الف عین
شاہد شاہنواز
محمد عبدالرؤوف
صابرہ امین
عظیم
-----------
جینا بہت ہے مشکل اس کی دعا نہ دینا
تم دوست بن کے میرے ایسی سزا نہ دینا
----------
سب کو پتہ ہے ان کا جو سامنے نہیں ہیں
وہ قوم کے ہیں مجرم ان کو بھلا نہ دینا
------------
لکھتا رہا ہوں تم کو الفت میں جو تمہاری
مرنے کے بعد میرے ان کو جلا نہ دینا
--------
اتنی ہے بس گزارش گر تم بُرا نہ مانو
یادوں کو میری اپنے دل سے بھلا نہ دینا
--------------
آ کر مری لحد پر رونا کبھی نہ ہرگز
مٹی میں اشک اپنے آ کر ملا نہ دینا
-------
یہ قیمتی ہیں موتی ان کو بہا نہ دینا
----------
شکوہ بہت ہے تم سے مجھ کو جہان والو
مجھ کو ستا ستا کر ہرگز رلا نہ دینا
------------
انصاف کی زباں میں ہوتا ہے جرم یہ بھی
مجرم ہو سامنے جب پھر بھی سزا نہ دینا
------------
روگی بنا لیا ہے تم نے تو خود کو ارشد
اوروں کو روگ اپنا اب تم لگا نہ دینا
-----------
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل میں جہاں یہ اچھی بات ہے کہ اس بار موضوعات میں تنوع ہے۔ لیکن اظہار بیان میں بہت خامیاں ہیں۔دو لختی، فاعل کا واضح نہ ہونا وغیرہ ۔ ان کو خود دیکھ کر اصلاح کریں
 
الف عین
(اصلاح)
-----------
جینا بہت ہے مشکل اس کی دعا نہ دینا
گر دوست تم ہو میرے پھر یہ سزا نہ دینا
----------
سب کو پتہ ہے ان کا جو سامنے نہیں ہیں
وہ قوم کے ہیں مجرم ان کو بھلا نہ دینا
------------
لکھتا رہا ہوں تم کو الفت میں جو تمہاری
میرے خطوط ایسے ہرگز جلا نہ دینا
--------
اتنی ہے بس گزارش گر تم بُرا نہ مانو
مرنے کے بعد میرے مجھ کو بھلا نہ دینا
--------------
آ کر مری لحد پر رونا کبھی نہ ہرگز
الفت کو راز رکھنا سب کو بتا نہ دینا
-------یا
یہ قیمتی ہیں موتی ان کو بہا نہ دینا
----------
شکوہ بہت ہے تم سے مجھ کو جہان والو
مانگوں میں بد دعائیں اتنا رلا نہ دینا
------یا
مجھ کو ستا ستا کر ہرگز رلا نہ دینا
------------
منصف اگر ہو کوئی کرتا نہیں وہ ایسا
مجرم ہو سامنے جب پھر بھی سزا نہ دینا
------------
الفت کا روگ تم نے خود کو لگا لیا ہے
اوروں کو روگ ارشد اب تم لگا نہ دینا
-----------
 

