تجلیات از حافظ مظہر الدین مظہر

الف نظامی

لائبریرین
حسنِ مستور ہوا جلوہ نما آج کی رات
چار سو پھیلے ہیں انوار و ضیا آج کی رات

مستیء کیف میں ڈوبی ہے صبا آج کی رات
سارے عالم پہ ہے اک رنگ نیا آج کی رات

نور کے جلووں میں لپٹی ہے فضا آج کی رات
سیر کو نکلا ہے اک ماہ لقا آج کی رات

حور و غلماں کی زباں پر ہیں خوشی کے نغمے
لبِ جبریل پہ ہے صلِ علی آج کی رات

انبیا ، منتظرِ دید کھڑے ہیں خاموش
چشم بر راہِ محمد ہے خدا آج کی رات

حسن نے رخ سے الٹ دی ہے نقابِ رنگیں
فائزِ جلوہ ہے خود جلوہ نما آج کی رات

حسن کیا ؟ عشق کو بھی آج ہی معراج ہوئی
حسن سے عشق ہم آغوش ہوا آج کی رات

شبِ معراج! ترے کشفِ حقائق کے نثار
کھل گیا عقدہ "لولاک لما" آج کی رات

تیرہ بختوں کے مقدر کو بدلنے والے!
مجھ سیہ بخت پہ بھی چشمِ عطا آج کی رات​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہے کھڑا در پر تمنائی و شیدا نور کا
خیر تیرے نور کی دے ڈال صدقہ نور کا

یہ بھی فیضان کرم ہے یہ بھی صدقہ نور کا
دامن دل میں لئے بیٹھا ہوں جلوہ نور کا

ہے کلامُ اللہ میں ایک ایک سورہ نور کا
نُور کے پیکر پہ اترا ہے صحیفہ نور کا

اُن کی صورت نور کی ہے ، اُن کا معنی نور کا
وہ مجسم نور ہیں اُن کا سراپا نور کا

"اُدنُ منی" سے کھلا ہم پر یہ عقدہ نور کا
بے محابا تھا شب معراج جلوہ نور کا

تھا حریم ناز میں بے پردہ جلوہ نور کا
نُور سے مل کر ہوا ٹھنڈا کلیجہ نور کا

میرے آقا ، میرے مولا ﷺ کا ہے روضہ نور کا
حشر میں سایہ فگن ہوگا یہ قبہ نور کا

جب رُخ سرکار ﷺسے ٹپکا پسینہ نور کا
بن گیا رخسار شہ کے گرد ہالہ نور کا

اُن کی بزم ناز ہے یا ایک حلقہ نور کا
رشک صد خورشید ہے اک اک ستارہ نور کا

ساقی ء تسنیم ﷺ! دے مجھ کو بھی جُرعہ نور کا
میری محفل بھی بنے اک دن نگینہ نور کا

مصحف روئے محمد ﷺ ہے صحیفہ نور کا
محو ، قرآن کی تلاوت میں ہے شیدا نور کا

ہیں مضامیں نعت کے یا ایک دریا نور کا
یم بہ یم ، طوفاں بہ طوفاں ہے سفینہ نور کا

ہے قبول شاہ دیں ﷺ ، ہر اک قرینہ نور کا
درد مندوں کی صدائیں ہوں کہ نغمہ نور کا

ہے درود سرور ﷺ عالم وظیفہ نور کا
میں تو کیا اللہ بھی پڑھتا ہے کلمہ نور کا

میں وہیں سے مانگتا ہوں ایک جلوہ نور کا
ماہ جس در پر کھڑا ہے لے کے کاسہ نور کا

میری شب کو بھی فروزاں کر بوصیری کی طرح
میں بھی لکھ کر لایا ہوں آقا ! قصیدہ نور کا​
 
Top