حج: عشق کے رنگ میں رنگ لے

سید عمران

محفلین
لبیک اللھم لبیک۔۔۔
اے خدا میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے تیرے پاس آرہا ہوں۔ تیرے عشق کے سرمستی سے بے خود ہوکر آرہا ہوں۔ جہاں میں تیری کوئی مثال نہ تجھ سے محبت کی کوئی نظیر۔ آج گھر بار اور کاروبار سب کو بھلا کر، بہت دور چھوڑ کر تجھ سے ملنے آرہا ہوں۔۔۔
لبیک اللھم لبیک۔۔۔
عقل و فرزانگی تج کر تیرے دربار میں بندہ حاضر ہے۔ بتا تیری رضا کیا ہے؟ جاں دوں یا آبرو، یا عیش و آرام کروں تجھ پر نثار۔۔۔
لبیک اللھم لبیک۔۔۔
ہوش و خرد اور عقل و فرزانگی، جاہ و عزت، عہدہ و منصب آج خدا نے سب پاؤں تلے روندنے کا حکم دے دیا۔ عقل کو پیچھے اور عشق و محبت کو آگے کرنے کا حکم دے دیا۔ شاہ ہو یا فقیر آج خلعتِ فاخرہ اور دستار تفاخر اتار کر سر برہنہ کیے دو سفید چادروں میں لپٹا ہے ۔ کعبہ جو مرکز انوار و تجلیات ربانیہ ہے، جس مقام کی فضیلت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ تک جاپہنچتا ہے، جسے صرف دیکھتے رہنا بھی عبادت ہے، جہاں ملتزم ہے، زمزم ہے، صفا مروہ ہے، حجر اسود ہے۔آج اسی مرکز عظمت و فضیلت کو چھوڑنے کا حکم ہے۔ حکم ہے کہ سب زہد و عبادت چھوڑو، طواف و ریاضت چھوڑو اور منیٰ کے لق و دق میدان میں جاؤ۔ آج تمہیں خدا بیت اللہ میں نہیں، خانہ خدا میں نہیں، مسجد حرام میں نہیں منیٰ کے میدان میں ملے گا۔ اب یہاں رہنے میں ثواب نہیں، ترک سنت کا وبال ہے۔
۸ ذی الحج اشراق کے وقت مسجد حرام میں احرام باندھا جارہا ہے۔ کالے سروں اور سفید احرام پر مبنی طواف کا منظر باکل بلیک اینڈ وہائٹ ہے۔ آج کعبے کو الوداع کہا جارہا ہے،ویران کیا جارہا ہے،اب یہاں کی رونقیں منیٰ کے میدان میں لگیں گی، کیوں کہ خالق رونق کائنات کی جلوہ فرمائی اب وہیں ہے۔۔۔
سخت کھردرے پہاڑوں سے گھرا لق و دق میدانِ منیٰ تیس لاکھ سے زیادہ دیوانوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ یہاں کیا کرنے آئے ہیں ؟ کچھ نہیں کرنا۔ صرف وقت پر نمازیں پڑھنی ہیں۔ پھر کعبہ چھوڑ کر یہاں کیوں آئے ہیں؟ وہیں طواف کرتے، نمازیں پڑھتے، بیت اللہ کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے؟ آہ! یہ عشق کی منازل میں سے پہلی منزل ہے، دیکھتے ہیں تمہیں بیت اللہ عزیز ہے یا اللہ۔ آج تمہارا یقین یہ بنانا ہے کہ تم زمان و مکان کو عظیم سمجھتے ہو یا انہیں عظمتیں دینے والے کو۔۔۔
مناسکِ حج کی ابتداء پردۂ عقل کو آگ لگانے سے ہوتی ہے۔ زمانے بھر کے عقلاء کو بتایا جاتا ہے کہ ہماری منشاء پر چلنا عقل و دانائی ہے، علم و حکمت ہے۔ کعبہ میں فضیلت اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، ہمارے حکم سے ہے، آج ہمارا حکم ہے کہ کعبہ چھوڑ اور وادی منیٰ میں جا رہو۔ اس حکم کے ساتھ ہی ساری عظمتیں، تمام فضیلتیں میدانِ منیٰ میں منتقل ہوگئیں۔۔۔
اگلے دن کہا جارہا ہے کہ فجر کے بعد سارے لوگ منیٰ کے میدان سے نکلیں اور برابر میں عرفات کے میدان میں جائیں۔ اب لاکھوں لوگ یہاں سے وہاں جارہے ہیں۔ بڑے بڑے امیر و کبیر در بدر ہورہے ہیں۔وہ بال جو خوشبودار شیمپوؤں اور ہیر کنڈیشنروں سے سنورتے تھے غبار آلود ہورہے ہیں، جن زلفوں کو ہر وقت ہیئر برش سے سنوارا جاتا تھا ،اب اُلجھی ہوئی پریشاں حال ہیں۔ جس چہرہ پر ہزار قسم کے لوشن اور کریمیں لگتی تھیں اب خاک آلود اور زرد ہے، گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ بھی خشک اور کھردرے ہورہے ہیں۔
