"بے پر کی" لکھنے اور اڑانے کے رہنما اصول!

بالکل ٹهیک کہا۔۔۔۔ ہوش کے پر نہیں ناخن ہوتے ہیں۔۔۔۔ جو اللہ گنجے کو کبهی نہ دے۔۔۔۔ ورنہ اس کے ہوش ابل ابل کر باہر آنے لگیں گے۔۔۔ سر سے۔
محاورہ پرانا ہو گیا ہے
اللہ گنجے شوہر کی بیوی کو لمبے ناخن نہ دے :worried:
 
جس کے پاس دو چشمی ھ نہیں وہ مجھ سے میرا چشمہ مستعار لے سکتا ہے :) :)
اچھا آپ کے پاس چار چشمی ہے
nerd.gif
 
مجھ کو خبر نہیں تھی کہ وہ "باکسر" بھی ہے
پچھتا رہا ہوں ہائے میں اس پر اٹھا کے ہاتھ
:feelingbeatup::feelingbeatup::feelingbeatup:
کھانے کے اور ہیں وہ دِکھانے کے اور ہیں
کھا کر پتا چلا ہے اُسی بے وفا کے ہاتھ
:whew::whew::whew:
 
لاہور میں چلنے والی میٹرو بس کا آنکھوں دیکھا حال
نہ گنجائش کو دیکھ اس میں نہ تو مردم شماری کر
لنگوٹی کس خدا کا نام لے گھس جا سواری کر
:worried::worried::worried:
 
گوشت خوری کے لیے ہند میں مشہور ہیں ہم
جب سے ہڑتال ہے قصابوں کی مجبور ہیں ہم
چار ہفتہ ہوئے قلیے سے بھی مہجور ہیں ہم
"نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم"
"اَے خدا شکوہ اربابِ وفا بھی سن لے"
خوگرِ گوشت سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
آگیا عین ضیافت میں اگر ذکرِ بٹیر
اٹھ گئے نیر سے ہونے بھی نا پائے تھے سیر
گھاس کھا کر کبھی جیتے ہیں نیستاں میں بھی شیر؟
تو ہی بتلا ترے بندوں میں ہے کون ایسا دلیر؟
تھی جو ہمسائے کی مرغی وہ چرائی ہم نے
نام پر تیرے چھری اس پہ چلائی ہم نے
سرِ محفل مجھے کہتے ہوئے آتا ہے حجاب
قطع گردن سے پرے ہوتی ہے تیغ قصاب
گوشت ملتا نہ تھا آلو کے بنائے ہیں کباب
مرغ و ماہی ہوئے منڈی میں بھی اتنے کمیاب
جلد پہنچا جو وہاں چل دیا مرغا لے کر
"آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر"
شہر میں گوشت کی خاطر صفت جام پھرے
ہم پھرے جملہ اعزّاء پھرے خدام پھرے
جس جگہ پہنچے اسی کوچے سے ناکام پھرے
"محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے"
شب میں چڑیوں کے بسیرے بھی نہ چھوڑے ہم نے
"بحرِ ظلمات میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے"
ہو گئی قورمے اور قلیے سے خالی دنیا
رہ گئی مرغ پلاؤ کی خیالی دنیا
گوشت رخصت ہوا دالوں نے سنبھالی دنیا
آج کل گھاس کی کرتی ہے جگالی دنیا
"طعن اغیار ہے رسوائی ہے ناداری ہے
کیا تری دہلی میں رہنے کا عوض خواری ہے"
(سید محمد جعفری)
 
پنکھے کی رُکی نبض چلانے کے لیے آ
کمرے کا بجھا بلب جلانے کے لیے آ
:whew::whew::whew:
تمہیدِ جدائی ہے اگرچہ ترا ملنا
"آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے لیے آ"
:sigh::sigh::sigh:
 
کلرکوں سے آگے بھی افسر ہیں کتنے
جو بے انتہا صاحبِ غور بھی ہیں
ابھی چند میزوں سے گزری ہے فائل
“مقاماتِ آہ وفغاں اور بھی ہیں”
:whew::whew::whew:
 
عید رک جائے گی ایسا کوئی امکان نہیں
وسوسہ اب یہ مرے دل میں کدھر آتا ھے

میرا اس مفتی دیں پر ھے عقیدہ جس کو
رات کے بارہ بجے چاند نظر آتا ھے

:angry2::angry2::angry2:

اور رات بارہ بجے پشاور میں رمضان کا چاند نظر آ گیا
:idontknow::idontknow::idontknow:
 
شو میکری شروع جو کی اک عزیز نے
جو سلسلہ ملاتے تھے بہرام گور سے

پوچھا کہ بھائی تم تو تھے تلوار کے دھنے
مورث تمہارے آئے تھے غزنی وغور سے

کہنے لگے ہے اس بات میں‌بھی اک بات نوک کی
روٹی ہم اب کماتے ھیں ‌جوتے کے زور سے
 
آخری تدوین:
منہ میں رکھ کر جو پان بولتی ہے
جانے کیسی زبان بولتی ہے
ہم بھی بولیں گے اس طرح پشتو
جیسے اردو پٹھان بولتی ہے
وہ جو الو تھا اڑ گیا کب کا
اب تو خالی مکان بولتی ہے
فون پہ " کون" کہا تو یہ صدا آئی
" ہم تیری ابا جان بولتی ہے "
 
میں نے کہا۔۔۔۔۔ اس نے کہا

میں نے کہا شہر کے حق میں دعا کرو
اس نے کہا کہ بات غلط مت کہا کرو
میں نے کہا کہ رات سے بجلی بھی بند ہے
اس نے کہا کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کرو
میں نے کہا کہ شہر میں پانی کا قحط ہے
اس نے کہا کہ پیپسی کولا پیا کرو
میں نے کہا کہ کار ڈکیتوں نے چھین لی
اس نے کہا کہ اچھا ہے پیدل چلا کرو
میں نے کہا کہ کام ہے نہ کو ئی کاروبار
اس نے کہا کہ شاعری پر اکتفا کرو
میں نے کہا کہ سوکی بھی گنتی نہیں ہے یاد
اس نے کہا کہ رات کو تارے گنا کرو
میں نے کہا کہ ہے مجھے کرسی کی آرزو
اس نے کہا کہ آیت کرسی پڑھا کرو
میں نے کہا کہ غزل پڑھی جاتی نہیں صحیح
اس نے کہا کہ پہلے ریہرسل کیا کرو
میں نے کہا کہ کیسی کہی جاتی ہے غزل
اس نے کہا کہ میری غزل گا دیا کرو
ہر بات پر جو کہتا رہا میں ’’بجا! بجا!‘‘
اس نے کہا کہ یوں ہی مسلسل بجا کرو

دلاور فگار
 
Top