تجلیات از حافظ مظہر الدین مظہر

الف نظامی

لائبریرین
حسنِ مستور ہوا جلوہ نما آج کی رات
چار سو پھیلے ہیں انوار و ضیا آج کی رات

مستیء کیف میں ڈوبی ہے صبا آج کی رات
سارے عالم پہ ہے اک رنگ نیا آج کی رات

نور کے جلووں میں لپٹی ہے فضا آج کی رات
سیر کو نکلا ہے اک ماہ لقا آج کی رات

حور و غلماں کی زباں پر ہیں خوشی کے نغمے
لبِ جبریل پہ ہے صلِ علی آج کی رات

انبیا ، منتظرِ دید کھڑے ہیں خاموش
چشم بر راہِ محمد ہے خدا آج کی رات

حسن نے رخ سے الٹ دی ہے نقابِ رنگیں
فائزِ جلوہ ہے خود جلوہ نما آج کی رات

حسن کیا ؟ عشق کو بھی آج ہی معراج ہوئی
حسن سے عشق ہم آغوش ہوا آج کی رات

شبِ معراج! ترے کشفِ حقائق کے نثار
کھل گیا عقدہ "لولاک لما" آج کی رات

تیرہ بختوں کے مقدر کو بدلنے والے!
مجھ سیہ بخت پہ بھی چشمِ عطا آج کی رات​
 

الف نظامی

لائبریرین
ہے کھڑا در پر تمنائی و شیدا نور کا
خیر تیرے نور کی دے ڈال صدقہ نور کا

یہ بھی فیضان کرم ہے یہ بھی صدقہ نور کا
دامن دل میں لئے بیٹھا ہوں جلوہ نور کا

ہے کلامُ اللہ میں ایک ایک سورہ نور کا
نُور کے پیکر پہ اترا ہے صحیفہ نور کا

اُن کی صورت نور کی ہے ، اُن کا معنی نور کا
وہ مجسم نور ہیں اُن کا سراپا نور کا

"اُدنُ منی" سے کھلا ہم پر یہ عقدہ نور کا
بے محابا تھا شب معراج جلوہ نور کا

تھا حریم ناز میں بے پردہ جلوہ نور کا
نُور سے مل کر ہوا ٹھنڈا کلیجہ نور کا

میرے آقا ، میرے مولا ﷺ کا ہے روضہ نور کا
حشر میں سایہ فگن ہوگا یہ قبہ نور کا

جب رُخ سرکار ﷺسے ٹپکا پسینہ نور کا
بن گیا رخسار شہ کے گرد ہالہ نور کا

اُن کی بزم ناز ہے یا ایک حلقہ نور کا
رشک صد خورشید ہے اک اک ستارہ نور کا

ساقی ء تسنیم ﷺ! دے مجھ کو بھی جُرعہ نور کا
میری محفل بھی بنے اک دن نگینہ نور کا

مصحف روئے محمد ﷺ ہے صحیفہ نور کا
محو ، قرآن کی تلاوت میں ہے شیدا نور کا

ہیں مضامیں نعت کے یا ایک دریا نور کا
یم بہ یم ، طوفاں بہ طوفاں ہے سفینہ نور کا

ہے قبول شاہ دیں ﷺ ، ہر اک قرینہ نور کا
درد مندوں کی صدائیں ہوں کہ نغمہ نور کا

ہے درود سرور ﷺ عالم وظیفہ نور کا
میں تو کیا اللہ بھی پڑھتا ہے کلمہ نور کا

میں وہیں سے مانگتا ہوں ایک جلوہ نور کا
ماہ جس در پر کھڑا ہے لے کے کاسہ نور کا

میری شب کو بھی فروزاں کر بوصیری کی طرح
میں بھی لکھ کر لایا ہوں آقا ! قصیدہ نور کا​
 

