جہاد رحمت یا فساد؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
بہت شکریہ فیصل عظیم۔ سب کی توجہ اس طرف دلانے کا۔

سورۃ‌ البقرۃ کی آیات 1 تا 21 کا اردو ترجمہ

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا نہایت رحم کرنے والا ہے۔<br>
[AYAH]2:1[/AYAH] الف ، لام، میم
[AYAH]2:2[/AYAH] یہ اللہ کی کتاب ہے، نہیں کوئی شک اس کے کتاب الٰہی ہونے) میں ہدایت ہے (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے۔
[AYAH]2:3[/AYAH] جو ایمان لاتے ہیں غیب پر اور قائم کرتے ہیں نماز اور اس میں سے جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے خرچ کرتے ہیں۔
[AYAH]2:4[/AYAH] اور وہ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل کیا گیا تم پر اور اس پر جو نازل کیا گیا تم سے پہلے اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں۔
[AYAH]2:5[/AYAH] یہی لوگ ہیں ہدایت پر اپنے رب کی اور یہی ہیں فلاح پانے والے۔
[AYAH]2:6[/AYAH] بیشک وہ لوگ جنہوں نے (ان باتوں کو ماننے سے) انکار کردیا یکساں ہے ان کے لیے خواہ تم خبردار کرو انہیں یا نہ کرو وہ ایمان نہ لائیں گے۔
[AYAH]2:7[/AYAH] مہر لگادی ہے اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر (پڑ گیا ہے) پردہ اور ان کے لیے ہے عذاب عظیم۔
[AYAH]2:8[/AYAH] اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان لائے ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر، حالانکہ نہیں ہیں وہ مومن۔
[AYAH]2:9[/AYAH] دھوکہ بازی کررہے ہیں وہ اللہ سے اور ایمان والوں سے جب کہ نہیں دھوکا دے رہے مگر اپنے آپ ہی کو لیکن انہیں (اس کا) شعور نہیں۔
[AYAH]2:10[/AYAH] ان کے دلوں میں ہے ایک بیماری لہذا اور بڑھا دیا ان کا اللہ نے مرض اور ان کے لیے ہے درد ناک عذاب، بسبب اس جھوٹ کے جو وہ بولتے ہیں۔
[AYAH]2:11[/AYAH] اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ نہ برپا کرو فساد زمین میں تو کہتے ہیں کہ ہم ہی تو ہیں اصلاح کرنے والے۔
[AYAH]2:12[/AYAH] خبردار! حقیقت میں یہی لوگ ہیں فساد برپا کرنے والے، مگر انہیں شعور نہیں۔
[AYAH]2:13[/AYAH] اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ ایمان لاؤ جس طرح ایمان لائے اور لوگ تو کہتے ہیں کہ کیا ایمان لائیں ہم جس طرح ایمان لائے بیوقوف، خبردار ! حقیقت میں یہی لوگ ہیں بیوقوف، لیکن جانتے نہیں۔
[AYAH]2:14[/AYAH] اور جب ملتے ہیں اہل ایمان سے تو کہتے ہیں ایمان لائے ہم اور جب ملتے ہیں علیحدگی میں اپنے شیطانوں سے تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں، اصل میں ہم تو (ان کے ساتھ) محض مذاق کررہے ہیں۔
[AYAH]2:15[/AYAH] (جبکہ) اللہ مذاق کررہااُن سے کہ مہلت دیے جارہا ہے انہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں اندھوں کی طرھ بھٹک رہے ہیں۔۔
[AYAH]2:16[/AYAH] یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خریدی ہے گمراہی بدلے میں ہدایت کے، سو نہ تو نفع دیا ان کی تجارت ہی نے اور نہ ہوئے وہ ہدایت پانے والے۔
[AYAH]2:17[/AYAH] ان کی مثال اس شخص کی ہے جس نے جلائی آگ (روشنی کے لیے) پھر جب روشن کردیا آگ نے اس کے گرد و نواح کو تو سلب کرلیا اللہ نے ان کا نُور اور چھوڑ دیا ان کو اندھیروں میں کہ کچھ نہیں دیکھ پاتے۔
[AYAH]2:18[/AYAH] بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، لٰہذا یہ (اب نہ لوٹیں گے (سیدھے راستے کی طرف)۔
[AYAH]2:19[/AYAH] یا (پھر ان کی مثال ایسی ہے) جیسے زور کی بارش ہو رہی ہے آسمان سے، اس کے ساتھ ہیں اندھیری گھٹائیں، کڑک اور چمک، ٹھونس لیتے ہیں اپنی انگلیاں کانوں میں اپنے، بسبب بجلی کی کڑک کے، موت کے ڈر سے، اور اللہ ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے ان منکرین حق کو۔
[AYAH]2:20[/AYAH] قریب ہے کہ یہ بجلی اچک لے جائے بصارت ان کی، جب ذرا بجلی چمکی تو چلنے لگتے ہیں اس (کی روشنی) میں اور جونہی اندھیرا چھا جاتا ہے، ان پر تو کھڑے ہوجاتے ہیں حالانکہ اگر چاہتا اللہ تو سلب کرلیتا ان کی سماعت اور بصارت ہی کو۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
[AYAH]2:21[/AYAH] اے انسانو! عبادت کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو بھی جو (ہو گزرے) تم سے پہلے تاکہ تم بچ جاؤ (عذاب سے)
 

پیاسا

معطل
جہاد میں شمولیت کے لئے ضروری ہے کہ حاکم وقت کی اطاعت کی جائے اور اس اطاعت میں فوج میں شرکت۔ ایک منظم فوج کے باہر اختلافی بنیاد پر معصوم انسانوں کے قتل، خود کش حملے صرف اور صرف فساد ہیں۔

اسلام کے نام پر اپنے اختلافات کی بنیاد پر ایک مسلمان گروپ کا دوسرے مسلمان گروپ کو قتل کرنا کسی رحمت کی نشانی نہیں بلکہ ففساد اور بغاوت ہے ۔ یہ تو اپنی مظبوط ریاست کو اپنے ہی خنجر سے قتل کرنے کے مترادف ہے۔

جناب حاکم وقت جب مشرف سا ہو تو کیا میراتھن ریسوں کے ذریعے جہاد کیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا علماء کو قتل کر نے کو جہاد قرار دیا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا امریکی حکومت سے یاری و وفاداری جہاد قرار پائے گی۔ ۔ ۔ ۔یا اپنے ہی ملک کے عوام کا غیب کر دینا جہاد کے زمرے میں آئے گا ۔ ۔ کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بیچنے کو جہاد کا نام دیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یا باجوڑ کے مدرسے پر امریکی بم باری کا نام جہاد ہے۔ ۔؟
آپ کو معلوم ہونا چاہے کہ جہاد جب فرض ہو جائے تو کسی حکم اور اطاعت کی ضروت باقی نہ رہے گی۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ جہاد کب فرض ہوتا ہے تو یہ بھی اآپ کو بتا سکتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لفظوں کے ہیر پھر سے "ورلڈ ٹریڈ سنٹر" بنانے والے مسلمانوں مین کم نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جوں ہی وہ کسی "جہاز" کا رخ اپنی طرف دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ خوف سے ان کا پیشاب خطا ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔
 

