تخلیق کائنات کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں : اسٹیفن ہاکنگ

انسانی علم کا ارتقاء جاری و ساری ہے۔ علم اور دریافت کی کوئی حد نہیں۔
انسانی علم اور دریافت کی ایک حد ہے اور وہ ہےِ حیرت ۔ ۔ ۔سائنسدان بیشک لگے رہو منّا بھائی کے مطابق لگے رہیں تحقیق و جستجو میں لیکن آخر کار سوائے حیرت در حیرت اور کچھ ہاتھ نہیں لگنے والا۔ ۔۔
 

عثمان

محفلین
روحانی شاعری اور استعاروں کا سہارا لے کر اپنا بچاؤ کرتے رہیے۔ جب دوبارہ سائنس کی پٹری پر آئیں تو مجھ ناقص العقل کو آواز دے لیجئے گا۔ ;)
 

arifkarim

معطل
واہ جی! اس خبر پر تو دنیا بھر کے لوگ ایسے ٹوٹ پڑے ہیں جیسے (نعوذ باللہ) خدا کا وجود سٹیفن ہاکنگز کے نظریات کا محتاج ہو۔
ویسے ایک بات میں نے نوٹ کی ہے کہ کئی بار لوگ خدا پر قدرت کے قوانین کا اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ قوانینِ قدرت بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔
اور اسکا اثبوت بھی آپکے علم الیقین کی بدولت موجود ہوگا؟
 
ایک عدد سوفٹ ریمائنڈر:

برادرم روحانی بابا اور دوسرے احباب آپ کو ایک دوسرے کی ذاتیات پر حملہ کرنے سے گریز کرنا چاہئیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ بلا سبب محفل کی فضا مکدر ہو۔ عموماً ایسی باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
 
یورپ کا مسئلہ مذہب سے دوری ہے اور ہمارے وہ لوگ بھی ان باتوں سے پریشان ہوجاتے ہیں جو منکرین حدیث ہیں۔ اور قرآن کی تشریح اپنی مرضی سے کرتےہیں۔ وگرنہ ان باتوں سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لیے کوئی بھی بات خواہ وہ سائنسی ہو یافلسفے وغیر ہ سے تعلق رکھتی ہواس کو پرکھنے اور جانچنے کےلیے اصل کسوٹی قرآن اور صحیح احادیث ہیں۔ اگر کوئی چیز ان سے نہیں ٹکراتی تو ہمیں اس کے قبول کرنے میں کوامر مانع نہیں ہے وگرنہ وہ بات اور دعویٰ مردود ہے۔ سائنس جتنی بھی ترقی کرلے وہ بحرحال ایک انسانی علم ہے جبکہ قرآن جیسا کہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ رب العزت کی کتاب ہے اور اسکی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی اور اس پربھی یقین رکھنا چاہیے کہ چاہے آج سائنس کسی قرآنی بات کو بظاہر رد کردے مگر کسی دن وہ اپنی غلطی کا یقین بالضررو کرلےگی ۔مثلا ڈارون کا نظریہ ارتقاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصل ضرروت اس امر کی ہے مسلمان سائنسدان اس میدان میں آگے بڑھیں اور خدااور اس کی کائنات کے بارے میں پھیلاے گئے گمراہ کن نظریات کا خاتمہ کریں۔
 
اصل سوال یہ ہے کہ کائنات (بشمول حضرت انسان) اور اللہ کے درمیان کیا تعلق ہے؟
کیا یہ علیحدہ علیحدہ وجود ہین؟ علیحدہ سے میری مراد زمان اور مکان کے پیمانو ں کے لحاظ سے ہے۔
یا کیا یہ ایک ہی وجود کے مختلف اعتبارات ہیں؟ گویا صوفیاء کی اصطلاح میں ایک ہی ذات کی بیشمار شانوں کا، صفتوں کا اور اسماء کا ظہور ہے؟
جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟؟؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔​
 