الف نظامی

لائبریرین
والشمس نگر عارضِ تابانِ محمد ﷺ
والیل ببیں کاکلِ پیچان محمد ﷺ

بردند مرا سوئے جناں حوروملائک
گفتند کہ این است ثنا خوان محمد ﷺ

من جانب شاہانِ زماں روئے نیارم
دریوزہ گرستم ز گدایاں محمد ﷺ

در وصفِ گلِ قدس کنم نغمہ سرائی
من بلبلِ خوش لہجہ بستانِ محمد ﷺ

ترساں نشود از الم نار جہنم
آنکس کہ زند دست ، بدامانِ محمد ﷺ

ایں حجتِ دعوائی مسلمانی ء ما بیں
داریم بدِل اُلفتِ یارانِ محمد ﷺ

مظہر چہ تواں کرد بیاں وصفِ جمالش
شد خالقِ کونین ثنا خوانِ محمد ﷺ

 

الف نظامی

لائبریرین
نغمہ ء نُور

شوق کو سرمدی لذتیں ہیں عطا ، مجھ کو حاصل ہے کیفِ دوام آجکل
ہے وظیفہ محمد ﷺ محمد ﷺ مرا ، حرزِ جاں ہے محمد ﷺ کا نام آجکل

ظُلمتِ شامِ غم کے سائے گھنے ، تیرگی نے بچھائے ہیں دام آجکل
میری دنیا میں پھر بھی سکوں ریز ہے جلوہ ء حسنِ ماہِ تمام آجکل

میرے خواجہ ! حوادث کے طوفان میں دے رہا ہے مزا تیرا نام آجکل
دل میں بھی ہے درود و سلام ان دنوں لب پہ بھی ہے درود و سلام آجکل

خستگی اُن سے دادِ وفا پائے گی میرے خواجہ کا ہے فیضِ عام آجکل
حُسن کو بھی ملیں گی نئی طلعتیں ، عشق کو بھی ملے گا مقام آجکل

منزلوں شوق کے کارواں گائیں گے میرا رنگین و تازہ کلام آجکل
میرے نغموں میں تاثیر ہے درد کی ، میری لے میں ہے سوزِ تمام آجکل

عشقِ خیر الوریٰ ہے میری زندگی ، عشقِ خیر الوریٰ ہے امام آجکل
عشق و مستی سے سرشار ہیں جان و دل ، عشق و مستی ہے میرا پیام آجکل

مٹ گئے مرحلے قرب اور بُعد کے ، ہے حضوری میں اُن کا غلام آجکل
جسم گو حجلہ ء نور سے دور ہے ، روح کا ہے مدینہ مقام آجکل

ہیں خیالوں میں رنگین جلوے بھرے ، ہیں فروزاں مرے صحن و بام آجکل
ہے نگہ میں کوئی مہ لقا ان دنوں ، ہے نظر میں کوئی خوش خرام آجکل

میرے ساقی کے فیضانِ رحمت سے ہے میکدے میں مجھے اذنِ عام آجکل
شیشہ لبریز ہے بادہ ء نور سے یثربی مے سے رنگیں ہے جام آجکل

عشق کے معجزے عقل سمجھے گی کیا ؟ معجزانہ ہے سارا نظام آجکل
اُن سے بے صوت ہوتی ہے اب گفتگو ، اُن سے بے واسطہ ہے کلام آجکل
 

الف نظامی

لائبریرین
جلوہ فروزِ محفلِ امکاں صلی اللہ علیک و سلم
نیرِ اعظم ، نیرِ تاباں صلی اللہ علیک و سلم

نقشِ جمیلِ صانعِ قدرت جلوہ نمائے نُورِ حقیقت
نورِ مجسم ، حُسنِ فروزاں صلی اللہ علیک و سلم

مرکزِ وحدت ، آیہ ء رحمت ، صدر نشینِ بزمِ قیامت
ساقی ء کوثر ، شافعِ عصیاں صلی اللہ علیک و سلم

اُمتِ عاصی کے رکھوالے ! کشتی ء دل کے کھیون ہارے
دل ہیں زخمی آنکھیں گِریاں صلی اللہ علیک و سلم

لاج ہے تیرے ہاتھ ہماری آن پڑی ہے ساعت بھاری
ہم ہیں اور باطل کے طوفاں صلی اللہ علیک و سلم

چشم کرم اے رحمتِ کامل ! ایک توجہ رہبرِ کامل
تیری اُمت ہے سرگرداں صلی اللہ علیک و سلم
 

