تخلیق کائنات کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں : اسٹیفن ہاکنگ

arifkarim

معطل
مشہور طبیعات اور ہیئت دان اسٹیفن ہاکنگ کی نئی کتاب کی اشاعت سے قبل یہ خبر حیرت انگیز ہے:
’تخلیق کائنات میں خدا کی ضرورت نہیں‘
کائنات کی تخلیق کے موجودہ نظریے کو چیلنج کرنے والے ماہر طبعیات پروفیسر ہاکنگ
دنیا کے ایک سرکردہ ماہر طبعیات سٹیون ہاکنگ نے کہا ہے کہ تخلیق کائنات کے لیے کسی خالق کائنات کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
اپنی تازہ تصنیف میں انھوں نے کہا ہے کہ کائنات کی تخلیق میں خدا کے کردار کے بارے میں انھوں نے اپنا نظریہ تبدیل کرلیا ہے۔ اوراب وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’بگ بینگ‘ محض ایک حادثہ یا پہلے سے پائے جانے والے سائنسی یا مذہبی عقائد کے مطابق خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کا ناگزیر نتیجہ تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ کائنات کا از خود بننا یعنی بلا ارادہ وجود میں آنا ہی یہ دلیل ہے کہ پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود تھا۔
سٹیون ہاکنگ اپنی نئی کتاب ’ دی گرینڈ ڈیزائین` میں اپنے نظریے کی دلالت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آفاق میں موجود کشش ثقل کے قانون کے مطابق دنیا بغیر کسی مصمم ارادے یا منصوبے کے وجود میں آسکتی ہے۔
’ آپ سا ئنس کے قوانین کو ’خدا‘ کہہ سکتے ہیں ہاں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔‘
پروفیسر ہاکنگ
سٹیون ہاکنگ اب کہتے ہیں کہ کائنات کی تخلیق میں کسی ’ان دیکھے تخلیق کار‘ کا تصور سائنس کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہا کنگ کا یہ نیا نظریہ نہ صرف ان کے اپنے ہی سابقہ نظریات کی نفی کررہا ہے بلکہ دنیائے طبعیات کے ایک سرکردہ نام سر آئزک نیوٹن کے اس نظریہ کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کائنا ت لازمی طور پر خدا کی تخلیق تھی کیونکہ یہ کسی بے ترتیب اور منتشر مادے سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
اس کے برعکس ہا کنگ اب کہتے ہیں کہ دنیا، اس میں ہمارا وجود میں آنا اور ہماری بقا خود ایک ثبوت ہے کہ دنیا حادثتاً نہیں بلکہ کسی شے کے ہونے کا نتیجہ تھی۔
واضح رہے کہ ہاکنگ نے 1988 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ بریف ہسٹری آف ٹائم‘ میں تخلیق کائنا ت میں خدا کے وجود کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ لکھا تھا کہ دنیا کی وجودیت کو سمجھنے کے لیے ایک ان دیکھے تخلیق کار کا تصور سا ئنسی قوانین سے مطابقت رکھتا ہے۔ یہ کتاب اس برس میں سب سے زیادہ بکنے والی کتاب تھی۔
دنیا طبعی قوانین کے ناگزیر قوانین کا نتیجہ ہے،پروفیسر ہاکنز
گو کہ موجودہ کتاب میں دنیا کے وجود میں آنے کے بارے میں ان کا نظریہ تبدیل ہوا ہے تاہم ہا کنگ خدا کے وجود کے امکانات سے انکاری نہیں بلکہ خدا کے خالق کائنات ہونے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔
