی یعنی غیر اللہ یعنی اللہ کے علاوہ دیگر افراد کو سجدہ کا تذکرہ آیا ہے ۔ لہذا سجدہ تعظیمی درست ثابت ہوا۔
اب بہن مہوش اپنی معلومات کی کمی کی وجہ سے صرف اور صرف رسول اکرم سے منسوب کرتے ہوئے کہتی ہیں‌ کہ سجدہ تعظیمی تو رسول اکرم نے ختم کیا۔ جی؟ اور اس کا ثبوت کیا ہے؟

اقتباس:
3۔ مگر سجدہ تعظیمی کی اس حرمت کے متعلق کہیں بھی قران میں ایک بھی آیت موجود نہیں
[بلکہ فاروق صاحب اور دیگر منکرین حدیث حضرات کے دعوے کے بالکل برعکس بالکل واضح، روشن و صاف و غیر مبہم قرانی آیت تو ایک طرف رہی، کوئی غیر مبہیم آیت بھی سجدہ تعظیمی کو حرام قرار نہیں دے رہی۔
بلکہ اگر قران میں کچھ ہے تو وہ واضح اور صاف اور روشن طور پرسجدہ تعظیمی کو حلال بیان کر رہا ہے۔


تو بہن مہوش علی نے بہت آسانی سے یہ ثابت کردیا کہ قرآن سجدہ تعظیمی یعنی غیر اللہ کو سجدے کرنے کے بارے میں تذکرہ کرتا ہے ، لہذا یہ قرآن کی رو سے یہ حلال ہی رہا۔ کبھی ختم نہیں‌ہوا۔

اب دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے کیا صرف اللہ تعالی کو سجدے کے لئے کہا یا نہیں، دوسرے معبود نہ بنانے اور اللہ کو سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے کے بارے میں ؟

سورۃ الحجر:15 , آیت:95 یقینا ہم کافی ہیں تمہاری طرف سے (خبر لینے کو) ان مذاق اُڑانے والوں کی۔
سورۃ الحجر:15 , آیت:96 وہ (مذاق اُڑانے والے) جو ٹھہراتے ہیں اللہ کے ساتھ دوسرے معبود، سو عنقریب اُنہیں معلوم ہوجائے گا۔
سورۃ الحجر:15 , آیت:97 اور یقینا ہمیں معلوم ہے کہ سخت کوفت ہوتی ہے تمہارے دل کو اُن باتوں سے جو یہ کہتے ہیں۔
سورۃ الحجر:15 , آیت:98 پس تسبیح کرو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور ہوجاؤ شامل سجدہ کرنے والوں میں۔
سورۃ الحجر:15 , آیت:99 اور بندگی کرتے رہو اپنے رب کی یہاں تک کہ آجائے تم پر امر یقینی (موت)۔

سورۃ الحج:22 , آیت:77 اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو

اللہ کے بجائے سورج کو سجدہ کرنے کو شیطانی عمل قرار دینا ہدایت سے دور قرار دینا۔
سورۃ النمل:27 , آیت:24 میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ کی بجائے سورج کو سجدہ کرتے پایا ہے اور شیطان نے ان کے اَعمالِ (بد) ان کے لئے خوب خوش نما بنا دیئے ہیں اور انہیں (توحید کی) راہ سے روک دیا ہے سو وہ ہدایت نہیں پا رہے

جو لوگ ان آیات پر ایمان لائے ہیں وہی سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں
سورۃ السجدۃ:32 , آیت:15 پس ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں اُن (آیتوں) کے ذریعے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبّر نہیں کرتے

اور صرف اللہ کو سجدہ کیا کرو، نہ چاند کو اور نہ سورج کو ، بہت ہی واضح ہدایت، جو کسی بھی غیر اللہ کو سجدہ سے منع کرتی ہے۔
سورۃ فصلت / حٰم السجدۃ:41 , آیت:37 [arabic]وَمِنْ آيَاتِهِ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ[/arabic]
اور رات اور دن اور سورج اور چاند اُس کی نشانیوں میں سے ہیں، نہ سورج کو سجدہ کیا کرو اور نہ ہی چاند کو، اور سجدہ صرف اﷲ کے لئے کیا کرو جس نے اِن (سب) کو پیدا فرمایا ہے اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو

بہن مہوش علی آپ سے گذارش ہے کہ بہتر یہ ہے کہ آپ قرآن کا مطالعہ کیجئے۔ اور روزانہ کیجئے۔
اپنے ذہن و دل سے یہ بات نکال دیجئے کہ میں سنت رسول اللہ صلعم کو مستند نہیں سمجھتا۔ وہ سنت رسول ان روایات کی کتابوں میں غیرالقرآن نہیں وہ مستند اور صحیح ہیں۔ اگر کسی غیر القرآن امر پر آپ کا ایمان ہے تو کون کسی کو منع کرتا ہے۔

فاروق صاحب،

کیا آپ میں احساس ختم ہو گیا ہے کہ آپ اپنی اس روش سے قران کی چند آیتوں کے ذریعے قران کی دوسری چند آیتوں کی تکذیب کر رہے ہیں؟

خود سوچئیے جب سورج اور چاند کو سجدہ کی اللہ ممانعت کر رہا ہے تو یہ وہ سجدہ عبادت تھا جو اللہ کو چھوڑ کر کیا جا رہا تھا۔ جبکہ اسی قران میں اللہ بیان کر رہا ہے کہ اس کے حکم سے اولیاء اللہ کو سجدہ کیا جا رہا ہے۔

کسی غیر مسلم کے پاس قران کی یہ آیتیں لے جائیں جو کہ عقل و تدبر رکھتا ہو اور وہ آپکو بتا دے گا یا تو آپکی اس روش میں تضاد ہے، یا پھر معاذ اللہ بذات خود قران میں تضاد ہے۔ اور یہ صرف اور صرف حدیث رسول ہے جو ان قرانی آیات میں مکمل تطبیق کر رہی ہے اور اسے ہر قسم کے تضادات سے پاک کر رہی ہے، اور اس کام کے لیے اسے قران کی چند آیات کی تکذیت دیگر قرانی آیات سے نہیں کرنی پڑ رہی ہے۔

کیا آپ اب بھی اس بات کے منکر ہیں کہ یوسف علیہ السلام اور آدم علیہ السلام کو اللہ کے حکم سے سجدہ [تعظیمی] نہیں کیا گیا؟ قران میں یہ بالکل واضح، روشن اور صاف آیات ہیں کہ اولیاء اللہ کو اللہ کے حکم سے سجدہ کیا گیا [اور اس عبادتی اور تعظیمی سجدے کا فرق صرف حدیث نے ہمیں بتایا] ۔

آپ سے سوال ہے: "جو سجدے آدم اور یوسف علیھم السلام کو کیے گئے کیا وہ:

1۔ یا "عبادتی سجدے تھے؟
2۔ یا "تعظیمی سجدے" تھے؟
3۔ یا پھر یہ "خالی سجدے" تھے؟

آپ اپنی اس منکر حدیث روش کو اپناتے ہوئے صرف قران سے یہ بتائیں کہ یہ کون سے سجدے تھے جو کہ آدم و یوسف علیھم السلام کو کیے گئے؟
اگر قران سے آپ کو عبادتی و تعظیمی سجدے کا فرق نہ مل سکے اور آپ کہیں کہ یہ خالی سجدے تھے تو پھر مان لیجئیے آپکی انکار حدیث روش وہ فتنہ ہے جو قران میں تضاد پیدا کر دے گی کہ ایک طرف اللہ صرف اپنے آپ کو سجدہ کرنے کو کہہ رہا ہے اور دوسری طرف آدم و یوسف {غیر اللہ] کو بھی اپنے حکم سے سجدے کروا رہا ہے۔

چیزیں بہت صاف ہیں اور اس میں کسی فرار کی گنجائش نہیں ۔۔۔۔ مگر یہ کہ ڈبل سٹینڈرڈز۔

اللہ آپ سب پر اور محمد و آل محمد پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔

والسلام۔
 

مہوش علی

لائبریرین
۔۔۔۔ ورنہ ملا کے خود ساختہ دین یہود کی بے ہودہ سازشوں اور اہل فارس کی ریشہ دوانیوں کے باعث میری نظر میں تو صرف نماز کا بھی کوئی ایک ایسا طریقہ نہیں بچتا جسے میں رسول اللہ کی نماز کہہ سکوں۔۔۔ کیونکہ جتینے طریقوں سے ہمارے یہاں نماز راءج ہے وہ سب تو رسول عربی (صلوۃ و سلام ہو تمام انبیاء پر) کے طریقے نہیں ہو سکتے نہ۔۔۔۔