الف نظامی

لائبریرین
آ اور کرم فرما اے جلوہ ء رعنائی
اب تو مری آنکھوں کی ڈھلنے لگی بینائی

سرکار ﷺ جب آئیں گے باشانِ دلآرائی
دیکھی نہیں جائے گی وہ حشر کی زیبائی

دل پر بھی عنایت کر جاں پر بھی عنایت کر
دل بھی ہے تمنائی جاں بھی ہے تمنائی

اب تیرے سوا کوئی مقصود نہیں میرا
اب تیری تجلی ہے اور عالمِ تنہائی

ممکن نہیں دنیا میں ہو کوئی حسیں ایسا
آئینہ ء وحدت ہے محبوب ﷺ کی یکتائی

اے وحشتِ دل لے چل صحرائے مدینہ میں
صحرائے مدینہ سے کیوں دور ہے سودائی ؟

قرباں ترے کوچے کی رخشندہ بہاروں پر
کونین کی رنگینی ، فردوس کی رعنائی

" کُن برسر تابوتم یک جلوہ بہ رعنائی
اے در لبِ لعلِ تو اعجازِ مسیحائی "
 

الف نظامی

لائبریرین
آرزو ہے کہ جب جاں ہو تن سے جدا سامنے روئے زیبائے سرکار ہو
میرا ہر لمحہ ہو مستیوں کا امیں میرا ظلمت کدہ نُور الانوار ہو

رحمتِ دوجہاں کے سوا کون ہے جو مصیبت میں یار و مددگار ہو
جو مصائب میں تسکینِ دل بخش دے جو غریبی میں ابرِ گہر بار ہو

سیدِ ذی حشم ﷺ ! اک نگاہِ کرم بحرِ عصیاں میں تا فرق ڈوبے ہیں ہم
میرا مولا بھی ستار و غفار ہے آپ بھی شانِ ستار و غفار ہو

میں تصدق ہے اب تو تمنا یہی ایک حسرت ہے دل میں یہی آخری
میری فریاد ہو اور گلی آپ کی آپ کا شہر ہو اور دلِ زار ہو

عکس روئے محمد ﷺ گر آئے نظر دیکھ لُوں گر مدینے کے دیوار و در
دیدہ و دل کو تسکیں کی دولت ملے رُوح گنبد کے جلووں سے سرشار ہو

 

الف نظامی

لائبریرین
جو پسندِ دلِ خواجہ ء دیں ﷺ نہ ہو وہ عبادت بھی ہے سر بہ سر معصیت
جنسِ عصیاں بھی اک جنسِ نایاب ہے رحمتِ شاہِ دیں ﷺ گر خریدار ہو

کاش ایسے بھی ایام آئیں کبھی، ہو کے حاضر پڑھوں نعت پاک نبی
نغمہ نور مقبولِ مخدوم ﷺ ہو نالہ ء شوق مقبولِ دربار ہو

جن کے فیضِ کرم پر مجھے ناز ہے تا ابد جن کی رحمت کا در باز ہے
کیا عجب اُن کے در سے مجھے بھی عطا سوزِ رومی و سعدی و عطار ہو

آفتابِ نبوت کی گر اک کرن زندگی کے اُفق پر ہو جلوہ فگن
میری ہر صبح ، صبحِ دلآویز ہو میری ہر شام شامِ ضیا بار ہو

میں نے سمجھا ہے جو مظہرِ ذات کو حق کے محبوب ﷺ کی شانِ لولاک کو
کیسے محدود الفاظ میں ہو بیاں ، دل کے جذبات کا کیسے اظہار ہو
 

الف نظامی

لائبریرین
اے خوشا کہ مجھ کو عشقِ شہِ ﷺ دوسرا ملا ہے
یہ تپش بھی اِک کرم ہے یہ تڑپ بھی اِک عطا ہے

یہ ہے غایتِ نوازش ، یہ کرم کی انتہا ہے
مجھے اپنی یاد بخشی ، مجھے اپنا غم دیا ہے

یہاں شان ہے خدا کی ، یہاں شان مصطفے ﷺ ہے
یہ مدینۃُ النبی ﷺ ہے کہ حریم کبریا ہے؟

ترا عشق دل کی خلوت میں جو زمزمہ سرا ہے
میری رُوح وجد میں ہے ، مرا ذوق جھومتا ہے

کوئی کیا سمجھ سکے گا کہ یہ آہ و نالہ کیا ہے
شہِ ﷺ دوجہاں کے کوچے میں فقیر کی صدا ہے

