جواب تلخ می زیبد لب لعل شکر خارا

نمرہ

محفلین
سوال بائی ڈیفینیشن احمقانہ ہو نہیں سکتے سوائے ایک کے اور وہی لوگ تواتر سے پوچھتے ہیں، کہ آپ اس قدر خاموش کیوں رہتی ہیں۔
یہ ضرور ہے کہ زندگی کے اہم سوالات کے برعکس اس کا جواب وجود رکھتا ہے، البتہ سماجی اخلاق کے دائرے سے ذرا باہر ہے۔ ہم اگر ذرا کم تہذیب یافتہ ہوں تو صاف صاف کہہ دیا کریں کہ بندہ پرور، ہماری گفتگو نہ تو آپ کے کانوں کو پسند آئے گی، نہ دماغ کو۔ پھر ہم لب کشائی کی زحمت کریں تو کریں کیوں۔ دنیا معموں سے بھری پڑی ہے، انھیں کھولیے جا کر۔ ہمارا منہ کیوں کھلواتے ہیں کہ ہماری باتیں سن کر ان سنی نہیں کی جا سکتیں، پکا فساد ہو جاتا ہے۔
کم آمیزی کا معاملہ یہ ہے کہ گفتگو کے چند ہی مقاصد ہوا کرتے ہیں انسانوں کی زندگی میں، اور وہ ہماری پسند سے میل نہیں کھاتے۔ ہمیں نہ تو بات چیت کے ذریعے سوشل ہائی رارکی میں اپنا مقام متعین کرنے کا شوق ہے اور نہ دوسرے انسانوں سے تعلقات بڑھانے کی آرزو۔ سوشل تجسس یعنی اردگرد کے انسانوں کی زندگی کے بارے میں معلومات کا تبادلہ خیال، جسے لسانیات کے ماہر اولین انسانوں میں زبان کی نشونما کا ایک اہم مقصد تسلیم کرتے ہیں، ہم سے اتنا ہی دور ہے جتنے کہ زندگی میں کامیابی سے ہم۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تجسس اور جستجو انسان ہونے کی انتہائی اہم علامات ہیں جو پتھروں وغیرہ میں نہیں پائی جاتیں مگر اس کا محور دلچسپ معاملات ہونے چاہئیں ، گھر اور دفتر کے پڑوسی نہیں۔ پھر یہاں دلچسپ معاملات کی تعریف پر ہمارا اور دنیا کا اختلاف شروع ہوتا ہے جو ڈائی ورج ہی کرتا جاتا ہے، کنورج کبھی نہیں کرتا۔
دنیا ہم سے اختلاف کرتی ہے تو ہم دنیا سے، یوں دونوں کا گزارا چل رہا ہے۔ خاموش رہنے پر تو ہمیں آج تک اتنی مرتبہ پوچھا جا چکا ہے کہ حد نہیں۔ سیدھی اور سامنے کی بات ہے کہ کسی خاموش انسان پر اگر اپنی گفتگو کا ٹوکرا الٹ دیا جائے، چاہے اسی بہانے کہ آپ خاموش کیوں ہیں، تو اس غریب کے چپ رہنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہے کہ ماتھے پر بڑی سی پٹی باندھ لی جائے:
۔۔جی ہاں، میں ایک خاموش انسان ہوں
۔۔اگر آپ مجھے خاموش ہی رہنے دیں تو بہت پیارے لگیں
۔۔جی ہاں، ہم بھی وجود رکھتے ہیں
۔۔رکھتے تو ہم منہ میں زبان بھی ہیں لیکن ہرگز، ہرگز اور ہرگز نہیں چاہتے کہ آپ مدعا دریافت کریں
۔۔آپ کی غیر ضروری اور غیر مناسب دلچسپی کا شکریہ!
غیر مناسب دلچسپی کا معاملہ یوں ہے کہ ہمیں ہمیشہ لوگوں کی لوگوں میں دلچسپی غیر مناسب ہی لگتی ہے، تناسب کی خرابی کے باعث۔ ہم خود کو تسلی دینے کو ضرور کہتے ہیں کہ میں عمیق تھا کہ پلا ہوا تھا سکوت میں، لیکن سچ بات یہ ہے کہ محفلوں میں ہمارے خاموش رہنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوا کرتی ہے کہ ہمارے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ بولنے کو ہم بول تو سکتے ہیں اور گھنٹوں لیکن ایک عمر میں ہم نے یہی سیکھا ہے کہ الفاظ بے معنی ہوا کرتے ہیں اور لوگ جلد باز۔ وہی رویہ جو ہم سڑکوں پر نوٹس کرتے ہیں کہ لوگ گاڑیاں یوں بھگاتے ہیں جیسے انھیں کہیں پہنچ کر ملک چلانا ہو حالانکہ اصل میں ان کی اپنی زندگی نہیں چلتی ان سے، تو عین وہی طریقہ گفتگو کا ہے کہ بات کرنی چاہیے ہجوم میں بیٹھ کر چاہے مطلب کچھ نہ ہو۔ پھر سنانے میں تو دلچسپی سب رکھتے ہیں، سننے میں کوئی بھی نہیں۔ ایسے میں دنیا کی محفلیں صرف ایک بے معنی شور کا طوفان بن کر رہ جاتی ہیں جن کی لپیٹ میں وقت سے لے کر انفرادی سوچ تک، سب اڑ جاتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ پرمعنی اور خوبصورت تو ہمیں سچ مچ کے طوفان لگتے ہیں جو ہمارے شہر میں شام رات کو تشریف لاتے ہیں۔ کیا پرہیبت آواز ہوتی ہے ہوا کی میدانوں میں اور کیا پرشکوہ نظارا ہوتا ہے آسمانی بجلی کا۔
تو دنیا کے رویے سے ہم کبھی کبھار جل کر کہہ اٹھتے ہیں، سننے کی تاب ہے نہ سمجھنے کی آرزو، بہتر ہے میری بات یہاں ان کہی رہے، لیکن لوگ پھر شعر کو بھی ویسے ہی نظر انداز کرتے ہیں جیسے نثر کو۔
ہم تبلیغ کا مزاج نہیں رکھتے لیکن ہم نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ انسانوں کی اکثریت اپنے کان بند رکھتی ہے اور دل سخت۔ لوگوں میں شدید صلاحیت ہوتی ہے، ناپسندیدہ بات پر اپنے ذہن کے دروازے بند کرنے کی۔ ہم میں ہوتی تو ہماری زندگی سہل ہوتی اور خوبصورت۔ دل کا ماجرا یہ ہے کہ ہم تکلیف ہمیشہ دوسرے کی محسوس کرتے ہیں، اپنے مسائل کی پروا کون کرتا ہے۔ کبھی کبھی لاکھ سر مارنے پر بھی ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ انسان کتنی آسانی سے دوسرے انسانوں پر ظلم کرتے ہیں، ان کا حق چھین لیتے ہیں اور انھیں تکلیف پہنچاتے ہیں، گاہے ارادی اور گاہے غیر ارادی طور پر۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس سب کے بعد رات کو چین کی نیند بھی سوتے ہیں اور صبح اٹھ کر آئینے میں اپنی زلفیں بھی سنوار لیتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ لوگوں کو اپنی صورت کے بارے میں وہ خوش فہمیاں ہوتی ہیں جو ہماری طرف صرف ہماری اماں کو ہیں لیکن اپنے جیسے ایک اور انسان کو تکلیف پہنچانے کے بعد ہم تو خود سے نظریں ملانے کی ہمت نہ پائیں اپنے آپ میں۔
ارادی اور غیر ارادی کی بحث طویل ہے اور خود ہمارا اس بارے میں موقف تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے ذہن میں ایک چھوٹا سا جزیرہ مثالیت پسندی کا بھی ہے جہاں یقین رکھا جاتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کو ضرر تب پہنچاتا ہے جب اسے اندازہ نہیں ہوتا کہ اگلے کو بھی ویسی ہی تکلیف ہو گی جیسی مجھے خود۔ نیز یہ بھی اعتقاد ہے کہ اگر لوگ ذرا زیادہ علم رکھیں اور مہربانی کی تاثیر سے باخبر ہوں تو کبھی کشادہ دلی میں کمی نہ آنے دیں۔ ہم نے خود یہاں تک تو اصول بنا رکھا ہے کہ اگر کوئی دنیا میں کسی بھی طرح ہم سے کم اختیار رکھتا ہے تو پھر ہم اسے اپنے بارے میں سب کچھ معاف کر دیں گے۔ البتہ صاحب اختیار لوگوں کی بدتمیزی ہم برداشت کرنا پسند نہیں کرتے اور کم از کم ادھار تو رکھ لیتے ہیں، مثلا اگر ہم سے ہمارا غریبانہ سا کھانا کھانے کی چھوٹی سی جگہ چھین لی جائے، بڑے صاحبوں کی میٹینگوں کے نام پر، کیونکہ غریب لڑکیوں کو جگہ سے بے جگہ کرنا بڑا آسان کام ہے اور کہاں اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔ پھر اتھارٹی سے سمجھوتہ ہم کریں تو کریں کیوں، لیکن ظاہر ہے اس سے ٹکرائو کے اتنے مواقع ملتے نہیں ہمیں۔
