تخلیق کائنات کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں : اسٹیفن ہاکنگ

محمد سعد

محفلین
میرے تین مراسلات میں سے صرف پہلا مراسلہ آپ سے سے مخاطب ہے۔ باقی دوسرے اہل محفل کے لئے تھے کہ آپ کو سمجھانا بے کار ہے۔ مجھے اپنا عقیدہ و ایمان کسی پر بھی واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ بحث کا انحصار استدلال پر ہوتا ہے۔ شخصیت اور عقیدے پر نہیں۔ اپنی مذہبی نوٹنکی جاری رکھیے۔ ;)

بہت افسوس ہوتا ہے جب دوسروں کو سرکس کا طعنہ دینے والے کو خود سرکس کے مسخروں جیسا رویہ اختیار کرتے دیکھتا ہوں۔
 

محمد سعد

محفلین
نتیجہ: سوچنا حرام ہے!
:sleepy:

جس مراسلے کے جواب میں آپ نے یہ لکھا ہے، کم از کم اس میں تو مجھے کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی کہ جس سے یہ تاثر ملتا ہو کہ "سوچنا حرام ہے"۔
انسان صرف خدا کی تخلیق میں غور و فکر کر سکتا ہے۔ اللہ کی ذات کے بارے میں وہ غور و فکر کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ اس کا مشاہدہ اس چھوٹی سی کائنات تک محدود ہے۔ خدا کی ذات پر غور کرتے ہوئے وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر، خدا پر اسی کے پیدا کردہ قوانینِ فطرت کا اطلاق کرتا ہے، جبکہ خدا ان قوانین کا محتاج نہیں۔ چنانچہ خدا کی ذات کے بارے میں انسان اپنے تخیل کے گھوڑے جتنے زیادہ دوڑائے گا، اسی قدر اس کے گمراہ ہونے کا اندیشہ بڑھتا جائے گا۔ جنہوں نے قرآن پڑھ رکھا ہے، انہیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی ذات کے ساتھ جھوٹ منسوب کیے جانا پسند نہیں۔
طارق اقبال صاحب کے زیرِ بحث مراسلے میں اسی قسم کی چند مخصوص آیات پر بات کی گئی تھی جن کے بارے میں انسان اپنے طور پر کبھی درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا۔
اور دوسری بات انہوں نے یہ کی تھی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قرآن کی جو تشریح بتائی ہے، اس میں کمی بیشی کا ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں کئی جگہ واضح کر دی ہے چنانچہ اس پر میرے تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔

باقی پوری کائنات پڑی ہے۔ آپ غور و فکر کریں، کس نے روکا ہے۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
کسی نے بالکل صحیح کہا ہے کہ ہماری قوم میں ہر پہلا بندہ ڈاکٹر ہے اور دوسرا بندہ مولوی۔
اور غیر قومیں سستی شہرت کے لیے اسلام کی بے حرمتی کا سہارا لے رہی ہیں۔ اور ہمارے جیسے ذہنی غلام ہمیشہ کی طرح شہرت کے معاملہ میں بھی انکی نقل کی کوشش میں مصروف ہیں۔
 

arifkarim

معطل
کائنات میں موجود طبعی قوانین کس نے بنائے؟
جو پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود تھا وہ کس نے بنایا؟
آفاق میں موجود کشش ثقل کا قانون کس نے اور کیوں بنایا؟
کسی شے کے ہونے کا نتیجہ تھی، یعنی کونسی شے؟ اور اس کا خالق کون ہے؟
ظاہر ہے کسی شے کی موجودگی کیلئے اس سے پہلے کسی شے کا ہونا ضروری ہے۔ اگر ہم یہ کہہ لیں کہ یہ کائنات ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ اسی طرح بنتی، ختم ہوتی رہے گی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “پہلی“ بار ایسا کب ہوا، اور کیوں ہوا۔ e=mc2 کے مطابق مادہ اور توانائی ایک ہی شے۔ اور توانائی کو نہ تخلیق کیا جا سکتا اور نہ ہی ختم۔ بلکہ محض اسکو ایک شکل سے دوسری شکل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مثال: گرتا پانی جنریٹر کو پاور کرتا ہے جو آگے سے بجلی اور بعد میں حرارت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اسی طرح ایٹمی ری ایکٹر میں مادے کو توڑ کر اسمیں قائم سدا بہار توانائی کو حاصل کیا جاتا ہے، جو کہ مادے سے حرارت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہمارا سورج بھی انہی اصولوں پر مسلسل پھٹ کر ہمیں زندگی دئے ہوئے ہے۔
یوں آپنے بالکل درست فرمایا کہ سائنس بھی توانائی یا مادے کے ماخذ کو جاننے سے قاصر ہے، بیچاری :)
 