عاشقوں کا یہی حلیہ ہوتا ہے، جان و تن سے مدہوش اور محبوب کے لیے در بدر۔
پہلے وطن سے بے وطن، پھر مکہ سے بے دخل، اب منیٰ سے بے گھر، در بدر کی خاک چھانتے گرد و غبار سے آلود لاکھوں لوگ جوق در جوق میدان عرفات آرہے۔ سورج کا زوال ہوتے ہی حج کا رکن اعظم شروع ہوجاتا ہے۔ ایک نہیں، دو نہیں لاکھوں لوگ کھڑے ہوگئے، اس بادشاہ کے سامنے ہاتھ اٹھا دئیے جو اپنے دشمنوں کی بھی سنتا ہے، انہیں بھی بے مانگے دیتا ہے۔ یہ تو پھر اس کے اپنے ہیں ، کیا ہوا جو غلطیاں ہوگئیں، آج یہاں ان ہی پر تو شرمسار ہونے آئے ہیں، حشر سے پہلے حشر کا حساب معاف کرانے آئے ہیں۔ کیا حال ہے جب لاکھوں لوگ رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں، بنا کر فقیروں کا بھیس عطائے کرم کے منتظر ہورہے ہیں۔۔۔
اس ادائے بندگی پر کیوں خدا مہربان نہ ہو۔ سال بھر اللہ عز و جل رات کے تیسرے پہر آسمان دنیا پر تجلیات متوجہ فرماتے ہیں۔ لیکن آج زوال کے بعد اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں،ان عاشقوں کے سب سے قریب ہوگئے، جب مانگنے والے اس کے سارے حکم پورے کرکے پراگندہ جسم پریشاں حال کھڑے ہیں، جگر کا خون پانی کرکے بہا رہے ہیں تو دینے والا بھی سارے فاصلے مٹا کر اتنے قریب آگیا کہ بس اب پردۂ غیب ہی باقی رہ گیا، باقی سارے حجابات اُٹھ گئے۔ وقوفِ عرفات دنیا کی لذیذ ترین عبادت ہے۔
آج مجبور بندوں پر ، روتے بلکے غلاموں پر اتنی رحمتیں لُٹائی جارہی ہیں ، انہیں اتنا دیا اتنا دیا اتنا دیا جارہا ہے کہ بس خدا دے اور بندہ لے۔فرشتوں نے یہ تماشہ دیکھا کہ محبوب بندے امید رحمت میں سر خاک آلود کیے رو رہے ہیں اور دشمن ابلیس غم و غصہ سے سر پر خاک ڈالے رو رہا ہے۔
سارا دن خدا اور بندوں کی عظیم قربتوں کا تماشہ دنیا نے دیکھا، سورج غروب ہوا تو کہا گیا اب میرے سارے عاشق وادی مزدلفہ پہنچیں، مغرب کی نماز قضا کریں، مزدلفہ پہنچ کر رات کے وقت مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔ اس کے ساتھ ہی عقل پر ایک اور وار ہوا۔
نماز قضا کرنے پر اتنی سخت وعیدیں ہیں جن کی کوئی حد نہیں، وقت پر نماز ادا کرنے کی اتنی فضیلتیں ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔ لیکن یہ کیا؟ آج کہا جارہا ہے کہ مغرب وقت پر ادا کرنا گناہ کا اور قضا کرنا ثواب کا کام ہے۔ آج بتایا جارہا ہے کہ نماز میں بھی اپنی ذات سے کچھ نہیں، جو کچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے، جب ہم کہیں پڑھو ، اس وقت پڑھنے پر اجر دیں گے، جب ہم کہیں نہ پڑھو تو اب نہ پڑھنے پر اجر دیں گے۔