جب الحمدللہ ہمارا قرآن پاک پر یقین پختہ ہے تو ہمیں سائنسی توجیہات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
قرآن میں جا بجا اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اپنی تخلیق بتایا ہے، اور یہ ہمارے یقین کرنے کے لیے کافی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
یورپ کا مسئلہ مذہب سے دوری ہے اور ہمارے وہ لوگ بھی ان باتوں سے پریشان ہوجاتے ہیں جو منکرین حدیث ہیں۔ اور قرآن کی تشریح اپنی مرضی سے کرتےہیں۔ وگرنہ ان باتوں سے پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے لیے کوئی بھی بات خواہ وہ سائنسی ہو یافلسفے وغیر ہ سے تعلق رکھتی ہواس کو پرکھنے اور جانچنے کےلیے اصل کسوٹی قرآن اور صحیح احادیث ہیں۔ اگر کوئی چیز ان سے نہیں ٹکراتی تو ہمیں اس کے قبول کرنے میں کوامر مانع نہیں ہے وگرنہ وہ بات اور دعویٰ مردود ہے۔ سائنس جتنی بھی ترقی کرلے وہ بحرحال ایک انسانی علم ہے جبکہ قرآن جیسا کہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اللہ رب العزت کی کتاب ہے اور اسکی کوئی بات غلط نہیں ہوسکتی اور اس پربھی یقین رکھنا چاہیے کہ چاہے آج سائنس کسی قرآنی بات کو بظاہر رد کردے مگر کسی دن وہ اپنی غلطی کا یقین بالضررو کرلےگی ۔مثلا ڈارون کا نظریہ ارتقاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصل ضرروت اس امر کی ہے مسلمان سائنسدان اس میدان میں آگے بڑھیں اور خدااور اس کی کائنات کے بارے میں پھیلاے گئے گمراہ کن نظریات کا خاتمہ کریں۔

قبلہ کیا انسان قرآن و حدیث کی تفہیم میں غلطی نہیں کر سکتا؟ آخر کو انسان ہی ہے نا
 
اصل سوال یہ ہے کہ کائنات (بشمول حضرت انسان) اور اللہ کے درمیان کیا تعلق ہے؟
کیا یہ علیحدہ علیحدہ وجود ہین؟ علیحدہ سے میری مراد زمان اور مکان کے پیمانو ں کے لحاظ سے ہے۔
یا کیا یہ ایک ہی وجود کے مختلف اعتبارات ہیں؟ گویا صوفیاء کی اصطلاح میں ایک ہی ذات کی بیشمار شانوں کا، صفتوں کا اور اسماء کا ظہور ہے؟
جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟؟؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟۔ ۔ ۔ ۔​


محترم انسان اور جن کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان اور جن اس کی مخلوق ہیں۔ صوفیوں کا وحدت الوجود کا عقیدہ باطل ہے اور سراسر گمراہی ہے۔
 
