ناصر کاظمی ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں ۔ ناصر کاظمی

ترے ملنے کو بے کل ہو گئے ہیں

مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں

بہاریں لے کے آئے تھے جہاں تم

وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں

یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی

کہ دل کے حوصلے شل ہو گئے ہیں

کہاں تک لائے ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہو گئے ہیں

انھیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ

یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں

جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر

وہ لوگ آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
گئے
کی املا سے ثبوت ملتا ہے کہ یہ میری ہی ٹائپ کی ہوئی برگِ نے کا انتخاب سے ہے۔ یہی برقی کتاب ’ساتوں رنگ‘ میں شامل ہے۔
 
الف عین صاحب لنک کا شکریہ

آپ کے لنک پر جا کر ابھی میں نے یہ غزل دیکھی تو پتا چلا کہ یہ شعر تو شامل ہی نہیں کیا تھا میں نے

"نگاہِ یاس کو نیند آ رہی ہے
مژہ پر اشک بوجھل ہو گئے ہیں"
 

الف عین

لائبریرین
دل پاکستانی، آپ کا ماخذ وہی ہوگا جہاں اس سائٹ سے کتاب ڈاؤن لوڈ کر کے پوسٹ کی ہوگی جس میں یہ شعر کم کر دیا گیا ہوگا۔۔۔ بہر حال شکریہ آپ کا۔۔ آپ کو برا ماننے کی ضرورت نہیں۔
 
جی ایسا ہی ہو گا ، میں برا نہیں منا رہا بلکہ آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ کی بدولت ایک خزانہ ہاتھ آگیا۔
 
Top