جاں سنبھلتی نظر نہیں آتی ۔ برائے اصلاح

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترمی الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، یاسر شاہ

فکر ٹلتی نظر نہیں آتی
جاں سنبھلتی نظر نہیں آتی

آج بھی تجھ کو میرے وعدہ شکن
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی

شاخِ امید فصلِ گل میں بھی
اب کے پھلتی نظر نہیں آتی

ذکر تیرا نہ ہو تو محفل میں
شمع جلتی نظر نہیں آتی

تو نہ آئے تو یہ طبیعت بھی
کچھ بہلتی نظر نہیں آتی

تیری خوشبو اگر نہ لائے ہوا
سانس چلتی نظر نہیں آتی

آ بھی جا تُو کہ آج رات مجھے
موت ٹلتی نظر نہیں آتی​
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب ہے محمد عبدالرؤوف بھائی
بس اس شعر میں کوئی خرابی تو نہیں مگر مجھے 'پھر طبیعت' کی جگہ 'یہ طبیعت' بہتر لگتا ہے، اگر آپ پسند فرمائیں
پسند کرنے اور مشورہ دینے کا بہت بہت شکریہ عظیم بھائی، خوب مشورہ ہے۔ استاد صاحب کی رائے آ جائے پھر اسے تبدیل کر دیتا ہوں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عبدالرؤف ، آپ کی شاعری میں مسلسل بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ ماشاءللہ! آپ محنت جاری رکھیے۔ کامیابی زیادہ دور نہیں۔

مجھے مطلع کے علاوہ باقی اشعار میں تصحیح کی کوئی ضرورت نظر نہیں آرہی۔ البتہ اصلاح کی گنجائش تو کلام میں ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ دو تین نکات افادۂ عام کے لیے لکھ دیتا ہوں اور آپ کے اشعار پر کچھ تجاویز بطور مثال پیش کرتا ہوں۔ ان تجاویز سے اصلاح نہیں بلکہ اپنے نکات کی وضاحت مقصود ہے۔ شاید فکر کے کچھ دروازےذہنوں میں وا ہوجائیں۔

پہلا تبصرہ تو یہ ہے کہ چھوٹی بحر میں ہر لفظ اہم ہوتا ہے۔ اس غزل میں طویل ردیف کی وجہ سے دوسرے مصرع میں صرف قافیے اور ایک چھوٹے سے لفظ کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ اور قافیے کو مؤنث استعمال کرکے آپ نے الفاظ کے انتخاب کو اور محدود کرلیا۔ یہ باتیں اظہارِ خیال کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ لیکن محنت اور غور و فکر سے اچھے اشعار بھی نکالےجاسکتے ہیں۔

فکر ٹلتی نظر نہیں آتی
جاں سنبھلتی نظر نہیں آتی
کوشش کیجیے کہ مطلع جاندار ہو تاکہ قاری کی توجہ کھینچ لے ۔ مطلع کو جس قدر ہوسکے بے عیب رکھنا چاہیے۔
جان سنبھلنا مستعمل محاورہ نہیں ہے۔ جان بچنا معروف ہے۔ میرے علم کے مطابق جان سنبھلنا نہ تو کسی لغت میں ہے اور نہ ہی کسی مستند شاعر و ادیب نے استعمال کیا ہے۔ دل سنبھلنا ، جی سنبھلنا، طبیعت سنبھلنا ، حالات سنبھلنا وغیرہ معروف ہیں۔ دوسری بات یہ کہ فکر کا اس طرح واحد صورت میں استعمال پریشانی اور اندیشے کا مفہوم ادا نہیں کرتا ۔ فکرات یا فکریں ٹلتی نظر نہیں آتیں کہا جائے تو پھر یہاں مطلوبہ مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ فکر کا واحد اور مفرد استعمال کسی مثبت فکر کو بھی ظاہر کرسکتا ہے جو یہاں مقصود نہیں۔ فکر کی اگر تخصیص کردی جائے تو پھر مطلب ادا ہوجاتا ہے جیسے حالات کی فکر ، ملک کی فکر ، روزگار کی فکر وغیرہ۔

