فارقلیط رحمانی

لائبریرین
1۔ تعدد ازواج کا اِسلامی قانون بہت سے سماجی اور معاشرتی مسائل کا حل ہے۔
2۔ تعدد ازواج کے بغیر پاکیزہ انسانی سماج کا قِیام مُمکن نہیں۔
3۔ تعدد ازواج کے علاوہ بیواؤں اور طلاق یافتہ عورتوں کے مسائل کا کوئی حل نہیں۔
4۔ اِسلامی قانون تعدد ازواج کو اپنائے بغیر بنتِ حوّاکی عزت و عصمت کی حفاظت ممکن نہیں۔
5۔ اِسلامی قانون تعدد ازواج کو اپنائے بغیر سماج کے آوارہ اور بے کردار نوجوانوں کو سنبھالنا ممکن نہیں۔
6۔ تعدد ازواج کا مطلب عیاشی نہیں، بلکہ سماجی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی ائیگی ہے۔
7۔ تعدد ازواج کی اِجازت اُن کے لیے ہےجن کے پاس کردار کی طاقت ہو۔یہ با کردار قوموں کا شیوہ ہے، بے کردار قوموں کا نہیں۔
8۔ تعدد ازواج کا مطلب ظلم و زِیادتی نہیں بلکہ غم زدہ عورتوں کی اشک شوئی ہے۔
9۔ تعدد ازواج اگر عدل و اِنصاف کے ساتھ نہ ہو، تو وہ نیکی نہیں، گناہِ عظیم ہے۔
10۔ مغربی تہذیب کا تحفہ صرف عریانی و بے حیائی ہے۔ عورت اِس تہذیب کے ہاتھوں جتنا رُسوا ہوئی ہے، تاریخ میں شاید کبھی نہیں ہوئی۔
11۔ تنہا اِسلام ہے جو عورت کو عزت کے جوڑے پہناتا، عزت کی شال اڑھاتا، اور عزّت کے زیوروں سے آراستہ کرتا ہے۔
12۔ مسلمانوں میں تعدد ازواج کے واقعات بہت کم ہیں اور جن کے ہاں تعدد ہے ان کے ہاں عام طور سے دوسے زائد بیویاں نہیں۔ البتہ جو قومیں اِسلام کے قانونِ تعدد ازواج کا مذاق اُڑاتی یا اس پر اِعتراض کرتی ہیں، اُن کے ہاں قانونی بیوی چاہے ایک ہی ہو، غیر قانونی بیویوں کی کوئی گنتی نہیں۔
13۔ ہندوستانی سماج میں تعدد ازواج کا مطلب ہے پہلی بیوی کی توہین! لہٰذا اس سماج کا ذہن بدلے بغیر یہاں تعدد ازواج کا رِواج ممکن نہیں۔
14۔ موجودہ سماج میں ایک سے زائد بیویاں وادیِ پُر خار میں قدم رکھنا ہے اور یہ بہت ہی سخت امتحان ہے۔
محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی کتاب تعدد ازواج کب اور کس لیے؟ کا خلاصہ کلام(صفحہ نمبر 29-30)
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
11۔ تنہا اِسلام ہے جو عورت کو عزت کے جوڑے پہناتا، عزت کی شال اڑھاتا، اور عزّت کے زیوروں سے آراستہ کرتا ہے۔
12۔ مسلمانوں میں تعدد ازواج کے واقعات بہت کم ہیں اور جن کے ہاں تعدد ہے ان کے ہاں عام طور سے دوسے زائد بیویاں نہیں۔ البتہ جو قومیں اِسلام کے قانونِ تعدد ازواج کا مذاق اُڑاتی یا اس پر اِعتراض کرتی ہیں، اُن کے ہاں قانونی بیوی چاہے ایک ہی ہو، غیر قانونی بیویوں کی کوئی گنتی نہیں۔
13۔ ہندوستانی سماج میں تعدد ازواج کا مطلب ہے پہلی بیوی کی توہین! لہٰذا اس سماج کا ذہن بدلے بغیر یہاں تعدد ازواج کا رِواج ممکن نہیں۔
14۔ موجودہ سماج میں ایک سے زائد بیویاں وادیِ پُر خار میں قدم رکھنا ہے اور یہ بہت ہی سخت امتحان ہے۔
محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی کتاب تعدد ازواج کب اور کس لیے؟ کا خلاصہ کلام(صفحہ نمبر 29-30)
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ رحمانی برادر