لاکھوں افراد کا قافلہ راتوں رات عرفات سےمزدلفہ جارہا ہے، عقل کو پیچھے رکھ کر عشق کو آگے کیا جارہا ہے۔مزدلفہ میں مغرب عشاء اکٹھی پڑھی اور جمرات پر مارنے کے لیے کنکریاں چنیں۔ یہاں پانی دستیاب ہے نہ کھانے کی کوئی شے، مکان ہے نہ دکان، مسجد ہے نہ بیت الخلاء، کھلا آسمان ہے اور رات کی تنہائی، سر پر کوئی خیمہ ہے نہ سائبان اور نہ ہی بستر کا آرام۔ یہاں آکر حقیقی معنوں میں سب غریب الدیار ہوگئے، کروڑوں کے مالک بھی بیابان میں کھلے آسمان تلے ننگی زمین پر پڑے رہے۔ یہ کٹھنائیاں جھیلنا عشاق ہی کے سر کا سودا ہے، فرزانے کیا جانیں دیوانگی میں حد سے کیسے گزرا جاتا ہے۔
صبح صادق سے اشراق تک وقوفِ مزدلفہ کا وقت ہے۔ یہاں وہ دعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں جو کسی وجہ سے عرفات میں قبول نہیں ہوتیں۔ وقوف عرفات میں جو آہ و زاریاں ہوتی ہیں، سسکیاں ہوتی ہیں، ایک بے قراری ہوتی ہے، اپنی نالائقیوں پر شرمساری ہوتی ہے، وقوف مزدلفہ میں اس کے برعکس ایک گونہ طمانیت ہوتی ہے، سرشاری ہوتی ہے، امید رحمتِ باری ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دربار خدا میں دُہائیاں دینا رائیگاں نہیں گیا، بندوں کے رونے اور تڑپنے پر اور دریائے اشک رواں کرنے پر دریائے رحمتِ الٰہی خوب جوش میں آجاتا ہے، صاف محسوس ہوتا کہ جسم و جاں برسات ابر کرم سے سرشار ہوگئے ہیں۔ مزدلفہ کے قیام میں سرشاری کی یہی کیفیت ہوتی ہے، خوف پر امید کا غلبہ ہوتا ہے۔
اس روز ایک سورج دنیا کے افق سے نمودار ہوتا ہے اور ایک سورج دل کے افق سے طلوع ہوتا ہے، گناہوں کی غلاظت سے پاک دل ، مضراب رحمت سے سرشار دل۔ اب کہا جاتا ہے کہ روح تو سرشار ہوگئی اب جسم کو بھی کھلاؤ پلاؤ، جاؤ جاؤ اب منیٰ کو جاؤ، بخشے بخشائے جاؤ، تمہارا عاشقی کا امتحان پورا ہوا۔ اب جو ہوا سو ہوا آئندہ کارِ شیطانی سے بچ کر رہنا، نفس و شیطان کے گندے خیالات کو، ناجائز تقاضوں کو رجم کرتے رہنا اور رجم کا یہ طریقہ بھی ہم سے سیکھتے جاؤ۔ آؤ شیطان کے علامتی ستون کو کنکریاں لگاؤ۔
اب تین دن تک اس کی مشق کرتے رہو، منیٰ میں رہو، نمازیں پڑھو اور شیطان کے علامتی نشان پر پتھراؤ کرو۔ یہاں کنکر مارنے کا عقل سےکوئی واسطہ نہیں، یہاں بھی عشق کا امتحان ہے، عاشقی کی کہانی کو دُہرانا ہے، دنیا کو دکھانا ہے کہ خدا کا عشق کیسے زندہ رہتا ہے۔ شیطان کے بہکانے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تین جگہوں پر شیطان کو کنکریاں مار کر بھگایا تھا۔ آج ان کے عمل کو دُہرائے جانے کا حکم ہے۔
منیٰ پہنچ کر تین میں سے ایک شیطان کے ستون پر کنکریاں ماریں، قربانی کریں اور سر منڈائیں۔ یہ قربانی عید الاضحیٰ کی قربانی نہیں ہے، حج کے تشکر کی قربانی ہے، خدا کے شکر کی قربانی ہے کہ اے خدا آپ نے ہمیں اپنے راستے میں بلایا، یہ سعادت عطا فرمائی حالاں کہ کروڑوں لوگ اس سے محروم ہیں۔ کتنے لوگ ہیں کہ ساری دنیا دیکھ لی، نت نئے پکوان چکھ لیے مگر عشق و محبت کا راستہ نہ دیکھ سکے ، خدا کے قربت کی لذت نہ چکھ سکے۔
بس اب مزید امتحان کوئی نہیں رہا، عاشقوں نے اپنا عشق خدا کو دکھادیا، اس کی راہ میں رُل گئے، در بدر ہوگئے، خاک آلود ہوگئے، اپنی مرضی سے نہیں، ان ہی کی مرضی سے ہوئے۔ بس اب ساری مشقتیں ثمر بار ہوگئیں، اب قلب پر جمے گناہوں کے میل کے بعد جسمانی میل بھی دھو لو، احرام اتار دو، جسم پر مہکتے ہوئے صابن لگالو، بالوں کو شیمپو کرلو، دوبارہ رنگ برنگ کے لباس پہن لو، خوشی کا لباس، تقویٰ کا لباس، اور پھر آجاؤ ہم سے ملنے ہمارے گھر ہماری زیارت کرنے، طوافِ زیارت کرنے۔