ظفری

لائبریرین
جناب حاکم وقت جب مشرف سا ہو تو کیا میراتھن ریسوں کے ذریعے جہاد کیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا علماء کو قتل کر نے کو جہاد قرار دیا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا امریکی حکومت سے یاری و وفاداری جہاد قرار پائے گی۔ ۔ ۔ ۔یا اپنے ہی ملک کے عوام کا غیب کر دینا جہاد کے زمرے میں آئے گا ۔ ۔ کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بیچنے کو جہاد کا نام دیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یا باجوڑ کے مدرسے پر امریکی بم باری کا نام جہاد ہے۔ ۔؟
آپ کو معلوم ہونا چاہے کہ جہاد جب فرض ہو جائے تو کسی حکم اور اطاعت کی ضروت باقی نہ رہے گی۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ جہاد کب فرض ہوتا ہے تو یہ بھی اآپ کو بتا سکتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لفظوں کے ہیر پھر سے "ورلڈ ٹریڈ سنٹر" بنانے والے مسلمانوں مین کم نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جوں ہی وہ کسی "جہاز" کا رخ اپنی طرف دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ خوف سے ان کا پیشاب خطا ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔

جہاد کب فرض ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور جب فرض ہوتا ہے تو اس کے اقدام کا قرآن میں کیا حکم ہے ۔ کچھ روشنی ڈالیئے گا تاکہ ہمارے علم میں بھی کچھ اضافہ ہوسکے ، شکریہ
 

پیاسا

معطل
جہاد کب فرض ہوتا ہے ۔۔۔۔ اور جب فرض ہوتا ہے تو اس کے اقدام کا قرآن میں کیا حکم ہے ۔ کچھ روشنی ڈالیئے گا تاکہ ہمارے علم میں بھی کچھ اضافہ ہوسکے ، شکریہ