طالوت برادر،
میں مانتی ہوں کہ ہمارے [احادیث کو ماننے والوں کے] مابین نماز پڑھنے میں چند اختلافات ہیں۔
مگر میرا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ چیز اللہ کی سنت ہے کہ: "اللہ انسان کو ہر وقت کسی نہ کسی امتحان میں مبتلا رکھتا ہے۔"
ہمارا ماننا ہے کہ اللہ کی قدرت میں سب کچھ ہے اور اگر اللہ چاہتا ہو وہ نماز پڑھنے کے اوقات اور ہر ہر چیز کا طریقہ قران میں ایسے بیان کر دیتا کہ اختلاف کی گنجائش ہی نہ رہتا۔
مگر نہیں۔ قدرت رکھنے کے باوجود اللہ ایسا نہیں کر رہا۔ اور پیغام انسان کو یہ ہے کہ "کرو جدوجہد اور ڈھونڈو سیدھا رستہ"
اور جب اللہ کی طرف سے ہی یہ چیز "پرفیکٹ" نہیں بنائی گئی تو ہمیں ایمان رکھنا چاہیے کہ جب ہم انسان اپنی کم تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے یہ چیز حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو اس میں اختلافِ رائے ضرور اور بالضرور پیدا ہو گا۔
بلکہ معاذ اللہ اگر کائنات میں ایک کی بجائے دو خدا ہوتے تو قران میں اللہ بطور نصیحت کہہ رہا ہے کہ ان میں بھی تم پھر اختلاف پاتے۔

اور احادیث میں بھی اسلامی شریعت [فقہ} میں انتہائی کم اختلاف ہے۔ زیادہ تر اختلافی چیزیں اہم چیزوں میں ہے جیسے فضائل، تاریخ وغیرہ۔

//////////////////////////

یہ چیز نوٹ کیجئیے کہ نماز ہو یا پھر فقہ کا کوئی بھی مسئلہ، ان میں احادیث ماننے اور چلنے والوں کے مابین اختلافات انتہائی کم ہیں اور فقہ کے قوانین کم از کم 95 فیصد سے زیادہ ایک ہی ہیں۔ اور جن چیزوں میں اختلاف بھی ہے، اُن میں بھی فرق زیادہ تر صرف جزئیات میں ہی ہے اور ایسا بہت کم ہوا ہے کہ اختلاف اتنا بڑا ہو کہ ایک ایک چیز کو حلال کہہ رہا ہو اور دوسرا مطلق حرام۔ زیادہ تر فرق ایسے ہیں کہ ایک کے نزدیک ایک چیز مستحب ہے تو دوسرے کے نزدیک نہیں، یا پھر مباح اور مکروہ کی بحث ہے۔

نماز کو لے لیجئیے۔ تو بتائیے کہ کہاں کہاں فرق ہیں اور کیا یہ فرق "بنیادی جڑ" میں ہے یا پھر "جزئیات" میں؟ تو اب آپ مجھے یہ فرق دکھائیے جیسا کہ آپ اوپر دعوی کر رہے ہیں۔

مگر رکئیے:

پہلے مجھے منکرین حدیث کے نماز کے معاملے میں انکے آپس کے اختلافات دکھانے دیجئیے اور دکھانے دیجئیے کہ منکرین حدیث صرف قران کا دعوی کر کے سب سے زیادہ گمراہ ہیں اور ان کے آپس کے اختلافات بے انتہا ہیں جو اپنے گریبان میں نہ جھانکنے کی وجہ سے انہیں نظر نہیں آتے اور وہ دوسروں کی آنکھ کا کانٹا تو دیکھ رہے ہیں مگر اپنی آنکھ کا شہتیر دیکھنے سے عاجز ہیں۔

ہمارا دعوی کہ منکرین حدیث [خالی قران کا نعرہ لگانے والوں} کے مابیں اختلافات اتنے عظیم ہیں کہ مہلک فتنہ بن چکے ہیں


