حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے! (غزل برائے تنقید و اصلاح)

فرخ منظور

لائبریرین
غزل برائے تنقید و اصلاح

حباب آسا اب اس زندگی کو کیا کہیے!
بچھڑ کے ملنے کے وقفوں کو اس میں کیا کہیے؟

کسی کی زلف کی خوشبو کو کہیے مشکِ ختن
کسی کی مست خرامی کو پھر صبا کہیے

کسی کے ہجر میں دل تھام کر پڑے رہیے
پھر اس صنم کو بھی بیکار و بے وفا کہیے

پھر اک شکست کو لکھیے کہ ہے یہ فتحِ مبیں
ہمیشہ شہ کے حلیفاں کو بے خطا کہیے

صداقتوں کی ہے ارزانی اب تو فرخؔ جی!
پھر ایک جھوٹ کو ہر بار برملا کہیے

(فرّخ منظور)
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بہت خوب ۔ نیم کلاسیکی طرز اور جدید ٹچ کا خوب صورت امتزاج ہے۔ شاد آباد رہیئے ۔
صنم کو بیکار کے بجائے کچھ بیدرد وغیرہ کہہ لیں ۔ بیکار سے کچھ شکوہ کی بجائے تحقیر کا سا تاثر محسوس ہوتا ہے ۔
حلیفاں کے بجائے حلیفوں بہتر لگے گا ۔ حلیفاں اضافت کے ساتھ لطف زیادہ دیتا ۔
بہر حال دونوں باتیں زیادہ اہم نہیں ۔
 

شکیب

محفلین
حلیفاں والی بات میں نے بھی نوٹس کی۔
مطلع میں قافیہ طے نہیں ہو پارہا ہے۔ اگلا شعر دیکھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ قافیہ کیا تھا۔مقطع میں"پھر" اضافی محسوس ہوا۔
غزل کا کلاسیکی لہجہ واقعی بہت اچھا لگا۔ اساتذہ کی آراء سے ان شاءاللہ اور نکھر جائے گی۔ پھر گا کر سنائیے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
مبارک ہو فرخ منظور جون جولائی َاور تک بندیاں کرتے کرتے غزل کے میدان میں اتر ہی گئے! اور ماشاء اللہ جھنڈے گاڑ دیے!
مطلع کے قوافی دیکھ لیں
مقطع میں ارزانی کی ی کا اسقاط ذرا ناگوار گزرتا ہے۔ مزید یہ کہ 'فرخ جی' بھی اس لہجے کی غزل میں فٹ نہیں لگتا
 

فرخ منظور

لائبریرین
مبارک ہو فرخ منظور جون جولائی َاور تک بندیاں کرتے کرتے غزل کے میدان میں اتر ہی گئے! اور ماشاء اللہ جھنڈے گاڑ دیے!
مطلع کے قوافی دیکھ لیں
مقطع میں ارزانی کی ی کا اسقاط ذرا ناگوار گزرتا ہے۔ مزید یہ کہ 'فرخ جی' بھی اس لہجے کی غزل میں فٹ نہیں لگتا

شکریہ سر۔ فرصت میں اسے بہتر کرتا ہوں۔
 
Top