جہاد كے كئى ايك مراتب اور درجات ہيں، ان ميں كچھ تو ہر مكلف پر فرض عين ہے، اور كچھ فرض كفايہ يعنى جب بعض مكلفين جہاد كر رہے ہوں تو باقى سے ساقط ہو جاتا ہے، اور كچھ مستحب ہے.
جہاد نفسى اور شيطان كے خلاف جہاد تو ہر مكلف پر فرض ہے، اور منافقين اور كفار اور ظلم و ستم كرنے والوں اور برائى اور بدعات پھيلانے والوں كے خلاف جہاد فرض كفايہ ہے، اور بعض اوقات كفار كے خلاف جہاد معين حالات ميں فرض عين ہو جاتا ہے جس كا بيان آگے آ رہا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جہاد كى چار اقسام اور مراتب و درجات ہيں: جہاد بالنفس، شيطان كے خلاف جہاد، كفار كے خلاف جہاد، اور منافقين كے خلاف جہاد.
جہاد بالنفس كے بھى چار درجات اور مراتب ہيں:
پہلا مرتبہ:
ہدايت و راہنمائى كى تعليم اور دين حق كے حصول كے ليے نفس كے خلاف جہاد كيا جائے، كيونكہ اس كے بغير نہ تو دنيا ميں سعادت حاصل ہوتى ہے اور نہ ہى آخرت ميں كاميابى فلاح سے ہمكنار ہوا جا سكتا ہے، جب اس پر عمل نہ كيا جائے تو دونوں جہانوں ميں شقاوت و بدبختى حاصل ہوتى ہے.
دوسرا مرتبہ:
علم كے حصول كے بعد وہ اس پر عمل كرنے كے ليے جہاد اور كوشش كرے، كيونكہ عمل كے بغير صرف علم اگر اسے نقصان نہ دے تو اسے كوئى فائدہ بھى نہيں دے سكتا.
تيسرا مرتبہ:
وہ اس علم كو آگے پھيلانے اور جنہيں اس كا علم نہيں انہيں تعليم دينے ميں جہاد اور كوشش كرے، اگر ايسا نہيں كرتا تو وہ ان لوگوں ميں شامل ہوگا جو اللہ تعالى كى نازل كردہ ہدايت و راہنمائى اور واضح دلائل كو چھپاتے ہيں، اور اس كا يہ علم اسے نہ تو اللہ كے عذاب سے نجات دےگا اور نہ ہى اسے كوئى نفع دے سكتا ہے.
چوتھا مرتبہ:
اللہ تعالى كے دين كى دعوت دينے ميں جو تكاليف اور مشكلات پيش آئيں، اور لوگوں كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت پر صبر كرنے كا جہاد، اور ان سب كو وہ اللہ كے ليے برداشت كرے.
تو جب يہ چار مرتبے مكمل كر لےگا تو وہ ربانيين ميں شامل ہو جائيگا، سلف رحمہ اللہ كا اس پر اتفاق ہے كہ عالم اس وقت تك ربانى كے نام سے موسوم ہونے كا مستحق نہيں جب تك وہ حق كى پہچان كر كے اس پر عمل كرنے كے بعد اس كى لوگوں كو تعليم نہ دے، تو جو شخص علم حاصل كرے اور اس پر عمل كر كے لوگوں كو اس كى تعليم بھى دے تو يہى شخص ہے جو آسمان ميں عظيم شان ركھتا ہے.
شيطان كے خلاف جہاد كے دو مرتبے ہيں:
پہلا مرتبہ:
شيطان كى جانب سے بندے كو ايمان ميں پيدا ہونے والے شكوك و شبہات دور كرنے كے ليے جہاد كرنا.
دوسرا مرتبہ:
شيطان كى جانب سے فاسد قسم كے ارادے اور شہوات دور كرنے كى كوشش اور جہاد كرنا.
تو پہلے جہاد كے بعد يقين اور دوسرے كے بعد صبر حاصل ہوگا اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
﴿ اور جب ان لوگوں نے صبر كيا تو ہم نے ان ميں سے ايسے پيشوا اور امام بنا ديے جو ہمارے حكم سے لوگوں كو ہدايت كرتے تھے، اور وہ ہمارى آيتوں پر يقين ركھتے تھے ﴾السجدۃ ( 24 ).
تو اللہ سبحانہ وتعالى نے خبر دى ہے كہ امامت دين صبر اور يقين كے ساتھ حاصل ہوتى ہے، چنانچہ صبر شہوات اور فاسد قسم كے ارادوں كو دور اور ختم كرتا ہے، اور يقين شكوك و شبہات كو ختم كرتا ہے.
اور كفار اور منافقين كے خلاف جہاد كے چار مراتب ہيں:
دل اور زبان اور مال اور نفس كے ساتھ.
ہاتھ كے ساتھ جہاد كرنا كفار كے خلاف خاص ہے.
اور منافقين كے خلاف زبان كے ساتھ جہاد كرنا خاص ہے.
اور ظلم و ستم اور بدعات و منكرات كے خلاف جہاد كے تين مراتب ہيں:
پہلا:
اگر قدرت و استطاعت ہو تو ہاتھ كے ساتھ، اور اگر استطاعت نہ ہو تو يہ منتقل ہو كر زبان كے ساتھ، اور اگر اس كى بھى استطاعت اور قدرت نہ ہو تو پھر دل كے ساتھ جہاد كرنے ميں منتقل ہو جاتا ہے.
تو جہاد كے يہ تيرہ ( 13 ) مراتب ہيں، اور حديث :
جو شخص بغير جہاد كيے مر گيا اور نہ ہى اس كے نفس ميں جہاد كرنے كى خواہش پيدا ہوئى تو وہ نفاق كى ايك علامت پر مرا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1910 ).
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 9 - 11 ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جہاد كى كئى ايك اقسام ہيں:
نفس كے ساتھ، مال كے ساتھ، دعاء كے ساتھ، توجيہ و ارشاد اور راہنمائى كر كے، كسى بھى طرح خير وبھلائى پر معاونت كر كے جہاد كرنا.
ليكن ان سب ميں عظيم نفس كے ساتھ جہاد ہے، پھر مال كے ساتھ اور رائى اور راہنمائى كے ساتھ جہاد كرنا، اور اسى طرح دعوت و تبليغ بھى جہاد ہى ہے، تو نفس اور جان كے ساتھ جہاد سب سے اعلى درجہ ہے "
ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 7 / 334 - 335 ).
دوم:
اور كفار كے خلاف ہاتھ سے جہاد ميں امت مسلمہ كے حسب حال كئى قسم كے مراحل گزرے ہيں:
ابن قيم رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
اللہ سبحانہ وتعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر جو پہلى وحى نازل فرمائى كہ وہ اس رب كے نام سے پڑھيں جس نے انہيں پيدا كيا ہے، اور يہ نبوت كى ابتدا تھى، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے نبى كو حكم ديا كہ وہ اپنے دل ميں اسے پڑھيں اور اس وقت انہيں اس كى تبليغ كا حكم نہيں ديا پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے سورۃ المدثر كى يہ آيت نازل فرمائى:
﴿ اے چادر اوڑھنے والے اٹھو اور ڈراؤ ﴾.
تو اللہ سبحانہ وتعالى نے آپ كو ﴿ اقراء ﴾كہہ كر نبى بنايا اور ﴿ يا ايھا المدثر ﴾ كہہ كر رسول بنايا.
پھر اللہ تعالى نے حكم ديا كہ اپنے كنبہ قبيلہ والوں اور قريبى رشتہ داروں كو تبليغ كرو، اور پھر اس كے بعد اپنى قوم كو، اور پھر اس كے بعد اپنے ارد گرد رہنے والے عرب كو، اور پھر دور رہنے والے عرب كو، اور پھر پورى دنيا ميں رہنے والوں كو.
تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نبى بننے كے بعد دس برس تك بغير كسى قتال اور لڑائى اور جہاد اور بغير جزيہ كے تبليغ كرتے رہے، اور آپ كو صبر و تحمل اور معاف و درگزر كرنے اور ہاتھ روك كر ركھنے كا حكم ديا گيا.
پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو ہجرت كى اجازت دى گئى اور اس كے بعد پھر لڑائى اور جہاد كرنے كى.
پھر آپ كو ان لوگوں سے لڑنے كا حكم ديا گيا جو آپ سے لڑائى كرتے تھے، اور جو آپ سے نہيں لڑے اور قتال نہيں كيا ان سے روك ديا گيا.
پھر مشركوں كے خلاف اس وقت تك لڑائى كا حكم ديا گيا جب تك كہ پورا دين اللہ كے ليے نہ ہو جائے.
پھر كفار كے خلاف جہاد كا حكم ملنے كے بعد كفار كى آپ كے ساتھ تين اقسام تھيں:
جن كے ساتھ صلح اور جنگ بندى تھى.
جن كے ساتھ لڑائى تھى يعنى اہل حرب.
اور ذمى لوگ.
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 159 ).
سوم:
كفار كے خلاف ہاتھ سے جہاد كرنا فرض كفايہ ہے:
ابن قدامہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
قال: ( اور جہاد فرض كفايہ ہے، جب قوم كے كچھ افراد جہاد كر رہے ہوں تو باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے ).
فرض كفايہ كا معنى يہ ہے كہ:
وہ فرض چيز اگر اتنے لوگ اس كى ادائيگى نہ كريں جو كافى ہوں تو سب لوگ گنہگار ہونگے، اور اگر اتنے لوگ ادا كر ليں جو كافى ہوں تو باقى سب لوگوں سے ساقط ہو جاتا ہے.
ابتدا ميں خطاب سب كو شامل ہے، مثلا فرض كفايہ، اور پھر اس ميں مختلف ہے كہ فرض كفايہ بعض كے ادا كرنے سے باقى افراد سے ساقط ہو جاتا ہے، اور فرض عين كسى دوسرے كے كرنے سے كسى سے بھى ساقط نہيں ہوتا، عام اہل علم كے قول كے مطابق جہاد فرض كفايہ ميں شامل ہوتا ہے .
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 9 / 163 ).
اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
يہ پہلے بھى گزر چكا ہے كہ ہم پہلے كئى بار بيان كر چكے ہيں كہ جہاد فرض كفايہ ہے نہ كہ فرض عين، اور سب%
 

مغزل

محفلین
جناب حاکم وقت جب مشرف سا ہو تو کیا میراتھن ریسوں کے ذریعے جہاد کیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا علماء کو قتل کر نے کو جہاد قرار دیا جائے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا امریکی حکومت سے یاری و وفاداری جہاد قرار پائے گی۔ ۔ ۔ ۔یا اپنے ہی ملک کے عوام کا غیب کر دینا جہاد کے زمرے میں آئے گا ۔ ۔ کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بیچنے کو جہاد کا نام دیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔یا باجوڑ کے مدرسے پر امریکی بم باری کا نام جہاد ہے۔ ۔؟
آپ کو معلوم ہونا چاہے کہ جہاد جب فرض ہو جائے تو کسی حکم اور اطاعت کی ضروت باقی نہ رہے گی۔ ۔ ۔ ۔ اگر آپ نہیں جانتے کہ جہاد کب فرض ہوتا ہے تو یہ بھی اآپ کو بتا سکتا ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لفظوں کے ہیر پھر سے "ورلڈ ٹریڈ سنٹر" بنانے والے مسلمانوں مین کم نہیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جوں ہی وہ کسی "جہاز" کا رخ اپنی طرف دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ خوف سے ان کا پیشاب خطا ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔

جناب یہ دعوت قبول کیجئے
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=14521&page=10
مراسلہ نمبر 97-98 آپ کیلئے ہیں۔
اس مرسلے کے ضمن میں بھی بات ہوگی
 
