بے حیائی کا عالمی دن
تحریر: رحمت اللہ شیخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طویل عرصے سے غیر مسلم قوتیں اسلامی ممالک میں مغربی رسم و رواج کو عام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مختلف ڈیز کا آغاز کیا گیا جن میں ویلنٹائن ڈے بھی شامل ہے۔ پوری دنیا میں بے حیائی اور فحاشی کو عام کرنے کے لیے اس دن کا سہارا لیاجاتا ہے۔ محبت اور پیار کا نام دے کر الحاد و بے دینی، اخلاق باختگی، فحش کاری اور فسق و فجور کی ترویج کی جاتی ہے۔ محبت کی آڑ میں بے حیائی کا دن منایا جاتا ہے۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس دن کو منانے والوں میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملک و ملت کے مستقبل کو تباہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ فاتح القدس سلطان صلاح الدین ایوبی کا مشہور قول ہے کہ “جس قوم کو تباہ و برباد کرنا ہو اس قوم کے جوانوں میں فحاشی و عریانی پھیلادو۔” کیونکہ کسی بھی ملک یا قوم کی بنیاد اس کی نوجوان نسل ہوتی ہے۔ کسی ملک کی بنیاد کو کھوکھلا کرنے یا اس کی تہذیب و تمدن کو مٹانے کے لیے نوجوانوں کی سوچ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ آج اگر ہم ایک نظر اپنے ملک کو دیکھیں تو دشمنانِ اسلام مختلف طریقوں سے نوجوانانِ ملت کو گمراہ کرنے میں مصروف نظر آئیں گے۔ انٹرنیٹ، میڈیا، جدید تعلیم و دیگر ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے نوجوانوں کا برین واش کیا جارہا ہے۔ مذہبی ہم آہنگی، روشن خیالی اور انسانیت کے نام پر نئی نسل کے ذہن میں اسلام کے خلاف نفرت بھری جارہی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلم نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد بے راہ روی کا شکار ہے۔

ایک مسلمان کو اپنی کامیابی شرعی اصول میں ہی سمجھنی چاہیے۔ بصورتِ دیگر دنیا وآخرت میں کامیابی ممکن نہیں۔ ویلنٹائن ڈے پر ہونے والے خرافات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ تمام چیزیں اسلامی اصول و قواعد کے مخالف نظر آئیں گی۔ کیونکہ اسلام کسی بھی صورت میں بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو حیا اور پاکیزگی کا درس دیتا ہے۔ حیا کی تعریف اور بے حیائی کی مذمت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صہ نے ارشاد فرمایا کہ “حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں جانے کا سب ہے۔ اور بےحیائی جفا (زیادتی) ہے اور جفا دوزخ میں جانے کاسبب ہے۔ ” دراصل حیا ایک ایسی خصلت ہے جو انسان کو بھلائی کرنے اور قبیح صفات، اقوال و افعال کو چھوڑنے پر آمادہ کرتی ہے۔ حیا کو ترک کرنے کے بعد انسان کو بے حیائی کی حدود پار کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ “جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو۔” محدثینِ کرام نے اس حدیث کی تشریح بیان کی ہے کہ یہاں امر بمعنیٰ خبر کے ہے۔ یعنی جب تم حیا نہیں کرو گے تو تمہیں کوئی بھی برائی کرنے میں دقت محسوس نہیں ہوگی۔ اور جب گناہ، گناہ نہ لگے یعنی اس کا احساس ختم ہوجائے تو اس سے زیادہ خطرناک بات اور کیا ہوسکتی ہے……!؟

حضرت عمر رضہ کا قول ہے کہ “اللہ کے دشمنوں سے ان کے تہوار میں اجتناب کرو۔” لیکن افسوس کہ آج ہم کندھے سے کندھا ملا کر ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انسانیت اور اخلاقیات کے ڈھونگ سے مانوس ہوکر ہم دین کو ہی بھلارہے ہیں۔ ان کے مذہبی و رسمی تہوار پر ہم نہ صرف انہیں مبارکباد دیتے ہیں بلکہ بے خوف ان کی تقریبات میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ آج کفریہ طاقتیں مختلف طریقوں سے ہمیں اپنے ہی خلاف استعمال کررہی ہیں اور ہم بآسانی ان کے جال میں پھنستے چلے جارہے ہیں۔ بظاہر تو ہم بےحیائی اور فحاشی کی مخالفت کرتے ہیں لیکن ویلنٹائن ڈے جیسے دن منا کر ہم بےحیائی اور فحاشی کی ترویج کررہے ہوتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ ان تمام کمزوریوں کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔

