حال اس کا تیرے چہرے پہ لکھا لگتا ہے

ظفری

لائبریرین
جانے کیوں یہ غزل محترم وارث بھائی اور محترم مغل بھائی کے نام یہاں پیش کرنے کا جی کرتا ہے ۔ امید ہے انہیں بھی یہ غزل پسند آئے گی ۔


حال اس کا تیرے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے

یوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے

میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے

مدتیں بیت گئیں طے نہ ہوئی منزلِ شوق
ایک عالم میرے رستے میں پڑا لگتا ہے

اے میرے جذبۂ دوراں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

جانے کون سی پستی میں گِرا ہوں شہزاد
سورج بھی اس قدر دور ہے کہ دِیا لگتا ہے

( شہزاد احمد )
 

محمد وارث

لائبریرین
جانے کیوں یہ غزل محترم وارث بھائی اور محترم مغل بھائی کے نام یہاں پیش کرنے کا جی کرتا ہے ۔ امید ہے انہیں بھی یہ غزل پسند آئے گی ۔


حال اس کا تیرے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے​

یوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے​

میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے​

مدتیں بیت گئیں طے نہ ہوئی منزلِ شوق
ایک عالم میرے رستے میں پڑا لگتا ہے​

اے میرے جذبۂ دوراں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے​

جانے کون سی پستی میں گِرا ہوں شہزاد
سورج بھی اس قدر دور ہے کہ دِیا لگتا ہے​

( شہزاد احمد )​

اجی بہت شکریہ ظفری بھائی، ذرّہ نوازی ہے آپ کی اور خاکسار کا سر آپ کی محبت کے زیرِ بار ہے۔

غزل واقعی لاجواب ہے، ایک ایک شعر لاجواب ہے، شہزاد احمد واقعی اپنے علیحدہ لب و لہجے کے شاعر ہیں اور کیا خوبصورت شاعری کرتے ہیں، انکی شخصیت بھی کمال ہے، فلسفہ اور نفسیات انکا موضوع رہا ہے اور بہت خوبصورت انداز میں انہیں شاعری میں بھی پیش کرتے ہیں۔

خوش رہیئے برادرم :)
 

الف عین

لائبریرین
غزل تو اچھی ہے شہزاد احمد کی حسب معمول، لیکن ظفری کی حسبِ معمول املا کی اغلاط ہیں یا نقل کی۔ درست کرنے کی کوشش
حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے ترا کیا لگتا ہے

یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا سا لگتا ہے

میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں/آباد رہوں شہر میں مَیں؟؟
یاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے

مدتیں بیت گئیں طے نہ ہوئی منزلِ شوق
ایک عالم میرے رستے میں پڑا لگتا ہے

اے مرے جذبۂ دوراں؟؟؟ مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

جانے یہ کون سی پستی میں گِرا ہوں شہزاد
اس قدر دور ہے سورج کہ دِیا لگتا ہے
 

ساوِیز

محفلین
اس غزل کے اشعار کی اصلیت جاننے کی جستجو مجھے ایک ویڈیو کی طرف لے گئی جہاں شہزاد احمد ایک مشاعرے میں اپنی یہ شاہکار غزل سنا رہے ہیں۔ مجھے لگا کہ مجھے اصل اشعار تمام احباب کی خدمت میں پیش کرنے چاہئے۔۔

حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے ترا کیا لگتا ہے

یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں
اک تعلق ہے کہ جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے

اے مرے جذبے دروں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

جانے میں کون سی پستی میں گرا ہوں شہزاد
اس قدر دور ہے سورج کہ دیا لگتا ہے

(نوٹ: صرف وہی اشعار پیش کیے گئے جو کہ مشاعرے میں پڑھے گئے)
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
اس غزل کے اشعار کے اصلیت جاننے کی جستجو مجھے ایک ویڈیو کی طرف لے گئی جہاں شہزاد احمد ایک مشاعرے میں اپنی یہ شاہکار غزل سنا رہے ہیں۔ مجھے لگا کہ مجھے اصل اشعار تمام احباب کی خدمت میں پیش کرنے چاہئے۔۔

حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے ترا کیا لگتا ہے

یوں تری یاد میں دن رات مگن رہتا ہوں
دل دھڑکنا ترے قدموں کی صدا لگتا ہے

یوں تو ہر چیز سلامت ہے مری دنیا میں
اک تعلق ہے کہ جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے

اے مرے جذبے دروں مجھ میں کشش ہے اتنی
جو خطا ہوتا ہے وہ تیر بھی آ لگتا ہے

جانے میں کون سی پستی میں گرا ہوں شہزاد
اس قدر دور ہے سورج کہ دیا لگتا ہے

(نوٹ: صرف وہی اشعار پیش کیے گئے جو کہ مشاعرے میں پڑھے گئے)
بہت شکریہ ، اب دیکھیں تدوین کب ہوتی ہے . خدا اردو کی خدمت کے صلے میں آپ کو بہت سی خوشیاں دے
 
Top