قبلہ کیا انسان قرآن و حدیث کی تفہیم میں غلطی نہیں کر سکتا؟ آخر کو انسان ہی ہے نا

محترم اللہ نے اپنی کتاب کو سمجھانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطوررسول مبعوث کیا تھا۔ اگر صرف کتاب اتاری جاتی اورکہا جاتا کہ اس پر عمل کرو تو ہم اس کی تفہیم میں غلطی کرسکتے تھے ۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح عملآ ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ ہم اس کی کوئی بات سمجھ نہ پائیں وگرنہ یہ لازم آئے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ نعو ذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زمہ داری کو پوری طرح نبھا نہیں سکے۔ ہاں قرآن مجید میں کچھ آیات متشابھات ہیں کہ جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ ان کی کھوج میں نہ پڑو اور سلف صالحین کا یہی عقید ہ ہے کہ ان آیات کی تشریح میں اپنی عقل استعمال نہ کریں اور جس طرح ان آیات میں فریایا گیا ہے بس اس پر ایمان رکھیں۔ جیسے اللہ تعالی کے بارے میں قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے ہاتھ دو ہیں۔ اور دنوں دائیں ہاتھ ہیں۔ اللہ کا چہرہ ہے۔ اللہ عرش پر مستوی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہمیں ان پر بس اتنا ہی ایمان رکھنا چاہیے۔ ان کی کیفیت کے بارے میں قرآن وحدیث خاموش ہیں توہمیں بھی خاموش ایمان رکھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر آپ قرآن کی آیات کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی تشریح کو قبول نہ کریں گے تو خود بھی گمراہ ہون گے اور دوسروں کے بھی گمراہ کریں گے۔ جیسا کہ جناب سرسید احمد خان صاحب نے معجزات کا انکار کر کے کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور بیماری ہمارے ان پڑھے لکھے لوگوں میں جو سائنس کی چند کتابیں پڑھ لیتے ہیں یہ پائی جارہی ہے کہ وہ خالص دین کے مسلئے میں بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری رائے کو ہی فوقیت دینی چاہیے۔ حالانکہ جس طرح ڈاکٹری کی چند کتابیں پڑھ لینے والے کوجس طرح یہ حضرات بھی ڈاکٹر نہیں مانیں گے تو ہم ان کو دین کے مسئلے پر کس طرح اجازت دے سکتے ہیں کہ یہ اپنی رائے کو ہم پر مسلط کریں۔
 
محترم انسان اور جن کو اللہ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان اور جن اس کی مخلوق ہیں۔ صوفیوں کا وحدت الوجود کا عقیدہ باطل ہے اور سراسر گمراہی ہے۔
اور یوں بنی نوع انساں کو سوچنے کی زحمت سے بچا لیا گیا۔ ۔ ۔ زومبی اور روبوٹ بھی فکر و تفکر سے آزاد ہین۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی زندگی برباد ہی کی جب انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ:
اسی کشمکش میں گذریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوز و ساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی:);)
 

عثمان

محفلین
محترم اللہ نے اپنی کتاب کو سمجھانے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بطوررسول مبعوث کیا تھا۔ اگر صرف کتاب اتاری جاتی اورکہا جاتا کہ اس پر عمل کرو تو ہم اس کی تفہیم میں غلطی کرسکتے تھے ۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس طرح عملآ ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ ہم اس کی کوئی بات سمجھ نہ پائیں وگرنہ یہ لازم آئے گا اور یہ ماننا پڑے گا کہ نعو ذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زمہ داری کو پوری طرح نبھا نہیں سکے۔ ہاں قرآن مجید میں کچھ آیات متشابھات ہیں کہ جس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے کہ ان کی کھوج میں نہ پڑو اور سلف صالحین کا یہی عقید ہ ہے کہ ان آیات کی تشریح میں اپنی عقل استعمال نہ کریں اور جس طرح ان آیات میں فریایا گیا ہے بس اس پر ایمان رکھیں۔ جیسے اللہ تعالی کے بارے میں قرآن مجید سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کے ہاتھ دو ہیں۔ اور دنوں دائیں ہاتھ ہیں۔ اللہ کا چہرہ ہے۔ اللہ عرش پر مستوی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہمیں ان پر بس اتنا ہی ایمان رکھنا چاہیے۔ ان کی کیفیت کے بارے میں قرآن وحدیث خاموش ہیں توہمیں بھی خاموش ایمان رکھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر آپ قرآن کی آیات کی تشریح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی تشریح کو قبول نہ کریں گے تو خود بھی گمراہ ہون گے اور دوسروں کے بھی گمراہ کریں گے۔ جیسا کہ جناب سرسید احمد خان صاحب نے معجزات کا انکار کر کے کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور بیماری ہمارے ان پڑھے لکھے لوگوں میں جو سائنس کی چند کتابیں پڑھ لیتے ہیں یہ پائی جارہی ہے کہ وہ خالص دین کے مسلئے میں بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری رائے کو ہی فوقیت دینی چاہیے۔ حالانکہ جس طرح ڈاکٹری کی چند کتابیں پڑھ لینے والے کوجس طرح یہ حضرات بھی ڈاکٹر نہیں مانیں گے تو ہم ان کو دین کے مسئلے پر کس طرح اجازت دے سکتے ہیں کہ یہ اپنی رائے کو ہم پر مسلط کریں۔