محمد سعد

محفلین
ظاہر ہے کسی شے کی موجودگی کیلئے اس سے پہلے کسی شے کا ہونا ضروری ہے۔

جب وقت بذاتِ خود اللہ کی تخلیق ہے تو اللہ سے "پہلے" کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے؟ اسی بات کی نشاندہی میں نے کی تھی کہ عام طور پر لوگ، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اللہ کی ذات پر اسی کے پیدا کردہ قوانین کا اطلاق کرنے لگ جاتے ہیں۔
 

عثمان

محفلین
آپ خلقت کی بات کرتے ہیں؟
خالق کیا ہے؟ یہ سوچنا بھی گناہ نہیں۔ نہ اس پر کوئی قدغن ہے۔
بے شک مخلوق کبھی بھی اس سوال کا جواب نہیں پا سکتی۔ آخری نتیجے پر کبھی نہیں پہنچ سکتی۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس سوال کے سوچنے پر قدغن ہے۔
یہ سوچنا خود مخلوق پر علم اور حیرت کے کئی نئے دریچے کھولتا ہے۔
سوچنے کا مقصد محض آخری نتیجہ حاصل کرنا نہیں۔ بلکہ اپنا ہی علم و فہم بڑھانا ہے۔
سائنسدان "خلقت کیا ہے؟" پر اپنے انداز میں سوچتا ہے۔
صوفی "خلقت کیا ہے؟" اور "خالق کیا ہے؟" پر اپنے انداز میں سوچتا ہے۔
تخیل کی کوئی حد نہیں۔

قرآن کی تفسیر و تشریح پچھلے چودہ سو سال سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ اقوام قرآن پر غور فکر کرکے نئی سے نئی باتیں دریافت کرتے رہیں گے۔ یہ اعجاز قرآن ہے۔ اس بارے میں احباب کی لاعلمی اور سادگی پر میں صرف مسکرا ہی سکتا ہوں۔

یہاں تو صوفیوں کو باطل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں دہریہ قرار دے کر قابل گردن زنی قرار پاؤں۔۔۔اس دھاگے سے مجھے اجازت دیجئے۔
 

arifkarim

معطل
جب وقت بذاتِ خود اللہ کی تخلیق ہے تو اللہ سے "پہلے" کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے؟ اسی بات کی نشاندہی میں نے کی تھی کہ عام طور پر لوگ، شعوری یا غیر شعوری طور پر، اللہ کی ذات پر اسی کے پیدا کردہ قوانین کا اطلاق کرنے لگ جاتے ہیں۔

بگ بینگ نظریہ کے مطابق وقت اور خلا بگ بینگ دھماکہ کیساتھ ہی وجود میں آئے تھے :)۔ الغرض کائنات اس دھماکہ سے “پہلے“ کس حالت میں تھی، اصل سوال یہ ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
بگ بینگ نظریہ کے مطابق وقت اور خلا بگ بینگ دھماکہ کیساتھ ہی وجود میں آئے تھے :)۔ الغرض کائنات اس دھماکہ سے “پہلے“ کس حالت میں تھی، اصل سوال یہ ہے۔

معذرت۔ پہلے مجھے لگا کہ آپ "خدا سے پہلے" کی بات کر رہے ہیں۔
واقعی "کائنات سے پہلے" کے جواب تک انسان (اپنے طور پر) کبھی نہیں پہنچ سکتا کہ اس کا مشاہدہ اور تخیل اسی کائنات تک محدود ہے۔
 