نظرِ کرم کہ آقا ﷺ ! تو رحیمی و کریمی
نہ کوئی انیسِ غربت ہے نہ کوئی آشنا ہے

مرے رنگِ نعت میں ہے مرے دل کا سوز شامل
بہ زبانِ شعر و نغمہ مرا عشق بولتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
رُوح میں سوز ہو ، دل مائلِ فریاد رہے
اِک نظر خواجہ ﷺ کہ دنیا مری آباد رہے

درد وہ دے کہ مزا جس نہ ہرگز بھولوں
وہ تڑپ بخش کہ تا حشر مجھے یاد رہے

جس نے بخشی ہے مرے دل کو یہ سوز آگینی
یاالہی وہ جہاں عشق کا آباد رہے

جانے کس وقت مجھے اِذنِ حضوری مل جائے
نالہ مضطر نہ بنے ،ہوش میں فریاد رہے

کہیں ایسا نہ ہو مر جاوں زیارت کےبغیر
کہیں ایسا نہ ہو تشنہ مری روداد رہے

درد بخشا ہے تو تسکیں بھی عنایت ہوگی
اتنا بے تاب نہ میرا دلِ ناشاد رہے

عظمتوں والے بُلالے مجھے در پر اک دن
رحمتوں والے نہ مٹی مری برباد رہے

کوئی سرکار کو دیکھے تو خدا یاد آجائے
وہ اگر حق کا پتہ دیں تو خدا یاد رہے
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
رحمتِ دوعالم ہیں رحمتِ خدا یہ ہیں
زخم کا ہیں یہ مرہم درد کی دوا یہ ہیں

سایہ ء خدا یہ ہیں ، ظلِ کبریا یہ ہیں
حق کو ڈھونڈنے والو ! حق کے رہنما یہ ہیں

انبیا میں یاد اِن کی مرسلیں میں ذِکر اِن کا
شاہِ مرسلیں یہ ہیں ، جانِ انبیا یہ ہیں