ہاکنگ نے اس سے پہلے ٹیلی وثن پرگفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’ آپ سا ئنس کے قوانین کو خدا کہہ سکتے ہیں مگر یہ آپ کا کوئی ایسا خدا نہیں ہوگا جس سے آپ مل سکیں اور سوال کرسکیں۔‘
ہاکنگ نے یہ کتاب امریکہ کے ماہر طبعیات لیونارڈ ملاڈینو کے ساتھ مل کر لکھی ہے۔
یہ کتاب قسط وار ’ٹائمز` روزنامے میں میں شائع ہورہی ہے۔
سٹیون ہاکنگ گزشتہ برس تک کیمرج یونیورسٹی میں شعبہ ’علم ریاضی‘ کے سربراہ تھے یہ عہدہ اس سے پہلے سر ائزک نیوٹن کے پاس تھا۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/science/2010/09/100902_universe_without_god.shtml
اسٹیفن ہاکنگ کے چاہنے والے ہر ملک و قوم و مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کائنات خدا کی تخلیق ہے، یہ ایمان شریعت ابراہیمی ؛ یہودیت، عیسائیت اور اسلام میں یکساں ہے۔ شاید اسی لئے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا سائنسدان محض اپنے مذہب کی وجہ سے سائنسی مشاہدہ معائنہ سے حاصل شدہ علوم کو آگے نہیں بتلا سکتا۔ جبکہ ایک دہریہ کو ایسا کرنا میں کوئی دقت نہیں۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس دن سائنس ہمارے بنیادی ایمانوں کو چیلنج کرے گی، اس دن کیا ہم ان دہریوں کے آگے، سائنس کے نام پر گھٹنے ٹیک دیں گے؟
یاد رہے کہ سائنس میں کچھ بھی ’’منتخب‘‘ کرنے کی اجازت نہیں کہ جو میرے ایمان و مرضی کے مطابق ہے اسپر یقین کر لوں اور جو نہیں ہے اسکو رد۔ سائنس مشاہدہ معائنہ سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا سکتی ہے۔ بنیاد محض ظاہری اور قابل قبول اثبوتوں کی ہے۔ اگر آپ اسٹیفن ہاکنگ کی ماضی میں تصنیف شدہ علوم کو قبول کر لیں کہ وہ ہمارے ایمان کو ضرر نہیں پہنچاتے بلکہ الٹا تصدیق کرتے ہیں، جبکہ ساتھ ہی میں جدید علوم کو رد کر دیں کیونکہ وہ ہمارے جدی پشتی علوم کے برخلاف ہیں تو آپ سائنس کے پیچھے نہیں چل سکتے۔
یوں بعد کا رونا بیکار ہے کہ مسلمان سائنس میں آگے کیوں نہ بڑھے، بڑھتے کیسے، انہیں تو مذہبی عقائد پر تنقید کا حق ہی نہیں ہے ۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
کیا خدائے پاک نے دنیا کا نظام ایک خود کار طریقے پر نہیں چھوڑ رکھا ہے؟
جیسے کھانا نہیں کھاو گے تو بھوک لگے گی۔ کھاو گے توہضم ہوگا۔بغیر دیواروں ستوں کے چھت کھڑی نہیں کرسکو گے۔
مطلب کیا رب کائنات نے ایک نظام طے نہیں کر رکھا ہے؟ جس کے مطابق تخریب اور تعمیر کا عمل ازخود چل رہا ہے۔؟ جسے سنت الہی کہا جاتا ہے
اس کے برعکس ہا کنگ اب کہتے ہیں کہ دنیا، اس میں ہمارا وجود میں آنا اور ہماری بقا خود ایک ثبوت ہے کہ دنیا حادثتاً نہیں بلکہ کسی شے کے ہونے کا نتیجہ تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ کائنات کا از خود بننا یعنی بلا ارادہ وجود میں آنا ہی یہ دلیل ہے کہ پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود تھا۔
گو کہ موجودہ کتاب میں دنیا کے وجود میں آنے کے بارے میں ان کا نظریہ تبدیل ہوا ہے تاہم ہا کنگ خدا کے وجود کے امکانات سے انکاری نہیں بلکہ خدا کے خالق کائنات ہونے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔

یعنی ہاکنگ کا کہنا ہے کہ کائنات وجود میں آنے سے پہلے کچھ اور وجود میں آچکا تھا؟
 

arifkarim

معطل
کیا خدائے پاک نے دنیا کا نظام ایک خود کار طریقے پر نہیں چھوڑ رکھا ہے؟
جیسے کھانا نہیں کھاو گے تو بھوک لگے گی۔ کھاو گے توہضم ہوگا۔بغیر دیواروں ستوں کے چھت کھڑی نہیں کرسکو گے۔
مطلب کیا رب کائنات نے ایک نظام طے نہیں کر رکھا ہے؟ جس کے مطابق تخریب اور تعمیر کا عمل ازخود چل رہا ہے۔؟ جسے سنت الہی کہا جاتا ہے




یعنی ہاکنگ کا کہنا ہے کہ کائنات وجود میں آنے سے پہلے کچھ اور وجود میں آچکا تھا؟

بالکل۔ پرانا نظریہ تخلیق کائنات کا غالباً یہ تھا کہ خلا، وقت اور ہیئت بگ بینگ دھماکے کیساتھ وجود میں آئے۔ اور اس دھماکہ کے وجود کے پیچھے کوئی سوپر نیچرل قوت کارفرما تھی۔ جبکہ اب نظریہ تبدیل ہو گیا کہ دھماکہ سے قبل ہی قوانین قدرت یعنی کشش ثقل کام کر رہی تھی، اور یہی اس کی وجہ بنی۔ اب آجاکر سوئی وہیں اٹک گئی کے آخر ان قونین قدرت کا خالق کون ہے؟ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
خدا کو ماننے یا نہ ماننے کی رائے دینا سائنسدانوں کا کام نہیں یہ سٹیفن ہاکنگ کا ذاتی نظریہ ہے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہو گیا۔ خدا کے وجود کو سمجھنے کے لئے انسان فلسفہ اور تاریخ کا محتاج ہے نہ کہ سائنسدانوں کا۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
خدا کو ماننے یا نہ ماننے کی رائے دینا سائنسدانوں کا کام نہیں یہ سٹیفن ہاکنگ کا ذاتی نظریہ ہے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہو گیا۔ خدا کے وجود کو سمجھنے کے لئے انسان فلسفہ اور تاریخ کا محتاج ہے نہ کہ سائنسدانوں کا۔
لیکن ہاکنگ نے خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا ہے جیسا کہ تھریڈ کے عنوان سے لگ رہا ہے۔
بگ بینگ‘ محض ایک حادثہ یا پہلے سے پائے جانے والے سائنسی یا مذہبی عقائد کے مطابق خدا کے حکم کا نتیجہ نہیں بلکہ کائنات میں موجود طبعی قوانین کا ناگزیر نتیجہ تھا۔
 

عثمان

محفلین
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس دن سائنس ہمارے بنیادی ایمانوں کو چیلنج کرے گی، اس دن کیا ہم ان دہریوں کے آگے، سائنس کے نام پر گھٹنے ٹیک دیں گے؟

یار کیوں سائنس کی مٹی پلیت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہو؟ ہاکنگ کا بیان بحثیت ایک فرد اس کا بیان ہے۔ کوئی سائنسی تھیوری نہیں۔ سائنسی تھیوری اپنی اصولوں کے تحت پرکھی جاتی ہے۔ کسی کے مذہبی بیان سے نہیںِ۔
جہاں تک آپ کے ایمان کو چیلنج کرنے کی بات ہے تو اس کے لئے آپ کو سائنس کی ضرورت نہیں۔ آدھی دنیا تو آپ نے دجال بنا رکھی ہے۔ :grin:
 

عثمان

محفلین
اگر بھیجے پر تھوڑا مزید غور کرنے کا گناہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ کسی نا کسی طبعی عوامل کے مرہون منت ہوتا ہے۔ ہر واقعہ کی کوئی نہ کوئی توجہیہ ہوتی ہے۔ جب تک یہ توجہیہ معلوم نہیں ہوتی ہم اسے "معجزہ" کہتے ہیں۔ جب معلوم ہوجائے تو ہم سائنس کہتے ہیں۔ بگ بینگ کا واقعہ بھی کسی نا کسی فطری قانون اور توجہیہ کا مرہون منت ہوگا۔ اس پر یقین رکھنے سے خدا کا انکار نہیں ہوجاتا۔
ورنہ اگر خدا کا انکار بذریعہ سائنس کرنا ہے تو اس کے لئے بگ بینگ کے بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ بچے کی پیدائش کا عمل ہی کافی ہے جس میں آسمان سے پریاں اور فرشتے اتر کے بچہ ماں کو نہیں دے جاتے بلکہ ایک پورا حیاتیاتی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔
امید ہے کہ سائنس کے بارے میں کچھ تشفی ہوگئی ہوگی!
 

arifkarim

معطل
خدا کو ماننے یا نہ ماننے کی رائے دینا سائنسدانوں کا کام نہیں یہ سٹیفن ہاکنگ کا ذاتی نظریہ ہے جو وقت کے ساتھ تبدیل ہو گیا۔ خدا کے وجود کو سمجھنے کے لئے انسان فلسفہ اور تاریخ کا محتاج ہے نہ کہ سائنسدانوں کا۔