منیٰ سے بیت اللہ حاضری کی اجازت مل گئی، کعبے کی وہی رونقیں پھر لوٹ آئیں، بیت اللہ پر تجلیات کا نزول ہونے لگا، بندوں کے لیے اس کی ساری فضیلتیں پھر سے جاری و ساری ہوگئیں۔ حج کے پہلے دن طواف پر چھایا ہوا بلیک اینڈ وہائٹ کلر رنگین ہوگیا ہے۔ راستوں کی تھکن، مشقتوں اور تکالیف اٹھا کر محبوب کی زیارت کا لطف عاشقوں کے علاوہ کون جان سکتا ہے۔ عشاق کے لیے یہ طوف عام طواف نہیں ہے، اسے طواف زیارت کہتے ہیں۔ ساری گھاٹیاں، عشق کے مراحل کامیابی سے طے کرنے کے بعد، میل کچیل دور کرکے بننے سنورنے کے بعد اب محبوب کی زیارت ہوگی، اس کا جو لطف ہے وہ دل ہی جانتا ہے۔
طواف کے بعد عشق کا ایک اور حکم ہے کہ بی بی ہاجرہ کے عشق کو دہراؤ۔ خدا کا حکم بجا لانے کے لیے ایک ماں اپنے معصوم بچے کے ساتھ صحرا میں اکیلی رہ گئی، شوہر نے دونوں کو اتار کر سواری جو آگے بڑھائی تو خدا کا حکم آگیا کہ اب پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھنا، یہ بھی نہ دیکھنے کہ وہ تمہیں جاتا دیکھ کر کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ جب دھوپ کی تمازت بڑھی، ہونٹ خشک ہوئے اور ننھا بچہ پیاس کی شدت سے بلک بلک کر رو یا تب ماں بے چینی کے عالم میں یہاں سے وہاں بھاگی، پانی کی تلاش تھی، حالاں کہ معلوم تھا کہ کوسوں دور تک ریت ہی ریت ہے، پانی یہاں کہاں، لیکن اس کے دل میں کیا تھا خدا ہی جانتا تھا۔ بچے کا رونا اور ماں کا ہولنا خدا کے لیے ہی تو تھا، اس ویرانے میں یہ مستقبل روشن کرنے تو نہیں آئے تھے، خدا کے حکم پر بھوکے پیاسے مرنے کے لیے آئے تھے۔ لیکن اب عجز و انکساری کا امتحان پورا ہوگیا تھا، خدا ذرا سی جان لے کر لاکھوں جانیں برسا دیتا ہے، بے آب و گیاہ صحرا میں بچے کی ایڑیوں سے چشمہ بہا دیتا ہے، دو انسانوں کے مجاہدہ کا ثمرہ ایک زمانے کو سیراب کردیتا ہے۔ماں کی یہ ادا خدا کو ایسی بھائی کہ سب عشاق سے کہہ دیا میری اس بندی کی یاد تازہ کرو، عشق کا ایک اور امتحان پورا کرو۔ طواف زیارت کے بعد صفا مروہ کے سات چکر لگا کر دوبارہ حرم چھوڑ دو اور منیٰ کے میدان میں آجاؤ، دو تین دن اور میری محبت میں خانہ بدوشی کی زندگی اختیار کرلو، نمازیں پڑھو اور شیطانی تقاضوں کو سنگسار کرنا سیکھو۔
اب وقت آگیا، اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ جاؤ دوبارہ اپنے بیوی بچوں ، ماں باپ کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کرو، ہماری دی گئی ان نعمتوں کے حقوق ادا کرو۔ جاؤ اب ہمارے دیار سے جاؤ، اپنے کاروبار حیات میں مشغول ہوجاؤ۔ لیکن جاتے جاتے ایک آخری ملاقات کرتے جاؤ، ہمیں الوداع کہتے جاؤ، طوافِ دواع کرتے جاؤ۔ آؤ اور دیارِ یار کا آخری طواف کرلو، ہم سے رخصتی کا اذن لے لو۔
جاؤ میرے بندو، آج ہمارے در سے گناہوں سے صاف اور پاکیزہ ہوکر جاؤ۔ آج ہم نے تمہیں ایسا کردیا جیسے ابھی پیدا ہوئے ہو۔ جاؤ اور اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کرو۔
الوداع اے مسافرانِ عشق و محبت الوداع!!!