ہمارے بھائی یہ سوال کتنی بار پوچھ چکے لیکن بھولنے کی وجہ سے دوبارہ پیسٹ کر دیتے ہیں کہ جہاد کا حکم اور فرضیت لیکن پھر یہ مت کہنا کہ یہ نبی السیف والملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک محدود تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

(1) [arabic]كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ۔ [/arabic](البقرہ۔216)
قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعاً) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھلاسمجھو اور وہ تمہارے حق میں برا ہو اور اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
(2) [arabic]وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [/arabic](البقرہ۔244)
اور لڑو اللہ کے راستے میں اور جان لو بے شک اللہ تعالیٰ خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ہیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
(3) [arabic]وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الأرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ [/arabic](البقرہ۔251)
اور اگر اللہ تعالیٰ کا بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو دفع کرانا نہ ہوتا تو زمین فساد سے بھر جاتی لیکن اللہ تعالیٰ جہاں والوں پر بڑے مہربان (کہ انہوں نے جہاد کا حکم نازل فرما کر فساد کے خاتمے اور امن کے قیام کی صورت پیدا فرما دی)
اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا:
(4) [arabic]فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ [/arabic]۔(التوبہ۔5)
ان مشرکوں کو جہاں پاؤ مارو اور پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔
اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا:
(5)
[arabic]قَاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلا بِالْيَوْمِ الآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ[/arabic] ۔(التوبہ۔ 29)
لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں لاتے اللہ پر اور نہ آخرت کے دن پر اور حرام نہیں سمجھتے ان چیزوں کو جن کو اللہ نے اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور سچے دین اسلام کو قبول نہیں کرتے اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ ذلیل (ماتحت) ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینا منظور نہ کرلیں۔

اللہ جل شانہ کا ارشاد گرامی ہے:

(6)
[arabic]وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ [/arabic]۔ (الحج۔40 )
اور اگر اللہ تعالیٰ(ہمیشہ سے) لوگوں کا ایک دوسرے (کے ہاتھ) سے زور نہ گھٹاتا تو نصاریٰ کے خلوت خانے اور عبادت خانے اور یہود کے عبادت خانے اور وہ مسجدیں جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے سب ڈھا دئیے جاتے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا جو اللہ کے دین کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ قوت والا(اور) غلبے والا ہے۔

جہاد کب فرض عین ہوتا ہے

اگر کافر ہمارے کسی شہر [یا علاقے] میں داخل ہوجائیں یا اس پر چڑھائی کردیں یا شہر کے دروازے کے باہر آکر حملے کی نیت سے پڑاؤ ڈال دیں اور ان کی تعداد اس علاقے کے مسلمانوں سے دگنی یا اس سے کم ہو تو جہاد اس وقت فرض عین ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکلے گا اور عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر نکلے گی۔ بشرطیکہ اس میں دفاع کی طاقت ہو۔ یہی قول زیادہ صحیح ہے اور ہر شخص اپنے والدین کی اجازت کے بغیر اور مقروض قرض خواہ کی اجازت کے بغیر نکلے گا۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اور اگر کافر مسلمانوں پر اچانک حملہ کردیں اور مسلمانوں کو لڑائی کیلئے تیار ہونے اور اکٹھے ہونے کا موقع نہ ملے تو ہر اس شخص پر تنہا لڑنا اور اپنا دفاع کرنا فرض ہے۔جسے معلوم ہو کہ اگر اس نے ہتھیار ڈال دئیے تو وہ مارا جائے گا یہ مسئلہ ہر مسلمان کیلئے ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، عورت ہو یا اندھا، لنگڑا ہو یا بیمار، اور اگر امکان ہو کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد قتل بھی ہو سکتے ہیں اور [بچ کر ] گرفتار بھی تو ایسے وقت میں لڑنا افضل ہے اور ہتھیار ڈالنا جائز۔اور اگر عورت کو علم ہو کہ اگر میں نے ہتھیار ڈال دئیے تو [غلیظ] ہاتھ میری طرف بڑھیں گے تو اس پر اپنے دفاع میں لڑنا فرض ہے اگرچہ اس میں اس کی جان بھی چلی جائے کیونکہ جان بچانے کیلئے عزت کو داؤ پر لگانا جائز نہیں ہے۔

علامہ اذرعی [ المتوفی 783 ] اپنی کتاب غنیتہ المحتاج میں فرماتے ہیں کہ خوبصورت بے ریش لڑکے کو اگر علم ہو کہ اس کے ساتھ کافر ابھی یا آئندہ بے حیائی کا ارتکاب کرسکتے ہیں تو اس کا حکم بھی عورت کی طرح ہے بلکہ عورت سے بھی بڑھ کر [ اسے اپنے دفاع کی کوشش کرنی چاہئے اور عصمت کی حفاظت کیلئے جان کی قربانی دینی چاہئے ] اور اگر جس علاقے پر کافروں نے حملہ کیا ہے وہاں مسلمانوں کی کثرت ہو اور اتنے لوگ کافروں کے مقابلے پر نکل چکے ہوں جو مقابلے کیلئے کافی ہوں تب بھی باقی مسلمانوں پر زیادہ صحیح قول کے مطابق ان مجاہدین کی مدد کرنا فرض ہے۔ اور جو شخص ایسی جگہ پر ہو جہاں سے حملہ آور دشمن مسافت سفر [ یعنی اڑتالیس میل کی مسافت ] پر ہوں تو اس شخص پر اسی طرح جہاد فرض عین ہو جائے گا جیسا کہ اس علاقے والوں پر فرض ہے جہاں دشمن نے حملہ کیا ہے۔ علامہ ماوردی فرماتے ہیں کہ یہ اس وجہ سے ہے کہ کافروں کے حملے کے بعد اب یہ جہاد دفاعی ہوچکا ہے۔ اقدامی نہیں رہا اس وجہ سے یہ ہر اس شخص پر فرض ہوگا جو اس کی طاقت رکھتا ہو [ تاکہ مسلمانوں کے علاقے اور ان کی جان و مال کا دفاع کیا جا سکے جوکہ فرض عین ہے۔ ] اور جو شخص اس شہر سے جس پر کافروں کا حملہ ہو اہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] کی دوری پر ہو تو اس پر فرض ہے کہ وہ فوراً اس شہر کی طرف جہاد کیلئے روانہ ہو اگرچہ وہ خود اس شہر یا اس کے آس پاس کا رہنے والا نہ ہو اور اگر اتنے لوگ وہاں جاچکے ہوں جو دشمن کیلئے کافی ہوں تو پھر باقی لوگوں سے فرضیت تو ساقط ہو جائے گی لیکن وہ نہ جانے کی صورت میں اجر عظیم اور بے انتہا ثواب سے محروم ہوجائیں گے۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ مسافت سفر کے اندر والوں پر سے فرضیت ساقط نہیں ہوگی اگرچہ کافی مقدار میں لوگ دشمن کے مقابلے پر جاچکے ہوں بلکہ ان پر مجاہدین کی مدد کرنا ور خود میدان جنگ کی طرف سبقت کرنا فرض ہوگا۔

