تاثیر کچھ نہیں میرے شعر و شرار میں‌

تاثیر کچھ نہیں میرے شعر و شرار میں
اک لفظ بھی نہیں ہے میرے اختیار میں

نا پختگی ابھی بھی میرےعلم و فن میں ہے
تلوار کی سی کاٹ نہیں میرے وار میں

پہچانتا ہے اب یہ میرا دل ادا شناس
رنگِ جنوں ہے نکہتِ باغ وبہار میں

جتنے بھی خود پسند زمیں پر ہیں دیکھ لو
رہتے ہیں اپنی ذات کے ہی انتظار میں

تابندہ جو ستارہ تھا اپنے نصیب کا
قیدی بنا ہوا ہے عدو کے حصار میں

مانو گے گر نہ بات میری تم تو جان لو
تم بھی نہیں ہو آج سے میرے شمار میں

اندھے بنے ہوئے ہیں رضا سب یہاں پہ لوگ
تو بیچتا ہے آئینہ جن کے بازار میں
 
اس میں دو مسائل میں۔

اول تو یہ کہ غلط بیانی ہے کیوں کہ آپ کے اشعار میں بے انتہا تاثیر ہے۔ دوئم یہ کہ پہلے شعر میں "اشعار" کے پاس کچھ گرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ! عمدہ کاوش ہے محمد رضا سلیم صاحب۔ مبارک باد قبول کیجیے۔
پہلے شعر میں لفظ "اشعار" کا "ع" انتہائی نازک مزاج واقع ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ابن سعید صاحب کی ابے تبے سے اس بے چارے کی کھٹ پٹ ہو گئی اور وہ گر گیا۔
 

مغزل

محفلین
ماشا اللہ اچھی کوشش ہے جناب واہ ۔ بہت خوب ، دیگر بات تو ہوچکی اور ہوں گی بھی ۔۔ میری طرف سے مبارکباد
 
اس میں دو مسائل میں۔

اول تو یہ کہ غلط بیانی ہے کیوں کہ آپ کے اشعار میں بے انتہا تاثیر ہے۔ دوئم یہ کہ پہلے شعر میں "اشعار" کے پاس کچھ گرتا ہوا نظر آ رہا ہے۔

جی آپ نے ٹھیک کہا ابن سعید صاحب
'اشعار' کا عین میں نے جانتے بوجھتے گرنے دیا۔
مجھے اسی طرح اچھا لگ رہا تھا سو میں نے ایسے ہی جانے دیا۔
عروض میں‌ اتنی تو گنجائش ہونی چاہیئے جناب۔
 
سلیم بھائی واقعی مجھے عروض کی الف بے سے واقفیت نہیں ہے چہ جائیکہ جواز و قباحت کے پیچیدہ ترین مسائل و بحثیں۔ میں کسی زمانے میں تک بند رہا ہوں اور تب گنگنا کرکے مصرعے وزن کرتا تھا۔ اس لئے میرا تبصرہ بس یوں ہی سا گردانیئے۔ مجھے یقین ہے کہ ضرورت شعری کے لئے شعراء کے یہاں اتنی گنجائش تو بہر حال ہوتی ہی ہوگی۔
 
سلیم بھائی واقعی مجھے عروض کی الف بے سے واقفیت نہیں ہے چہ جائیکہ جواز و قباحت کے پیچیدہ ترین مسائل و بحثیں۔ میں کسی زمانے میں تک بند رہا ہوں اور تب گنگنا کرکے مصرعے وزن کرتا تھا۔ اس لئے میرا تبصرہ بس یوں ہی سا گردانیئے۔ مجھے یقین ہے کہ ضرورت شعری کے لئے شعراء کے یہاں اتنی گنجائش تو بہر حال ہوتی ہی ہوگی۔

لیکن جناب آپ کے تیر نشانے پہ لگتے ہیں۔
آپ کے تبصرے کی بڑی اہمیت ہے جناب۔ باقی وارث صاحب اور اعجاز عبید صاحب کی رائے کا انتظآر ہے کہ وہ کیا فرماتے ہیں۔
 
چاچو تو ان دنوں سفر میں ہیں اس لئے ان کے آنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے ہاں وارث بھائی کی رائے شاید جلدی مل جائے۔
 

مغزل

محفلین
جی آپ نے ٹھیک کہا ابن سعید صاحب، 'اشعار' کا عین میں نے جانتے بوجھتے گرنے دیا۔مجھے اسی طرح اچھا لگ رہا تھا سو میں نے ایسے ہی جانے دیا۔ عروض میں‌ اتنی تو گنجائش ہونی چاہیئے جناب۔