لیکن اس امید پرست جزیرے کے اردگرد ایک مہیب سمندر ہے، حقیقت پرستی اور انسانی خود غرضی پر ایمان کا، جس میں یہی شور اٹھتا ہے کہ انسان کم از کم شماریات کی رو سے صرف اور صرف اپنا چھوٹے سے چھوٹا مفاد بھی عزیز تر رکھتے ہیں دوسرے کے بڑے سے بڑے نقصان کی نسبت۔ یہاں انسان کہاں ہیں، مچھلیاں ہیں اور حسب مراتب سب ایک دوسرے کو کھا جاتی ہیں۔ نیکی، مہربانی، خلوص اور ایثار چھوٹے بچوں کی کتابوں میں موجود ناموں کے علاوہ کچھ نہیں۔ لوگ زندگی میں ایک ہی فلسفہ اختیار کرتے ہیں، یعنی اپنے فائدے کا۔ ہر نیت کے اندر اور ہر دلیل کے پیچھے اپنی مرضی کے سوا کچھ نہیں پایا جاتا عام طور پر۔ اپنی تمناووں آرزووں پر لوگ کبھی رسم و رواج کا پردہ ڈالتے ہیں، کبھی دلیل کا۔ ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ ہر انسان، انسان کیا ہے، جھوٹ اور فریب کا ایک مجموعہ ہے۔ کچھ فریب انسان خود کو دیتا ہے، کچھ دوسروں کو۔ ایک کا پردہ چاک کرنے کے لیے ذہنی دیانت کی ضرورت ہے اور دوسرے کے لیے اخلاقی بلند حوصلگی کی۔ وہ تو ہم میں بھی موجود نہیں، کسی اور کو کیا درس دیں۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم بکواس اور ذہنی پستی کے باہمی تبادلے کے متحمل نہیں ہو سکتے جسے لوگ عام زندگی میں تبادلہ خیال کا نام دیتے ہیں۔ گفتگو ہماری زندگی میں کلی طور پر ایک لاسٹ کاز ہے کہ ہم جب جہاں کچھ کہیں گے، اس پر غور کرنے کی زحمت تو کوئی کرے گا نہیں۔ سو طرز زندگی ہم نے یہ اپنا رکھا ہے کہ کبھی اشد ضرورت ہو تو مسکرا دیتے ہیں، چپ رہتے ہیں اور پھر تھوڑا اور مسکراتے ہیں۔ بے لوث تبسم سے جنم لینے والے معاملات کا ذکر خیر پھر کبھی سہی۔ یہ ضرور تسلیم کریں گے کہ ہماری بات سننے کی زحمت کون کرے اور کرے تو کرے کیوں جبکہ ہم خود کسی کی نہ سننے میں وہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ اپنی ایک نہیں سنتے۔
 

منیب الف

محفلین
آپ نے اچھا کیا یہ مضمون لکھ دیا۔
اس سوال کا مجھے بھی اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آیندہ کسی نے پوچھا تو اسے یہی تحریر پڑھا دوں گا :)
یہ بات آپ نے تیر بہدف کہی:
پھر سنانے میں تو دلچسپی سب رکھتے ہیں، سننے میں کوئی بھی نہیں۔
 
آخری تدوین:

نمرہ

محفلین
آپ نے اچھا کیا یہ مضمون لکھ دیا۔
اس سوال کا مجھے بھی اکثر سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آیندہ کسی نے پوچھا تو اسے یہی تحریر پڑھا دوں گا :)
یہ بات آپ نے تیر بہدف کہی:
ارے واہ، خوشی کی بات ہے کہ ایسی تحریروں کا بھی کوئی مصرف ہو سکتا ہے۔
 
Top