ہندوؤں اور انگریزوں کے ساتھ صدیوں تک رہنے بسنے کے سبب برصغیر کے مسلمان عموماً تعدد ازواج کو ”بُرا“ سمجھتے ہیں یا کم از کم ”اچھا“ نہیں سمجھتے۔ یہ تو عام مردوں کا احوال ہے۔ اسی لئے کوئی بھی مرد اپنی بہن یا بیٹی کا رشتہ کسی ایسے فرد کو نہیں دینا ”چاہتا“، جو پہلے سے شادی شدہ ہو، خواہ اس میں دیگر تمام خوبیاں بدرجہ اتم ہی کیوں نہ موجود ہوں۔ دوسری طرٍ لڑکیوں اورخواتین کا مسئلہ تو مزید گھمبیر ہے۔ لڑکیاں بالعموم شادی شدہ سے شادی کرنا نہین چاہتیں، الا یہ کہ کوئی ”مجبوری“ آن پڑے۔ جبکہ عورتیں یعنی کہ بیویاں تو اس معاملہ میں بہت زیادہ ”شدت“ سے اس کی مخالف ہیں۔ بیوی خواہ کتنی ہی دیندار اور اسلامی شریعت پر عمل کرنے والی کیوں نہ ہو، وہ اپنے شوہر کو اپنی ”ذاتی جاگیر“ سمجھتی ہیں اور کسی صورت میں بھی اپنی کسی دینی بہن (بیوہ، مطلقہ، شادی کی ضرورتمند وغیرہ وغیرہ) کو ”اپنی جاگیر“ میں شریک کرنا ”پسند“ نہیں کرتیں۔ اور اگر کوئی مرد پہلی بیوی کو بتلائے بغیر دوسری شادی کر ہی لے تو بالعموم ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے۔ یا اُس کلموہی کو طلاق دیدو یا مجھے۔:eek:
پاکستان میں اخلاقی بے راہ روی، گرل فرینڈ شپ کی بڑھتی ہوئے تعداد، شادی نہ ہونے والی لڑکیوں کا انجانے لڑکوں ، مردوں کے چنگل میں پھنس کر اندرون ملک یا بیرون ملک فروخت ہونے کی تعداد میں اضافہ اور نتیجتاً کال گرلزاور طوائفوں کی ”آبادی“ میں اضافہ کا ایک بڑا اور اہم سبب مردوں کا ایک شادی پر اکتفا کرنا ہے، کیونکہ ۔۔۔۔۔ پاکستان میں 48 فیصد مرد اور 52 فیصد خواتین ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دیگر سماجی مسائل کی بدولت کم سے کم (بھی) دو فیصد لڑکے نکھٹو ہونے یاجرائم کی دنیا میں داخل ہونے کے سبب شادی سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس طرح 46 فیصد مرد صرف 46 فیصد لڑکیوں، خواتین سے شادی کرپائیں گے اور کم از کم چھہ فیصد لڑکیاں اور خواتین کی شادی ناممکن امر ہے۔ 18 کروڑ کے 6 فیصد کا مطلب ہوا ایک کروڑ سے زائد خواتین بغیر شوہر کے زندگی گذارنے پر مجبور ہوں گی اور ہیں۔ ان میں سے بیشتر خواتین، شادی نہ ہونتے کے سبب یا تو تعلیم حاصل کرتی جاتی ہیں یا اپنا روزگار خود حاصل کرنے کے لئے نوکری یا کاروبار کرتی ہیں اور دن بھر مردوں کے ساتھ ڈیلنگ بھی کرتی ہیں۔ اور رات کو تھک ہار کر ٹی وی چینلز، اور انٹر نیٹ سے دل بہلاتی ہیں۔ ٹی وی چینلز تو سو فیصد خواتین کے تصرف میں ہے جبکہ انٹر نیٹ کی سہولت بھی اکثر خواتین کے پاس موجود ہے ۔ مرد عورت کے اختلاط پر مبنی ڈرامے اور اشتہار انہیں ایک ”مرد کی ضرورت“ کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور نیٹ کی سوشیل ویب سائیٹس انہیں گمنام اچھے برے مردو سے روابط فراہم کرنے کی ”سہولت“ پیش کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ایک کروڑ میں سے کتنی خواتین ہون گی جو گناہوں کے دلدل میں ڈوبنے سے بچ پائیں گی۔ ایک سروے کے مطابق ایسی خواتین کی بھاری اکثریت بہت جلد مختلف اقسام کے ’سیلف سیکس‘ میں انوالو ہوجاتی ہے ۔ کاش ہم اس معاملہ میں مسلمان اللہ کی ہدایت کو دل سے تسلیم کریں تاکہ پاکستان مغرب کا صد فیصد نمونہ بننے سے بچ جائے۔ جہاں شادی کبھی کسی لڑکے لڑکی کا مسئلہ نہیں ہوتا اور وہ اس کے بغیر ہی زنا کی گناہ آلود زندگی گذارتے رہتے ہیں
 
Top