صبحِ اولیں اِن کے نور سے ہوئی روشن
ابتدا ہوئی اِن سے اور انتہا یہ ہیں

جو ہے لاکھ پردوں میں اُس کی ہے خبر اِن کو
جو نظر نہیں آتا اُس سے آشنا یہ ہیں

عشق کو طلب اِن کی حُسن نغمہ خواں اِن کا
حسن و عشق کے محور اور مدعا یہ ہیں

مشکلوں میں گھر کر بھی کوئی غم نہیں مجھ کو
مشکلوں کے طوفاں میں میرے ناخدا یہ ہیں

عقل کو تو عرفان ذاتِ پاک کیا ہوتا؟
عشق باخبر بولا ، نورِ کبریا یہ ہیں

بے سبب نہیں عالم میرے ذوق و مستی کا
دل میں ہے جگہ اِن کی دل میں کیف زا یہ ہیں

غارِ ثور میں بھی ہیں اِن کے نور کے جلوے
خلوتِ حرا میں بھی زینتِ حرا یہ ہیں

آئینہ بھی ہوتا ہے حُسنِ ذات کا مظہر
آئینہ خدائے لم یزل کی ذات کا یہ ہیں​
 

الف نظامی

لائبریرین
اُن کی صورت ، اُن کی سیرت پر سلام
مصطفے ﷺ جانِ محبت پر سلام

جلو ہ حق ، نورِ وحدت پر سلام
شاہکارِ دستِ قدرت پر سلام

آمنہ کے لال پر لاکھوں درود
خاتمِ دورِ رسالت پر سلام

سیدہ کے باپ ﷺ پر بے حد درود
اُن کی رافت ، اُن کی رحمت پر سلام

معصیت کاروں کے والی پر درود
شافعِ ﷺ روزِ قیامت پر سلام

جن کا دردِ ہجر بھی ہے کیف زا
اُن سے ملنے والی لذت پر سلام

جن سے حق کی ذات پہچانی گئی
اُن کی محبوبانہ عظمت پر سلام

فقر ہے جن کا مغیث ِہر دو کون
اُن کی غربت ، اُن کی عُسرت پر سلام

یاد سے جن کی ہے لذت گیر ، دِل
اُن کی جاں پرور عنایت پر سلام

جلوہ زیبائے اول پر درود
آخری برہان و حجت پر سلام

اُن کے یاروں پر درودِ بے حساب
اُن کی آل اور اُن کی عترت پر سلام

شہرِ طیبہ کے مکینوں کو نوید
ساکنانِ کوئے جنت پر سلام

جلوہ مستانِ نبی ﷺ کو تہنیت
اُن کی مستی ، اُن کی لذت پر سلام

زائرانِ روضہ پر ظلِ خُدا
اُن کے جذباتِ عقیدت پر سلام

ہجر کے مارے ہیں جو میری طرح
اُن کی محرومی ء قسمت پر سلام

جن کا خون ہے سرخی ء روئے حیات
اُن شہیدانِ محبت پر سلام

غازیانِ شاہ ﷺ پر چشمِ کرم
اُن کی باطل سوز فطرت پر سلام

جو مسافر ہیں ابھی تک راہ میں
اُن کے عزم اور اُن کی ہمت پر سلام

جن کے دل میں ہے مدینے کی لگن
پے بہ پے اُن کی محبت پر سلام

جن کا سینہ عشق سے معمور ہے
اُن محبانِ رسالت پر سلام

جس زبان پر ہے مرے آقاﷺ کا نام
اُس کی شیرینی و لذت پر سلام

واصلانِ بابِ عالی پر درود
مقبلانِ بزم حضرت ﷺ پر سلام

عارفانِ راہ پر فضلِ نبی ﷺ
صادقانِ پاک طینت پر سلام

جس میں خواجہ ﷺنے چرائیں بکریاں
اُس جبل ، اُس دشتِ رحمت پر سلام

جس فضا نے اُن کو دیکھا بار بار
اُس کے انوارِ مسرت پر سلام

جو ہوا کھیلی ہے اُن کی زلف سے
اُس کی خوشبو اُس کی نکہت پر سلام

جن درختوں نے انہیں سایہ دیا
اُن کے سائے کی لطافت پر سلام

جن بیابانوں سے گذرے بے حجاب
اُن بیابانوں کی وسعت پر سلام

چُومے جن ذرات نے اُن کے قدم
اُن کی قسمت اُن کی عظمت پر سلام

اُن سے جن غاروں کے دل روشن ہوئے
اُن کی جلوہ بار خلوت پر سلام

الغرض جس کو بھی نسبت اُن سے ہے
ہو اُسی اندازِ نسبت پر سلام

 