ذکر تیرا نہ ہو تو محفل میں
شمع جلتی نظر نہیں آتی
مصرعِ اول جملۂ شرطیہ ہے ۔ اسے شرطیہ انداز میں کہنے کی کوئی ضرورت یا وجہ موجود نہیں ہے۔اس مصرع کو اگر شرط کے بجائے قطعیت کا روپ دے دیا جائے تو شعر میں زور پیدا ہوجاتا ہے۔ بیان میں کسی قدر مبالغے سے کام لیا جائے تو اکثر اچھا شعر جنم لیتا ہے۔ مثلاً یوں کر کے دیکھیے:
ذکر تیرا نہیں ہے محفل میں
شمع جلتی نظر نہیں آتی

تیری خوشبو اگر نہ لائے ہوا
سانس چلتی نظر نہیں آتی
اس شعر کے ساتھ بھی اوپر والا معاملہ ہے ۔ مضمون کو شرط کی قید سے نکال کر کوئی نئی صورت دینے کی ضرورت ہے ۔
تیری خوشبو نہیں تنفس میں ::: سانس چلتی نظر نہیں آتی
تیری خوشبو نہیں ہواؤں میں ::: سانس چلتی نظر نہیں آتی
تیری خوشبو نہیں فضاؤں میں ::: سانس چلتی نظر نہیں آتی
وغیرہ وغیرہ
تو نہ آئے تو یہ طبیعت بھی
کچھ بہلتی نظر نہیں آتی
یہ مضمون بہت سطحی سا اور پائمال ہے ۔ جب مضمون پائمال اور عام سا ہو تو اسے بہتر بنانے کے لیے یا تو (1) ندرتِ الفاظ کا سہارا لیا جائے (2) یا بہت خوبصورت پیرایہ استعمال کیا جائے (3) یا اس مضمون میں سے کوئی نیا زاویہ نکالا جائے (4) یا کوئی غیر متوقع سا نکتہ پیدا کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ مندرجہ بالا نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شعر کی مختلف صورتیں تراش کر دیکھنا چاہیے اور ان میں سے کوئی ایک صورت اپنی صوابدید کے مطابق منتخب کرلینا چاہیے۔ مثلاً
تیری قربت میں بھی طبیعت اب ::: کیوں بہلتی نظر نہیں آتی
تیری محفل میں بھی طبیعت اب ::: کیوں بہلتی نظر نہیں آتی
پاس ہو تم مگر طبیعت کیوں ::: کچھ بہلتی نظر نہیں آتی
وغیرہ وغیرہ
آ بھی جا تُو کہ آج رات مجھے
موت ٹلتی نظر نہیں آتی
مصرع اول میں "تو" کا لفظ کھٹک رہا ہے ( بالخصوص اپنی نشست کی وجہ سے)۔ غزل کا لہجہ حتی الامکان دھیما رکھنا چاہیے۔نیز الفاظ کے چناؤ میں مفہوم کی وسعت کو ترجیح دینی چاہیے۔
آ بھی جاؤ کہ آج رات مجھے
موت ٹلتی نظر نہیں آتی
"تو" کا لفظ استعمال کرنے سے شعر کا مفہوم عاشقی کی حد تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے جبکہ "آ بھی جاؤ" کا خطاب اپنے اندر وسعت رکھتا ہے۔ چنانچہ اس شعر کو عاشقی کے علاوہ کسی اور موقع پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے ۔