 
آخری تدوین:

ٹرومین

محفلین
لبیک اللھم لبیک۔۔۔
اے خدا میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے تیرے پاس آرہا ہوں۔ تیرے عشق کے سرمستی سے بے خود ہوکر آرہا ہوں۔ جہاں میں تیری کوئی مثال نہ تجھ سے محبت کی کوئی نظیر۔ آج گھر بار اور کاروبار سب کو بھلا کر، بہت دور چھوڑ کر تجھ سے ملنے آرہا ہوں۔۔۔
لبیک اللھم لبیک۔۔۔
عقل و فرزانگی تج کر تیرے دربار میں بندہ حاضر ہے۔ بتا تیری رضا کیا ہے؟ جاں دوں یا آبرو، یا عیش و آرام کروں تجھ پر نثار۔۔۔
لبیک اللھم لبیک۔۔۔
ہوش و خرد اور عقل و فرزانگی، جاہ و عزت، عہدہ و منصب آج خدا نے سب پاؤں تلے روندنے کا حکم دے دیا۔ عقل کو پیچھے اور عشق و محبت کو آگے کرنے کا حکم دے دیا۔ شاہ ہو یا فقیر آج خلعتِ فاخرہ اور دستار تفاخر اتار کر سر برہنہ کیے دو سفید چادروں میں لپٹا ہے ۔ کعبہ جو مرکز انوار و تجلیات ربانیہ ہے، جس مقام کی فضیلت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ تک جاپہنچتا ہے، جسے صرف دیکھتے رہنا بھی عبادت ہے، جہاں ملتزم ہے، زمزم ہے، صفا مروہ ہے، حجر اسود ہے۔آج اسی مرکز عظمت و فضیلت کو چھوڑنے کا حکم ہے۔ حکم ہے کہ سب زہد و عبادت چھوڑو، طواف و ریاضت چھوڑو اور منیٰ کے لق و دق میدان میں جاؤ۔ آج تمہیں خدا بیت اللہ میں نہیں، خانہ خدا میں نہیں، مسجد حرام میں نہیں منیٰ کے میدان میں ملے گا۔ اب یہاں رہنے میں ثواب نہیں، ترک سنت کا وبال ہے۔
۸ ذی الحج اشراق کے وقت مسجد حرام میں احرام باندھا جارہا ہے۔ کالے سروں اور سفید احرام پر مبنی طواف کا منظر باکل بلیک اینڈ وہائٹ ہے۔ آج کعبے کو الوداع کہا جارہا ہے،ویران کیا جارہا ہے،اب یہاں کی رونقیں منیٰ کے میدان میں لگیں گی، کیوں کہ خالق رونق کائنات کی جلوہ فرمائی اب وہیں ہے۔۔۔
سخت کھردرے پہاڑوں سے گھرا لق و دق میدانِ منیٰ تیس لاکھ سے زیادہ دیوانوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہے۔ یہاں کیا کرنے آئے ہیں ؟ کچھ نہیں کرنا۔ صرف وقت پر نمازیں پڑھنی ہیں۔ پھر کعبہ چھوڑ کر یہاں کیوں آئے ہیں؟ وہیں طواف کرتے، نمازیں پڑھتے، بیت اللہ کی زیارت سے آنکھیں ٹھنڈی کرتے؟ آہ! یہ عشق کی منازل میں سے پہلی منزل ہے، دیکھتے ہیں تمہیں بیت اللہ عزیز ہے یا اللہ۔ آج تمہارا یقین یہ بنانا ہے کہ تم زمان و مکان کو عظیم سمجھتے ہو یا انہیں عظمتیں دینے والے کو۔۔۔
مناسکِ حج کی ابتداء پردۂ عقل کو آگ لگانے سے ہوتی ہے۔ زمانے بھر کے عقلاء کو بتایا جاتا ہے کہ ہماری منشاء پر چلنا عقل و دانائی ہے، علم و حکمت ہے۔ کعبہ میں فضیلت اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، ہمارے حکم سے ہے، آج ہمارا حکم ہے کہ کعبہ چھوڑ اور وادی منیٰ میں جا رہو۔ اس حکم کے ساتھ ہی ساری عظمتیں، تمام فضیلتیں میدانِ منیٰ میں منتقل ہوگئیں۔۔۔
اگلے دن کہا جارہا ہے کہ فجر کے بعد سارے لوگ منیٰ کے میدان سے نکلیں اور برابر میں عرفات کے میدان میں جائیں۔ اب لاکھوں لوگ یہاں سے وہاں جارہے ہیں۔ بڑے بڑے امیر و کبیر در بدر ہورہے ہیں۔وہ بال جو خوشبودار شیمپوؤں اور ہیر کنڈیشنروں سے سنورتے تھے غبار آلود ہورہے ہیں، جن زلفوں کو ہر وقت ہیئر برش سے سنوارا جاتا تھا ،اب اُلجھی ہوئی پریشاں حال ہیں۔ جس چہرہ پر ہزار قسم کے لوشن اور کریمیں لگتی تھیں اب خاک آلود اور زرد ہے، گلاب کی پنکھڑیوں سے ہونٹ بھی خشک اور کھردرے ہورہے ہیں۔