الف نظامی

لائبریرین
نعت پڑھ کیف اور سُرور میں آ
آ مری بزمِ رنگ و نُور میں آ

غم کی بے کیفیوں سے کیا حاصل
حلقہ ء صاحبِ سُرور میں آ

عقل کی قیل و قال میں نہ اُلجھ
غیب کو چھوڑ اور حضور میں آ

دیکھ انوارِ بارگاہِ نبی
رشکِ صد جلوہ گاہِ طور میں آ

دامِ بوجہل و بولہب سے نکل
شاہِ کونین کے حضور میں آ

عشقِ صدیق و سوزِ رُوحِ بلال
پردہ ء غیب سے ظہور میں آ

اے مدینے کے جلوہ ء رنگیں
آ مرے قلبِ ناصبور میں آ

میری شام و سحر کا نُور ہے تو
میری شام و سحر کے نُور میں آ
 

الف نظامی

لائبریرین
دیدنی ہے یہ تری شان رسولِ عربی
ہیں ملائک ترے دربان رسولِ عربی

تری عظمت کی ہے پہچان رسولِ عربی
حق نے بھیجا ہے جو قرآن رسولِ عربی

یہ بھی ہے آپ کا فیضان رسولِ عربی
نعت میں ہے مرا دیوان رسولِ عربی

لامکاں اُن کا ہے خلوت گہہِ حق بھی اُن کی
اپنے گھر آپ ہیں مہمان رسولِ عربی

نورِ وحدت ہے ضیا ریز برنگِ کثرت
انبیاء جسم ہیں اور جان رسولِ عربی

حق کا عرفان کسی کو بھی نہیں ہو سکتا
ہو نہ جب تک ترا عرفان رسولِ عربی

دونوں عالم کے ہیں سرکار رسولِ عربی
دونوں عالم کے ہیں سلطان رسولِ عربی

جو ترے عشق و محبت کا نہ ہو آئینہ
نامکمل ہے وہ ایمان رسولِ عربی

ایک میرا دلِ آشفتہ و شیدا کیا ہے ؟
دو جہاں آپ پہ قربان رسولِ عربی

خود بخود مشکلیں آسان ہوئی جاتی ہیں
اللہ اللہ ترا فیضان رسولِ عربی

ایک دن روضہ ء اقدس پر بلا لو مجھ کو
پورا ہو جائے یہ ارمان رسولِ عربی

ترے دربار سے جو زمزمہ خوانوں کو ملی
ہو عطا مجھ کو بھی وہ شان رسولِ عربی

نعت لکھتا ہوں تو ہوتا ہے نزولِ رحمت
جُھومتا ہے مرا وجدان رسولِ عربی

ربِ کعبہ کی اطاعت ہے اطاعت تیری
حکمِ داور ترا فرمان رسولِ عربی

آپ کا ذکر ہے عنوانِ کتابِ کونین
آپ ہیں مطلعِ دیوان رسولِ عربی

مجھ کو بھی دولتِ عرفانِ محبت سے نواز
ہر طرف ہے ترا فیضان رسولِ عربی
 

الف نظامی

لائبریرین
شبِ اسری

شبِ اسری تھا وہ اِک نقطہ ء آغازِ سفر
جس جگہ جلتے ہیں انوار سے جبریل کے پر

فرش سے تا بہ سرا پردہ ء اسرارِ قدیم
اک تجلی کدہ ء نور تھا عالم یکسر

غیرتِ جلوہ ء صد ماہِ درخشاں تھی یہ رات
جس کے جلووں پہ فدا سینکڑوں خورشید و قمر

پرتوِ نورِ محمد تھا ، جمالِ حق تھا
عالمِ قدس کا یہ دلکش و رعنا منظر

رازِ سربستہ ء قدرت تھی ملاقاتِ حبیب
خلوتِ خاص میں ممکن نہیں غیروں کا گزر

دیدہ ء شوق میں تھا حسن و جمالِ عربی
آئینہ دیکھ کے حیران تھا خود آئینہ گر

"اُدنُ مِنی" کی صدائیں تھیں حریمِ حق میں
عشق کے دل پہ بھی تھا حُسن کے جلووں کا اثر