( 12 ) وہ مسلمان جو اس شہر سے جس پر کافروں نے حملہ کیا ہے مسافت سفر [ اڑتالیس میل ] سے زیادہ دور رہتے ہوں تو ان کا کیا حکم ہے؟ زیادہ صحیح قول تو یہ ہے کہ اگر مسافت سفر کے اندر کے لوگ دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی ہورہے ہوں تو پھر ان لوگوں پر جہاد فرض عین نہیں ہوتا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ جہاد الاقرب فالاقرب کی ترتیب سے فرض ہوتا چلا جاتا ہے اس میں کسی مسافت وغیرہ کی قید نہیں ہے بلکہ قریب والوں پر پھر ان کے بعد والوں پر پھر ان کے بعد والوںپر جہاد فرض ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ خبر آجائے کہ کافروں کو شکست ہوگئی اور وہ مسلمانوں کا علاقہ چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں۔

( 13 ) جو شخص لڑائی والے شہر سے مسافت سفر کے اندر ہوگا اس پر جہاد کی فرضیت کیلئے سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ اگر مسافت سفر سے دور ہوتو بعض حضرات سواری کو شرط قرار دیتے ہیں جبکہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ ایسے سخت حالات میں سواری کی کوئی شرط نہیں ہے البتہ توشے کا ہونا جہاد کی فرضیت کیلئے شرط ہے کوئی قریب ہو یا دور۔

( 14 ) اگر کافر مسلمانوں کے ملک میں ان کے شہروں اور آبادیوں سے دور ویرانوں میں یا پہاڑوں میں داخل ہوجائیں تو ان کا کیا حکم ہے؟ امام الحرمین نقل فرماتے ہیں کہ دارالاسلام کے کسی بھی حصے میں داخل ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شہر میں داخل ہونا [ اس لئے ان کو نکالنے کیلئے جہاد فرض عین ہوگا۔] لیکن خود امام الحرمین کا رجحان اس طرف ہے کہ جن علاقوں میں کوئی آباد ہی نہیں ہے ان کیلئے لڑائی کرنا اور خود کو تکلیف میں ڈالنا مناسب نہیں ہے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام الحرمین کا یہ رجحان قطعاً درست نہیں ہے بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلمان دفاع کی قوت رکھتے ہوئے بھی کافروں کو دارالاسلام کے کسی حصے پر قبضہ کرنے کی اجازت دے دیں۔ (روضۃ الطالبین ص 216 ج۔10) واللہ اعلم۔

( 15 ) علامہ قرطبی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں مگر اس کے قریب آچکے ہوں تب بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ کافروں کے مقابلے کیلئے باہر نکلیں اور [ اور لڑتے رہیں ] یہاں تک کہ اللہ کا دین غالب ہو اور مرکز اسلام محفوظ، سرحدیں بے خطر اور دشمن ذلیل وخوار ہوجائے۔ (الجامع لاحکام القرآن ص 151ج۔8)

اور یہی مطلب ہے علامہ بغوی کے اس قول کا کہ اگر کافر دارالاسلام میں داخل ہو جائیں تو قریبی لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے اور دور والوں پر فرض کفایہ رہتا ہے [بشرطیکہ قریب والے مقابلہ کررہے ہوں اور کافی ہو رہے ہوں ]



اللہ اکبر کبیرا


واجد حسین ( شہید انشاء اللہ )
 

ظفری

لائبریرین
ہمارے بھائی یہ سوال کتنی بار پوچھ چکے لیکن بھولنے کی وجہ سے دوبارہ پیسٹ کر دیتے ہیں کہ جہاد کا حکم اور فرضیت لیکن پھر یہ مت کہنا کہ یہ نبی السیف والملاحم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک محدود تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟



واجد حسین ( شہید انشاء اللہ )

یار تم تو کوئی بات ہی نہ کرو تو اچھا ہے ۔ تم پہلے بھی جوابات دینے میں فیل ہوچکے ہو ۔ بس کتابچے پر کتابچے چھاپتے پھرتے ہو ۔ اب بھی جتنی بھی آیتیں تم نے کوٹ کیں ہیں ۔ ذرا ان آیتوں کی تفصیل ، ان سورہ کے سیاق و سباق میں رکھکر بات کرو ۔ ان آیتوں کا پس منظر کیا ہے ۔ اس پر بھی روشنی ڈالو ۔ مہیز چند خاص آیتیں پوری کی پوری سورہ سے نکال کر ان آیتوں کو اپنی مرضی سے مفہوم دینا ، یہی کام تو مشرک بھی کرتے ہیں ک " ہ دیکھو تمہارا اسلام تو یہ کہتا ہے ۔ اسلام کو تلوار سے پھیلا کر امن و شانتی کی بات کرتے ہو ۔ " تم بھی یہی کام کر رہے ہو ۔ اللہ سے ڈرو بھائی ۔۔۔۔ سوچ لو قیامت میں کیا منہ دکھاؤ‌گے جب جسم کو چھپانے کے لیئے پتے بھی میسر نہیں ہونگے ۔
 

ظفری

لائبریرین

جہاد كے كئى ايك مراتب اور درجات ہيں، ان ميں كچھ تو ہر مكلف پر فرض عين ہے، اور كچھ فرض كفايہ يعنى جب بعض مكلفين جہاد كر رہے ہوں تو باقى سے ساقط ہو جاتا ہے، اور كچھ مستحب ہے.
جہاد نفسى اور شيطان كے خلاف جہاد تو ہر مكلف پر فرض ہے، اور منافقين اور كفار اور ظلم و ستم كرنے والوں اور برائى اور بدعات پھيلانے والوں كے خلاف جہاد فرض كفايہ ہے، اور بعض اوقات كفار كے خلاف جہاد معين حالات ميں فرض عين ہو جاتا ہے جس كا بيان آگے آ رہا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
جب يہ معلوم ہو گيا تو پھر جہاد كى چار اقسام اور مراتب و درجات ہيں: جہاد بالنفس، شيطان كے خلاف جہاد، كفار كے خلاف جہاد، اور منافقين كے خلاف جہاد.
جہاد بالنفس كے بھى چار درجات اور مراتب ہيں:
پہلا مرتبہ:
ہدايت و راہنمائى كى تعليم اور دين حق كے حصول كے ليے نفس كے خلاف جہاد كيا جائے، كيونكہ اس كے بغير نہ تو دنيا ميں سعادت حاصل ہوتى ہے اور نہ ہى آخرت ميں كاميابى فلاح سے ہمكنار ہوا جا سكتا ہے، جب اس پر عمل نہ كيا جائے تو دونوں جہانوں ميں شقاوت و بدبختى حاصل ہوتى ہے.
دوسرا مرتبہ:
علم كے حصول كے بعد وہ اس پر عمل كرنے كے ليے جہاد اور كوشش كرے، كيونكہ عمل كے بغير صرف علم اگر اسے نقصان نہ دے تو اسے كوئى فائدہ بھى نہيں دے سكتا.
تيسرا مرتبہ:
وہ اس علم كو آگے پھيلانے اور جنہيں اس كا علم نہيں انہيں تعليم دينے ميں جہاد اور كوشش كرے، اگر ايسا نہيں كرتا تو وہ ان لوگوں ميں شامل ہوگا جو اللہ تعالى كى نازل كردہ ہدايت و راہنمائى اور واضح دلائل كو چھپاتے ہيں، اور اس كا يہ علم اسے نہ تو اللہ كے عذاب سے نجات دےگا اور نہ ہى اسے كوئى نفع دے سكتا ہے.
چوتھا مرتبہ:
اللہ تعالى كے دين كى دعوت دينے ميں جو تكاليف اور مشكلات پيش آئيں، اور لوگوں كى جانب سے حاصل ہونے والى اذيت پر صبر كرنے كا جہاد، اور ان سب كو وہ اللہ كے ليے برداشت كرے.
تو جب يہ چار مرتبے مكمل كر لےگا تو وہ ربانيين ميں شامل ہو جائيگا، سلف رحمہ اللہ كا اس پر اتفاق ہے كہ عالم اس وقت تك ربانى كے نام سے موسوم ہونے كا مستحق نہيں جب تك وہ حق كى پہچان كر كے اس پر عمل كرنے كے بعد اس كى لوگوں كو تعليم نہ دے، تو جو شخص علم حاصل كرے اور اس پر عمل كر كے لوگوں كو اس كى تعليم بھى دے تو يہى شخص ہے جو آسمان ميں عظيم شان ركھتا ہے.
شيطان كے خلاف جہاد كے دو مرتبے ہيں:
پہلا مرتبہ:
شيطان كى جانب سے بندے كو ايمان ميں پيدا ہونے والے شكوك و شبہات دور كرنے كے ليے جہاد كرنا.




