جوانی کی ایک غزل تقریبا 1993 کی

دلِ بے چین کو قرار نہیں
تیرے غم سے ہمیں فرار نہیں
اب کے اتری نہیں ہے فصلِ گلاب
اب کے باغوں میں وہ بہار نہیں
میرے اشکوں نے دھو دیا مجھ کو
اب مرے دل پہ کچھ غبار نہیں
ایک بے نام سی خلش ہے ضرور
گو ہمیں تیرا انتظار نہیں
کیا کہیں اس کی کج ادائی کو
ہم نے مانا ہمیں ہی پیار نہیں
بے یقینی سدا رہے گی شکیل
گر تمہیں خود پہ اعتبار نہیں

احباب واساتذہ کی توجہ کا طالب
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن ودیگر
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ایطا ہو گیا ہے اسے بدل دیں
میرے اشکوں نے دھو دیا مجھ کو
اب مرے دل پہ کچھ غبار نہیں
.. اچھا شعر ہے لیکن دونوں مصرعوں میں ربط پیدا کرنے کے لئے
'دھو دیا اس کو' بہتر رہے گا شاید۔
باقی درست ہی لگ رہی ہے غزل
 
مطلع میں ایطا ہو گیا ہے اسے بدل دیں
میرے اشکوں نے دھو دیا مجھ کو
اب مرے دل پہ کچھ غبار نہیں
.. اچھا شعر ہے لیکن دونوں مصرعوں میں ربط پیدا کرنے کے لئے
'دھو دیا اس کو' بہتر رہے گا شاید۔
باقی درست ہی لگ رہی ہے غزل
شکریہ استادِ محترم
کیا یہ دو شعر مناسب رہیں گے

ہمیں دل پر یہ اختیار نہیں
تیرے غم سے ہمیں فرار نہیں

جب سے آکر بسے ہو تم اس میں
دلِ بے چین کو قرار نہیں
 
Top