آپ خلقت کی بات کرتے ہیں؟
خالق کیا ہے؟ یہ سوچنا بھی گناہ نہیں۔ نہ اس پر کوئی قدغن ہے۔
بے شک مخلوق کبھی بھی اس سوال کا جواب نہیں پا سکتی۔ آخری نتیجے پر کبھی نہیں پہنچ سکتی۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس سوال کے سوچنے پر قدغن ہے۔
یہ سوچنا خود مخلوق پر علم اور حیرت کے کئی نئے دریچے کھولتا ہے۔
سوچنے کا مقصد محض آخری نتیجہ حاصل کرنا نہیں۔ بلکہ اپنا ہی علم و فہم بڑھانا ہے۔
سائنسدان "خلقت کیا ہے؟" پر اپنے انداز میں سوچتا ہے۔
صوفی "خلقت کیا ہے؟" اور "خالق کیا ہے؟" پر اپنے انداز میں سوچتا ہے۔
تخیل کی کوئی حد نہیں۔

قرآن کی تفسیر و تشریح پچھلے چودہ سو سال سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ اقوام قرآن پر غور فکر کرکے نئی سے نئی باتیں دریافت کرتے رہیں گے۔ یہ اعجاز قرآن ہے۔ اس بارے میں احباب کی لاعلمی اور سادگی پر میں صرف مسکرا ہی سکتا ہوں۔

یہاں تو صوفیوں کو باطل قرار دے دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں دہریہ قرار دے کر قابل گردن زنی قرار پاؤں۔۔۔اس دھاگے سے مجھے اجازت دیجئے۔
یہ آپکی پہلی پوسٹ ہے جو مجھے اچھی لگی:grin:
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
احباب محفل ایک عرصے بعد آیا اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوا یہاں تک چلا آیا تمام بھائیوں کے تاثرات پڑھ لئے تو میرا آپ سب بھائیوں کے بارے میں یہ گمان ہوا کہ آپ سب اللہ رب العزت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن باہمی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ شائد ایک دوسرے کے ایمان کے حوالے سے مشکوک ہیں ارے بھائیو فتنوں بھرے اس دور میں ہمیں باہمی محبت کی بھی ضرورت ہے اور علم و ایقان کی بھی۔ یہ اس دور کا بہت اہم موضوع ہے ہم اس پر باہمی طور پر محبت سے بھی بات کرسکتے ہیں اگر کسی بھائی کو اللہ نے یہ توفیق دی کہ اس نے غیرمسلموں کو استدلال سے قائل کیا تو اللہ کا شکر گزار ہوتے ہوئے محبت سے اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو اپنے تجربات اور ایمان کو جِلا بخشنے والے افکار سے آگاہ کرے اور جو بھائی یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ان کی رائے سے اگر کوئی شخص اختلاف کرتا ہے تو اسکا ایمان کمزور ہے توبھائیو ایمان کا معیار تو اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان جیسا بننے کے لئے لازمی ہے کہ صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔
 

arifkarim

معطل
معذرت۔ پہلے مجھے لگا کہ آپ "خدا سے پہلے" کی بات کر رہے ہیں۔
واقعی "کائنات سے پہلے" کے جواب تک انسان (اپنے طور پر) کبھی نہیں پہنچ سکتا کہ اس کا مشاہدہ اور تخیل اسی کائنات تک محدود ہے۔