عاشقوں کا یہی حلیہ ہوتا ہے، جان و تن سے مدہوش اور محبوب کے لیے در بدر۔
پہلے وطن سے بے وطن، پھر مکہ سے بے دخل، اب منیٰ سے بے گھر، در بدر کی خاک چھانتے گرد و غبار سے آلود لاکھوں لوگ جوق در جوق میدان عرفات آرہے۔ سورج کا زوال ہوتے ہی حج کا رکن اعظم شروع ہوجاتا ہے۔ ایک نہیں، دو نہیں لاکھوں لوگ کھڑے ہوگئے، اس بادشاہ کے سامنے ہاتھ اٹھا دئیے جو اپنے دشمنوں کی بھی سنتا ہے، انہیں بھی بے مانگے دیتا ہے۔ یہ تو پھر اس کے اپنے ہیں ، کیا ہوا جو غلطیاں ہوگئیں، آج یہاں ان ہی پر تو شرمسار ہونے آئے ہیں، حشر سے پہلے حشر کا حساب معاف کرانے آئے ہیں۔ کیا حال ہے جب لاکھوں لوگ رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں، بنا کر فقیروں کا بھیس عطائے کرم کے منتظر ہورہے ہیں۔۔۔
اس ادائے بندگی پر کیوں خدا مہربان نہ ہو۔ سال بھر اللہ عز و جل رات کے تیسرے پہر آسمان دنیا پر تجلیات متوجہ فرماتے ہیں۔ لیکن آج زوال کے بعد اپنی شان کے مطابق آسمان دنیا پر جلوہ افروز ہوتے ہیں،ان عاشقوں کے سب سے قریب ہوگئے، جب مانگنے والے اس کے سارے حکم پورے کرکے پراگندہ جسم پریشاں حال کھڑے ہیں، جگر کا خون پانی کرکے بہا رہے ہیں تو دینے والا بھی سارے فاصلے مٹا کر اتنے قریب آگیا کہ بس اب پردۂ غیب ہی باقی رہ گیا، باقی سارے حجابات اُٹھ گئے۔ وقوفِ عرفات دنیا کی لذیذ ترین عبادت ہے۔
آج مجبور بندوں پر ، روتے بلکے غلاموں پر اتنی رحمتیں لُٹائی جارہی ہیں ، انہیں اتنا دیا اتنا دیا اتنا دیا جارہا ہے کہ بس خدا دے اور بندہ لے۔فرشتوں نے یہ تماشہ دیکھا کہ محبوب بندے امید رحمت میں سر خاک آلود کیے رو رہے ہیں اور دشمن ابلیس غم و غصہ سے سر پر خاک ڈالے رو رہا ہے۔
سارا دن خدا اور بندوں کی عظیم قربتوں کا تماشہ دنیا نے دیکھا، سورج غروب ہوا تو کہا گیا اب میرے سارے عاشق وادی مزدلفہ پہنچیں، مغرب کی نماز قضا کریں، مزدلفہ پہنچ کر رات کے وقت مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ پڑھیں۔ اس کے ساتھ ہی عقل پر ایک اور وار ہوا۔
نماز قضا کرنے پر اتنی سخت وعیدیں ہیں جن کی کوئی حد نہیں، وقت پر نماز ادا کرنے کی اتنی فضیلتیں ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں۔ لیکن یہ کیا؟ آج کہا جارہا ہے کہ مغرب وقت پر ادا کرنا گناہ کا اور قضا کرنا ثواب کا کام ہے۔ آج بتایا جارہا ہے کہ نماز میں بھی اپنی ذات سے کچھ نہیں، جو کچھ ہے وہ ہمارے حکم میں ہے، جب ہم کہیں پڑھو ، اس وقت پڑھنے پر اجر دیں گے، جب ہم کہیں نہ پڑھو تو اب نہ پڑھنے پر اجر دیں گے۔
لاکھوں افراد کا قافلہ راتوں رات عرفات سےمزدلفہ جارہا ہے، عقل کو پیچھے رکھ کر عشق کو آگے کیا جارہا ہے۔مزدلفہ میں مغرب عشاء اکٹھی پڑھی اور جمرات پر مارنے کے لیے کنکریاں چنیں۔ یہاں پانی دستیاب ہے نہ کھانے کی کوئی شے، مکان ہے نہ دکان، مسجد ہے نہ بیت الخلاء، کھلا آسمان ہے اور رات کی تنہائی، سر پر کوئی خیمہ ہے نہ سائبان اور نہ ہی بستر کا آرام۔ یہاں آکر حقیقی معنوں میں سب غریب الدیار ہوگئے، کروڑوں کے مالک بھی بیابان میں کھلے آسمان تلے ننگی زمین پر پڑے رہے۔ یہ کٹھنائیاں جھیلنا عشاق ہی کے سر کا سودا ہے، فرزانے کیا جانیں دیوانگی میں حد سے کیسے گزرا جاتا ہے۔
