چھٹی سالگرہ تبصرہ: اردو محفل کی چھٹی ( سالگرہ )

زونی

محفلین
میں تو یہ سوچ رہی ہوں چوہوں کی ڈیڈ باڈیز ٹھکانے لگانے کا کام کس سے لیا جائے گا ؟ :notworthy:
 

فہیم

لائبریرین
ایک بلی والی محترمہ بھی تو ہیں۔
ان کی بلی کے کھانے کا بندوبست ہوگیا سمجھیں۔
 

باذوق

محفلین
دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب بھی میں کوئی پوسٹ لکھتا ہوں اور اس پر جب تبصرے موصول ہوتے ہیں تو اس سے نہ صرف میری حوصلہ افزائی ہوتی ہے بلکہ مجھے تبصروں سے ہی کچھ ایسی مدد مل جاتی ہے کہ میں مذید کچھ لکھنے کے قابل ہوجاتا ہوں ۔
ظفری کدھر غائب ہیں؟
سب کی طرح میں بھی کچھ مزید تبصرہ کر دوں تو آپ کی اسی حوصلہ افزائی کے بہانے اگلی قسط کب پڑھنے کو مل سکتی ہے؟
وزیراعظم اور بادشاہ سلامت کی کردارنگاری طنز و مزاح کا شاہکار ہے۔
آبی ٹوکول اور باذوق بھی ایک ساتھ محفل میں داخل ہوتے نظر آئے ۔ اندورنی اور بیرونی سازشوں کی وجہ سے گو کہ انہوں‌ نے سلطنت ِاردو محفل کے دربار میں حاضری بہت کم کردی تھی ۔ مگر صوبہِ مذہب پر ہونے والی ہر گفتگو پر انہوں نے کڑی نظر رکھی ہوئی تھی ۔
واہ ، بہت خوب۔ اور شکریہ :)
 

میر انیس

لائبریرین
ظفری کدھر غائب ہیں؟
سب کی طرح میں بھی کچھ مزید تبصرہ کر دوں تو آپ کی اسی حوصلہ افزائی کے بہانے اگلی قسط کب پڑھنے کو مل سکتی ہے؟
وزیراعظم اور بادشاہ سلامت کی کردارنگاری طنز و مزاح کا شاہکار ہے۔

واہ ، بہت خوب۔ اور شکریہ :)
شکریہ باذوق صاحب آپ کی وجہ سے یہ دھاگہ اوپر آیا اور میری نظر سے گذرا ورنہ اس زمانے میں شاید میں محفل سے غائب تھا۔واقعی بہت اچھی کردار نگاری ہے بے اختیار ہنسی نکل جاتی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
اللہ کرے برستی رہے، ایسا نہ کہ پھر سے تین ماہ کے لیے غوطہ زن ہو جائے۔

ابھی تو کئی ایک خواتین کو اعتراض ہے کہ ہمارا تو ذکر ہی نہیں ہوا۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
ارے انہوں نے پڑھ کر سر دھنا یا نہیں البتہ میرا سر پتہ نہیں کدھر قناتوں میں دھنسا جا رہا ہے بالکل وارث بھائی کی طرح ۔۔۔۔۔:grin:
ویسے عبداللہ کو دیکھنا شمشاد بھائی کوئی ہوش آئی یا ابھی بھی"ٹُن" ہے۔۔۔۔۔۔۔ ویسے یہ مجھے کئی ایک ناولوں کا اکٹھا ایک ہی کریکٹر لگتا ہے۔۔۔۔

ظفری بھائی کیا ہی خوب لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے خیال سے جاری ہے۔۔۔۔
اور فاتح بھائی کا ذکر تو غائب ہی ہوتا گیا قسطوں کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ کہیں وہ ادھر تو نہیں پہنچ گئے جہاں مورخ نہیں پہنچ سکا۔۔۔۔۔۔
 