تو پھر کس چیز کا۔؟ خدا کے وجود کی بنیاد کچھ تو ہوگا۔ جسکو ہم انسان سمجھ سکیں۔ اگر خدا کا تصور محض ہماری فطرت کا حصہ ہے تو دنیا میں جو ہزاروں دہریے بکھرے پڑے ہیں، وہ کس زمرے میں آتے ہیں؟
 

arifkarim

معطل
لیکن ہاکنگ نے خدا کے وجود سے انکار نہیں کیا ہے جیسا کہ تھریڈ کے عنوان سے لگ رہا ہے۔
انکار کی بہت سی صورتیں ہیں۔ جیسے ایک طرف یہ کہتا ہے کہ وہ نیوٹن کے زمانہ کے فلسفہ کو جھٹلاتا ہے :
ہا کنگ کا یہ نیا نظریہ نہ صرف ان کے اپنے ہی سابقہ نظریات کی نفی کررہا ہے بلکہ دنیائے طبعیات کے ایک سرکردہ نام سر آئزک نیوٹن کے اس نظریہ کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کائنا ت لازمی طور پر خدا کی تخلیق تھی کیونکہ یہ کسی بے ترتیب اور منتشر مادے سے وجود میں نہیں آسکتی تھی۔
اور دوسری ہی طرف خدا کے وجود کے امکانات کو مسترد بھی نہیں کرتے:
گو کہ موجودہ کتاب میں دنیا کے وجود میں آنے کے بارے میں ان کا نظریہ تبدیل ہوا ہے تاہم ہا کنگ خدا کے وجود کے امکانات سے انکاری نہیں بلکہ خدا کے خالق کائنات ہونے کے تصور کو مسترد کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ تمام ابراہیمی مذاہب کے عقائد کے مطابق خدا کائنات کا خالق ہے۔ اب جبکہ ہاکنگ کی سائنسی تھیوریوں کے مطابق کائنات کے وجود کیلئے کسی خدا کی ضرورت نہیں تو پھر باقی کیارہ گیا؟ قوانین قدرت کا خالق کون؟
 

arifkarim

معطل
یار کیوں سائنس کی مٹی پلیت کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہو؟ ہاکنگ کا بیان بحثیت ایک فرد اس کا بیان ہے۔ کوئی سائنسی تھیوری نہیں۔ سائنسی تھیوری اپنی اصولوں کے تحت پرکھی جاتی ہے۔ کسی کے مذہبی بیان سے نہیںِ۔
جہاں تک آپ کے ایمان کو چیلنج کرنے کی بات ہے تو اس کے لئے آپ کو سائنس کی ضرورت نہیں۔ آدھی دنیا تو آپ نے دجال بنا رکھی ہے۔ :grin:
اس سائنسی تھیوری کی تفصیل جو خدا کو کائنات کی تخلیق سے مسترد کرتی ہے، پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوگی۔ باقی جہاں تک ہاکنگ کی ذاتی رائے کا سوال ہے تو اسکی ذاتی رائے بھی سائنسی مشاہدہ معائنہ کے بعد ہی طے ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ خواب آگیا اور رائے قائم ہو گئی :)
اگر بھیجے پر تھوڑا مزید غور کرنے کا گناہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ کسی نا کسی طبعی عوامل کے مرہون منت ہوتا ہے۔ ہر واقعہ کی کوئی نہ کوئی توجہیہ ہوتی ہے۔ جب تک یہ توجہیہ معلوم نہیں ہوتی ہم اسے "معجزہ" کہتے ہیں۔ جب معلوم ہوجائے تو ہم سائنس کہتے ہیں۔ بگ بینگ کا واقعہ بھی کسی نا کسی فطری قانون اور توجہیہ کا مرہون منت ہوگا۔ اس پر یقین رکھنے سے خدا کا انکار نہیں ہوجاتا۔
ورنہ اگر خدا کا انکار بذریعہ سائنس کرنا ہے تو اس کے لئے بگ بینگ کے بکھیڑے میں پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ بچے کی پیدائش کا عمل ہی کافی ہے جس میں آسمان سے پریاں اور فرشتے اتر کے بچہ ماں کو نہیں دے جاتے بلکہ ایک پورا حیاتیاتی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔
امید ہے کہ سائنس کے بارے میں کچھ تشفی ہوگئی ہوگی!
خدا کا انکار سائنس سے کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کسی دہریے سے بات کر لیں، وہ محض لاجک سے اپنے تئے وجود خدا کو جھٹلا دے گا۔
یہاں بات محض اس معاملہ پر ہو رہی ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا، کیونکہ سائنس اول سے قبل والی اسٹیٹ کو سمجھ نہیں پاتی۔ کیونکہ کسی چیز کا وجود میں آنےسے قبل کسی اور چیز کا پہلے سے ہونا ضروری ہے۔ اور ہاکنگ اسی نتیجہ پر پہنچا ہے۔ یوں اتم سے کائنات کی تخلیق والا فلسفہ رد کر دیا گیا ہے۔
 