محترم شکریہ ۔۔۔۔۔ میرے علم میں واقعی اضافہ ہوا ہے ۔ اللہ آپ کو جز ا دے ۔ ایک بات یہ پوچھنی تھی کہ جہاد کی تمام تعریف جو اوپر بیان ہوئی ہے ان میں سے ایک صورتحال اگر واجد صاحب والے جہاد جیسی ہو جاتی ہے تو اللہ نے اس جہاد کا حکم کیسے دیا ہے اور جب حکم دیا ہے تو اس کی شرائط کیا رکھیں ہیں ۔ ؟ یعنی اس جہاد میں نکلنے لے لیئے اللہ کا قانون کیا کہتا ہے ۔؟
 
م م مغل نے بہت خوب فرمایا ۔ دوبار دہراتا ہوں۔
پہلے مکمل انسان تو بن جائیے ۔۔ بعد میں جنت کے حقدار بنیئے گا

ظفری صاحب نے سوال کیا کہ جہاد کا حکم ------ کب ----- دیا جاسکتا ہے؟
سوال تھا گندم اور جواب میں ملا ۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔ :confused:
صاحب آپ سے سوال کیا گیا تھا کہ جہاد کب شروع کیا جاسکتا ہے ؟
آپ فرماتے ہیں کہ جہاد کیسے کیا جاتا ہے؟ بھائی آپ سے یہ نہیں‌پوچھا تھا کہ جہاد کتنا ضروری ہے یا کتنے زور سے کرنا ہے :hatoff: بلکہ سوال یہ ہے کہ
جہاد کا حکم ------ کب ----- دیا جاسکتا ہے؟

اگر آپ یہ ٹیپنا چھوڑ‌ دیں اور تھوڑا سا عقل کو تکلیف دے لیں ۔ :grin1: لوگوں کے چھاپے ہوئے کو کٹ‌پیسٹ کرنے کے بجائے کچھ خود بھی پڑھ لیں‌ تو اور کچھ ہو نہ ہو کم از کم آپ میٹرک میں‌ فیل نہ ہوں :box: ۔۔۔۔ ۔ ارررر ۔۔ :boxing: یعنی کم از کم ہم لوگ ہی کچھ سیکھ لیں ۔۔ :hatoff:

اس آیت کے بارے میں‌ آپ کا کیا خیال ہے کہ جہاد کی اجازت کس کو ہے ؟
[AYAH]22:39 [/AYAH] [ARABIC]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ [/ARABIC]
ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے

یہ پاکستانی طالمان پر کس نے ظلم کیا ہے ؟ :boxing: یہ ظلم تو ان پاکستانی ظالمان نے شروع کیا ہے :twisted: ۔جس کے جواب میں ان سے جہاد کیا جارہا ہے ۔ :beating:

والسلام
 

پیاسا

معطل
بھینس کے آگے بین بجانے سے کچھ نہیں ہونے والا الٹا اپنا وقت ضائع کیا جاتا ہے اس لیے میں بھینسوں کو ان کے حال پر چھوڑتا ہوں تا کہ وہ خود اپنی مرضی کا "چارہ" اپنے" زرخیز "ذہنوں سے اگا لیں
 

فرخ

محفلین
السلام وعلیکم
دوستو،
ایک بات بہت اچھی طرح سب جانتے ہیں۔ تالی ہمیشہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔

میں یہاں‌طالبان کی حمائیت نہیں‌کر رہا، بلکہ جنگ میں ہونے والے حالات اور اسکے جواب میں‌ ہونے والے ری ایکشن کو سامنے لانا چاہ رہا ہوں۔

حکومتِ پاکستان نے امریکہ کی نام نہاد دھشت گردی کے خلاف جنگ میں‌صفِ اول کا کردار ادا کیا اورافغانستان کی پرائیویٹ جنگ میں‌مدد کے بعد اپنے ہی علاقے پر ایک ایسی فوج لے کر حملہ کیا جس میں‌خود بھی مسلمان موجود ہیں۔ اس جنگ میں‌ بہت بڑی تعداد میں‌قبائلی علاقوں میں‌ ان معصوم لوگوں‌کا بھی قتل عام ہوا، جو نہ تو کسی طالبان تحریک کا حصہ تھے اور نہ ہی کسی سے جنگ چاہتے تھے۔اور نہ کبھی انہوں‌نے پاکستان پرچڑھائی کی۔ بلکہ حقیقتاً پاک افغان بارڈر پر ایک طرح‌سے پاکستان کے گارڈز کا کردار ادا کیا
ابتداء میں‌طالبان اور قبائلیوں‌نے پاکستان کی فوج سے جنگ کرنے سے کنارہ کشی اختیار کی، لیکن جب یہ حقیقت سامنے آئی کہ پاکستان کی فوج اب صرف کرائے کی فوج کا کردار ادا کر رہی ہے اور اپنے ہی لوگوں‌پر حملوں‌ کے جواب میں بھاری قیمت وصول کر رہی ہے اپنے آقاء امریکہ سے، تو جواباً خود کُش حملوں کا رُخ پاکستان کے طرف پھیر دیا گیا۔

یہی حکومت پاکستان اپنے ہی بہت سے لوگوں‌کو امریکہ کے ہاتھوں‌بیچنے کے جرم کی مرتکب بھی ہوئی اور باقی گمشدہ لوگوں‌کی کہانی تو ایک طرف ڈاکٹر عافیہ کے کیس کی صورت میں ایک اور پول کھلا۔