اردو محفل کی چھٹی سالگرہ کی تیاریاں عروج پر تھیں ۔ بادشاہ سلامت اپنے گروی شدہ محل کی بوسیدہ بالکونی پر تذبب کے عالم میں ٹہل رہے تھے ۔
ایک مشیر نے کہا
”عالم پناہ ! موڈریٹر کا درجہ پاؤں تو کچھ عرض کروں ”
” تم سب موڈریٹر بننے کے بعد بھاگ جاتے ہو ۔ پھر اردو محفل کے سارے صوبوں میں شرپسندی کا جو طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔ اس سے اردو محفل پر سیاحت کی غرض سے آئے ہوئے لوگ بھاگ جاتے ہیں ۔ اور سب سے زیادہ شر پسندی جنوبی صوبوں سیاست اور مذہب میں مچائی جاتی ہے ۔ ہم نے ظفری کو ان صوبوں کا موڈریٹر بنایا تھا ۔ مگر ہم نےاس کو تنخواہ بس 18 مہینے کیا نہیں دی تواس نے وہاں ناجائز تجاویزات لگوا دیں اور پھر ان سے بھتا بھی لینا شروع کردیا ۔ اور حد تو یہ کہ ہمیں اس میں سے کوئی حصہ بھی نہیں دیا ۔ خیر ہم تمہاری درخواست پر غور کریں گے ۔ کہو ۔۔۔ کیا کہنا چاہتے ہو مگر ذرا تمیز سے ۔۔۔ ”
”حضور آپ کا وزن وزیرِ اعظم شمشاد بھائی کے وزن کو مات کر رہا ہے ۔ اتنےاہتما م کے ساتھ اگر یہاں ٹہلیں گے تو بالکونی زمین بوس ہوجائے گی ۔”
مشیر نے بہ مشکل حدِ ادب کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی ۔ بادشاہ نے کہا
” تم کو بالکونی کی پڑی ہے اور یہاں اردو محفل کی چھٹی سالگرہ قریب آرہی ہے ۔ اور ابھی تک مابدولت کو کسی نے ایک قصیدہ بھی لکھ کر نہیں دیا ہے ۔ ہم نے فہیم کو کہا بھی تھا وہ فوری طور پر ایک قصیدہ اردو محفل کی شایانِ شان لکھ کر دے ، مگر مقطع میں ہمارا نام ہونا چاہیئے ۔ مگر اتنی دیر ہوگئی اور فہیم ابھی تک نہیں آیا ۔ ”
اسی دوران بالکونی کا صبر جواب دے گیا ۔ اور بادشاہ سلامت اپنے تین عدد مشیروں کے ساتھ بالکونی سمیت نیچے کیفے پیالہ کی چھت سے ہوتے ہوئے زمین پر جلوہ افروز ہوئے۔ مٹی اور گرد کی وجہ سے سب حمام میں ایک جیسے نظر آئے ۔ اسی دوران فہیم کی آمد ہوگئی ۔ بادشاہ نے فہیم کو مخاطب کرنا چاہا ۔
بابا معاف کرو ۔۔۔ ۔ فہیم بادشاہ کو نظرانداز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
بادشاہ کی دھاڑ پر فہیم نے بادشاہ سلامت کو پہچانا ۔ اور پھر فرشی سلام کچھ اس طرح کیا کہ انگرائی اور فرشی سلام میں ‌‌کوئی فرق باقی نہ رہا ۔ بادشاہ سلامت سے دوسری ملکہ شراوت دیکھی نہیں گئی اور دوسری طرف منہ کرکے بادشاہ نے سوال کیا کہ اب تک کہاں تھے ۔؟
فہیم نے مودبانہ انداز میں کہا ۔
” حضور ! گھوڑے کا پنکچر ہوگیا تھا ۔ اس لیئے آنے میں تاخیر ہوئی ۔ ‌
“ یہ تمہارا گھوڑا ہر دوسرے روز پنکچر ہوجاتا ہے ۔ خیر ۔۔۔ ہمارا قصیدہ کہاں ہے ۔ ؟ بادشاہ نے پوچھا
“ یہ رہا حضور “ فہیم نے مودبانہ انداز میں قصیدہ بادشاہ کی نظر کیا ۔
بادشاہ نے قصیدے پر نظر ڈالی اور چونک گئے ۔
“ ۔۔۔ صغراں علی ۔۔۔ ۔ موبائل نمبر ×××××××××× ۔۔۔ ہائیں کیا ہے ۔ ؟ بادشاہ سلامت دھاڑے ۔
“ معافی کا خواستگار ہوں جناب ۔۔۔ غلطی سے ہاتھ دوسری جیب میں چلا گیا ۔ یہ رہا آپ کا قصیدہ “
فہیم نے اپنی دوسری جیب سے ایک اور پرچہ نکال کر بادشاہ کے ہاتھ پر رکھ دیا ۔
“ حضور ! اگر پہلے والا پرچہ واپس کردیں تو نوازش ہوگی ۔ “ فہیم نے عاجزانہ انداز میں بادشاہ سے درخواست کی ۔
“ اس کو بھول جاؤ ۔۔۔ ۔۔ آج ہی ملکہ سے چھپ کر ہم نے نیا موبائل لیا ہے ۔ موبائل کی کارکردگی دیکھنے کے لیئے آج اسی نمبر پر ہم ٹرائی کریں گے ۔ “