صبح صادق سے اشراق تک وقوفِ مزدلفہ کا وقت ہے۔ یہاں وہ دعائیں بھی قبول ہوجاتی ہیں جو کسی وجہ سے عرفات میں قبول نہیں ہوتیں۔ وقوف عرفات میں جو آہ و زاریاں ہوتی ہیں، سسکیاں ہوتی ہیں، ایک بے قراری ہوتی ہے، اپنی نالائقیوں پر شرمساری ہوتی ہے، وقوف مزدلفہ میں اس کے برعکس ایک گونہ طمانیت ہوتی ہے، سرشاری ہوتی ہے، امید رحمتِ باری ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دربار خدا میں دُہائیاں دینا رائیگاں نہیں گیا، بندوں کے رونے اور تڑپنے پر اور دریائے اشک رواں کرنے پر دریائے رحمتِ الٰہی خوب جوش میں آجاتا ہے، صاف محسوس ہوتا کہ جسم و جاں برسات ابر کرم سے سرشار ہوگئے ہیں۔ مزدلفہ کے قیام میں سرشاری کی یہی کیفیت ہوتی ہے، خوف پر امید کا غلبہ ہوتا ہے۔
اس روز ایک سورج دنیا کے افق سے نمودار ہوتا ہے اور ایک سورج دل کے افق سے طلوع ہوتا ہے، گناہوں کی غلاظت سے پاک دل ، مضراب رحمت سے سرشار دل۔ اب کہا جاتا ہے کہ روح تو سرشار ہوگئی اب جسم کو بھی کھلاؤ پلاؤ، جاؤ جاؤ اب منیٰ کو جاؤ، بخشے بخشائے جاؤ، تمہارا عاشقی کا امتحان پورا ہوا۔ اب جو ہوا سو ہوا آئندہ کارِ شیطانی سے بچ کر رہنا، نفس و شیطان کے گندے خیالات کو، ناجائز تقاضوں کو رجم کرتے رہنا اور رجم کا یہ طریقہ بھی ہم سے سیکھتے جاؤ۔ آؤ شیطان کے علامتی ستون کو کنکریاں لگاؤ۔
اب تین دن تک اس کی مشق کرتے رہو، منیٰ میں رہو، نمازیں پڑھو اور شیطان کے علامتی نشان پر پتھراؤ کرو۔ یہاں کنکر مارنے کا عقل سےکوئی واسطہ نہیں، یہاں بھی عشق کا امتحان ہے، عاشقی کی کہانی کو دُہرانا ہے، دنیا کو دکھانا ہے کہ خدا کا عشق کیسے زندہ رہتا ہے۔ شیطان کے بہکانے پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان تین جگہوں پر شیطان کو کنکریاں مار کر بھگایا تھا۔ آج ان کے عمل کو دُہرائے جانے کا حکم ہے۔
منیٰ پہنچ کر تین میں سے ایک شیطان کے ستون پر کنکریاں ماریں، قربانی کریں اور سر منڈائیں۔ یہ قربانی عید الاضحیٰ کی قربانی نہیں ہے، حج کے تشکر کی قربانی ہے، خدا کے شکر کی قربانی ہے کہ اے خدا آپ نے ہمیں اپنے راستے میں بلایا، یہ سعادت عطا فرمائی حالاں کہ کروڑوں لوگ اس سے محروم ہیں۔ کتنے لوگ ہیں کہ ساری دنیا دیکھ لی، نت نئے پکوان چکھ لیے مگر عشق و محبت کا راستہ نہ دیکھ سکے ، خدا کے قربت کی لذت نہ چکھ سکے۔
بس اب مزید امتحان کوئی نہیں رہا، عاشقوں نے اپنا عشق خدا کو دکھادیا، اس کی راہ میں رُل گئے، در بدر ہوگئے، خاک آلود ہوگئے، اپنی مرضی سے نہیں، ان ہی کی مرضی سے ہوئے۔ بس اب ساری مشقتیں ثمر بار ہوگئیں، اب قلب پر جمے گناہوں کے میل کے بعد جسمانی میل بھی دھو لو، احرام اتار دو، جسم پر مہکتے ہوئے صابن لگالو، بالوں کو شیمپو کرلو، دوبارہ رنگ برنگ کے لباس پہن لو، خوشی کا لباس، تقویٰ کا لباس، اور پھر آجاؤ ہم سے ملنے ہمارے گھر ہماری زیارت کرنے، طوافِ زیارت کرنے۔
