زین
لائبریرین
بلوچستان کے علاقے تربت سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ غلام محمد رند بلوچ ، سینئر رہنماء لالہ منیر اور بلوچ ری پبلکن پارٹی کے مرکزی رہنماء شیر محمد بلوچ کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔
جس کےبعد کوئٹہ سمیت صوبے کے بلوچ اکثریتی علاقوںمیں ہنگامے شروع ہوگئے ۔ جس کے دوران ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ جبکہ کوئٹہ ، تربت، مستونگ، مستونگ، خضدار، نوشکی، قلات، چاغی، آواران، خاران ، حب ، پنجگور ، گوادر، مشکے اور دیگر علاقوںمیں ہنگاموں کے دوران مشتعل افراد نے متعدد سرکاری و نجی گاڑیاں، بینک، دکان، سیاسی جماعتوں کےدفاتر اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا ۔
کوئٹہ اور خضدار میںہنگامہ آرائی کے بعد فرنٹیئر کور نے کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔
بلوچ تنظیموں نے واقعہ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور گیارہ اور بارہ اپریل کو شٹر ڈائون اور پیہ جام ہڑتال کی کال دی ہے۔
نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر سینیٹر حاصل بزنجو نے واقعہ کی ذمہ داری آئی ایس آئی اور ایم آئی پر عائد کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ دونوں اداروںکے سربراہوںکے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ انہوںنے کہا کہ اب بلوچ عوام کے پاس محدود آپشن رہ گئے ہیں۔
تربت میں بلوچ رہنمائوںکا قتل نواب بگٹی کے قتل کے بعد سب سے بڑا واقعہ ہے ۔ اور اس سے بلوچ عوام میںمزید نفرت پھیلے گی۔
واضح رہے کہ قتل کئے جانے والے ان رہنمائوں کو تین اپریل کو تربت میں کچکول علی ایڈووکیٹ کے دفتر سے نامعلوم افراد اٹھاکر لے گئے تھے۔
اس وقت ان کی جماعت کے رہنمائوںنے کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ غلام محمد اور انکے ساتھیوں کو خفیہ اداروں نے اغواء کیا ہے انہوں نے اس وقت بھی اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ غلام محمد بلوچ اور گرفتار دیگر رہنمائوں کو قتل کیا جاسکتا ہے ۔
جس کےبعد کوئٹہ سمیت صوبے کے بلوچ اکثریتی علاقوںمیں ہنگامے شروع ہوگئے ۔ جس کے دوران ایک پولیس اہلکار ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔ جبکہ کوئٹہ ، تربت، مستونگ، مستونگ، خضدار، نوشکی، قلات، چاغی، آواران، خاران ، حب ، پنجگور ، گوادر، مشکے اور دیگر علاقوںمیں ہنگاموں کے دوران مشتعل افراد نے متعدد سرکاری و نجی گاڑیاں، بینک، دکان، سیاسی جماعتوں کےدفاتر اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا ۔
کوئٹہ اور خضدار میںہنگامہ آرائی کے بعد فرنٹیئر کور نے کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔
بلوچ تنظیموں نے واقعہ پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے اور گیارہ اور بارہ اپریل کو شٹر ڈائون اور پیہ جام ہڑتال کی کال دی ہے۔
نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر سینیٹر حاصل بزنجو نے واقعہ کی ذمہ داری آئی ایس آئی اور ایم آئی پر عائد کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ دونوں اداروںکے سربراہوںکے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ انہوںنے کہا کہ اب بلوچ عوام کے پاس محدود آپشن رہ گئے ہیں۔
تربت میں بلوچ رہنمائوںکا قتل نواب بگٹی کے قتل کے بعد سب سے بڑا واقعہ ہے ۔ اور اس سے بلوچ عوام میںمزید نفرت پھیلے گی۔
واضح رہے کہ قتل کئے جانے والے ان رہنمائوں کو تین اپریل کو تربت میں کچکول علی ایڈووکیٹ کے دفتر سے نامعلوم افراد اٹھاکر لے گئے تھے۔
اس وقت ان کی جماعت کے رہنمائوںنے کوئٹہ میں ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ غلام محمد اور انکے ساتھیوں کو خفیہ اداروں نے اغواء کیا ہے انہوں نے اس وقت بھی اس اندیشہ کا اظہار کیا تھا کہ غلام محمد بلوچ اور گرفتار دیگر رہنمائوں کو قتل کیا جاسکتا ہے ۔