اور بعینہ اسی سوال سے سائنس نظریں چھپاتی ہے۔ مگر کب تک چھپائے گی؟
 

عثمان

محفلین
واقعی "کائنات سے پہلے" کے جواب تک انسان (اپنے طور پر) کبھی نہیں پہنچ سکتا کہ اس کا مشاہدہ اور تخیل اسی کائنات تک محدود ہے۔
:grin:
میری جان۔۔۔
یہ آپ کو کس نے بتایا کہ انسان کا مشاہدہ ، اورتخیل صرف اسی کائنات تک محدود ہے؟
سو ڈیڑھ سو سال پیچھے چلے جائیے۔ اور ان لوگوں کو بتائیے کہ انسان چندا ماما تک پہنچ چکا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ لوگ آپ کو سرکس کا مسخرہ سمجھیں۔ ;) کہ ان کے نزدیک انسان تو صرف روئے زمین تک محدود ہے۔
اور بعید نہیں کہ آپ ان کی سادہ لوحی اور لاعلمی پر مسکرا اٹھیں۔
وقت کا رکنا ، بڑھنا ، گھٹنا بھی کبھی "ناممکن" تھا۔ انسان نے زمین پر بیٹھے بیٹھے اس کی جزوی حقیقت بھی دریافت کرلی۔
اب سے سوسال بعد ارتقاء علم اور تخیل کہاں تک پرواز کرچکا ہوگا۔ کسے معلوم؟
محض "اپنے طور" پر تو کوئی کچھ نہیں۔ خدا ہی کا اذن ہے۔
آپ صرف اس کائنات کی بات کرتے ہیں؟ کیا معلوم خلقت خدا نے کن کن جہانوں تک ابھی پہنچنا ہے۔
طبعیات دان تو متوازی کائناتوں اور ببل باتھ یونیورس کی تھیوریاں لا رہے ہیں۔ اور آپ کہتے کہ ممکن نہیں۔
کچھ باتیں اگلی نسلوں پر چھوڑ رکھیں۔ ;)
 

محمد سعد

محفلین
اور بعینہ اسی سوال سے سائنس نظریں چھپاتی ہے۔ مگر کب تک چھپائے گی؟
یار کبھی کبھی مجھے آپ کی حصولِ علم کے ساتھ اس شدید دشمنی کو دیکھ کر شک ہوتا ہے کہ شاید کسی سائنس دان نے آپ سے ہزاروں روپے کا قرض لے کر ابھی تک واپس نہیں کیا۔
 

محمد سعد

محفلین
:grin:
میری جان۔۔۔
یہ آپ کو کس نے بتایا کہ انسان کا مشاہدہ ، اورتخیل صرف اسی کائنات تک محدود ہے؟
سو ڈیڑھ سو سال پیچھے چلے جائیے۔ اور ان لوگوں کو بتائیے کہ انسان چندا ماما تک پہنچ چکا ہے۔ بعید نہیں کہ وہ لوگ آپ کو سرکس کا مسخرہ سمجھیں۔ ;) کہ ان کے نزدیک انسان تو صرف روئے زمین تک محدود ہے۔
اور بعید نہیں کہ آپ ان کی سادہ لوحی اور لاعلمی پر مسکرا اٹھیں۔
وقت کا رکنا ، بڑھنا ، گھٹنا بھی کبھی "ناممکن" تھا۔ انسان نے زمین پر بیٹھے بیٹھے اس کی جزوی حقیقت بھی دریافت کرلی۔
اب سے سوسال بعد ارتقاء علم اور تخیل کہاں تک پرواز کرچکا ہوگا۔ کسے معلوم؟
محض "اپنے طور" پر تو کوئی کچھ نہیں۔ خدا ہی کا اذن ہے۔
آپ صرف اس کائنات کی بات کرتے ہیں؟ کیا معلوم خلقت خدا نے کن کن جہانوں تک ابھی پہنچنا ہے۔
طبعیات دان تو متوازی کائناتوں اور ببل باتھ یونیورس کی تھیوریاں لا رہے ہیں۔ اور آپ کہتے کہ ممکن نہیں۔
کچھ باتیں اگلی نسلوں پر چھوڑ رکھیں۔ ;)

