محمد بلال اعظم
لائبریرین
جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا
میرے سُورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا
سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیوں ہے
زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا
خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں
اپنی چاہت کو کبھی کوئی ارادہ پہنا
یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا
یارِ پیماں شکن آئے اگر اب کے تو اُسے
کوئی زنجیرِ وفا اے شبِ وعدہ پہنا
غیرتِ عشق تو مانع تھی مگر میں نے فرازؔ
دوست کا طوق سرِ محفلِ اعدا پہنا
(جاناں جاناں سے انتخاب)