نظر لکھنوی جمال و رعب و جلال دیکھیں سخن بلاغت نظام دیکھیں

دادا مرحوم کا ایک اور ہدیۂ عقیدت بحضور سرورِ کونینؐ

جمال و رعب و جلال دیکھیں سخن بلاغت نظام دیکھیں
شہِ ہدیٰ کا نہیں ہے ثانی پھریں زمانہ تمام دیکھیں

ہے ختم کارِ نبوت ان پر رسالت ان پر تمام دیکھیں
ہر ایک پہلو سے ہے مکمل ہزار پہلو یہ کام دیکھیں

ملاءِ اعلیٰ کا یہ وظیفہ بہ حکمِ ربِ انام دیکھیں
درود پڑھنا نبی پہ ہر دم نہ صبح دیکھیں نہ شام دیکھیں

مزارِ اقدس پہ زائروں کا خروش اور اژدہام دیکھیں
یہ پڑھ رہا ہے درود ان پر وہ پڑھ رہا ہے سلام دیکھیں

بروزِ محشر، بہ حوضِ کوثر وہ ساقیٔ خوش خرام دیکھیں
چلے ہیں پیاسے اسی کی جانب عطا ہو کس کس کو جام دیکھیں

حبیبِ رب ہے لقب انھیں کا مقامِ محمود ہے انھیں کا
نہیں ہے اونچا مقام اس سے کہ اس سے اونچا مقام دیکھیں

ہر ایک قصہ کو نسبت ان سے تمام باتوں کے وہ مخاطب
کلامِ ربی بنام قرآں اٹھا کے تا اختتام دیکھیں

حسیں سراپا نقوش جاذب خدنگ ابرو نگاہ دلکش
جو دیکھ لیں ایک بار ان کو نہ پھر وہ ماہِ تمام دیکھیں

وہ مردِ آہن وہ مردِ غازی وہ میرِ لشکر بہر مغازی
مصافِ حق میں وہ تیغِ براں بدستِ خیر الانام دیکھیں

خزانۂ لازوال قرآں ملا بدست نبی نظرؔ جو
بھرا ہے حکمت کے موتیوں سے خواص ڈھونڈیں عوام دیکھیں

محمد عبد الحمید صدیقی نظر لکھنوی​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وہ مردِ آہن وہ مردِ غازی وہ میرِ لشکر بہر مغازی
مصافِ حق میں وہ تیغِ براں بدستِ خیر الانام دیکھیں
مغازی تو جمع کا صیغہ ہے ۔ حیرت ہے نظر لکھنوی صاحب نے اسے واحد کیونکر باندھ لیا ؟!
حسیں سراپا نقوش جاذب خدنگ ابرو نگاہ دلکش
جو دیکھ لیں ایک بار ان کو نہ پھر وہ ماہِ تمام دیکھیں
نعت کہنا بہت ہمت کا کام ہے۔ ۔ بہت باریک سا راستہ ہے جس پر احتیاط سے قدم جما کر چلنا پڑتا ہے ۔ لغزشِ قلم کی ذرا گنجائش نہیں اس میں ۔ اسی لئے مجھے آج تک یہ جرات نہیں ہوسکی ۔ مندرجہ بالا شعر کا اسلوب کسی بھی صورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایانِ شان نہیں ۔ اردو کی شعری روایت میں یہ اسلوب کس کے لئے استعمال ہوتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں ۔ ایسے اشعار نہ ہی کہے جائیں تو بہتر ہیں ۔ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کی ہونی چاہئے ۔ حلیہ مبارکہ کا ذکر احترام اور ادب چاہتا ہے ۔
اس تبصرے کے لئے میں معذرت چاہتا ہوں ۔ بس کہے بغیر رہا نہیں گیا ۔
 
جزاک اللہ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب۔ سب سے پہلی بات یہ کہ معذرت کی بات تو ہے ہی نہیں۔ آپ کا تبصرہ صرف آپ کے خلوص اور محبت کو ظاہر کرتا ہے۔

دوسرا یہاں پر یہ وضاحت کرتا چلوں کہ دادا مرحوم کی نعتیہ شاعری میں آپ کو عمومی طور پر اصلاحی پہلو غالب نظر آئے گا۔ باقی حلیہ مبارک کے حوالے سے اگر ہم الفاظ کو دیکھیں تو بذاتِ خود ان الفاظ میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ اور اگر حلیہ مبارک کے حوالے سے روایات کو دیکھیں تو مبالغہ آرائی بھی نظر نہیں آتی۔
الفاظ کا استعمال موضوع اور سیاق و سباق کے حوالے سے ہی دیکھا جانا چاہیے۔