لیجئیے نماز کا معاملے لیتے ہیں۔ ہمارے مابین تو ہاتھ باندھنے یا کھولنے کا فرق ہے یا پھر اونچی آواز سے تکبیر کہنے یا نہ کہنے جیسے ہی فرق ہیں۔ لیکں میرا دعوی ہے کہ جیسے عظیم الشان قسم کے فرق اس انکار حدیث کے فتنے سے پیدا ہوتے ہیں، اس سے کا عشر عشیر فرق بھی ہمارے مابین نہیں پایا جاتا۔

مثال کے طور پر فاروق صاحب نے نمازوں کی تعداد اور اوقات کے لیے ذیل کے ثبوت دیے ہیں:
از فاروق {اور لنک یہ ہے}
تعداد نماز اورکس کس وقت:
فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کا حکم:
سورۃ هود:11 , آیت:114 اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔

نماز فجر اور عشاء‌کی تعلیم و حکم:
سورۃ النور:24 , آیت:58 اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے

پانچوں نمازوں کی تعلیم اور حکم،:
سورۃ الاسراء / بني إسرآءيل:17 , آیت:78 آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے)

ظہر اور عصر کی نماز کی تعلیم اور اسکاحکم:
سورۃ الروم:30 , آیت:18 اور ساری تعریفیں آسمانوں اور زمین میں اسی کے لئے ہیں اور (تم تسبیح کیا کرو) سہ پہر کو بھی (یعنی عصر کے وقت) اور جب تم دوپہر کرو (یعنی ظہر کے وقت)

عصر کی نماز کی تعلیم اور اسکا حکم:
سورۃ البقرۃ:2 , آیت:238 سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو
اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ پاکستان میں انہی کے منکرین حدیث بھائی بند ہیں جنہوں نے کہ فرض نمازوں کی تعداد ہی کو پانچ وقت سے گھٹا کر دو یا تین وقت کی کر دیا ہے اور دعوی انکا یہی ہے کہ وہ صرف قران پر عمل کر رہے ہیں۔ دیکھا آپ نے کیسے انہوں نے قران میں ہی تضاد پیدا کر دیا؟
[ان حضرات کے متعلق دیکھئیے باذوق صاحب کی پوسٹ اور وقت ملنے پر میں فاروق صاحب کی نماز و دیگر عبادات کا مکمل جواب انہی کے تھریڈ میں دوں گی۔ انشاء اللہ]

تو طالوت صاحب آپ کو یہ عظیم الشان فرق/تضاد نظر آیا؟

بلکہ نہیں۔ آگے بڑھئیے۔۔۔۔ بہت سے عربوں نے اس سے پہلے یہ دعوی کیا ہے کہ عربی انکی زبان ہے اور قران سمجھنے کے لیے انہیں کسی حدیث رسول کی ضرورت نہیں۔ اور پھر یہ عرب حدیث رسول کو ٹھکرا کر ایسے گمراہ ہیں کہ کہتے ہیں "الصلوۃ" کا مطلب مخصوص طریقے سے نماز پڑھنا نہیں بلکہ صرف اور صرف "دعا" کرنا ہے۔

تو طالوت صاحب، حدیث رسول کو ٹھکرا کر خالی قران کا نعرہ لگانے والوں کا یہ عظیم الشان فتنہ آپ کو نظر آیا؟

پھر ایک اور منکر حدیث صاحب اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں جہاد کا مطلب قتال نہیں، بلکہ جدوجہد کرنا ہے۔
اگلے صاحب اٹھتے ہیں اور صوم کا یکسر انکار کر دیتے ہیں۔
اگلے اٹھتے ہیں وہ حج کو ہی مکمل بدل کر رکھ دیتے ہیں

۔۔۔۔۔۔ غرض یہ انکار حدیث وہ ظلم ہے جو امت میں وہ وہ فتنے اور اختلافات لایا ہے کہ پوری کی پوری شریعت تبدیل کر کے رکھ دی ہے، مگر پھر بھی ان حضرات کو اپنے آنکھوں کا یہ شہتیر نظر نہیں آتا۔

تو پھر ان حضرات کو وارننگ ہے کہ یہ دیکھ لیں حدیث کا انکار کر کے یہ ہر کسی کو لائسنس عطا کر رہے ہیں کہ وہ قرانی آیات سے اپنے مرضی اور خواہشات کے مطابق کھلواڑ کرتا پھرے اور اپنے نئی نئی شریعتیں بناتا پھرے۔
آپ لاکھ انکار کر لیں کہ ان دوسرے منکرین حدیث کا تعلق آپ سے نہیں، مگر یہ تو ماننا پڑے گا کہ روش اور سٹینڈرڈ تو آپ ہی کا ہے اور یہ ایسا فتنہ انگیز سٹینڈرڈ ہے کہ بہت آسانی سے لاکھوں کڑوڑوں لوگ اپنی اپنی شریعتیں قرانی آیات سے کھلواڑ کرتے ہوئے پل بھر میں بنا لیں گے۔