یارو، کیا ہمارے پاس اللہ کا قرآن نہیں؟
تخلیق کائنات قرآن کریم کے بڑے موضوعات میں ہے۔ اور جگہ جگہ انسان کو فکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے، تخلیق کے مراحل بھی ماثور ہیں۔

تو پھر سٹیفن ایسے مباحث کا کیا حاصل؟ جانے دیجئے!!۔
 

خواجہ طلحہ

محفلین
کائنات میں ہونے والا ہر واقعہ کسی نا کسی طبعی عوامل کے مرہون منت ہوتا ہے۔ ہر واقعہ کی کوئی نہ کوئی توجہیہ ہوتی ہے۔ جب تک یہ توجہیہ معلوم نہیں ہوتی ہم اسے "معجزہ" کہتے ہیں۔ جب معلوم ہوجائے تو ہم سائنس کہتے ہیں۔ بگ بینگ کا واقعہ بھی کسی نا کسی فطری قانون اور توجہیہ کا مرہون منت ہوگا۔ اس پر یقین رکھنے سے خدا کا انکار نہیں ہوجاتا۔
یہ بات تو عارف کریم کی پہلی پوسٹ سے بھی ثابت ہے۔اور اس کی وضاحت کرنے کی میں نے بھی کوشش کی ہے۔ کہ ہاکنگ کا نظریہ خدا کا انکاری نہیں ہورہا بلکہ وجود کائنات کے لیے کوئی توجہیہ پیش کرناچاہ رہا ہے۔ بس تھریڈ کے عنوان سے ایسا محسوس ہورہا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
تو پھر کس چیز کا۔؟ خدا کے وجود کی بنیاد کچھ تو ہوگا۔ جسکو ہم انسان سمجھ سکیں۔ اگر خدا کا تصور محض ہماری فطرت کا حصہ ہے تو دنیا میں جو ہزاروں دہریے بکھرے پڑے ہیں، وہ کس زمرے میں آتے ہیں؟

قبلہ میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ سائنس، قوانینِ فطرت سے بحث کرتی ہے،خدا کیا ہے اور کیسا ہے یہ سائنس کا میدان ہی نہیں ہے۔ الہٰیات پر بحث، فلسفہ اور تاریخ کرتے ہیں اس کے لئے آپ کو مذہب کی تاریخ اور فلسفےکا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایک ہی مذہب میں مختلف قسم کے خدا کا ادراک کیا جاتا ہے مثلاً اسلام میں ہی ایک خدا وہ ہے جو کائنات سے ہٹ کر وجود رکھتا ہے اور ایک خدا وہ ہے جو کائنات میں جاری و ساری ہے جسے بہت سے وحدت الوجودی مانتے ہیں۔
 
ہر علم کی انتہا خدا کے وجود پر ہی ہوتی ہے۔ ۔۔سائنس تو ابھی تک ایک ذرے کی حقیقت نہیں جان پائی۔ جہاں تک سٹیفن ہاکنگ کا یہ کہنا کہ وہ خدا کے وجود کا انکاری نہیں لیکن کائنات کو اسکی تخلیق نہیں سمجھتا، یہ محض ایک بے تکی سی بات ہے۔ لیکن اس میں سے بھی ایک تُک نکالا جاسکتا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ تخلیق ایک تدریجی عمل ہے جو ہر مسلسل جاری ہے۔ ۔ لیکن جب کچھ نہیں تھا اس حالت سے جو بھی شئے پہلے پہل ظاہر ہوئی وہ الخالق کی تخلیق نہیں تھی بلکہ البدیع کا ابداع تھا (جسکو سمجھنے سے سائنس ہمیشہ عاجز ہی رہے گی) اور اسکے بعد تخلیق کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ۔۔شائد سٹیفن ہاکنگ کی یہی مراد ہو۔
 