زندگی کے ہر ایک شعبے میں اسلام نے ہماری رہنمائی کی ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے یہ قطعًا لائق نہیں کہ وہ اسلامی تعلیمات سے اعراض کرکے غیروں کی تہذیب کو اپنا شعار بنالے۔ جو کام اسلامی قوانین کے مخالف ہیں ان سے اجتناب ہی ایک مسلمان کے حق میں بہتر ہے۔ آئیے! بے حیائی اور فحاشی کا قلع قمع کرنے کے لیے ایک قدم اٹھائیں۔ 14 فروری کو حیا کا دن منائیں۔ ؎

تحفیظ حیا میں ہے،

مرجھائے ہوئے پھولو!

تقدیس حیا میں ہے۔

دھوکا ہے ویلنٹائن،

اے قوم کے فرزندو،

تم طفل ہو، یہ ڈائن۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایک طویل عرصے سے غیر مسلم قوتیں اسلامی ممالک میں مغربی رسم و رواج کو عام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
یہ کچھ زیادہ ہی نہیں ہوگیا؟ کونسی غیرمسلم قوتوں نے مسلمانوں کو اپنی جدید ٹیکنالوجیز جیسے موبائل فون، انٹرنیٹ، ٹی وی وغیرہ استعمال کرنے کیلئے مجبور کیاہے؟ دنیا بھر کے مسلمان اپنی مرضی سے جدید ترین مغربی مصنوعات کے حصول کیلئے مرے جا رہے ہیں۔ ان مصنوعات کے ساتھ مغربی کلچر ورثہ میں ملتا ہے۔
اب یا تو مسلمان غیرمسلم قوتوں کی جدید ٹیکنالوجیز ترک کر کےپتھر کے زمانہ میں واپس چلے جائیں۔ یا ان کو استعمال کرکے غیراسلامی رسم و رواج کا اثر قبول کر لیں۔ فیصلہ آپ پر ہے۔
 

زیک

مسافر
ایک طویل عرصے سے غیر مسلم قوتیں اسلامی ممالک میں مغربی رسم و رواج کو عام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسی مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے مختلف ڈیز کا آغاز کیا گیا جن میں ویلنٹائن ڈے بھی شامل ہے۔
انتہائی بیوقوفانہ استدلال ہے
 

ام اویس

محفلین
مسئلہ کچھ اور ہے اور حل کچھ اور
میرے خیال میں اس موضوع پر ایک سنجیدہ مکالمہ کی ضرورت ہے ۔ تنقید برائے تنقید سے کچھ حاصل نہیں
 

فرقان احمد

محفلین
نوجوانوں کے پاس کرنے کو بہت کچھ نہیں ہے تو بس یہی کچھ ہی کریں گے؛ درست ہے یا غلط، یہ معاملہ تو بعد کا ہے۔ ہماری نظر میں کچھ تو اوور ہی کام چل رہا ہوتا ہے تاہم ہمارے ملک کے تناظر میں یہ نان ایشو ہی ہے۔ بہتر ہو گا کہ ملک بھر میں زیادہ سے زیادہ کھیلوں کے میدان بنائے جائیں۔ تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں کو رواج دیا جائے وغیرہ وغیرہ!
 

زیک

مسافر
لگتا ہے پاکستان میں بہت بے حیائی ہے۔ یہاں تو ویلنٹائن ڈے کبھی برا محسوس نہیں ہوا
 

محمد وارث

لائبریرین
ماشاءاللہ آپ کے ہاں کیا کیا ہوتا ہے
ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں تو غیرت مند بھائی اپنی بہنوں اور انکی عزت کے لیے اپنی جان ایک بار نہیں بلکہ سو سو بار قربان کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔
بشرطیکہ بہن اپنی سگی بہن ہو، دوسروں کی بہن کے لیے تو وہ خود کو بڑے شوق سے "بہن۔۔۔۔" کہلواتے ہیں!
 

