تجھ سے بھلا میں روٹھ کے جاؤں گا اب کہاں۔۔۔۔۔عبدالعزیز راقم

راقم

محفلین
السّلام علیکم اساتیذ کرام!
آپ کی ہدایات کی روشنی میں ترامیم کرنے کے بعد غزل مکرر ارسال کر رہا ہوں۔ اگر اب بھی کوئی سقم باقی ہو تو نشان دہی کر دیجیے تاکہ قطع برید کر کے بھیج دوں۔
والسلام

ملاحظہ فرمائیے:

کیوں تجھ سے روٹھ جانے کا اب حوصلہ کروں
مجھ کو فراقِ یار کی عادت نہیں رہی

اب رُخ کریں گے ہم بھی کسی اور شہر کا
سنتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی

شکوے ترے بجا ہیں مگر جانِ آرزو
ہم کو جواب دینے کی طاقت نہیں رہی

مجھ کو خزانہ غم کا، بنا مانگے مل گیا
اب تو کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی

خاموش ہوں میں،آپ ہی لوگوں سے پوچھیے
مجھ کو تو دشمنوں سے بھی نفرت نہیں رہی

یادو فراقِ یار ہی راس آگئے مجھے
اس واسطے وصال میں لذت نہیں رہی

راقم چلو تلاش کریں ایسے دیس کی
جس میں تمھارے دوست کی شہرت نہیں رہی
 

الف عین

لائبریرین
راقم صاحب، اس غزل میں بھی حسب معمول بہت کم اصلاح کی گنجائش ہے، کم از کم میرے لئے۔ کچھ مشورے بہر حال (استادی کا حق نبھانے کے لئے
تجھ سے بھلا میں روٹھ کے جاؤں گا اب کہاں
مجھ کو شبِ فراق کی عادت نہیں رہی
پہلے مصرع میں ’کہاں‘ محلِ نظر ہے، یہ دوسرے مصرعے کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کچھ اس قسم کا مصرع بہتر ہو گا شاید
کیوں تجھ سے روٹھ جانے کا اب حوصلہ کروں

کچھ کٹ گئی ہے اور گزاریں گے کس طرح
کہتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی
پہلے مصرع میں اصلاح کی گنجائش ہے، دونوں مصرعوں میں مطابقت بھی کم ہی ہے۔ اس کا کوئی حل سوچیں۔

بے مانگے مل گئی ہے مجھے دولتِ الم
اب تو کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی
دولت الم‘ کی جگہ غم کی مناسبت سے کوئی لفظ یہاں ہو تو بہتر ہو، سرمایۂ غم، خزانۂ غم وغیرہ

یارو فراقِ یار ہی راس آ گیا مجھے
اس واسطے وصال میں لذت نہیں رہی
یار بھی جب راس آ گیا تو وصال میں لذت کیوں نہ رہے گی؟ پہلا مصرع یوں کر دیں
یاد و فراقِ یار ۔۔۔۔۔
 

راقم

محفلین
اُستاذَ محترم! اب ذرا دیکھیے

راقم صاحب، اس غزل میں بھی حسب معمول بہت کم اصلاح کی گنجائش ہے، کم از کم میرے لئے۔ کچھ مشورے بہر حال (استادی کا حق نبھانے کے لئے
تجھ سے بھلا میں روٹھ کے جاؤں گا اب کہاں
مجھ کو شبِ فراق کی عادت نہیں رہی
پہلے مصرع میں ’کہاں‘ محلِ نظر ہے، یہ دوسرے مصرعے کے مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کچھ اس قسم کا مصرع بہتر ہو گا شاید
کیوں تجھ سے روٹھ جانے کا اب حوصلہ کروں

کچھ کٹ گئی ہے اور گزاریں گے کس طرح
کہتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی
پہلے مصرع میں اصلاح کی گنجائش ہے، دونوں مصرعوں میں مطابقت بھی کم ہی ہے۔ اس کا کوئی حل سوچیں۔

بے مانگے مل گئی ہے مجھے دولتِ الم
اب تو کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی
دولت الم‘ کی جگہ غم کی مناسبت سے کوئی لفظ یہاں ہو تو بہتر ہو، سرمایۂ غم، خزانۂ غم وغیرہ

یارو فراقِ یار ہی راس آ گیا مجھے
اس واسطے وصال میں لذت نہیں رہی
یار بھی جب راس آ گیا تو وصال میں لذت کیوں نہ رہے گی؟ پہلا مصرع یوں کر دیں
یاد و فراقِ یار ۔۔۔۔۔