نتیجہ: سوچنا حرام ہے!
:sleepy:
 

عثمان

محفلین
خدا قرآن کریم میں جگہ جگہ کہہ رہا ہے کہ ۔۔۔فکر۔۔۔فکر۔۔۔فکر!
لیکن نہیں
مذہب پرستوں کا ایک ہی نعرہ ہے۔
"بس ایمان لے آؤ!"
 

عثمان

محفلین
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک تحریر لکھی تھی۔
موقع کی مناسبت سے یہاں اس کے کچھ اقتباس شئیر کررہا ہوں:

"۔۔۔دین کی اصل فہم فراست اور روح کو پس پشت ڈال کر سطحی تاویلات گھڑنے اور ظاہری عناصر پر شدومد کے ساتھ اصرار کرنے والے ان مومنین کے ساتھ میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے کئی برس گزارے۔ اس وقت چوں کہ صرف یہی “اسلامی معاشرہ” دیکھا تھا اسی لئے اسی کو صحیح جانتے تھے۔ بھلا ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی نے بسم اللہ پڑھی ، آیت سنائی ، حدیثیں بیان کیں۔۔۔اماموں کے قصے سنائے اور غلط ہو سکا؟؟ ایسی باتیں تو الف سے ے تک ٹھیک ہوتی تھی ورنہ ایمان جانے کا اندیشہ تھا۔ حدیث سنائی گئی۔۔آیت بیان کی گئی۔۔۔ذہن مائل ہو نہ ہو بس ایمان لے آؤ ورنہ۔۔ورنہ گئے کام سے۔ فل سٹاپ ، پیریڈ۔۔مکو ٹھپ!!
جب میں پردیس آیا تو صورتحال مختلف تھی۔ اول تو مذہب کے متعلق یہاں زیادہ بات نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ذاتی دلچسپی ، تبلیغ اور اسلام کے خلاف غلط تصورات کے رفع کرنے کی سعی میں مذہب پر بات ہوبھی جائے تو محض حدیث اور آیت سنانے سے گذارا نہیں ہوتا کہ اس حقیقت پسندانہ لیکن ملحدانہ کافر معاشرے میں بات صرف اور صرف دلیل اور عقلی استدلال سے کرنی پڑتی ہے۔ آپ نے آیت سنادی۔۔اچھی بات ہے۔ لیکن ایک غیر مسلم کے لئے یہ کوئی معنی نہیں رکھتی جب تک بیان کی گئی حکمت استدلال سے ثابت نہ کی جائے۔ اور اگر دعویٰ ہو کہ آپ کا دین واحد دین فطرت ہے تو معاملہ اور بھی حساس ہوجاتا ہے کہ بیان کی گئی بات منطق اور فطرت پر ثابت کرکے دکھاؤ۔ اور یہ وہ مقام ہے جہاں “مستند مدرسوں” کے “سند یافتہ” میں نے جان چھڑاتے دیکھے ہیں۔۔۔ کہ رٹا اور فکر میں آگ اور پانی ایسا تضاد ہے۔ پاکستانی مساجد جنہوں نے غیرمسلموں میں تبلیغ کا آج تک کوئی کام انجام نہیں دیا۔۔۔ان سے جان چھڑا کر کچھ دوسرے “فاسق” لوگوں سے تعلق جوڑا جن کا بنیادی سبق یہ تھا۔۔۔کہ کچھ نہیں بننے لگا جب تک مطالعہ (اور مطالعہ دین) کے دوران اپنے آپ سے تنقیدی سوالات نہ پوچھو۔ اس کوشش میں مجھے دو فائدے ہوئے۔ ایک تو یہ کہ دین کی وہ بہت سی باتیں جن پر میں محض خوف اور بچپن میں سنی سنائی ہونے کی وجہ سے یقین رکھتا تھا۔۔ان پر ذہنی اور عقلی طور پر بھی ایمان لے آیا۔ دوسرا یہ کہ جب بحث کے دوران غیرمسلم سے واسطہ پڑتا تو محض سنی سنائی سنانے کے علاوہ بھی میرے پاس کچھ نا کچھ کہنے کو ہوتا۔ کم از کم قرآن کے بارے بحث کرتے وقت مجھے بہت کم پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہربات منطقی استدلال سے کرتے ہوئے گرتے پڑے کہیں تک پہنچا ہی لیتا۔ حدیث کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ ان میں سب سے دلچسپ میری ایک ملحد کے ساتھ مسئلہ تقدیر پر بحث تھی۔ جی وہی مسئلہ تقدیر جس پر سوچنا بھی “گناہ” ہے۔ عالم تو نہ بن سکا لیکن اندھے اعتقاد کی رِیت سے بھی جان چھوٹ گئی۔"
 