فلسفی

محفلین
کسی بھی علاقے کی تہذیب کے مطابق مختلف روایات اور انسانی رویے مختلف اثرات رکھتے ہیں اور وہاں کے رہنے والے اس کو اپنے انداز سے دیکھتے، سمجھتے اور پرکھتے ہیں۔ جنگل میں جانور لباس نہیں پہنتے لیکن وہ ایک دوسرے کو بے حیا نہیں کہتے۔ لیکن اگر یہی قانون انسانی معاشرے میں لانے کی کوشش کی جائے تو کوئی بھی شخص (جس کی عقل سلامت ہو) اس کی حمایت نہیں کرے گا۔

ہمارے (پاکستان) معاشرے میں اگرچہ کچھ رویوں میں شدت اور قدامت پسندی ہے لیکن مثبت پہلو یہ ہے کہ خاندانی نظام ابھی تک مجموعی طور پر مغرب سے بہت بہتر ہے۔ خامیاں مشرقی معاشرے میں بھی ہیں اور مغرب میں بھی، فقط تعصب کی بنیاد پر کسی بھی چیز کا رد مناسب نہیں۔ البتہ مسلمان کو اپنی شناخت برقرار رکھنی چاہیے اس کے لیے غیر ضروری تہوار جیسے ویلنٹائن ڈے وغیرہ سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ ظاہری بات ہے کہ یہ کوئی ایسا تہوار نہیں جس کے بغیر آپ زندہ نہیں رہ سکتے لیکن "من تشبه بقوم فهو منهم" کے دائرے میں آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی بضد ہے تو اس کے سامنے نرمی سے اپنا نقطہ نظر رکھیے،متشدد رویوں، طنز یا طعن تشنیع سے عام طور پر اپنے ہم خیال بھی متنفر ہوجاتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں تو غیرت مند بھائی اپنی بہنوں اور انکی عزت کے لیے اپنی جان ایک بار نہیں بلکہ سو سو بار قربان کرنے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔
بشرطیکہ بہن اپنی سگی بہن ہو، دوسروں کی بہن کے لیے تو وہ خود کو بڑے شوق سے "بہن۔۔۔۔" کہلواتے ہیں!
:surprise::surprise::surprise:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اگر نظیر اکبر آبادی کے زمانے میں یہ دن منایا جاتا تو آدمی نام میں ایک اور بند ہوتا ۔
بے شرم و بے حیا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
 

فلسفی

محفلین
اوربعض تو اتنے زیادہ ہیں کہ خود کی تو کیا ، بہنوں کی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتے ۔
عاطف بھائی یہ تشدد آمیز رویہ زندگی کے سبھی شعبوں میں نظر آتا ہے لیکن یہ پاکستان کی حد تک تو محدود نہیں۔ لندن میں ڈاکٹر توفیق والے واقعے سے سارے انگریز یا معاشرہ متشدد قرار نہیں پایا، ہاں یہ خاصیت بھی ہمارے ہاں ہے کہ جز (جو حقیقی بھی نہیں ہوتا) کو دیکھتے ہوئے کل پر لیبل لگا دیا جاتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
سید صاحب آپ کے ری ایکشن کے بعد سرگوشی دوبارہ بلکہ سہ بارہ پڑھی ہے اور سوچ رہا ہوں کے پسندیدگی کی ریٹنگ ہٹا دوں یا نہیں۔ کہیں محترم محمد وارث صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔
سرگوشی یک بارہ میں سمجھ میں نہیں آئی تھی کیا جو دوبارہ و سہ بارہ پڑھنی پڑی؟؟؟
ویسے ہماری بھی نہیں آئی تھی!!!
;););)
 

فلسفی

محفلین

محمد وارث

لائبریرین
سید صاحب آپ کے ری ایکشن کے بعد سرگوشی دوبارہ بلکہ سہ بارہ پڑھی ہے اور سوچ رہا ہوں کے پسندیدگی کی ریٹنگ ہٹا دوں یا نہیں۔ کہیں محترم محمد وارث صاحب ناراض نہ ہو جائیں۔
آپ برادران کا شکریہ۔ میں نے سوچ سمجھ کر یہ سرگوشی لکھی تھی، کافی دیر سوچتا رہا کہ لکھوں یا نہ لکھوں لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہمارے رویوں کی وضاحت کے لیے اس سے زیادہ "مناسب" الفاظ مجھے ملے نہیں۔
 
Top