"سرِ قوسین" کو کیا سمجھے گی عقلِ محدود ؟
رازِ معراج کو کیا پائے گا ادراکِ بشر ؟
 

الف نظامی

لائبریرین
کعبے کی تجلی ہے تنویر مدینے کی
کعبے کے بھی دل میں ہے توقیر مدینے کی

جنت سے نہ کر واعظ ! تعبیر مدینے کی
جنت تو ہے دُھندلی سے تصویر مدینے کی

یاد آئی ہے پھر بن کر اِک تیر مدینے کی
صد شکر ہوئی جاں بھی نخچیر مدینے کی

اِک روز دکھا یا رب ! تنویر مدینے کی
پھرتی ہے نگاہوں میں تصویر مدینے کی

اب چشمِ تصور میں نقشہ ہے مدینے کا
اب دیدہ و دل میں ہے تصویر مدینے کی

ہے لذت و مستی کا گہوارہ سفر میرا
جب سے کہ مری جاں ہے رہگیر مدینے کی

ہر وقت مدینے میں اِک نور کا عالم ہے
فطرت کے بھی دل میں ہے توقیر مدینے کی

"ہم صندلِ دردِ سر ، ہم سرمہ ء بینائی"
لاریب ہے مٹی بھی اِکسیر مدینے کی

جب بندہ نوازی ہے شیوہ ہے مدینے کا
میرے لئے پھر کیوں ہے تاخیر مدینے کی

شاید دلِ مضطر کو کچھ صبر و قرار آئے
کھینچی ہے تصور نے تصویر مدینے کی

فیضانِ مدینہ سے یہ راز کُھلا مجھ پر
معراجِ محبت ہے توقیر مدینے کی

رخشاں ہیں مدینے میں انوار محمد کے
دنیا میں نہ ہو کیوں کر توقیر مدینے کی

رخصت ہوئے غمگین و افسردہ مدینے سے
حسرت لئے سینے میں شبیر مدینے کی

جب روزِ ادل حق نے پیدا کیا مظہر کو
ڈالی گئی گردن میں زنجیر مدینے کی
 

الف نظامی

لائبریرین
قصیدہ
سید و سرور و وقارِ حرم
عظمتِ کعبہ و دیارِ حرم

نقشِ رنگینِ صانعِ قدرت
روغنِ روئے زرنگارِ حرم

مہبطِ وحی و مخزنِ اسرار
غیب آگاہ و راز دارِ حرم

آرزو و مرادِ مشتاقاں
مرکزِ حُسن و عشق یارِ حرم

سر وحدت ، جمالِ ہوش رُبا
شانِ سبحان ، در کنارِ حرم

با مقامات ، غیرتِ جبریل
با عنایات ، جاں سپارِ حرم

جلوہ ء گلستانِ لاہوتی
مظہرِ ذات ، افتخارِ حرم

حُسنِ تخلیق و باعثِ تخلیق
نازشِ دو جہاں ، قرارِ حرم

اولیں نور ، اولیں انعام
آخری جلوہ ء بہارِ حرم

فقر سرمایہ ، بوریہ بستر
بے زر و سیم ، تاجدارِ حرم

کیف افروزِ محفلِ ہستی
وجہِ سرمستی ء بہارِ حرم

نُور افشانِ عالمِ موجود
رونقِ قبلہ ، اعتبارِ حرم

ضامنِ عصمتِ بنائے خلیل
پاسبان و نگاہدارِ حرم

" من رانی فقد را الحق " گفت
خاتمِ انبیاء ، نگارِ حرم

فخرِ کونین ! فخرِ موجودات !
تیرا کوچہ ہے افتخارِ حرم

تیری تکبیر اور تری تہلیل
نغمہ ء سازِ آبشارِ حرم

تیرا روضہ ہے مطلعِ انوار
تیرا گنبد ہے اعتبارِ حرم

صاحبِ لطف و جُود و خُلق عظیم
مجھ کو بھی بخش دے جوارِ حرم

تیرا دستِ سخا ، یدِ قدرت
تیرے قبضے میں ہے دیارِ حرم

دے جگہ اپنے آستاں کے قریب
کر عطا کوئی ریگ زارِ حرم

غازہ ء رُخ ہو خاکِ راہِ حجاز
سُرمہ ء چشم ہو غبارِ حرم

عشق کو سوز و ساز ہے مطلوب
اے جواں عزم ! اکِ شرارِ حرم

میں بھی خاک بوسِ راہ ترا
میں بھی ہوں ایک خاکسارِ حرم

میں بھی ہوں گلشنِ محبت میں
گلِ نورستہ ء بہارِ حرم

ایک کُہنہ وفا شعار ترا
ایک دیرینہ ریزہ خوارِ حرم

