تھا جو یادوں کا خزانہ مرے گھر پر رکھا ۔ یاسمین حمید

ایم اے راجا

محفلین
تھا جو یادوں کا خزانہ مرے گھر پر رکھا
اس کی خاطر نہ کبھی پاؤں سفر پر رکھا

پوچھتا ہے یہ ترے شام و سحر کی بابت
یاد کا لمحہ جو ہے دیدہءِ تر پر رکھا

ایک پل ہوگا فقط دید کا' جسکی خاطر
میں نے صدیوں کو تری راہگزر پر رکھا

توڑ دے یا اسے خورشید کا ہمسر کر دے
ایک شیشہ ہوں ترے دستِ ہنر پر رکھا

شام سے پہلے بجھایا مرا سورج تم نے
اور الزام یہ آئینِ سحر پر رکھا

یاسمین حمید
 
Top