خدا قرآن کریم میں جگہ جگہ کہہ رہا ہے کہ ۔۔۔فکر۔۔۔فکر۔۔۔فکر!
لیکن نہیں
مذہب پرستوں کا ایک ہی نعرہ ہے۔
"بس ایمان لے آؤ!"

خدا قرآن کریم میں جگہ جگہ کہہ رہا ہے کہ ۔۔۔فکر۔۔۔فکر۔۔۔فکر!
لیکن نہیں
مذہب پرستوں کا ایک ہی نعرہ ہے۔
"بس ایمان لے آؤ!"

محترم آپ بات کو سمجھنے کی بجائے لایعنی گفتگو کیوں فرمارہے ہیں ۔ آپ کس کے بارےمیں اب غورفکر کرناچاہتے ہیں آپ کھل کر بات کریں تاکہ لوگ آپ کے بارے میں جان سکیں۔ قرآن مجید جس غوروفکر کی دعوت دیتا ہے وہ کائنات کی نشانیوں کے بارے میں ہے کہ ان پر غوروفکر کر کے انسان دیکھے کہ آیا ان کا کوئی خالق ہے یا نہیں؟ نا کہ مذہب اسلام کے بارے میں کہ کیا یہ صحیح بھی ہے یا نہیں؟ یا اب موجودہ زمانے میں اب اس پر کس قدرعمل ہوگا؟ برائے مہربانی ذرا کھل کر بتائیں کہ آپ کو میری کون سی بات غلط لگی ؟ اور آپ کا اسلام کے بارے میں کیا موقف ہے؟ قرآن وحدیث کے بارے میں اور صحابہ کے بارے میں آپ تمام لوگوں کا کیا موقف ہے ۔ جب تک آپ کا عقیدہ واضح نہیں ہوگا آپ کو بات سمجھانا بے کار ہے؟؟؟ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین
 