حضورِ اکرمﷺ کے حلیہ مبارک کے حوالے سے بیان کی گئی احادیث میں چہرہ مبارک کو چودھویں کے چاند سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

اسحق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت براء بن عازبؓ سے پوچھا: أَکَانَ وَجْہُ النَّبِیِّ ا مِثْلَ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ (صحیح البخاری)

”کیا نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک تلوار کی طرح تھا؟حضرت براء بن عازبؓ نے جواب دیا:نہیں،بلکہ چاند کی طرح روشن (گولائی لیے ہوا)تھا۔“

حضرت ابو بکر صدیقؓ جب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک کو دیکھتے تو پکار اُٹھتے:
اَمِیْن مُصْطَفٰی لِلْخَیْرِ یَدْعُوْ
کَضَوْءِ الْبَدْرِ زَایَلَہُ الظَّلاَم
”وہ برگزیدہ امین جو بھلائی کی دعوت دیتا ہے(اس کے چہرئہ مبارک کی تابانی ایسی ہے)جیسے اندھیرے میں بدرِ کامل ضوفشاں ہو۔“

حضرت عمر فاروقؓ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھتے توان کی زبان پر زہیر بن ابی سلمیٰ کا شعر آجاتا :
لَوْ کُنْتَ مِنْ شَیْءٍ سِوَی بَشَرٍ
کُنْتَ الْمُضِیْءُ لیْلَةَ الْبَدْرِ
”اگر آپ صلی الله علیہ وسلم انسان کے سوا کچھ اور ہوتے تو پھر آپ صلی الله علیہ وسلم چودھویں رات کا چاند ہوتے جو بہت روشن ہوتا ہے۔“

اب اگر دیکھا جائے تو چودھویں کے چاند کا ذکر بھی اردو شاعری میں آپ کو ایک مخصوص حوالہ سے ہی ملے گا۔

یہاں صاحبِ کلام کے اسلوب اور مزاج سے آگہی دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تفصیلی طور پر والدِ محترم نے ان کا تعارف ان کے نعتیہ مجموعہ کلام میں پیش کیا ہے۔ وقت ملنے پر یہاں پیش کروں گا۔

ان کی تمام شاعری پر آپ کو عشقِ حقیقی کا رنگ ہی غالب نظر آئے گا۔ یہاں انہی کا ایک قطعہ اور ایک شعر ان کے مزاج کی طرف اشارہ کرنے کے لیے پیش کر رہا ہوں۔

اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں
عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں
اسپِ سخن ہے میرا، بقیدِ زمامِ دیں
داد و سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں​

اے نظرؔ کچھ چاہئے مقصد سے بھی وابستگی
خامہ فرسائی کی خاطر خامہ فرسائی نہ کر​

آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ کا تبصرہ آپ کی محبت اور خلوص ہے، اس نے مجھے آپ سے قریب کیا ہے۔ معذرت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ :)
 
ہر ایک قصہ کو نسبت ان سے تمام باتوں کے وہ مخاطب
کلامِ ربی بنام قرآں اٹھا کے تا اختتام دیکھیں
سبحان اللہ سبحان اللہ کیا خوبصورت کلام ہے آج صبح صبح محفل آئی تو یہ پیارا کلام پڑھنے کو ملا
جزاک اللہ تابش بھائی اتنا اچھا کلام شریک کرنے کا
اللہ آپ کے دادا مرحوم کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
 
سبحان اللہ سبحان اللہ کیا خوبصورت کلام ہے آج صبح صبح محفل آئی تو یہ پیارا کلام پڑھنے کو ملا
جزاک اللہ تابش بھائی اتنا اچھا کلام شریک کرنے کا
اللہ آپ کے دادا مرحوم کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آمین
آمین، جزاک اللہ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جزاک اللہ محترم ظہیراحمدظہیر صاحب۔ سب سے پہلی بات یہ کہ معذرت کی بات تو ہے ہی نہیں۔ آپ کا تبصرہ صرف آپ کے خلوص اور محبت کو ظاہر کرتا ہے۔

دوسرا یہاں پر یہ وضاحت کرتا چلوں کہ دادا مرحوم کی نعتیہ شاعری میں آپ کو عمومی طور پر اصلاحی پہلو غالب نظر آئے گا۔ باقی حلیہ مبارک کے حوالے سے اگر ہم الفاظ کو دیکھیں تو بذاتِ خود ان الفاظ میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔ اور اگر حلیہ مبارک کے حوالے سے روایات کو دیکھیں تو مبالغہ آرائی بھی نظر نہیں آتی۔
الفاظ کا استعمال موضوع اور سیاق و سباق کے حوالے سے ہی دیکھا جانا چاہیے۔

