تفریحی اور ثقافتی اردو کا چلن

عندلیب

محفلین
بھلے ہی اردو زبان سارے جہاں میں پھیل گئی ہو لیکن یہ تو ماننا ہی پڑےگا کہ وہ اردوئے معلیٰ جسے عموماً کوثروتسنیم میں دُھولوایا جاتا تھا اب ڈرائی کلیننگ پر گزارا کر رہی ہے ۔ خالص علمی اور ادبی اردو تو پس منظر میں جا رہی ہے البتہ تفریحی اور ثقافتی اردو کا چلن اب بھی برقرار ہے ۔ بہت عرصے پہلے جب " مغل اعظم " ریلیز ہوئی تھی تو کچھ عرصے تک ہمارے سماج میں ظلّ الہی ، عالم پناہ ، صاحب عالم ، تخلیہ اور یلغار جیسے لفظ سنائی دیتے رہے ۔ وہ بھی اسی طرح کہ ایک بار ہم سیکل رکشا کے انتظار میں کھڑے تھے کہ ایک منچلے رکشا والے نے دست بستہ عرض کی ۔۔۔۔
عالم پناہ کہاں جائیے گا ۔۔۔؟
ہم نے کہا !"عابدروڈ ، سیاست کے دفتر پر"۔
نہایت مودبانہ انداز میں فرشی سلام کرتے ہوئے بولا " ظلّ الہی ! غلام کو کیا کرایہ عطا فرمائیں گے ؟ " ۔
( اتفاق سے اس دن ظلّ الہی کی جیب میں صرف آٹھ آنے تھے )
ہم نے چار آنے مرحمت کرنے کا وعدہ فرمایا تو حسب معمول فرشی سلام کی تکرار کے دوران بولا " عالم پناہ! عنایت ، مہربانی ، نوازش ، کرم ! آپ کی بندہ پروری کا شکریہ ۔
خیر ہم رکشا میں تو بیٹھ گئے لیکن رکشا چلنے کا نام نہ لے ۔
ہم نے کہا میاں ! چلتے کیوں نہیں ؟ "
بولا " عالم پناہ ! آپ حکم دیں تو تعمیل بھی ہو " ۔
ہم نے بھی مغل آعظم کے لہجہ میں کہا " یلغارہو" ۔

اب جو رکشا کی یلغار شروع ہوئی تو یوں لگا جیسے کشتوں کے پشتے لگ جائیں گےاوراس یلغار کی آڑ میں ہم موت کے غار میں پہنچ جائیں گے ۔ سو ہم ڈر کے مارے دم سادھے بیٹھے رہے ۔ غرض " سیاست " کے دفتر پر رکشا کی یلغار ختم ہوئی تو ہم نے ڈرتے ڈرتے اس خطرناک یلغار کی شکایت کی تو بولا
" ظلّ الہی ! یہ زمانہ ہمیں جینے نہیں دے گا اور ہم آپ کو مرنے نہیں دیں گے " ۔

مجتبیٰ حسین کے کالم سے اقتباس
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھا ہے۔ مزہ آیا پڑھ کر۔ شریک محفل کرنے کا شکریہ۔

عالم پناہ اگر پورا کالم عطا ہو جائے تو بندہ مشکور ہو گا۔
 
Top