الف عین

لائبریرین
اب کچھ بہتری آئی ہے
الف عین
(اصلاح)
-----------
جینا بہت ہے مشکل اس کی دعا نہ دینا
گر دوست تم ہو میرے پھر یہ سزا نہ دینا
----------
پہلا مصرع بھی دو لخت لگتا ہے، دوسرا مصرع تو پچھلی شکل کا ہی بہتر تھا۔ مطلب یہی کہنا چاہ رہے ہیں نا کہ جس جینے کی دعا تم دے رہے ہو، وہ میرے لیے مشکل ہے! جو، جس قسم کے رابطے کی ضرورت لگتی ہے
سب کو پتہ ہے ان کا جو سامنے نہیں ہیں
وہ قوم کے ہیں مجرم ان کو بھلا نہ دینا
------------
یہ مبہم شعر نکال ہی دیں میرے خیال میں
لکھتا رہا ہوں تم کو الفت میں جو تمہاری
میرے خطوط ایسے ہرگز جلا نہ دینا
--------
اب معلوم ہوا کہ خطوط کی بات ہو رہی ہے۔ در اصل اسی شعر کی وجہ سے میں نے اصلاح آپ پر ہی چھوڑ دی تھی!
یہ لفظ. "ایسے" نہ جانے کیوں مجھے پسند نہیں، بہت مبہم لگتا ہے، یہاں "میرے ایسے خطوط" بھی سمجھا جا سکتا ہے جن کی تعریف یعنی ڈفائن نہیں کیا گیا ۔ اور "ایسے مت جلانا، بغیر پٹرول کے، یا مٹی کے تیل سے نہین" بھی۔ یہاں محض "وہ خطوط" کافی تھا
اتنی ہے بس گزارش گر تم بُرا نہ مانو
مرنے کے بعد میرے مجھ کو بھلا نہ دینا
--------------
برا ماننے کی بات کیوں؟ شعر میں کوئی خاص بات نہیں
آ کر مری لحد پر رونا کبھی نہ ہرگز
الفت کو راز رکھنا سب کو بتا نہ دینا
-------یا
یہ قیمتی ہیں موتی ان کو بہا نہ دینا
----------
پہلے متبادل کے ساتھ دو لخت ہے، دوسرا متبادل فاعل چاہتا ہے۔ کس شے کو قیمتی موتی کہا گیا ہے، آنا، میری لحد، یا رونا؟ کبھی اور ہر گز ایک ساتھ بھی مجھے گوارا نہیں ۔ پہلے مصرع میں اشک یا آنسو لا کر پھر کہیں۔ بہا نہ دینا" کی بہ نسبت" لٹا نہ دینا" کہیں تو بہتر ہو جائے دوسرا مصرع بھی۔ بہانا پہلے مصرع میں استعمال کیا جا سکتا ہے
شکوہ بہت ہے تم سے مجھ کو جہان والو
مانگوں میں بد دعائیں اتنا رلا نہ دینا
------یا
مجھ کو ستا ستا کر ہرگز رلا نہ دینا
------------
کس بات کا شکوہ ہے؟ واضح نہیں، بات بھی نہیں بنی
منصف اگر ہو کوئی کرتا نہیں وہ ایسا
مجرم ہو سامنے جب پھر بھی سزا نہ دینا
------------
جس کو بھی اختیار ہو گا، وہ منصف کہلائے گا، ضروری نہیں کہ وہ انصاف ہی کرے۔ایمان دار یا سچا وغیرہ صفت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو بات بنے۔
جب سامنے ہو مجرم، تب بھی سزا.... بہتر ہو گا
الفت کا روگ تم نے خود کو لگا لیا ہے
اوروں کو روگ ارشد اب تم لگا نہ دینا
-----------
دونوں مصرعوں میں روگ! تخلص پہلے مصرع میں لایا جائے تو بہتر ہے
 
الف عین
(اصلاح)
---------
تم زندگی اجیرن میری بنا نہ دینا
یوں دور رہ کے مجھ سے مجھ کو سزا نہ دینا
-----------
سازش میں ہیں ملوّث اس قوم کے محافظ
لوگو یہ بات دل سے ہرگز بھلا نہ دینا
--------
لکھتا رہا ہوں تم کو الفت میں جو تمہاری
تم وہ خطوط میرےہرگز جلا نہ دینا
----------
تم ہو عزیز مجھ کو سارے جہاں سے بڑھ کر
یہ بات یاد رکھنا دل سے بھلا نہ دینا
-------
آ کر مری لحد پر آنسو نہ تم بہانا
یہ قیمتی ہیں موتی ان کو لٹا نہ دینا
----------
تم نے بہت ستایا مجھ کو جہان والو
مانگوں میں بد دعائیں اتنا رلا نہ دینا
-----------
ارشد جو روگِ الفت خود کو لگا لیا ہے
اوروں کو روگ اپنا اب تم لگا نہ دین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تم زندگی اجیرن میری بنا نہ دینا
یوں دور رہ کے مجھ سے مجھ کو سزا نہ دینا
کچھ الفاظ بدلنے سے مطلع اچھا ہو سکتا ہے ، ایک مشورہ

مہجور زندگی کی الجھن بڑھا نہ دینا
اے یار جینے کی اب، مجھ کو دعا نہ دینا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کچھ الفاظ بدلنے سے مطلع اچھا ہو سکتا ہے ، ایک مشورہ

مہجور زندگی کی الجھن بڑھا نہ دینا
اے یار جینے کی اب، مجھ کو دعا نہ دینا
اس سے تو ارشد بھائی کا مطلع ہی بہتر لگتا ہے، ہاں پہلا مصرع بہتر ہے، ثانی ارشد بھائی کا، بہتر یہ ہو گا کہ پہلا مصرع تمہارا اور ثانی پچھلا والا ہو۔
باقی اشعار درست ہو گئے ہیں سوائے مقطع کے۔ روگ تو اب بھی دونوں مصرعوں میں قائم ہے، مزید غلطی ہندی لفظ روگ کے ساتھ فارسی اضافت!
 
Top