کُشتہ ء ناز ، کُشتہ ء انداز
سینہ بریان و دل فگارِ حرم

تیرے تیرِ نگاہ کا زخمی
خوش نصیب آہوئے تتارِ حرم

نغمہ خواں ، نغمہ ساز ، نغمہ سرا
بُلبلِ گلشنِ بہارِ حرم

میرے آنسو ہیں عشق کا ہدیہ
میرے جذبات ہیں نثارِ حرم

دست بکشا و دست گیری کن
طے نہ یُوں ہوگی رہگزارِ حرم

پا شکستہ بھی ہوں ملول بھی ہوں
نظرِ لطف ، شہر یارِ حرم

المدد ! المدد ! شہِ کونین !
وقتِ نصرت ہے غمگسارِ حرم

الغیاث ، الغیاث ، میرِ عرب !
آج خطرے میں ہے وقارِ حرم

متحد ہیں یہود بہرِ قتال
منتشر جُملہ شہسوارِ حرم

ہیں کلیسا و دیر شیر و شکر
زہر آلود خلفشارِ حرم

اب دلوں میں نہیں وہ جوشِ عمل
ہوگیا سرد شعلہ زارِ حرم

ہائے انجامِ کار کیا ہوگا ؟
لے نہ ڈوبے یہ انتشارِ حرم

چارہ سازِ شکستگاں ! فریاد
دیکھ پامالی ء بہارِ حرم

 

الف نظامی

لائبریرین
آپ کی بزم میں قبول ہو میرا نغمہ یا نبی ﷺ
میرا وظیفہ یا رسول میرا وظیفہ یا نبی ﷺ

قبلے کا قبلہ یا نبی ﷺ ، کعبے کا کعبہ یا نبی ﷺ
آپ کا گنبدِ حسیں ، آپ کا روضہ یا نبی ﷺ

دل کو اگر نصیب ہو آپ کا جلوہ یا نبی ﷺ
غیرتِ شمعِ طُور ہو دل کا نگینہ یا نبی ﷺ

آپ کا ذکرِ منیر ہے آپ کا نامِ پاک ہے
میرا ذریعہ ء نجات ، میرا وسیلہ یا نبی ﷺ

ایک تبسمِ حسیں ایک نگاہِ دل نواز
ظلمتِ بحرِ غم میں ہے میرا سفینہ یا نبی ﷺ

غازہ ء روئے عشق ہو کاش غبارِ کربلا
سرمہ ء چشمِ شوق ہو خاکِ مدینہ یا نبی ﷺ

یہ بھی عطا حضور کی یہ بھی کرم حضور کا
یہ میرا نغمہ یا نبی یہ میرا نالہ یا نبی ﷺ

لاکھوں درود آپ پر لاکھوں سلام آپ پر
مظہرِ حسنِ ذات ہے آپ کا جلوہ یا نبی ﷺ

 

الف نظامی

لائبریرین
یہی ہے جی میں کہ اب مصطفے ﷺ نگر کو چلیں
نبی کے شہر میں پہنچیں نبی کے گھر کو چلیں

ہیں جس پہ منزلیں قربان اُس سفر کو چلیں
دو کون کا ہے جو مقصود اُس نگر کو چلیں

سکون بخشنے اپنے دل و جگر کو چلیں
طوافِ روضہ ء سلطانِ بحر و بر کو چلیں

خدا کے گھر کو چلیں مصطفے ﷺ کے گھر کو چلیں
جہاں بھی نور ہے اُن کا چلو اُدھر کو چلیں

حضورِ شاہ ﷺ ملے آنسووں کو حسنِ قبول
سنانے قصہ ء غم اپنے داد گر کو چلیں

ہے جن کا جلوہ ء زیبا فروغِ قلب و نظر
چلو کہ دیکھنے اُن پاک بام و در کو چلیں

سفر حجازِ مقدس کا اختیار کریں
مسافرت کو کریں ترک ، اپنے گھر کو چلیں

جہاں جہاں سے شہِ ذی وقار گزرے ہیں
ادب سے چومنے اُس خاکِ رہگزر کو چلیں

بصد خلوص جو لے جائے دردِ محرومی
چلو کہ ڈھونڈنے اپسے پیامبر کو چلیں

سمیٹ لیں دل و دیدہ میں بھیک جلووں کی
دُعائیں دینے مدینے کے بام و در کو چلیں

ہے جس کے نور سے تابندہ عارضِ جبریل
ملے جو اِذن تو ہم بھی اُسی نگر کو چلیں

جمالِ گنبدِ خضرا ہے جس کی نظروں میں
نوید دینے نظر والے اُس بشر کو چلیں

سخن شناس کریں قصد جب مدینے کا
تو ساتھ لے کر مرے فن ، مرے ہُنر کو چلیں

ہے سینہ چاک فراقِ رسول ﷺ میں مظہر
جو اہلِ دل ہیں وہ دیوانے کی خبر کو چلیں
 
Top