افغانستان تک جو جنگ تھی، وہ امریکہ لے کر آیا اور پھنس گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ اس جنگ میں‌پاکستان کا تو کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ مگر مفت کی امداد کھانے والے حرام خور حکمران اگر اپنے آقاء کے سامنے گھُٹنے نہ ٹیکتے تو اور کیا کرتے۔ ورنہ انکا آرمی ہاوس، اور پریزیڈنٹ ہاؤس اور اسکے علاوہ نہ جانے کون کونسی عیاشیاں‌ختم ہو جاتیں‌جو غریب عوام کے دیئے ہوئے ٹیکسوں‌ سے بھی بنائی گئیں‌اور امریکی امداد کی حرام کی آگ اپنے پیٹوں‌میں‌بھر کر بھی۔ لہٰذا امریکہ کی جنگ اپنے سر لے کر اپنے ہی لوگوں پر فوج کشی کر دی گئی۔

یہ جنگ دو طرفہ ہے۔ قبائلیوں‌اور مقامی طالبان نے پاکستان پر جوابی کاروائیاں‌اس لیئے شروع کیں کیونکہ انکے اپنے سامنے انکے معصوم لوگ جن میں‌عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں امریکی اور پاکستانی طیاروں‌کی بمباری میں تڑپ تڑپ کر ہلاک ہوئے۔ جن میں‌ ان مدرسوں‌کے طالب علم بھی شامل تھے جو وہاں‌اپنی غربت کی وجہ سے تعلیم کے سلسلے میں‌مقیم تھے اور کسی تحریک کا حصہ نہ تھے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

میڈیا پر ہر بمباری کے نتیجے میں‌ہلاک ہونے والوں‌کےبارے میں‌یہ کہا جاتا ہے، کہ اتنے دھشت گرد ہلاک کر دیئے گئے اور اتنے گرفتار، لیکن مزے کی بات یہ کہ نہ تو طالبان کی تعداد میں کمی آئی اور نہ کبھی کوئی غیر ملکی پکڑا گیا۔ جو ایک آدھ دکھایا بھی گیا، آج تک اُسکا کچھ پتا نہیں۔ بلکہ الٹا طالبان کی تعداد میں‌نہ صرف اضافہ ہوا، بلکہ غیر ملکی میڈیا نے اس بات کا انکشاف کیا کہ طالبان اب پہلے سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں۔ تو پھر بمباری میں‌مرنے والے کون تھے اور جو پکڑے گئے وہ کون تھے؟

انہی بے گناہوں‌کےہلاکت جواب میں طالبان نے بدلہ لینے کی دھمکیاں‌دیں‌اور پھر جن حملوں‌کا آغاز طالبان اور قبائلیوں نے کیا وہ سیکیورٹی فورسز اور انکے لیئے کام کرنے والے لوگ تھے۔ جو شائید ہمارے لیئے معصوم ہوں بالکل ایسے جیسے باجوڑ اور وزیرستان میں مرنے والے بے گناہ بچے اور عورتیں اور وہ مرد جو کسی تحریک کا حصہ نہ تھے، وہاں‌کے لوگوں‌کے لیئے معصوم اور بے گناہ تھے۔

ابھی ملا عمر کا انٹرویو دیکھا۔ حالانکہ میں‌انکے جوابات سے قطعاً متفق نہیں ہوں سوائے چند ایک کے، کہ ہماری فوج نے ان پر امریکہ کی شہ پر بمباری کی اور امریکہ مسلم دنیا کے نزدیک ایک کافر طاقت ہے اور اسکا ساتھ دینے والے بھی پھر کافروں کے ساتھی گنے جاتے ہیں۔ اوراس بمباری کے نتیجے میں‌ وہاں‌باجوڑ اور وزیرستان اور سوات میں‌بہت سے معصوم لوگوں‌کا خون ہوا۔
اور واہ فیکٹری ان کے لیئے دشمن کا اسلحہ بنانے کی فیکٹری ہے اور یہی وہ اسلحہ ہے جو ان پر استعمال ہوتا ہے۔ شائید اس لیئے کہ وہ لوگ امریکہ جیسے کافر طاقت کے خلاف نبرد آزما ہیں
۔

تو بات سیدھی سی ہے۔ کوئی آپکے لوگوں‌کو مارے گا،تو آپ اسکے لوگوں‌کو مارو گے اور خاص طور پر اگر کوئی منافق (پاکستان کا موجودہ نظام) کسی کافر کے ساتھ مل کر آپ پر حملہ کرے اور نقصان پہنچائے تو کیا آپ یہ کہتے پھرئیں گے۔۔"یہ ہم نہیں۔"

تو بھائی میرے، جنگ میں‌ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر حکومت کو امریکہ کی غلامی اور حرام خوری کی بجائے اپنے لوگوں‌کا اتنا ہی خیال ہوتا تو نہ اپنے لوگوں‌پر بمباری کرتی اور نہ اسکے جواب میں‌ڈالر کماتی۔ لہٰذا نتائیج آپکے سامنے ہیں۔اب ہمیں‌اپنے معصوم لوگوں‌کے مرنے کا دکھ ہے، تو یہی دکھ انکو بھی تو دیا گیا ہے۔

جن پر بمباری کی گئی ایک طرف امریکہ دوسرے طرف ایک منافق حکومت کی فوج کی طرف سے وہ کیا امن کے گیت گائیں گے اور 14 اگست پر پٹاخے چھوڑیں گے؟

میں ان خود کش حملوں‌کا اصل ذمہ دار حکومتِ پاکستان کو سمجھتا ہوں۔ طالبان نے گو کہ اسکی ذمہ داری قبول کی، لیکن اصل محرک حکومت کی کافر نواز پالیسیاں ہیں۔
 

فرخ

محفلین
اس آیت کے بارے میں‌ آپ کا کیا خیال ہے کہ جہاد کی اجازت کس کو ہے ؟
[ayah]22:39 [/ayah] [arabic]أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ [/arabic]
ان لوگوں کو (جہاد کی) اجازت دے دی گئی ہے جن سے (ناحق) جنگ کی جارہی ہے اس وجہ سے کہ ان پر ظلم کیا گیا، اور بیشک اﷲ ان (مظلوموں) کی مدد پر بڑا قادر ہے

یہ پاکستانی طالمان پر کس نے ظلم کیا ہے ؟ :boxing: یہ ظلم تو ان پاکستانی ظالمان نے شروع کیا ہے :twisted: ۔جس کے جواب میں ان سے جہاد کیا جارہا ہے ۔ :beating:

والسلام

بہت خوب جناب، آپ کے نزدیک ایک کافر طاقت کے اشارے پر ان لوگوں‌پر بمباری کرنا اور حملہ کرنا (جنھوں نے کبھی پاکستان پر حملہ نہ کیا ہو بلکہ امریکہ سے خلاف لڑتے ہوں) اور پھر اسکے جواب میں بھاری ڈالرز کی صورت میں‌امداد اور انعامات وصول کرنا، اور اب آپ چاہتے ہیں‌کہ وہ لوگ بہت پیار محبت سے آپکی کرائے کی فوج کے ہاتھوں قتل و تباہ ہوتے رہیں‌تاکہ پاکستان اسکے جواب میں امداد وصول کرتا رہے۔

ہاں‌میاں، ہر کوئی چاہتا ہے، کہ اسکو معصوم کہا جائے۔۔۔۔ شائید یہی آپ لوگوں‌کا جہاد ہے، اللہ کی بجائے امریکہ کے لیئے۔
 

زیک

مسافر
واہ فرخ کیا خوب بات کی ہے!! Relativism کی انتہا کر دی! کیا خوب اسلام ہے آپ کا اور طالبان کا جو بیچارے واہ فیکٹری کے مزدوروں، پولیس والوں اور عام پاکستانیوں کو مارے کی ترغیب دیتا ہے۔ بہت خوب!!! جاری رکھئے۔
 

فرخ

محفلین
واہ فرخ کیا خوب بات کی ہے!! Relativism کی انتہا کر دی! کیا خوب اسلام ہے آپ کا اور طالبان کا جو بیچارے واہ فیکٹری کے مزدوروں، پولیس والوں اور عام پاکستانیوں کو مارے کی ترغیب دیتا ہے۔ بہت خوب!!! جاری رکھئے۔

واہ جناب، آپ نے اپنا نام جوکر بالکل ٹھیک رکھا ہے۔

کیا خوب پاکستانی اسلام ہے کہ کافروں سے امداد لو اور اپنے ہی لوگوں‌ پر بمباری کرو۔ یہ شائید آپ کا مذھب ہے نا۔ جو وہاں‌کے غریب عوام کو دھشت گردی کے نام پر قتل کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

کیا آپکی اور امریکہ کی بمباری میں‌یہ دیکھا جاتا ہے کہ کون دھشت گرد ہے اور کون غریب مزدور اور کسان؟

آپ کا میڈیا آپ کو تصویر کا ایک رخ دکھاتا ہے۔ کبھی وہاں‌کے لوگوں‌سے پوچھا جا کر کہ مرنے والا مجاہد تھا یا محنت مزدوری کرکے کھانے والا ایک عام غریب
اپنے مزدوروں، پولیس والوں اور عام پاکستانیوں کا خیال تو ہمیں‌بھی ہے، لیکن کیا باجوڑ اور وزیرستان کے لوگ غیر لوگ ہیں جو شروع سے پاکستان کے ساتھ رہتے چلے آ رہے ہیں اور آپکے محبوب جوکر مشرف کے دور سے پہلے کبھی پاکستان کے خلاف نبرد آزما نہیں‌ہوئے اور آج امریکی ڈالروں کی حرام چکا چوند نے ہماری آنکھوں‌ کو اسقدر خیرہ کر دیا کہ ہم نے انکو اپنا کہنے سے انکار کر دیا اور امریکی اشارے پر ان پر حملہ کر ڈالا
حالانکہ وہ کہتے رہے کہ انکی جنگ امریکہ سے ہے، پاکستان سے نہیں۔
 
کسی غار میں رہنے والا ہی ایسا کہہ سکتا ہے فرخ۔ پاکستانی ظالمان کی پٹائی تو اب شروع ہوئی ہے ۔ ان لوگوں نے تو قتل و غارت گری کا بازار سالہا سال سے لگایا ہوا ہے۔

آپ صرف ایسا کیجئے کہ امریکہ سے جہاد شروع کردیجئے۔ ایک ہفتہ امریکہ کی بنی ہوئی ہر چیز استعمال کرنا بند کردیجئے۔ سب سے پہلے تو آپ یہاں‌ سے ہی غائب ہو جائیں گے۔ باقی آپ خود جان لیں‌گے۔ خواہ مخواہ کا پنگا پنگا کھیلنا کس جہاد کا نام ہے سرکار۔

جہاد کا شوق ہے تو پاک فوج میں شمولیت کیجئے۔ نہ کا معصوم افراد کو بازار میں قتل کرکے اور لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کرکے ، مواصلاتی ٹاورز تباہ کرکے ، پولیس والوں کو قتل کرکے، پائپ لائینیں اڑا کر آپ جہاد کررہے ہیں؟
 

زیک

مسافر
کیا اسلام یہ سکھاتا ہے کہ آپ کا مخالف جس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرے آپ بھی ویسے ہی کریں؟ کیا اسلام جہاد کے لئے کوئ code of conduct مقرر نہیں کرتا؟
 

ظفری

لائبریرین
بھینس کے آگے بین بجانے سے کچھ نہیں ہونے والا الٹا اپنا وقت ضائع کیا جاتا ہے اس لیے میں بھینسوں کو ان کے حال پر چھوڑتا ہوں تا کہ وہ خود اپنی مرضی کا "چارہ" اپنے" زرخیز "ذہنوں سے اگا لیں
اندازِ گفتگو ہی اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ علمی بحث اور دلائل کا فقدان ہے ۔ یعنی ذہن کو اس طرف ڈال دیا ہے کہ بربریت ، قتل و غارت ہی اسلام کا عین منشاء ہے ۔ اور علمی بحث چونکہ نہیں ہوسکتی اس لیئے جہل کا اظہار فطری طور پر سامنے آجاتا ہے ۔ آپ کسی کو قائل نہیں کرسکتے کیونکہ اس کے لیئے تحقیق کرنی پڑتی ہے ۔ خلوصِ دل سے ہر چیز کا تنقیدی جائزہ لینا پڑتا ہے ۔ سیاق و سباق اور واقعات کے پس منظر جاننا پڑتے ہیں ۔ مگر یہاں تو کہیں سے کچھ پڑھا اور اس پر تحیقق کیئے بغیر اپنے ایمان کا حصہ بنا لیا اور پھر اس کو جگہ جگہ چھاپ کر سب پر تھوپنے کی کوشش جی جانے لگی ۔
یا تو پیرائے میں رہ کر بحث جائے مگر علمی بحث ۔۔۔۔ یا پھر عالم و فاضل بننے کے بجائے اس قسم کی بحث سے خود کو دور رکھا جائے ۔ تاکہ جو لوگ خلوصِ دل سے اسلام کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ۔ ان کے لیئے بیزاری کا سامان پیدا نہ ہو ۔
 

خرم

محفلین
فرخ میاں یہ چند سوالات ہیں‌آپ سے ان کے جوابات عطا کیجئے گا؟ وقت کی قید نہیں آپ اپنی سہولت سے جواب دیجئے لیکن ان کا جواب دینے سے پہلے مزید حمایت نہ کیجئے گا فسادی ظالمان کی کہ آپ کا علم غالباَ چند اور دوستوں کی طرح ابھی صرف بڑھکوں تک ہی محدود ہے۔ مزید کبھی فرصت ملے تو حشیشین کے متعلق بھی پڑھئے گا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top