ترک ِ تعلقات کا وعدہ نہ کر سکیں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ایک اور بہت پرانی غزل احباب کی کشادہ دلی کی نذر !! بس یہ چار اشعار قلمزد ہونے سے بچ گئے ہیں ۔ :)

ترک ِ تعلقات کا وعدہ نہ کر سکیں
چاہیں بھی ہم اگر کبھی ایسا نہ کرسکیں

سر سے تمھارے عشق کا سودا نہ جا سکے
تا عمر ہم کسی کو بھی اپنا نہ کرسکیں

جلتے رہیں سدا یونہی رستوں کی دھوپ میں
یادوں کے سائبان بھی سایا نہ کرسکیں

مصروفیت تو ہو مگر ایسی نہیں کہ اب
بزمِ خیال بھی کوئی برپا نہ کرسکیں

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دسمبر ۱۹۹۶​
 
Top