زیف سید

محفلین
اصل میں سٹیِون (1) ہاکنگ اور اس قبیل کے دوسرے سائنس دانوں کا کہنا یہ ہے کہ بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات کے ارتقا میں جو بھی طبعی مظاہر پیش آئے ہیں ان کی سائنسی توجیہ ممکن ہے، یعنی وہ سائنسی کلیوں کی مدد سے سمجھے جا سکتے ہیں، اور ان میں کسی خارجی قوت (یعنی خدا) کی دخل اندازی کے شواہد نہیں ملتے۔سائنس نے ایسے مظاہرِ فطرت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جو پہلے کسی مافوق الفطرت قوت کی عمل داری مانے جاتے تھے، مثال کے طور پر سورج گرہن، چاند گرہن، بجلی کا چمکنا، زلزلے، طوفان، بیماریاں، وغیرہ۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا سے لے کر اب تک کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کو سائنس کے قوانین کی مدد سے سمجھا نہ جا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دانوں میں دہریوں کا تناسب عام عوام کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔موقر سائنسی جریدے نیچر کے ایک سروے کے مطابق دنیا کے بڑے سائنس دانوں میں سے صرف سات فی صد خدا پر یقین رکھتے ہیں۔

ویسے میں ذاتی طور پر فرخ صاحب کی بات سے متفق ہوں کہ خدا کے وجود سے متعلق بحث سائنس نہیں بلکہ فلسفے کے زمرے میں آتی ہے۔

زیف

(1) سٹیفن نہیں، سٹیِون، اصلاح کر لیجیئے
 
سائنسی توجیہہ یقیناّ ممکن ہوگی اس بات مین کلام نہیں ہے لیکن علتِ اولیٰ ہمیشہ ساءنس کی نظر سے اوجھل ہی رہے گی۔ مثلاّ یہ جو گریوٹی اور ویک فورس وغیرہ کی بات کی جاتی ہے انکا منبع آخر کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ سائنسدان جو کائنات میں 4 قوتوں کو اصل ِ اصول مانتے ہیں وہ ان چاروں کو ایک ہی قوت کا شاخسانہ قرار دے دیں گے اور دے چکے ہیں غالباّ۔ ۔ ۔لیکن دس لاکھ کا سوال یہ ہے کہ وہ قوت کہاں سے پھوٹ پڑی آخر؟:)
 

عثمان

محفلین
سائنسی توجیہہ یقیناّ ممکن ہوگی اس بات مین کلام نہیں ہے لیکن علتِ اولیٰ ہمیشہ ساءنس کی نظر سے اوجھل ہی رہے گی۔ مثلاّ یہ جو گریوٹی اور ویک فورس وغیرہ کی بات کی جاتی ہے انکا منبع آخر کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ سائنسدان جو کائنات میں 4 قوتوں کو اصل ِ اصول مانتے ہیں وہ ان چاروں کو ایک ہی قوت کا شاخسانہ قرار دے دیں گے اور دے چکے ہیں غالباّ۔ ۔ ۔لیکن دس لاکھ کا سوال یہ ہے کہ وہ قوت کہاں سے پھوٹ پڑی آخر؟:)

انسانی علم کا ارتقاء جاری و ساری ہے۔ آپ کے دس لاکھ کے سوال کا جواب بھی کبھی مل جائے گا۔ ہاں۔۔علم اور دریافت کی کوئی حد نہیں۔ جب دس لاکھ کا سوال حل ہوگا تو دس ملین کا سوال آن کھڑا ہوگا۔
 

عثمان

محفلین
یہی وجہ ہے کہ سائنس دانوں میں دہریوں کا تناسب عام عوام کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔موقر سائنسی جریدے نیچر کے ایک سروے کے مطابق دنیا کے بڑے سائنس دانوں میں سے صرف سات فی صد خدا پر یقین رکھتے ہیں۔
میرے خیال سے یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ بہت سے سائنس دان اس "مذہبی خدا" پر ایمان نہیں رکھتے جس کا تصور مذاہب عالم میں ہے۔ تاہم جزوی خدائی صفات والی کسی ابدی حقیقت پر بہت سے سائنس دان بھی گمان رکھتے ہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
واہ جی! اس خبر پر تو دنیا بھر کے لوگ ایسے ٹوٹ پڑے ہیں جیسے (نعوذ باللہ) خدا کا وجود سٹیفن ہاکنگز کے نظریات کا محتاج ہو۔
ویسے ایک بات میں نے نوٹ کی ہے کہ کئی بار لوگ خدا پر قدرت کے قوانین کا اطلاق کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ قوانینِ قدرت بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔
 
Top