کاش کہ آپ منکرین حدیث حضرات اس فتنے کا ادراک کر سکیں۔ امین۔
 
اور سجدہ صرف اﷲ کے لئے کیا کرو

اس سے حضرت انسان کو ہر قسم کے سجدہ کرنے کی ممانعت بہت ہی واضح ہے۔ یہ صرف سورج یا چاند کے لئے نہیں ۔ صاف اور سیدھی بات ہے۔
 
منکرین حدیث صرف قران کا دعوی
کچھ مزید بات کرنے سے پہلے یا میرے بارے میں اپنا تصور قائم کرنے سے پہلے استدعا ہے کہ یہ دھاگہ بھی پڑھ لیجئے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=12055
اور یہ دھاگہ پڑھ لیجئے:
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=319342&postcount=76

اصل بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے کچھ عقائد کو قرآن کے حوالہ جات سے ضرب پڑتی ہے۔ لہذا قرآن کی آیات ہی ناگوار گذرتی ہیں۔ اس کا کیا علاج؟

اہک نیک کام کیجئے اور نماز کی روایات جن میں مکمل طریقہ نماز درج ہے فراہم کردیجئے۔ اس کا مجھے کافی عرصہ سے انتظار ہے۔
صاحب کسی کتب روایت میں‌ -------------------------- ایک روایت میں طریقہ ء نماز ----------------------- موجود نہیں۔

قرآن پڑھئے اور روزانہ پڑھئے۔ تاکہ گمان اور قیاس کے بجائے اللہ کی ہدایت شامل ہو

[AYAH]10:36[/AYAH] اور نہیں پیروی کرتے ہیں اِن میں اکثر لوگ مگر گمان اور قیاس کی حالانکہ گمان نہیں پُوری کرتا ضرورت حق کی ذرا بھی۔ بیشک اللہ پُوری طرح باخبر ہے ان (اعمال) سے جو یہ کرتے ہیں۔

[AYAH]2:78[/AYAH] اور ان میں ایک گروہ ان پڑھوں کا ہے جو نہیں جانتے کتابِ الٰہی کو مگر جھوٹی آرزوئیں (لیے بیٹھے ہیں) اور نہیں ہیں وہ مگر وہم و گمان پر چلے جارہے ہیں۔

[AYAH]6:116[/AYAH] اور اگر تو زمین میں (موجود) لوگوں کی اکثریت کا کہنا مان لے تو وہ تجھے اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔ وہ (حق و یقین کی بجائے) صرف وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں اور محض غلط قیاس آرائی (اور دروغ گوئی) کرتے رہتے ہیں

اس گمان سے بچئے، قرآن پڑھئے ؟
[AYAH]49:12[/AYAH] اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو بیشک بعض گمان (ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے) اور (کسی کے غیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ اور (اِن تمام معاملات میں) اﷲ سے ڈرو بیشک اﷲ توبہ کو بہت قبول فرمانے والا بہت رحم فرمانے والا ہے

والسلام
 

حسن نظامی

لائبریرین
بلکہ نہیں۔ آگے بڑھئیے۔۔۔۔ بہت سے عربوں نے اس سے پہلے یہ دعوی کیا ہے کہ عربی انکی زبان ہے اور قران سمجھنے کے لیے انہیں کسی حدیث رسول کی ضرورت نہیں۔ اور پھر یہ عرب حدیث رسول کو ٹھکرا کر ایسے گمراہ ہیں کہ کہتے ہیں "الصلوۃ" کا مطلب مخصوص طریقے سے نماز پڑھنا نہیں بلکہ صرف اور صرف "دعا" کرنا ہے۔
نماز کے مسئلے پر تفصیلی بحث یہاں موجود ہے

احکام قرآنی پر عمل اتباع سنت کے بغیر ناممکن ہے ۔"]احکام قرآنی پر عمل اتباع سنت کے بغیر ناممکن ہے ۔[/COLOR]
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top