منیٰ سے بیت اللہ حاضری کی اجازت مل گئی، کعبے کی وہی رونقیں پھر لوٹ آئیں، بیت اللہ پر تجلیات کا نزول ہونے لگا، بندوں کے لیے اس کی ساری فضیلتیں پھر سے جاری و ساری ہوگئیں۔ حج کے پہلے دن طواف پر چھایا ہوا بلیک اینڈ وہائٹ کلر رنگین ہوگیا ہے۔ راستوں کی تھکن، مشقتوں اور تکالیف اٹھا کر محبوب کی زیارت کا لطف عاشقوں کے علاوہ کون جان سکتا ہے۔ عشاق کے لیے یہ طوف عام طواف نہیں ہے، اسے طواف زیارت کہتے ہیں۔ ساری گھاٹیاں، عشق کے مراحل کامیابی سے طے کرنے کے بعد، میل کچیل دور کرکے بننے سنورنے کے بعد اب محبوب کی زیارت ہوگی، اس کا جو لطف ہے وہ دل ہی جانتا ہے۔
طواف کے بعد عشق کا ایک اور حکم ہے کہ بی بی ہاجرہ کے عشق کو دہراؤ۔ خدا کا حکم بجا لانے کے لیے ایک ماں اپنے معصوم بچے کے ساتھ صحرا میں اکیلی رہ گئی، شوہر نے دونوں کو اتار کر سواری جو آگے بڑھائی تو خدا کا حکم آگیا کہ اب پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھنا، یہ بھی نہ دیکھنے کہ وہ تمہیں جاتا دیکھ کر کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ جب دھوپ کی تمازت بڑھی، ہونٹ خشک ہوئے اور ننھا بچہ پیاس کی شدت سے بلک بلک کر رو یا تب ماں بے چینی کے عالم میں یہاں سے وہاں بھاگی، پانی کی تلاش تھی، حالاں کہ معلوم تھا کہ کوسوں دور تک ریت ہی ریت ہے، پانی یہاں کہاں، لیکن اس کے دل میں کیا تھا خدا ہی جانتا تھا۔ بچے کا رونا اور ماں کا ہولنا خدا کے لیے ہی تو تھا، اس ویرانے میں یہ مستقبل روشن کرنے تو نہیں آئے تھے، خدا کے حکم پر بھوکے پیاسے مرنے کے لیے آئے تھے۔ لیکن اب عجز و انکساری کا امتحان پورا ہوگیا تھا، خدا ذرا سی جان لے کر لاکھوں جانیں برسا دیتا ہے، بے آب و گیاہ صحرا میں بچے کی ایڑیوں سے چشمہ بہا دیتا ہے، دو انسانوں کے مجاہدہ کا ثمرہ ایک زمانے کو سیراب کردیتا ہے۔ماں کی یہ ادا خدا کو ایسی بھائی کہ سب عشاق سے کہہ دیا میری اس بندی کی یاد تازہ کرو، عشق کا ایک اور امتحان پورا کرو۔ طواف زیارت کے بعد صفا مروہ کے سات چکر لگا کر دوبارہ حرم چھوڑ دو اور منیٰ کے میدان میں آجاؤ، دو تین دن اور میری محبت میں خانہ بدوشی کی زندگی اختیار کرلو، نمازیں پڑھو اور شیطانی تقاضوں کو سنگسار کرنا سیکھو۔
اب وقت آگیا، اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ۔ جاؤ دوبارہ اپنے بیوی بچوں ، ماں باپ کے دیدار سے آنکھیں ٹھنڈی کرو، ہماری دی گئی ان نعمتوں کے حقوق ادا کرو۔ جاؤ اب ہمارے دیار سے جاؤ، اپنے کاروبار حیات میں مشغول ہوجاؤ۔ لیکن جاتے جاتے ایک آخری ملاقات کرتے جاؤ، ہمیں الوداع کہتے جاؤ، طوافِ دواع کرتے جاؤ۔ آؤ اور دیارِ یار کا آخری طواف کرلو، ہم سے رخصتی کا اذن لے لو۔
جاؤ میرے بندو، آج ہمارے در سے گناہوں سے صاف اور پاکیزہ ہوکر جاؤ۔ آج ہم نے تمہیں ایسا کردیا جیسے ابھی پیدا ہوئے ہو۔ جاؤ اور اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کرو۔
الوداع اے مسافرانِ عشق و محبت الوداع!!!
زبرررردست تحریر
پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا گویا میرے احساسات کو قلم بند کیا گیا ہے۔:)
 

ٹرومین

محفلین
بہت مبارک ہو ٹرومین بھائی۔
بہت شکریہ :)
اللہ تعالیٰ جملہ عبادات قبول فرمائے۔ آمین
آمین
اللہ خواہش رکھنے رکھنے والے جملہ محفلین کو زیارت حرمین شریفن کی سعادت سے بہرہ مند فرمائے۔ آمین
 
Top