حضورِ اکرمﷺ کے حلیہ مبارک کے حوالے سے بیان کی گئی احادیث میں چہرہ مبارک کو چودھویں کے چاند سے تشبیہہ دی گئی ہے۔

اسحق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت براء بن عازبؓ سے پوچھا: أَکَانَ وَجْہُ النَّبِیِّ ا مِثْلَ السَّیْفِ؟ قَالَ: لَا بَلْ مِثْلَ الْقَمَرِ (صحیح البخاری)

”کیا نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کا چہرئہ مبارک تلوار کی طرح تھا؟حضرت براء بن عازبؓ نے جواب دیا:نہیں،بلکہ چاند کی طرح روشن (گولائی لیے ہوا)تھا۔“

حضرت ابو بکر صدیقؓ جب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ مبارک کو دیکھتے تو پکار اُٹھتے:
اَمِیْن مُصْطَفٰی لِلْخَیْرِ یَدْعُوْ
کَضَوْءِ الْبَدْرِ زَایَلَہُ الظَّلاَم
”وہ برگزیدہ امین جو بھلائی کی دعوت دیتا ہے(اس کے چہرئہ مبارک کی تابانی ایسی ہے)جیسے اندھیرے میں بدرِ کامل ضوفشاں ہو۔“

حضرت عمر فاروقؓ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھتے توان کی زبان پر زہیر بن ابی سلمیٰ کا شعر آجاتا :
لَوْ کُنْتَ مِنْ شَیْءٍ سِوَی بَشَرٍ
کُنْتَ الْمُضِیْءُ لیْلَةَ الْبَدْرِ
”اگر آپ صلی الله علیہ وسلم انسان کے سوا کچھ اور ہوتے تو پھر آپ صلی الله علیہ وسلم چودھویں رات کا چاند ہوتے جو بہت روشن ہوتا ہے۔“

اب اگر دیکھا جائے تو چودھویں کے چاند کا ذکر بھی اردو شاعری میں آپ کو ایک مخصوص حوالہ سے ہی ملے گا۔

یہاں صاحبِ کلام کے اسلوب اور مزاج سے آگہی دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
تفصیلی طور پر والدِ محترم نے ان کا تعارف ان کے نعتیہ مجموعہ کلام میں پیش کیا ہے۔ وقت ملنے پر یہاں پیش کروں گا۔

ان کی تمام شاعری پر آپ کو عشقِ حقیقی کا رنگ ہی غالب نظر آئے گا۔ یہاں انہی کا ایک قطعہ اور ایک شعر ان کے مزاج کی طرف اشارہ کرنے کے لیے پیش کر رہا ہوں۔

اشعار میں مرے مئے باطل کی بو نہیں
عشقِ بتانِ دہر کی بھی ہاؤ ہو نہیں
اسپِ سخن ہے میرا، بقیدِ زمامِ دیں
داد و سخن کی مجھ کو نظرؔ آرزو نہیں​

اے نظرؔ کچھ چاہئے مقصد سے بھی وابستگی
خامہ فرسائی کی خاطر خامہ فرسائی نہ کر​

آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ آپ کا تبصرہ آپ کی محبت اور خلوص ہے، اس نے مجھے آپ سے قریب کیا ہے۔ معذرت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ :)

تابش بھائی ۔ آ پ کی پیش کردہ تمام احادیث حق بجانب ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ایسا ہی میرا بھی ایمان ہے ۔ میں دوسرے مصرع کی نہیں بلکہ پہلے مصرع کے اسلوب کی بات کر رہا تھا ۔ حسیں سراپا نقوش جاذب خدنگ ابرو نگاہ دلکش ۔ اس میں تیر کے مثل ابرو اور دلکش نگاہ کی جو بات ہوئی ہے سیرت کی کتب میں ایسا کہیں نہیں ملتا ۔ اس طرح کا اسلوب مجھے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے شایانِ شان نہیں لگا ۔ اس لئے کہہ دیا ۔ ہوسکتا ہے کہ میں ہی اس معاملے میں کچھ زیادہ حساس اور محتاط ہوں ۔ اسے میری شخصی رائے سمجھ کر درگزر کیجئے ۔ باقی رہا نظر لکھنوی صاحب کی شاعری کا معاملہ تو اب تک ان کا کلام پڑھ کر میں سمجھ چکا ہوں کہ عشقِ حقیقی ہی کا رنگ غالب ہے ۔ کیا بات ہے ان کے کلام کی!! آپ یہ سلسلہ جاری رکھئے ۔ آپ کی محبت اور عنایت کے لئے فرشِ راہ ہوں ۔ مجھے بھی دعاؤں میں یاد رکھئے ۔
 
Top