کاظمی بابا

محفلین
اس کے دعوے کا جواب اس کے اپنے بیان کے اندر موجود ہے

’تخلیق کائنات میں خدا کی ضرورت نہیں‘
کائنات کی تخلیق کے موجودہ نظریے کو چیلنج کرنے والے ماہر طبعیات پروفیسر ہاکنگ
دنیا کے ایک سرکردہ ماہر طبعیات سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ تخلیق کائنات کے لیے کسی خالق کائنات کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
اپنی تازہ تصنیف میں انھوں نے کہا ہے کہ کائنات کی تخلیق میں خدا کے کردار کے بارے میں انھوں نے اپنا نظریہ تبدیل کرلیا ہے۔ اوراب وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’بگ بینگ‘ محض ایک حادثہ یا پہلے سے پائے جانے والے سائنسی یا مذہبی عقائد کے مطابق خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کا ناگزیر نتیجہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ کائنات کا از خود بننا یعنی بلا ارادہ وجود میں آنا ہی یہ دلیل ہے کہ پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود تھا۔
سٹیون ہاکنگ اپنی نئی کتاب ’ دی گرینڈ ڈیزائین` میں اپنے نظریے کی دلالت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آفاق میں موجود کشش ثقل کے قانون کے مطابق دنیا بغیر کسی مصمم ارادے یا منصوبے کے وجود میں آسکتی ہے۔
’ آپ سا ئنس کے قوانین کو ’خدا‘ کہہ سکتے ہیں ہاں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔‘
پروفیسر ہاکنگ
سٹیون ہاکنگ اب کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں کسی ’ان دیکھے تخلیق کار‘ کا تصور سائنس کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہا کنگ کا یہ نیا نظریہ نہ صرف ان کے اپنے ہی سابقہ نظریات کی نفی کررہا ہے بلکہ دنیائے طبعیات کے ایک سرکردہ نام سر آئزک نیوٹن کے اس نظریہ کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کائنا ت لازمی طور پر خدا کی تخلیق تھی کیونکہ یہ کسی بے ترتیب اور منتشر مادے سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
اس کے برعکس ہا کنگ اب کہتے ہیں کہ دنیا، اس میں ہمارا وجود میں آنا اور ہماری بقا خود ایک ثبوت ہے کہ دنیا حادثتاً نہیں بلکہ کسی شے کے ہونے کا نتیجہ تھی۔
واضح رہے کہ ہاکنگ نے 1988 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ بریف ہسٹری آف ٹائم‘ میں تخلیق کائنا ت میں خدا کے وجود کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ لکھا تھا کہ دنیا کی وجودیت کو سمجھنے کے لیے ایک ان دیکھے تخلیق کار کا تصور سا ئنسی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ کتاب اس برس میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب تھی۔
دنیا طبعی قوانین کے ناگزیر قوانین کا نتیجہ ہے،پروفیسر ہاکنز
گو کہ موجودہ کتاب میں دنیا کے وجود میں آنے کے بارے میں ان کا نظریہ تبدیل ہوا ہے تاہم ہا کنگ خدا کے وجود کے امکانات سے انکاری نہیں بلکہ خدا کے خالق کائنات ہونے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔
ہاکنگ نے اس سے پہلے ٹیلی وثن پرگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ آپ سا ئنس کے قوانین کو خدا کہہ سکتے ہیں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔‘
ہاکنگ نے یہ کتاب امریکہ کے ماہر طبعیات لیونارڈ ملاڈینو کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔
یہ کتاب قسط وار ’ٹائمز` روزنامے میں میں شائع ہورہی ہے۔
سٹیون ہاکنگ گزشتہ برس تک کیمرج یونیورسٹی میں شعبہ ’علم ریاضی‘ کے سربراہ تھے یہ عہدہ اس سے پہلے سر ائزک نیوٹن کے پاس تھا۔


کائنات میں موجود طبعی قوانین کس نے بنائے؟
جو پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود تھا وہ کس نے بنایا؟
آفاق میں موجود کشش ثقل کا قانون کس نے اور کیوں بنایا؟
کسی شے کے ہونے کا نتیجہ تھی، یعنی کونسی شے؟ اور اس کا خالق کون ہے؟
 

عثمان

محفلین
جب تک آپ کا عقیدہ واضح نہیں ہوگا آپ کو بات سمجھانا بے کار ہے؟؟؟ اللہ ہمیں ہدایت دے۔ آمین

میرے تین مراسلات میں سے صرف پہلا مراسلہ آپ سے سے مخاطب ہے۔ باقی دوسرے اہل محفل کے لئے تھے کہ آپ کو سمجھانا بے کار ہے۔ مجھے اپنا عقیدہ و ایمان کسی پر بھی واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ بحث کا انحصار استدلال پر ہوتا ہے۔ شخصیت اور عقیدے پر نہیں۔ اپنی مذہبی نوٹنکی جاری رکھیے۔ ;)
 
Top