محمد رضا سلیم صاحب،
آداب و سلام ِ مسنون،
اگر آپ نے ’’ اشعار ‘‘ کا عین جانتے بوجھتے گرنے دیا ہے تو معاف کیجے گا آپ نے ’’ جانتے بوجھتے ‘‘ مصرع بحر سے خارج کر کے ’’ عروض ‘‘ سے واقفیت کا تحریری ثبوت دیا ہے ۔ جو کہ میرے لیے سند ہے ۔ ویسے میں عرض کروں کہ ’’ ع‘’ بروزنِ ’’ غ‘‘ ہوتا ہے ،یعنی کسی بھی صور ت اس کا گرنا یا گرانا نہ صرف ’’ عیب ‘‘ ہے بلکہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔۔ سو ۔ ہماری پھر بھی دعا ہے کہ ۔۔۔ ’’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ‘‘
والسلام
الداعی الخیر
م۔م۔مغل
 
محمد رضا سلیم صاحب،
آداب و سلام ِ مسنون،
اگر آپ نے ’’ اشعار ‘‘ کا عین جانتے بوجھتے گرنے دیا ہے تو معاف کیجے گا آپ نے ’’ جانتے بوجھتے ‘‘ مصرع بحر سے خارج کر کے ’’ عروض ‘‘ سے واقفیت کا تحریری ثبوت دیا ہے ۔ جو کہ میرے لیے سند ہے ۔ ویسے میں عرض کروں کہ ’’ ع‘’ بروزنِ ’’ غ‘‘ ہوتا ہے ،یعنی کسی بھی صور ت اس کا گرنا یا گرانا نہ صرف ’’ عیب ‘‘ ہے بلکہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے ۔۔ سو ۔ ہماری پھر بھی دعا ہے کہ ۔۔۔ ’’اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ‘‘
والسلام
الداعی الخیر
م۔م۔مغل

بہت شکریہ جناب مغل صاحب
یہی میں چاہتا ہوں کہ ساتھ ساتھ تصحیح ہوتی جائے تاکہ پختگی آجائے۔
میں تو ابھی شاعری میں طفل مکتب بھی نہیں۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ رضا صاحب، ہم بھی طفلانَ مکتب میں ہی ہیں ، سو انشا اللہ مراسلت رہے گی ، بہت شکریہ ، والسلام
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے رضا سلیم۔ مبارک ہو۔ بس وہ مطلع ہی مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔ اگر آپ زنردستی کریں تو بات دوسری ہے ورنہ ’اشعار‘ کی ع تو بہر حال گرتی ہی رہے گی، آپ کا جواز تو اس کو سنبھالنے میں نا کام ہے۔
 
تاثیر کچھ نہیں میرے نا قص اشعار میں
اک لفظ بھی نہیں ہے میرے اختیار میں

نا پختگی ابھی بھی میرےعلم و فن میں ہے
تلوار کی سی کاٹ نہیں میرے وار میں

پہچانتا ہے اب یہ میرا دل ادا شناس
رنگِ جنوں ہے نکہتِ باغ وبہار میں

جتنے بھی خود پسند زمیں پر ہیں دیکھ لو
رہتے ہیں اپنی ذات کے ہی انتظار میں

تابندہ جو ستارہ تھا اپنے نصیب کا
قیدی بنا ہوا ہے عدو کے حصار میں

مانو گے گر نہ بات میری تم تو جان لو
تم بھی نہیں ہو آج سے میرے شمار میں

اندھے بنے ہوئے ہیں رضا سب یہاں پہ لوگ
تو بیچتا ہے آئینہ جن کے بازار میں

بہت خوب،!!!! سلیم جی،!!!
ھم بھی مست ھوگئے تیرے خمار میں،!!!!!
 
اچھی غزل ہے رضا سلیم۔ مبارک ہو۔ بس وہ مطلع ہی مسئلہ پیدا کر رہا ہے۔ اگر آپ زنردستی کریں تو بات دوسری ہے ورنہ ’اشعار‘ کی ع تو بہر حال گرتی ہی رہے گی، آپ کا جواز تو اس کو سنبھالنے میں نا کام ہے۔

مطلع درست کر دیا ہے میں نے اعجاز عبید صاحب۔
اب ٹھیک ہے نا؟
 
Top