چلو ٹھیک ہے۔ ایسی کائنات کا تصور کرنا تو شاید آسان ہو جہاں دو اور دو چار نہ ہوتے ہوں۔ لیکن اگر واقعی ایک سے زائد کائناتیں موجود بھی ہوں، تو کیا ان کو بنانے والا خدا اتنا سادہ ہوگا کہ اس کی ذات کی کیفیات کو ہم ٹھیک ٹھیک سمجھ پائیں؟ (اگر آپ خدا کی ذات کی کیفیات پر بات نہیں کر رہے تو براہِ مہربانی واضح کر دیں کیونکہ آپ کی اب تک کی گفتگو سے یہی تاثر ملتا ہے)
اگر آپ واقعی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیات کے بارے میں تخیل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ہم غلطیاں کریں گے، تو پھر یہ بھی بتائیے گا کہ سورہ یونس کی آیات 69 اور 70 کے اس حصے کا کیا مطلب لیا جائے؟
"تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جو جانتے نہیں۔
کہہ دو جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔"
اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت کے متعلق تو ہمیں وہ خود ہی بتا سکتا ہے۔ ہم تو زیادہ سے زیادہ اسی حد تک اندازے لگا سکتے ہیں کہ "اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہ انتہائی طاقت ور اور حکمت والا ہے" وغیرہ۔ جیسے کوئی کائنات کے تمام حصوں میں پائے جانے والے خوب صورت توازن کو دیکھے اور کہے، "واہ! اس قدر باریک توازن پر اس ساری کائنات کا نظام چلانے والا خدا کتنا علم و حکمت والا ہوگا!"۔
باقی جو اللہ کی ذات کی کیفیات ہیں، مثلاً "اللہ کا چہرہ کیسا ہوگا" وغیرہ، ان پر نہ تو آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی فائدہ۔ نہ ہی اس قسم کی باتوں میں مجھے علم بڑھانے کا کوئی سامان نظر آتا ہے۔ جبکہ نقصانات کو دیکھیں تو اس بات کا خطرہ بہت زیادہ ہے کہ ہم اللہ کی ذات کے متعلق غلط اندازے لگا کر (بہ الفاظ دیگر اللہ کے ساتھ جھوٹ منسوب کر کے) اس کی ناراضگی کا سامان کر بیٹھیں گے۔
 

arifkarim

معطل
یار کبھی کبھی مجھے آپ کی حصولِ علم کے ساتھ اس شدید دشمنی کو دیکھ کر شک ہوتا ہے کہ شاید کسی سائنس دان نے آپ سے ہزاروں روپے کا قرض لے کر ابھی تک واپس نہیں کیا۔
مجھے حصول علم یا سائنس سے کسی قسم کی کوئی دشمنی نہیں، بلکہ ناراضگی ہے تو اس بات پر کہ سائنس کائنات کی تسخیر کے نشے میں دھت ہو کر مسلسل وجود خدا یا گرینڈ ڈیزائنر کے تصور کو دھتکارنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی!
 

محمد سعد

محفلین
مجھے حصول علم یا سائنس سے کسی قسم کی کوئی دشمنی نہیں، بلکہ ناراضگی ہے تو اس بات پر کہ سائنس کائنات کی تسخیر کے نشے میں دھت ہو کر مسلسل وجود خدا یا گرینڈ ڈیزائنر کے تصور کو دھتکارنے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی!
یہ سائنس کی صفت نہیں بلکہ کچھ سائنس دانوں کی صفت ہے۔ بلکہ خدا کے وجود کے انکاری تو دیگر طبقات میں بھی پائے جاتے ہیں۔
خدا کے وجود کو ماننے والے سائنس دان بھی تو ہوتے ہیں اور بہت بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔ اور وہ خدا کو ڈنکے کی چوٹ پر، دلیل کے ساتھ مانتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح نہیں کہ چلو مذہب میں ہے تو مان لیا۔
 