السّلام علیکم، استاذِ محترم!
آپ کی ہدایات کے مطابق اشعار میں ترمیم کی ہے ۔ اب دیکھیے کچھ بہتر ہے کہ نہیں؟


کیوں تجھ سے روٹھ جانے کا اب حوصلہ کروں
مجھ کو فراقِ یار کی عادت نہیں رہی

اب رُخ کریں گے ہم بھی کسی اور شہر کا
کہتے ہیں/سنتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی
(اگر "کہتے ہیں" کی بجائے "سنتے ہیں" کر دیا جائے تو بہتر نہیں رہے گا)

بے مانگے مل گیا ہے، خزانۂ غم مجھے
اب تو کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی


یادو فراقِ یار ہی راس آ گیا مجھے
اس واسطے وصال میں لذت نہیں رہی
 

الف عین

لائبریرین
خوب راقم (صاحب کے ساتھ آپ مکی بھی چھٹی کر دوںِ(

سنتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی
بہتر ہے

بے مانگے مل گیا ہے، خزانۂ غم مجھے
’خزانہ‘ وزن میں نہیں آتا یہاں "خزانائے" کی طرح ہو رہا ہے جو غلط تلفظ ہے، کچھ اور سوچیں۔

یادو فراقِ یار ہی راس آ گیا مجھے
یہاں راس آ گیا کی جگہ ’راس آ گئے‘ ہونا چاہئے، کہ یاد اور فراق جمع کے صیغے ہیں۔
 

راقم

محفلین
خوب راقم (صاحب کے ساتھ آپ مکی بھی چھٹی کر دوںِ(

سنتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی
بہتر ہے

بے مانگے مل گیا ہے، خزانۂ غم مجھے
’خزانہ‘ وزن میں نہیں آتا یہاں "خزانائے" کی طرح ہو رہا ہے جو غلط تلفظ ہے، کچھ اور سوچیں۔

یادو فراقِ یار ہی راس آ گیا مجھے
یہاں راس آ گیا کی جگہ ’راس آ گئے‘ ہونا چاہئے، کہ یاد اور فراق جمع کے صیغے ہیں۔

السلام علیکم، استاذِ محترم! اب دیکھیے:
کیوں تجھ سے روٹھ جانے کا اب حوصلہ کروں
مجھ کو فراقِ یار کی عادت نہیں رہی

اب رُخ کریں گے ہم بھی کسی اور شہر کا
سنتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی

خزانہ مجھے یہ غم کا، بے مانگے مل گیا
اب تو کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی

خاموش ہوں میں،آپ ہی لوگوں سے پوچھیے
مجھ کو تو دشمنوں سے بھی نفرت نہیں رہی

حسبِ ہدایت م۔م۔مغل صاحب "ہم" کو "مجھ" سے تبدیل کیا

یادو فراقِ یار ہی راس آگئے مجھے
اس واسطے وصال میں لذت نہیں رہی
 

مغزل

محفلین
خاموش ہوں میں، آپ ہی لوگوں سے پوچھیے
ہم کو تو دشمنوں سے بھی نفرت نہیں رہی

ایک شعر میں‌ اپنے لیے ۔ میں اور ہم کا صیغہ استعمال کرنا عیوب میں شامل ہے اور اسے شترگربہ کی ذیل میں رکھاجاتا ہے ۔
باقی بابا جانی بات کر ہی چکے ، سلامت رہیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
خزانہ مجھے یہ غم کا، بے مانگے مل گیا
اب بھی بحر میں نہیں
یوں کر دیں
مجھ کو خزانہ غم کا بنا مانگے مل گیا
 

راقم

محفلین
السلام علیکم استاذِ محترم، بجا ارشاد فرمایا۔ درستی کر رہا ہوں۔

السلام علیکم، استاذِ محترم!کیا اب پوری غزل لکھ کر دوبارہ بھیج دوں؟

کیوں تجھ سے روٹھ جانے کا اب حوصلہ کروں
مجھ کو فراقِ یار کی عادت نہیں رہی

اب رُخ کریں گے ہم بھی کسی اور شہر کا
سنتے ہیں تیرے شہر میں عزت نہیں رہی

مجھ کو خزانہ غم کا، بنا مانگے مل گیا
اب تو کسی بھی چیز کی حسرت نہیں رہی

خاموش ہوں میں،آپ ہی لوگوں سے پوچھیے
مجھ کو تو دشمنوں سے بھی نفرت نہیں رہی

یادو فراقِ یار ہی راس آگئے مجھے
اس واسطے وصال میں لذت نہیں رہی
 
Top