فہیم نے بے چارگی سے مشیرِ خاص سعود کو دیکھا تو مشیرِ خاص نے آہستگی سے کہا “ ابے ۔۔۔ میری طرف کیا دیکھ رہا ہے ۔ میری تو پوری ڈائری ہی بادشاہ کے پاس ہے ۔ “
“ یہ تم نے یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔ ۔ اردو محفل کی جو جان ہے ‌۔۔۔ ۔ وہ ریما خان ہے ، ریما خان ہے “
ابے ۔۔۔ ہم تم کو ریما لگتے ہیں کیا ۔۔۔ ؟ بادشاہ سلامت پھر دھاڑے
“ اور یہاں کیا لکھا ہے ۔۔۔ ۔۔ اردو محفل کے سب ہیں ہم ۔۔۔ پھر لگے دم تو مٹے غم “
“ یہ تم نے پھر سُوٹے پی کر قصیدہ لکھا ہے ۔ پورے ہی کاغذ سے ہمیں چرس کی بو آرہی ہے ۔ ہمیں تو نشہ سا چڑھنے لگا ہے ۔ “
یہ کہتے کیساتھ ہی بادشاہ نے جھومنا شروع کردیا ۔
مشیرِ خاص نے بادشاہ کے کان میں کہا
“ جناب ! اس طرح پولیس آجائے گی “
بادشاہ نے اچانک جھومنا چھوڑ کر جیب سے تسبیح نکال کر پڑھنا شروع کردیا ۔
“ اس قصیدے کو لے جاؤ اور اس کی اصلاح کرا کر لاؤ ۔ ہوسکے تو فاتح سے مدد لے لو ۔ سنا ہے آج کل وہ چھٹی پر ہے ۔ “
“ حضور فاتح جی نے شاعری چھوڑ دی ہے ۔ “
“ وہ کیوں “
“ پچھلے سال فاتح کی شادی پر وارث بھائی نے سگریٹ پیتے ہوئے بے دھیانی میں اپنا سگریٹ اس گھوڑے کی پشت میں بُجھا دیا تھا ۔ جس پر فاتح دولہا بنے سوار تھے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ۔ وہ بس یہی گاتے پھرتے ہیں کہ “ کسی دا یار کوئی ، سگریٹ نہ پی وے “ ۔
“ ہہممم م ۔۔۔ ۔۔ خیر ہم کچھ نہیں جانتے ۔ قصیدہ ہم کو فوری طور پر چاہیئے ۔ “
“ آپ کے حکم کی تعمیل ہوگی ۔ “
“ کیا بات ہے مشیرِ خاص ۔۔۔ آج وزیرِ اعظم نظر نہیں آرہے ہیں ۔ “
“ حضور وہ آج اپنا بلڈ ٹیسٹ کرانے گئے تھے ۔ “
“ اوہ اچھا ۔۔۔ ۔ پھر کیا ہوا ۔ “
“ حضور ! ان کے بلڈ کا گروپ پازیٹو ٹپال نکل آیا ہے ۔ “
“ ہائیں ۔۔۔ یہ کونسا بلڈ گروپ ہے ۔ “
“ جناب وہ دن میں اتنی چائے پی جاتے ہیں کہ بدن میں لہو کے بجائے اب چائے دوڑ رہی ہے ۔ بلکہ ہسپتال میں بھی اپنی دو بوتلیں گرم کروا کر پی چکے ہیں ۔ “
‌“ خیر جب وہ آئیں تو ان سے محفل کی سالگرہ کی تیاریوں کی بابت پوچھ لینا ۔ اب ہم اپنے کمرے میں سونے کے لیئے جاتے ہیں ۔ “
“ جناب آپ کے کمرے میں تو ساجد بھائی نے بھینس باندھ رکھی ہے ۔ آپ ایسا کریں کہ برآمدے میں سو جائیں ۔ ویسے بھی محل میں‌ کوئی چوکیدار بھی نہیں‌ ہے ۔ آپ کے برآمدے میں اس طرح سونے سے یہ مسئلہ بھی حل ہوجائے گا ۔ “
مشیرِ خاص نے شوخی سے کہا
بادشاہ نے خونخوار نظروں سے مشیرِ خاص کی طرف دیکھا اور برآمدے کی طرف بڑھ گئے ۔

( تیاریاں جاری ہیں )

نوٹ : اس تحریر میں دوستوں کے نام انتہائی اعتبار اور دوستی کے حوالے سے استعمال کیئے گئے ہیں ۔ اگر کسی دوست کو معیوب لگے تو ذپ میں اس کا اظہار کردے ۔ اس کا نام حذف کردیا جائیگا ۔
اور آئندہ کی تحریروں میں کوئی دوست اس مشقت سے بچنا چاہے تو وہ بھی ذپ کرسکتا ہے ۔ ورنہ ادارہ ذمہ دار نہ ہوگا ۔ ;)
کیا بوقلمونیاں ہیں واہ واہ
بہت لطف آیا پڑھ کر ان صاحب کا کھوج لگانے کے لئے سکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی مدد لینی پڑے تو تو یہ بھی کر گزریں اسقدر خوبصورت اور ہر مزاح تحریر اک بار پھر واہ واہ
اللہ کرے زور قلم زیادہ
اس دھاگے سے متعارف کروانے پر بقول وارث صاحب ایک حج کا ثواب آپ کی نظر
 
Top