عبدالرؤف ، تیسرا شعر اچھا ہے ۔ البتہ دوسرا شعر مبہم ہے ۔ اس کا خیال میری سمجھ میں نہیں آیا۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عبدالرؤف ، آپ کی شاعری میں مسلسل بہتری کے آثار نظر آرہے ہیں۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے۔ ماشاءللہ! آپ محنت جاری رکھیے۔ کامیابی زیادہ دور نہیں۔
حوصلہ افزائی کے لیے ممنون ہوں۔ ان شاءاللَٰه مزید محنت کروں گا۔
اصلاح کی گنجائش تو کلام میں ہمیشہ ہی رہتی ہے۔ دو تین نکات افادۂ عام کے لیے لکھ دیتا ہوں اور آپ کے اشعار پر کچھ تجاویز بطور مثال پیش کرتا ہوں۔ ان تجاویز سے اصلاح نہیں بلکہ اپنے نکات کی وضاحت مقصود ہے۔ شاید فکر کے کچھ دروازےذہنوں میں وا ہوجائیں۔
سچی بات ہے، آپ اساتذہ کے تجاویز اور مشوروں سے بندشیں چتم ہونے لگتی ہیں اور نئی نئی جہتیں کھل جاتی ہیں ۔
پہلا تبصرہ تو یہ ہے کہ چھوٹی بحر میں ہر لفظ اہم ہوتا ہے۔ اس غزل میں طویل ردیف کی وجہ سے دوسرے مصرع میں صرف قافیے اور ایک چھوٹے سے لفظ کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ اور قافیے کو مؤنث استعمال کرکے آپ نے الفاظ کے انتخاب کو اور محدود کرلیا۔ یہ باتیں اظہارِ خیال کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ لیکن محنت اور غور و فکر سے اچھے اشعار بھی نکالےجاسکتے ہیں۔
بالکل، آپ نے درست فرمایا اس مختصر بحر کی طویل اور اس پر مؤنث ردیف نے بہت رکاوٹیں کھڑی کیں۔ یہ غزل کوئی دو تین ماہ پرانی ہے۔ میں نے اس کے مطلع کا مصرعہ اولیٰ کو کئی بار بدلا لیکن مجھے اطمینان نہ ہوا۔ جس مصرع کے ساتھ میں نے پوسٹ کیا یہ کچھ دن پہلے ہی سوجھا جس پر دل مطمئن ہو رہا تھا۔
کوشش کیجیے کہ مطلع جاندار ہو تاکہ قاری کی توجہ کھینچ لے ۔ مطلع کو جس قدر ہوسکے بے عیب رکھنا چاہیے۔
جان سنبھلنا مستعمل محاورہ نہیں ہے۔ جان بچنا معروف ہے۔ میرے علم کے مطابق جان سنبھلنا نہ تو کسی لغت میں ہے اور نہ ہی کسی مستند شاعر و ادیب نے استعمال کیا ہے۔
بہت کوشش یہی ہوتی ہے کہ مطلع کو جاندار بنایا جائے۔ شاید مطالعے کی کمی ہمیشہ آڑے آ جاتی ہے۔ اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ نئے اور پرانے ادباء کو پڑھتا تو رہتا ہوں لیکن دلی ہنوز دور است
"جاں سنبھلنا " کی تحقیق کی تو دو بڑے شعراء کے حوالے ملے۔
میر تقی میر
دیکھیں تو میرؔ کیا ہو بے طاقتی سے حالت
اب دیر دیر جانیں اپنی سنبھلتیاں ہیں

اور فیض احمد فیض کی مشہور غزل کا مطلع ہے۔
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی

مصرعِ اول جملۂ شرطیہ ہے ۔ اسے شرطیہ انداز میں کہنے کی کوئی ضرورت یا وجہ موجود نہیں ہے۔اس مصرع کو اگر شرط کے بجائے قطعیت کا روپ دے دیا جائے تو شعر میں زور پیدا ہوجاتا ہے۔ بیان میں کسی قدر مبالغے سے کام لیا جائے تو اکثر اچھا شعر جنم لیتا ہے۔ مثلاً یوں کر کے دیکھیے:
ذکر تیرا نہیں ہے محفل میں
شمع جلتی نظر نہیں آتی
بہت خوب، بہت بہتر ہو گیا۔
اس شعر کے ساتھ بھی اوپر والا معاملہ ہے ۔ مضمون کو شرط کی قید سے نکال کر کوئی نئی صورت دینے کی ضرورت ہے ۔
تیری خوشبو نہیں تنفس میں ::: سانس چلتی نظر نہیں آتی
تیری خوشبو نہیں ہواؤں میں ::: سانس چلتی نظر نہیں آتی
تیری خوشبو نہیں فضاؤں میں ::: سانس چلتی نظر نہیں آتی
وغیرہ وغیرہ
بہت بہتر۔
تیری خوشبو نہیں ہواؤں میں
سانس چلتی نظر نہیں آتی
یہ مضمون بہت سطحی سا اور پائمال ہے ۔ جب مضمون پائمال اور عام سا ہو تو اسے بہتر بنانے کے لیے یا تو (1) ندرتِ الفاظ کا سہارا لیا جائے (2) یا بہت خوبصورت پیرایہ استعمال کیا جائے (3) یا اس مضمون میں سے کوئی نیا زاویہ نکالا جائے (4) یا کوئی غیر متوقع سا نکتہ پیدا کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ مندرجہ بالا نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے شعر کی مختلف صورتیں تراش کر دیکھنا چاہیے اور ان میں سے کوئی ایک صورت اپنی صوابدید کے مطابق منتخب کرلینا چاہیے۔ مثلاً
تیری قربت میں بھی طبیعت اب ::: کیوں بہلتی نظر نہیں آتی
تیری محفل میں بھی طبیعت اب ::: کیوں بہلتی نظر نہیں آتی
پاس ہو تم مگر طبیعت کیوں ::: کچھ بہلتی نظر نہیں آتی
وغیرہ وغیرہ
میرے خیال میں یہ زیادہ اچھا ہے۔
تیری قربت میں بھی طبیعت اب
کیوں بہلتی نظر نہیں آتی
مصرع اول میں "تو" کا لفظ کھٹک رہا ہے ( بالخصوص اپنی نشست کی وجہ سے)۔ غزل کا لہجہ حتی الامکان دھیما رکھنا چاہیے۔نیز الفاظ کے چناؤ میں مفہوم کی وسعت کو ترجیح دینی چاہیے۔
آ بھی جاؤ کہ آج رات مجھے
موت ٹلتی نظر نہیں آتی
"تو" کا لفظ استعمال کرنے سے شعر کا مفہوم عاشقی کی حد تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے جبکہ "آ بھی جاؤ" کا خطاب اپنے اندر وسعت رکھتا ہے۔ چنانچہ اس شعر کو عاشقی کے علاوہ کسی اور موقع پر بھی منطبق کیا جاسکتا ہے ۔
"آ بھی جاؤ" لکھ کر میں نے ہٹا دیا تھا کیونکہ پوری غزل میں "تو" کے صیغے کے ساتھ مخاطب کیا جا رہا تھا۔
بہتر ہے "آ بھی جاؤ" کر دیتا ہوں۔
عبدالرؤف ، تیسرا شعر اچھا ہے ۔ البتہ دوسرا شعر مبہم ہے ۔ اس کا خیال میری سمجھ میں نہیں آیا۔
دراصل دوسرا شعر غزل کا آخری شعر تھا جو کہ میں ایک قطعہ ( -ق- کی علامت) کے ساتھ پیش کرنا چاہتا تھا لیکن پھر اشعار کی ترتیب بدل دی۔ شاید اسی وجہ سے قدرے مبہم ہو گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت کوشش یہی ہوتی ہے کہ مطلع کو جاندار بنایا جائے۔ شاید مطالعے کی کمی ہمیشہ آڑے آ جاتی ہے۔ اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ نئے اور پرانے ادباء کو پڑھتا تو رہتا ہوں لیکن دلی ہنوز دور است
"جاں سنبھلنا " کی تحقیق کی تو دو بڑے شعراء کے حوالے ملے۔
میر تقی میر
دیکھیں تو میرؔ کیا ہو بے طاقتی سے حالت
اب دیر دیر جانیں اپنی سنبھلتیاں ہیں

اور فیض احمد فیض کی مشہور غزل کا مطلع ہے۔
شام فراق اب نہ پوچھ آئی اور آ کے ٹل گئی
دل تھا کہ پھر بہل گیا جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
عبدالرؤف ، اس میں سیکھنےکا نکتہ یہی ہے کہ شعر گوئی ہو یا نثر نگاری ، زبان و بیان کی درستی اور اعلیٰ معیار برقرار رکھنے کی خاطر تلاش اور تحقیق کی محنت بہت ضروری ہے۔ جاں سنبھلنا اگرچہ کسی لغت میں نہیں لیکن میں نے بھی اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ بہت سارے الفاظ ہم قیاس کی رو سے استعمال کرتے ہیں۔ دل سنبھلنا ، حالت سنبھلنا وغیرہ مستعمل ہیں تو اسی رعایت سے جان سنبھلنا درست ہے۔ یعنی قلم کار کو معقول حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے نئی تراکیب اور بندشیں تراشنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس موضوع پر میں پہلے بھی کئی بار مثالوں کے ساتھ تفصیلاً لکھ چکا ہوں۔ تلاش کرنے پر مل جائے گا۔
اردو شاعری میں بے شمار تراکیب ایسی ہیں جو ابھی تک لغت میں درج نہیں ہوئیں اور شاید کبھی ہو بھی نہ سکیں۔ لکھاری کا ایک اہم کام یہ ہے کہ وہ زندگی کے بدلتے تقاضوں کے مطابق زبان و بیان کو وسعت دے تاکہ نئے مضامین کا احاطہ کیا جاسکے۔
 
Top