عثمان

محفلین
چلو ٹھیک ہے۔ ایسی کائنات کا تصور کرنا تو شاید آسان ہو جہاں دو اور دو چار نہ ہوتے ہوں۔ لیکن اگر واقعی ایک سے زائد کائناتیں موجود بھی ہوں، تو کیا ان کو بنانے والا خدا اتنا سادہ ہوگا کہ اس کی ذات کی کیفیات کو ہم ٹھیک ٹھیک سمجھ پائیں؟ (اگر آپ خدا کی ذات کی کیفیات پر بات نہیں کر رہے تو براہِ مہربانی واضح کر دیں کیونکہ آپ کی اب تک کی گفتگو سے یہی تاثر ملتا ہے)
اگر آپ واقعی مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیات کے بارے میں تخیل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے ہم غلطیاں کریں گے، تو پھر یہ بھی بتائیے گا کہ سورہ یونس کی آیات 69 اور 70 کے اس حصے کا کیا مطلب لیا جائے؟
"تم خدا کی نسبت ایسی بات کیوں کہتے ہو جو جانتے نہیں۔
کہہ دو جو لوگ خدا پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں فلاح نہیں پائیں گے۔"
اللہ تعالیٰ کی ذات کی کیفیت کے متعلق تو ہمیں وہ خود ہی بتا سکتا ہے۔ ہم تو زیادہ سے زیادہ اسی حد تک اندازے لگا سکتے ہیں کہ "اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہ انتہائی طاقت ور اور حکمت والا ہے" وغیرہ۔ جیسے کوئی کائنات کے تمام حصوں میں پائے جانے والے خوب صورت توازن کو دیکھے اور کہے، "واہ! اس قدر باریک توازن پر اس ساری کائنات کا نظام چلانے والا خدا کتنا علم و حکمت والا ہوگا!"۔
باقی جو اللہ کی ذات کی کیفیات ہیں، مثلاً "اللہ کا چہرہ کیسا ہوگا" وغیرہ، ان پر نہ تو آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے اور نہ ہی دنیا میں کوئی فائدہ۔ نہ ہی اس قسم کی باتوں میں مجھے علم بڑھانے کا کوئی سامان نظر آتا ہے۔ جبکہ نقصانات کو دیکھیں تو اس بات کا خطرہ بہت زیادہ ہے کہ ہم اللہ کی ذات کے متعلق غلط اندازے لگا کر (بہ الفاظ دیگر اللہ کے ساتھ جھوٹ منسوب کر کے) اس کی ناراضگی کا سامان کر بیٹھیں گے۔

بھائی جی۔۔۔
خدا جانے آپ کو سوال گندم جواب چنا کی عادت کیوں ہے؟
میرے مراسلات غور سے پڑھ لیجئے۔
جہاں تک سورہ یونس اور اس موضوع پر دوسری آیات کا تعلق ہے تو صاحب۔۔۔وہاں بات شرک اور مشرکانہ اعمال پر ہورہی ہے۔
یعنی اگر کوئی خدا کی بیٹے بیٹیاں بنا ڈالے اور ان باطل خیالات پر اپنا مذہب اور مستقل عقیدہ قائم کرلے اور اس کا پجاری بن جائے تو وہ تو یقناً سَوَاء السبیل سے بھٹک گیا۔
لیکن اگر کوئی خدا ، خلقت اور تخلیق پر عقل اور تخیل کے گھوڑے دوڑاتا ہے۔ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اس کی سوچ محدود ہے ، خام ہے۔ اور یہ کہ جو کچھ وہ سوچ پایا ہے اس پر اسے شدومد سے اصرار نہیں ، حرف آخر نہیں۔۔۔۔اندھا اعتقاد نہیں تو اس پر مذکورہ حد نہیں لگتی۔
ارے بابا۔۔۔خالق کہ پہچاننے کا ایک طریقہ اس کی تخلیق پر غور کرنا ہے۔
ایک پتھر ، ایک پتہ ، ایک چونٹی کی حقیقت پر غور کرنے بیٹھیں تو وہ بھی آپ کو لامحالہ خالق تک ہی لے جائے گی۔
فکر شرط ہے!
 

خواجہ طلحہ

محفلین
زبردست عثمان !بہت عمدہ پوسٹ ہے۔ لیکن خدا تک عقل اور تخیل کی بجائے عشق کا گھوڑا جلد پہنچانے کاذریعہ ہے۔عقل اور تخیل کو صدیاں لگ جاتیں ہیں۔اور نہ جانے کتنی زندگیاں چاہیے ہوں۔
 

عثمان

محفلین
زبردست عثمان !بہت عمدہ پوسٹ ہے۔ لیکن خدا تک عقل اور تخیل کی بجائے عشق کا گھوڑا جلد پہنچانے کاذریعہ ہے۔عقل اور تخیل کو صدیاں لگ جاتیں ہیں۔اور نہ جانے کتنی زندگیاں چاہیے ہوں۔

عشق حقیقی عقل و فکر کے بنا کچھ نہیں۔ بلکہ فکر ہی آپ کے تخیل کو عشق حقیقی کی طرف لے جائے گی۔
عقل و فکر کے بغیر عشق کا گھوڑا نہیں بلکہ بیل ہے۔ کولہو کے گرد چکرانے والا۔ :)
 
Top